Not Need Excited | Need Consciousnes

جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت

:Share

جب سے سی پیک منصوبہ شروع اوردنیاکواس کی اہمیت کااحساس ہواہے اسی دن سے اس معاشی راہداری نے عالمی معیشت کے ٹرائیکامیں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے۔اقوام عالم دونئے بلاکس میں تقسیم ہوچکاہے۔سی پیک میں روس، ترکی،سعودی عرب اوربعض یورپی ممالک کی دلچسپی اس کومرکزنگاہ بنائے ہوئے ہے تودوسری طرف امریکا،بھارت اوراسرائیل کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹک اورچبھ رہاہے۔دراصل انہیں خوب اندازہ ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کی صورت میں پاکستان اورچین کودنیامیں غیرمعمولی اقتصادی اہمیت حاصل ہوجائے گی اوران کی اجارہ داری کو شدیددھچکہ لگے گا۔برصغیرمیں روس اورچین جیسی دوقوتوں کی خطے میں موجودگی اورکاروباری مفادات کی بدولت یہ طاقتیں امن وامان کے قیام میں اہم کردارادا کرنے کیلئے کوشاں ہیں اوریوں یہ منصوبہ پاکستان کیلئے ایک انتہائی مضبوط دفاعی ڈھال بھی ثابت ہوگا۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کوبھی اس سے تقویت ملے گی اس لئے امریکا،اسرائیل اوربھارت اس منصوبے کوہرصورت میں سبوتاژکرنے کیلئے شب و روزسازشوں میں مصروف ہیں۔

ادھراب چین کے بعدروس کی دیرینہ کوشش کامیاب دکھائی دے رہی ہے کہ طالبان نےاپنے پہلے دورہ چین میں اس منصوبے کا حصہ بننے کی بھرپور خواہش کی ہے تاکہ سی پیک منصوبے کووسط ایشیاسے ملانے والاروٹ مکمل ہوسکے اورافغانستان سے امریکی پٹھوبھارت کی اجارہ داری کابھی مکمل خاتمہ ہو جائے، جبکہ روس اورچین اب طالبان کی پشت پرہیں۔روس نے کشمیرکے معاملے میں پاکستان کے مؤقف کی حمائت کرکے بھارت کو دیرینہ حمائت سے محروم کردیاہے ۔تمام عالمی سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاراس بات سے متفق ہیں کہ طالبان کی آمدکے بعدافغان عوام کی خوشی نے ثابت کیاکہ وہ اشرف غنی اورعبداللہ عبداللہ کو افغانستان کی تباہی کاذمہ دارسمجھتے ہیں۔ امریکاجوافغانستان سے ذلت آمیزشکست کے بعدنامرادہوکربوریابسترگول کرکے رخصت ہوچکاہے،اورامریکاجواس سازش میں مصروف تھاکہ امن کے نام پربھارت اورجاپان کوافغانستان میں اسٹرٹیجک معاہدے کے نام پر کرداردینے میں کامیاب ہوسکے اوراس کی آڑمیں افغانستان کاجوروٹ وسط ایشیاسے سی پیک کوملاتاہے،وہ نہ مل سکے اورسی پیک اقتصادی اہمیت کاحامل نہ ہوسکے لیکن اب اس کی تمام چالوں کوذلت آمیز شکست ہوچکی ہے۔

ایک طرف تویہ ٹرائیکایوں روڑے اٹکانے کیلئے انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں تودوسری طرف سی پیک کوناکام کرنے کیلئے ایک اہم متبادل روٹ کی تیاریوں میں بھی مصروف ہیں۔اس متبادل روٹ میں سعودی عرب کابھرپورتعاون ان چاروں ممالک کوشدت سے درکارہے۔ہمارے عرب دوستوں نے پاکستان کویمن جنگ کے معاملے پرغیرجانبداررہنے کی یوں سزادی کہ پاکستان کے ازلی دشمن مودی کوبلاکرپہلے تواپنے ملک کاسب سے بڑااعزازدیااوراس کے ساتھ ہی مودی وہاں پربڑے بڑے منصوبوں پردستخط کروانے میں بھی کامیاب ہوگیاجس میں سعودی کی سب سے بڑی ریفائنری “آرامکو”میں ایک بڑی تعدادمیں بھارتی افرادکی تعیناتی سے سامنے آئی اوراس کے ساتھ ہی اس نے ایران کے ساتھ چاہ بہاربندرگاہ کے سلسلے میں اپنا دست تعاون اس طرح بڑھایاکہ کئی معاملات پرچاہ بہاربندرگاہ کابہانہ بناکرپاکستان کے ساتھ عداوت کامظاہرہ ہونے لگاجبکہ پاکستان نے یمن جنگ کے سلسلے میں مصالحتی کردارادا کرنے کیلئے سربراہی دورے کرکے دونوں مسلم ممالک کوجنگ کی تباہ کاریوں اورنقصانات سے بچانے کیلئےمخلص کردار اداکرنے کی کوشش کی جوفریقین کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی۔

دوسری طرف ایران نے سعودی عرب پردباؤبڑھانے کیلئے یمن میں حوثیوں کوکھڑاکیا،سعودی سرحدوں پرخطرہ کھڑاکرکے اس طرف دھکیل دیا کہ وہ امریکاسے دنیاکے سب سے بڑے اسلحے کی خریداری کے معاہدے پردستخط کرے۔امریکانے وہی کرداراس مرحلے پراپنایاہوا ہے کہ چورکوچوری پراکسائے اورشاہ کوجاگنے کیلئے کہے۔

اسرائیل سی پیک منصوبے کے خلاف جس روٹ پرسرگرم ہے،اس میں اسے سعودی عرب کی حمائت درکارہے اوروہ اس سلسلے میں امریکاکی بھرپور معاونت بھی حاصل ہے۔ اس سلسلے میں ٹرمپ کے دورہ حکومت میں اسرائیلی وزیراعظم نےدورۂ امریکامیں سعودی عرب کے بااختیارولی عہدکاواشنگٹن میں ٹرمپ سے ملاقات کیلئے راستہ ہموارکرنابڑامعنی خیزسمجھاگیااورپھر کچھ بات آگے بڑھی توٹرمپ بھی سعودی عرب اوراسرائیل کے دورے پرچلاگیا ۔ سعودی عرب سے اسرائیل تک براہِ راست ٹرمپ کے طیارے کی اڑان نے اس تبدیلی کا اشارہ بھی دے دیا۔اسرائیلی منصوبہ ہے کہ سلطان عبدالحمیدثانی مرحوم نے حجاز ریلوے روٹ جوشام، حجازاورعراق تک بنانے کافیصلہ کیاتھااگرچہ اس وقت اس کی تکمیل نہ ہوسکی، اب اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ اس ٹریک کو مکمل کرکے بصرہ تک لیجائے اور”ٹریک ٹو”پرایران کے ساتھ مذاکرات کوجاری رکھ کرامریکی پابندیوں کوختم کرنے کاجھانسہ دیکر ایران سے دوستی بڑھائی جائے تاکہ بھارت جوافغانستان سے چاہ بہارتک سڑک بنواچکاہے،چاہ بہاراوربصرہ تک پھرخلیج فارس بحری جہازوں سے اٹ جائے گا۔وسط ایشیاکی ساری دولت اسی روٹ سے بحیرۂ روم کے ساحل تک آئے گی اورساری دنیاتک جائے گی اوریہ چاریار(امریکا،بھارت،اسرائیل اورایران) مالامال ہو جائیں گے اورسی پیک کا کانٹاان کی آنکھ سے نکل جائے گا۔اس سازش کی کامیابی کی خاطرمال کھپے کی خاطرفلسطینیوں کوبھی خاصی مراعات دینے کو تیار ہے، شرط یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امن سے رہیں۔

ان چہاریارکایہ بھی پلان ہے کہ القاعدہ کے ساتھ حماس کودہشتگردوں میں لپیٹ کرحماس کوقابل نفرت قراردیکراس کے پرکاٹ دیئے جائیں تاکہ اس متبادل روٹ کے منصوبے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ دورکردی جائے اورایران کوبھی درپردہ حماس سے دورکر دیاجائے،رہامعاملہ ایران کے خلاف امریکااور اسرائیل کا بولنا،یہ مروّجہ سیاست کے مطابق سیاسی بیان سمجھاجائے۔جب یہ روٹ آخری مرحلے میں ہوگا توایران حسن روحانی کے دورِ حکومت کی طرح پھر امریکاسے ہاتھ ملالے گااورامریکابھی بڑی فراخ دلی سے اس نوراکشتی کے خاتمے کااعلان کردے گا، سوال یہ پیداہوتاہے کہ سی پیک منصوبہ جس میں بڑی طاقتوں روس،چین اور پاکستاان کی بھرپوردلچسپی ہے،وہ اس سازش پریوں ٹھنڈے پیٹوں تونہیں رہیں گی اورایران اورچین کے مابین اب توایک بڑامعاشی منصوبہ بھی توطے پاچکاہے جس کے بعداس خطے سے بھارت کوفارغ کیاگیاہے۔

اس سلسلے میں پاکستان پردباؤبڑھانے کیلئے یواے ای کامقبوضہ کشمیرمیں سرمایہ کاری کے منصوبے کااعلان کیاگیاہے۔افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد پاکستان کوغیرجانبداررہنے کی سزادینے کیلئےان چاریاروں کی طرف سے پاکستان کوچاروں اطراف سےگھیرکربے دست وپابنانے کے منصوبے پرجوکام شروع کرنےکاایک مقصدیہ بھی ہے کہ جس طرح سعودی عرب کوگھرگھار کر متبادل روٹ کیلئے آمادہ کرناہے،اسی طرح پاکستان پریلغارکرکے اس کوایٹمی قوت سے دستبردارکرانے کی کوششیں تیزکی جائیں۔ سابقہ چیف آف سٹاف اسلم بیگ کے دورمیں ایران نے پاکستان سے ایٹمی معاملے میں جو کردار اداکیاوہ داستان کرب پرویزمشرف کی زبانی جن الفاظ میں بیان کی گئی ہے اسے ضبط تحریرمیں نہیں لایاجاسکتا۔

سوچنے کی بات تویہ ہے کہ سعودی عرب اوراس کے قریبی حلیف ہم سے کیوں دورہوئے؟کون ساایسامرحلہ ہے جب انہوں نے پاکستان کابھرپورساتھ نہ دیا ہواوربھرپوراعتمادثابت نہ کیاہو۔پاکستان کے دکھ کواپنادکھ سمجھ کرسقوط مشرقی پاکستان پرشاہ فیصل شہیدتوپھوٹ پھوٹ کرروئے تھے۔ایٹمی دہماکے کے بعد جب پاکستان پرشدیدمعاشی اوراقتصادی پابندیاں عائدکردی گئیں توسعودی عرب نے اپنی تجوریاں پاکستان کیلئے کھول دیں۔ طالبان کی حکومت پاکستان نے تسلیم کی تودوسری تسلیم وتائیدکی آوازسعودی عرب کی تھی۔اس قدرقلبی وروحانی وابستگی کی بنیادپرسعودی عرب نے اسلامی اتحادمیں پاکستان کانام شامل بھی شامل کردیاتویہ انہونی کیسے وجودمیں آگئی۔انہی گہرے تعلقات کی بناء پرراحیل شریف کواسلامی فوج کی سربراہی ملی توہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کی کیاوجہ ہوئی کہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت اوراسرائیل ان کی آنکھوں کاتارہ بن گئے ہیں۔دوستی کے اس قدربھاری خسارے کی تحقیقات اوراس کے مداوے کیلئے کیوں اب تک خاموشی ہے؟اس پربھی غورکرنے کی ضرورت ہے کہ ایران بت پرستوں اوربھگوان کے پجاری بھارت کے ساتھ کیوں کھڑاہوگیا؟ٹھوس شواہدموجود ہیں کہ اگرچین بروقت آگے نہ بڑھتاتوچاہ بہارکے ذریعے سی پیک کوشدیدنقصان پہنچانے کی سازش کاتوآغازہوچکاتھا۔

ابھی تک وہ تاریخی کردارگواہی کیلئے موجودہیں جنہوں نے ایرانی حکومت کے خوفناک چہرے سے پردہ اٹھایاتھا۔ بے نظیر کے دورمیں ظفر ہلالی اسپیشل سیکرٹری تھے۔ظفرہلال کا خاندان سفارتکاری کے حوالے سے مشہورہے،ان کاخاندان ایران سے قاچار بادشاہت کے زمانے میں ہجرت کرکے ہندوستان آیا۔ایران میں یہ خاندان دربار سے اعلیٰ سطح پر منسلک تھا۔بے نظیرکی والدہ نصرت بھٹوکاتعلق بھی ایران سے تھا۔ظفرہلالی کے بقول ایک دن بے نظیرنے انہیں بلاکرکہاکہ ایرانی سفیرکوبلاکربتاؤکہ ان کاسفارت خانہ جس قسم کالٹریچراورکیسٹ وغیرہ پاکستان میں تقسیم کررہاہے اس سے ہمارے لئے بہت مشکلات پیداہورہی ہیں۔

ظفرہلال نے ایرانی سفیرمحمدمہدی اخوندزادہ پسنی کوبلایا۔اخوندزادہ انقلاب ایران کے بعد1981ءمیں پہلی مرتبہ بھارت میں سفیر مقررہوئے۔ایران میں انتظامی عہدوں اوروزارت خارجہ میں بھرتی براہِ راست قم میں موجودرہبرکونسل کرتی ہے۔نوکری کیلئے انقلاب کے ساتھ وفاداری شرطِ اوّل ہے۔ اخوندزادہ اس شرط پرپورااترتاتھا۔اخوندزادہ1993ءسے1998ءتک پاکستان کاسفیررہا۔ ظفر ہلالی نے جب اس کے سامنے لٹریچراورکیسٹ کی بات رکھی اورپاکستانی حکومت کے تحفظات کااظہارکیاتوانہوں نے الٹاسوال کر دیاکہ آپ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جوایران کے کہنے پرہتھیاراٹھاسکتے ہیں؟ظفرہلالی نے کہامجھے کیا معلوم تواخوندزادہ نے کہاکہ75ہزارافراد ہمارے کہنے پرفوری ہتھیاراٹھاسکتے ہیں لیکن ہم آپ کوایک برادر ملک سمجھتے ہیں،اس لئے آپ کیلئے مسائل پیدانہیں کرناچاہتے۔(ردّ الفسادآپریشن کے دوران سرحدی علاقوں سے امام بارگاہ کے تہہ خانہ سے بھاری اور جدید اسلحے کی کھیپ کی برآمدگی نے جہاں سیکورٹی اداروں کوحیران کردیاتھاوہاں اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی تھی)۔ رہبراعظم کا پسندیدہ،بھارت میں سفارت کاری اور75ہزار مسلح افرادکی تیاری پاکستان میں ہے،اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ایران پاکستان میں کن عزائم میں مصروف تھا۔

ایرانی انقلاب سے پہلے پاکستان اورایران کے تعلقات مثالی اورمسلکی نفرت سے مبراتھے،آرسی ڈی معاہدے کے تحت پاکستان،ایران اورترکی کے شہری ویزوں کی پابندی کے بغیرسفرکرتے تھے اورباہمی تجارت میں بے شمارمراعات موجودتھیں لیکن ایرانی انقلاب کے بعدجب اس انقلاب کوپڑوسی ممالک میں برآمدکرنے کی پالیسی پرعملدرآمدشروع ہواتواخوت ومحبت کی جگہ نفرت،فرقہ پرستی اور منافقت حاوی ہوگئی اورپاکستان کی سرزمین کوفرقہ واریت کے نام پر لہولہان کردیاگیااوردشمنی کابیج اب بھی زیرزمین موجودہے اورجب بھی اسے فرقہ واریت دشمنی کے پانی سے سینچاجاتاہے،تویہ اپنی خونخوارکونپلیں نکال کرایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں تاخیرنہیں کرتے۔آج بدنصیبی کایہ عالم ہے کہ ایران میں کوئی سنی پارلیمنٹ ممبر نہیں بن سکتاجبکہ تین یہودی پارلیمنٹ ممبرہیں۔ایرانی دارلحکومت تہران میں سنیوں کومسجدبنانے کی اجازت نہیں جبکہ اسی شہرمیں25 گرجاگھر ، 16 مندر،6 گردوارے اور20آتش کدے موجودہیں۔ ایران کے اسکول،کالجزاوریونیورسٹی میں ان بچوں کوداخلہ نہیں دیاجاتا جن کے نام ابوبکر ، عمر،عثمان، عائشہ، حفضہ وغیرہ ہوں۔کہاں گیاوہ ایرانی انقلاب جس کی تحسین کیلئے اخلاص کے ساتھ سینکڑوں کالم اورآرٹیکلززلکھے گئے،ایران کی پہلی انقلابی سالگرہ میں شمولیت کی مجھے بھاری قیمت چکانی پڑی ؟ ہوناتویہ چاہئے تھاکہ ایرانی انقلابی دانشورآگے بڑھ کراپنااثرورسوخ استعمال کرکے اس فرقہ واریت کی آگ کوبجھانے کاکام کرتے لیکن اس سلسلے میں ہمارے کئی مخلص ایرانی دانشوردوستوں کوبھی خاموش کروادیاگیا۔کیایہ ہے ایرانی انقلاب جس کی مثال ہمارے ہاں کےزرخریددانشور بڑے فخرسے دیتے ہیں ؟

سعودی عرب جواب تک سلطان عبدالحمیدثانی کے حجازریلوے منصوبے پرراضی نہیں ہورہالیکن خدانخواستہ اس پرراضی ہوگیاتوسی پیک منصوبہ اور پاکستان کی ترقی کاخواب کی تعبیرمیں تاخیرہوسکتی ہےیوں پھراسرائیل کا توسیعی منصوبہ،امریکاکی خطے میں معاشی گرفت،ایران کی بندرگاہ چاہ بہارکی کامیابی اوربھارت کی دلی خواہش پوری ہونے میں کیارکاوٹ رہ جاتی ہے۔اس طرح ایران اوربھارت کے درمیان سمندری راستے کافاصلہ اب دوروزسے بھی کم ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں ایران کی جہازراں کمپنی کے بحری جہازبھارت کی بندرگاہ کاندلاسے300اورمندراسے101کنٹینرزلیکرایرانی بندرگاہ چاہ بہارپہنچاچکے ہیں۔

ادہرپاکستان کے زرخریددانشورجوچائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے ماہرہیں ان کاپروپیگنڈہ ان کے پیٹ کی سوچ سے بڑھ کر نہیں۔ایران اورسعودی عرب دوسمندرہیں جوساتھ ساتھ بہہ رہے ہیں مگرملتے نہیں۔مسلک نے ان کے درمیان پردہ حائل کررکھاہے مگراس کامطلب یہ تونہیں کہ مسلک کے نام پر دنیامیں فسادپھیلایاجائے۔اس وقت معیشت کے ہاتھیوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں افغانستان رونداجارہاہے اورسعودی عرب کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے اوراب وقت آگیاہے کہ سعودی عرب اپنے حلیفوں سمیت اپنی جارحانہ پالیسیوں پرازسرنوغورکرکے عقل کے ناخن لے کہ ایران کی دشمنی میں اس قدراندھے نہ ہوجائیں کہ ہنودویہودکے گلے میں اپنی وفاداریوں کے ہارپہناناشروع کردیں کہ یہ سراسردنیاوآخرت کے گھاٹے کاسودہ ہوگا جبکہ ایرانی قیادت کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کی بجائے بھارت کاساتھ دیکرکیاآخرت کاسودہ دنیاسے تونہیں کرلیا؟یہ دنیاتوکھیل تماشہ ہے اوراس میں آخرت کی نقدی لٹاناکہاں کی دانشمندی ہے؟

ایران کویادرکھناچاہئے کہ بھارت چالبازاورمکارملک ہے۔خالصتان امریکاکے سربراہ ڈاکٹرامرجیت سنگھ کے بقول بے نظیربھٹوکے اورراجیوگاندھی کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہوا تھاکہ پاکستان بھارت کوسکھوں کی فہرستیں فراہم کرے گاجس کے جواب میں بھارت سیاچین گلیشئیرسے اپنی فوج واپس بلا لے گا۔ بھارت نے پاکستان سے ہمارے جانبازوں کی فہرستیں لیکرسکھوں کی نسل کشی کی اورجب راجیوحکومت اپنے مقصدمیں کامیاب ہو گئی توراجیونے پیغام بھجوایاکہ بے نظیرآپ کابہت شکریہ،آپ نے ہماری جس طرح مدد کی ایساتوہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن افسوس کے ساتھ مجھے کہناپڑرہاہے کہ میری حکومت آپ سے کئے گئے وعدہ پورانہیں کرسکتی کیونکہ میری فوجی اسٹیبلشمنٹ نہیں مان رہی۔ امر جیت سنگھ کامزید کہنا ہے کہ مرنے سے پہلے بے نظیر بھٹوکاانٹرویوریکارڈ پرموجودہے جس میں انہوں نے کہاکہ جب پنجاب بھارت کے ہاتھوں سے نکل رہاتھاتواس نازک موڑپرہم نے بھارت کی مددکی تھی۔

موجودہ حالات میں بڑھتے ہوئےبیرونی خطرات کے باوجودہمارے ہاں دوبڑے اداروں میں مناقشت شروع ہوگئی ہے اورپہلی مرتبہ فوج میں اضطراب بڑَھ گیاہے۔ ایک تبادلے کومتنازعہ بناکرتین درجن سے زائدتبادلوں کے عمل کوزک پہنچادی گئی ہے۔عمران خان نےاپنے اگلےانتخابات کوجیتنے کیلئے بیجاضد کرکے ملک کی سلامتی کوداؤپرلگادیاہے۔فوج کاسربرااہ اگراپنی روایات سے ہٹ کر عمران خان کامطالبہ مان لے توعمران کے حواری اگلے انتخابات میں اپنی اس بہادری کی فتح کاڈھول پیٹیں گے کہ عمران خان پہلاسول وزیراعظم ہے جس نے فوج کادباؤبھی قبول نہیں کیالیکن اگریہ تبادلہ معمول سمجھ کرہوجاتاہے توپھربھی فوج کی سول پرحکمرانی کاطعنہ بن جائے گا۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ قومی سلامتی کیلئے جوش کی نہیں ہوش کی اشدضرورت ہے تاکہ زمانے کوقیامت کی چال چلنے سے روکاجاسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں