نیپال:مودی کا نیادردِ سر

:Share

قصرسفیدکے فرعون ٹرمپ نے چین کامعاشی راستہ روکنے کیلئے عالمی پیمانے پرپروپیگنڈے کے ایک نئی مہم کاآغاز کر دیاہے جس کیلئے اس نے خطے میں بھارت اورجاپان کومیدان میں اتاردیاہے اوران دنوں میڈیامیں تواتر کے ساتھ یہ خبریں نشرکی جارہی ہیں کہ ایشیامیں چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثرورسوخ نے خطہ کے کئی ممالک بالخصوص بھارت اورجاپان میں ایک اضطراب اورخوف کی لہرپیداکردی ہے اورجاپان نے دوسری عالمی جنگ کے بعدپہلی مرتبہ چین کامقابلہ کرنے کیلئے اپنی بحری قوت کومتحرک کردیاہے کیونکہ جاپان مشرقی چینی سمندرمیں چینی فوج اوربحری قوت سے خوفزدہ ہے، اس لئے جاپان نے اب جنوب مغربی جزیرے کاٹی یوشوکے نزدیک ایک خصوصی فوجی اڈہ قائم کرنے کافیصلہ کیاہے اس حوالے سے ایک فوجی اڈے پرایک خصوصی تقریب کے بعدانتہائی سردی اورطوفانی موسم کے باوجودفوری کاروائی کرنے والے ایک بریگیڈکے۱۵۰۰/اہلکاروں نے اپنے فرائض سنبھال لئے ہیں۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپان کے نائب وزیردفاع ٹوموہیرویاموئرنے کہاکہ جاپان کے اردگردسلامتی اوردفاع کی صورتحال مسلسل مشکل ہوتی جارہی ہے ۔چونکہ جاپان کا دفاع انتہائی ضروری اوراہم ہے اس لئے کہ جنوب مغربی جزیرہ ہماری دفاعی لائن بنے گا۔
رائٹرکی اطلا ع کے مطابق جاپان کایہ جنگی بریگیڈ جدیدترین بحری جنگی قوت کاحامل ہے جس میں ہیلی کاپٹربردارجنگی جہاززمین اورسمندرمیں کاروائی کرنے والے بحری جہاز، عقابی حملہ آوردستے اورزمین وسمندرمیں جنگی کاروائیاں کرنے والی گاڑیاں شامل ہیں۔جاپان کی اس کاروائی کامقصد مغربی بحرالکاہل میں چین کے دباؤ کامقابلہ کرناہے۔دوسری طرف خطے میں چین کے بڑھتے اثرونفوذسے خوفزدہ بھارت بھی نیپال کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہوگیاہے۔نیپال کے دریائی پانی کوروکنے ،پٹرول اوردیگروسائل کی بندش کے ذریعے نیپال کوجکڑنے والے بھارت کے روّیے کے بعدجب نیپال کی نئی حکومت نے چین کے ساتھ تعلقات استوارکئے اورچین کے مثبت روّیے اورامدادسے بڑی حدتک نیپال نے سنبھالا لے لیاتب بھارت کی مودی سرکار کونیپال ہاتھ سے نکلتادکھائی دینے لگا اورسرگرمی سے دوبارہ نیپال کوچینی دسترس سے بچانے کی کوشش کی گئی اورخطے میں چینی اثرات کوروکنے کیلئے اب بھارت نے نیپال کیلئے آبی راستے اور کھٹمنڈوتک ریلوے لائن کے منصوبے پررضامندی ظاہرکردی ہے۔دونوں ملکوں میں طے پانے والے معاہدہ کے تحت بھارت،نیپال کے دارلحکومت کھٹمنڈوتک ریلوے لائن تعمیرکرے گااورنیپال کیلئے دریائی پانی بھی کھول دے گاجو بھارت نے پچھلے کچھ عرصے سے بندکررکھاتھا۔
بھارت نیپال کے ساتھ یہ تعاون چین کے خوف سے کرنے پرمجبورہوگیاہے اس لئے کہ چین نے غیرمشروط طورپرجس طرح نیپال کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری شروع کر رکھی ہے،اسے روکاجائے اورنیپال کوبھارت کی ذیلی ریاست کابھرم قائم رکھاجاسکے لیکن نیپالی وزیراعظم نے نئی دہلی میں بھارت کی اس خوش فہمی کواس وقت چکنا چور کردیا جب انہوں نے نئی دہلی میں یہ بیان دیاکہ نیپال حکومت غیرجانبدار ہے اوردونوں ہمسایہ ممالک سے ہم اپنے اچھے تعلقات رکھیں گے۔معاہدے کے مطابق بھارت دریا کا پانی توجلدہی کھول دے گاتاہم ریلوے لائن بچھانے کی قابل عمل رپورٹ تیارہوگی۔واضح رہے کہ موجودہ نیپالی وزیراعظم چین کے بہت قریب تصورکئے جاتے ہیں،وہ چین کے تجویزکردہ ون روڈون بیلٹ منصوبے میں بھی شامل ہو چکے ہیں۔دوسری جانب بحرہندعالمی طاقتوں کی قوت کے مظاہرے میں مرکزی کردارادا کرتا دکھائی دیتاہے۔بھارت خاص طوربحرہندکواپنازیراثرعلاقہ قراردیتا ہے اس لئے وہ بھی امریکاسمیت تمام بحری بیڑوں کوبحرہند میں خوش آمدیدکہتاہے تاکہ وہ چین کومحدودکر سکیں لیکن چین نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے افریقہ کے سینگ کے علاقے ڈی جی بیوئی میں اڈہ بنالیاہے اورسری لنکاکی ایک بندرگاہ بھی۹۹سال کیلئے لیزپرحاصل کرلی ہے۔اس کے علاوہ مالدیپ ،برمااور نیپال میں بھی اپنااثرورسوخ بڑھالیاہے جس کی بناء پرمودی سرکارکی رات کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے پریس کانفرنس میں ایک بیلٹ ایک روڈ پروجیکٹ کے تحت، بھارت، نیپال، چین اقتصادی راہداری کی پیشکش کر کے ایک بار پھر اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت کو بھی اس منصوبے میں شامل کرنا چاہتا ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ چین،نیپال اوربھارت اس کے ساتھ وابستہ ہو جائیں لیکن بھارت اس میں شامل ہونے سے مسلسل انکار کررہا ہے۔ گزشتہ سال چین نے ‘ایک بیلٹ ایک روڈ فورم’ کا ایک بڑا اجلاس منعقد کیا اور اس میں بہت سے ممالک کو مدعو کیا گیا۔ بھارت واحد ملک تھا جس نے یہ کہہ کرمخالفت کرتے ہوئے انکارکردیاکہ چین کے اس مہنگے منصوبے کا حصہ بننے والے ممالک قرض میں پھنس رہے ہیں ۔ اس منصوبے میں چین معاون ممالک مالدیپ، نیپال، پاکستان اور میانمار کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ اس میں لگا سکیں۔ چین اس منصوبے میں خسارہ بھگتنےکیلئےتیار ہے تاکہ بھارت پر دباؤ پڑے اور چین کی سڑک بھارت کے سر تک پہنچ جائے اور بھارت کے عوام اس سڑک کا استعمال شروع کر دیں۔ صرف اتنا ہی نہیں نیپال میں چین کا ہزاروں ٹن سامان آئے گا اور نیپال میں لوگ ہزاروں ٹن سامان خریدنے کے قابل نہیں ہیں اور وہ سامان نیپال کی سرحد کے ذریعے بھارت آئے گا اس طرح بھارت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔
آج، کشمیر کے مسئلے پر چین کے نقطہ نظر کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کل ریاست اروناچل پردیش پر بھی بھارت چین کے دبا ؤکوروک نہیں سکے گا۔یہ بھارت کیلئےعجیب کشمکش ہے، بھارت کی غیرملکی پالیسی کامکمل مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔ بھارت کی مخالفت کے پیچھے بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کے منصوبے کے تحت چین،پاکستان اقتصادی راہداری بنارہاہے۔اس کے تحت، چین سے شروع ہونے والی سڑک گلگت بلتستان سے ہوتے ہوئے پاکستان کی گوادر بندر گاہ تک جاتی ہے اوریہ آزاد کشمیر میں آتاہے گویا چین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ کشمیرپاکستان کاحصہ ہے۔ چین اسے ایک عظیم منصوبے کے طورپردیکھتاہے اورسمجھتا ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی کایہ ایک بڑاذریعہ ہے اوراس کے ساتھ دوسرے ممالک کا منسلک ہونا ضروری ہے۔چین کا خیال ہے کہ اس کیلئےسڑکیں،ریلوے،واٹرویز،ٹیلی مواصلات کی لائنز،گیس کی لائنزاورپٹرولیم لائنیں بچھائی جانی چاہییں۔ چین کے اس منصوبے میں اہم کردارپاکستانی جغرافیائی حدودکاہے جو قدرت کی طرف سے ایک بیش بہاعطیہ ہے جس کی اہمیت سے سب ہی واقف ہیں۔اسی لئے پاکستان پر شدید دبائو ہے اورقصرسفیدکے فرعون ٹرمپ کے ایما پر افغانستان کی سرزمین کوپاکستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال کیاجا رہاہے۔بھارت میں۲۰۱۹ء میں لوک سبھا انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی اس صورت حال میں اس مسئلے کاسامنا کیسے کریں گے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں