اعلان کی ضرورت

:Share

برطانیہ کے لیگاٹم انسٹیوٹ نے اپنی 10 ویں سالانہ فہرست جاری کی ہے جس میں دنیا کے خوشحال ترین ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے۔اس درجہ بندی میں کسی ملک کی مالی حیثیت کے ساتھ ساتھ فی کس آمدنی، کام کرنے والے افراد کی تعداد کی شرح،روزمرہ میں کتناآرام کرنے والے افراد سمیت104 چیزوں کومدنظررکھاگیا۔ان تمام عناصرکو9حصوں میں تقسیم کیاگیا جن میں اقتصادی مساوات،کاروباری ماحول،طرزحکومت، صحت ، تعلیم،تحفظ اورسیکیورٹی،ذاتی آزادی، قدرتی ماحول وغیرہ قابل ذکرہیں اس درجہ بندی میں دنیاکے149ممالک کوشامل کیاگیا،جس میں پاکستان 139ویں نمبرپرجبکہ بھارت 104،چین90،افغانستان148ویں،بنگلہ دیش114ویں پررہا۔تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیاکاخوشحال ترین ملک امریکا یاکوئی یورپی ملک نہیں،بلکہ اس فہرست میں گزشتہ سات سال سے ناروے سرفہرست قرارپارہاتھامگر اس بارایک نیاملک”نیوزی لینڈ”جو کہ سماجی دولت اور اقتصادی مساوات کے شعبوں میں بھی نمبرون سب سے خوشحال قرار پایا ہےجبکہ طرزحکومت اور کاروباری ماحول کے حوالے سے اس کے حصے میں دوسرا نمبر آیا،ناروے سات سال تک اس فہرست میں دنیاکاخوشحال ترین ملک رہا مگر رواں برس وہ اپنے اس اعزاز سے محروم ہوکردوسرے نمبرپرآگیاہے۔
فن لینڈ خود کو اسکینڈے نیویا کا حصہ تسلیم نہیں کرتا مگر وہ یہ ماننے سے گریز نہیں کرتا کہ وہ شمالی یورپ کی خوشحال ترین ریاست ہے،اس فہرست میں اسے دنیا میں سب بہترین طرز حکومت والاملک توقراردیاگیاہے لیکن سروے میں اسے تیسرانمبردیاگیاہے۔سیاحوں کیلئےجنت سمجھا جانےوالایورپی ملک سوئٹزرلینڈاس فہرست میں چوتھے نمبرپرہےتاہم تعلیم کے شعبے میں نمبرون جبکہ طبی سہولیات کے شعبے میں تیسری پوزیشن ملی ہے۔امریکا کاپڑوسی ملک کینیڈادنیا کی سپرپاور کے مقابلے میں زیادہ خوشحال قراردیاگیاہے جہاں ذاتی آزادی،کاروباری ماحول اورسماجی دولت کےشعبوں میں یہ دوسرے نمبرپررہاجبکہ مجموعی طورپر5واں نمبراس کے حصے میں آیا۔ آسٹریلیا2015ءمیں ساتویں نمبرپرتھااوررواں برس وہ اپنی پوزیشن ایک درجے بہتراوراب چھٹا نمبرحاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ نیدرلینڈ یورپی ملک تعلیم اور اقتصادی مساوات میں تو دوسرے نمبر پررہا مگر مجموعی طور پر اس کے حصے میں 7 واں نمبر آیا۔
سوئیڈن اپنے پڑوسی ملک ڈنمارک سے ایک نمبر اوپر ہے جو اقتصادی مساوات میں تیسرے اور طرز حکومت کی درجہ بندی میں 5 ویں نمبرپرہے تاہم مجموعی طورپروہ8واں خوشحال ترین ملک قرارپایاہےحالانکہ گزشتہ سال اسے5ویں نمبرپررکھاگیاتھا۔اسکینڈے نیویاکاخطہ بہترین طرزِ
زندگی کیلئےشہرت رکھتاہے اوراس خطے میں شامل ڈنمارک 9ویں نمبررہااوردلچسپ بات یہ ہے کہ اس خطے کا سب سے کم خوشحال ترین ملک قرار پایا ہے۔
برطانیہ گزشتہ سال اس فہرست میں 15ویں نمبرپرتھامگررواں برس یورپی یونین سے علیحدگی کیلئےووٹ دینے کے باوجود وہ چھلانگ لگاکر10ویں نمبرپرپہنچ گیا جس کی وجہ وہاں کابہترین کاروباری ماحول قراردیاگیاہے۔تین دہائیاں قبل برطانیہ کی پہچان دنیاکی سب سے بڑی فلاحی مملکت کے طورپرتسلیم کی جاتی تھی اوریہی وجہ تھی کہ مارگریٹ تھیچرنے اپنی انتخابی مہم میں ووٹر کے سامنے یہ نعرہ لگایاتھاکہ اگر کنزرویٹوشکست سے دوچار ہوئی تویہ فلاحی ریاست کے حوالے سےدنیاکی دوسرے نمبر پرچلی جائے گی اوراپنے اسی نعرہ کی بدولت بھاری اکثریت سے انہوں نے انتخاب میں کامیابی حاصل کی اورملک میں بڑے بڑے اداروں کی نجکاری اورسخت ترین کامیاب اقتصادی تبدیلیوں کی وجہ سےآج انہیں”آئرن لیڈی” کے نام سےیادکیاجاتاہے۔
تاہم دنیابھرمیں کون سی قوم کتنی خوش ہے اورکون کتنی ناخوش،اس کاتجزیہ ہرسال کیا جاتا ہے اورریٹنگ جاری کی جاتی ہے۔نارڈک یااسکینڈی نیوین ممالک(سوئیڈن،ڈنمارک،ناروے،فن لینڈ اور آئس لینڈ)اس فہرست میں عموماًبہت اوپرہیں۔ان ممالک میں سماجی بہبودکابہترین تصوراپنایا گیا ہے۔ سب کچھ حکومت نے اپنے ذمے لے رکھاہے اورعام تاثریہ ہے کہ ان ممالک کے رہنے والے انتہائی سُکون اورمسرّت کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں مگرکیاواقعی ایساہے؟تمام بنیادی سہولتوں اوربہترزندگی بسرکرنے کے مواقع فراہم کردیے جانے سے زندگی کے تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں؟ اس سوال پرغورکرنے کی ضرورت ہے کیونکہ باضابطہ تجزیوں اورجائزوں سے معلوم ہواہے کہ جنہیں انتہائی خوش وخرم ممالک یااقوام تصورکیا جاتا ہے،ان میں لاکھوں ایسے ہیں جو اب تک زندگی کے حوالے سے خودکوایڈجسٹ نہیں کرسکے اورخاصی پریشانی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔
2018ءکی ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ(Happyness Report)میں فن لینڈ،ناروے،ڈنمارک اورآئس لینڈ نے ٹاپ کیا۔سوئیڈن بھی زیادہ پیچھے نہیں رہا۔وہ نویں نمبرپرتھا۔ان تمام ممالک میں زندگی عمومی سطح پرانتہائی پرسکون اورپرکشش ہے۔دنیابھرکے لوگ ان ممالک میں زندگی بسرکرنے کے خواہش مند ہیں۔ کسی بھی پس ماندہ ملک سے ان ممالک میں قدم رکھنے والا واپس جانے کا نہیں سوچتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام ممالک کی حکومتیں اپنے شہریوں کو وہ تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرتی ہیں، جن کے سہارے بہتر زندگی بسر کرنا ممکن ہوتا ہے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے کہ ان ممالک میں سبھی خوش ہیں؟ دنیا کو تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان پانچوں ممالک میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اپنی زندگی سے کچھ زیادہ خوش نہیں۔ نارڈک کونسل آف منسٹرز اور کوپن ہیگن (ڈنمارک) کے ہیپی نیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے حال ہی میں مل کر جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ ان تمام ممالک میں 12فیصد سے زائد افراد کسی نہ کسی حوالے سے مشکلات جھیل رہے ہیں اور ان کی زندگی میں خلا ءسا ہے۔ یہ لوگ کسی نہ کسی حوالے سے جدوجہد کی حالت میں ہیں۔ جن ممالک کی دنیا بھر میں مثال دی جاتی ہے، ان میں آبادی کا ایک معتدبہ حصہ یوں پریشان ہو یہ انکشاف انتہائی پریشان کن ہے۔
دی ہیپی نیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار اور ’’اِن دی شیڈو آف ہیپی نیس‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والی رپورٹ کے مصنف مائیکل برکجیئر کہتے ہیں ’’کچھ نہ کچھ تو ہے جو آرکسٹرا سے ہٹ کر یعنی بے سُرا یا بے تال ہے۔ نئی نسل کا معاملہ یہ ہے کہ یہ مسرّت کے حوالے سے عدم مساوات کو نقطۂ عروج تک پہنچانے کے لیے بے تاب و بے قرار ہے‘‘۔2012ء سے 2016ء کے دوران نارڈک ممالک میں ایک ہمہ گیر سروے کے ذریعے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی زندگی اور مسرّت کے حوالے سے ایک سے دس تک کسی بھی مقام کا تعین کریں۔ سات یا اس سے زائد پوائنٹس حاصل کرنے والوں کوخوش اورترقی کی طرف گامزن ظاہرکیاگیا۔پانچ یاچھ پوائنٹس والے جدوجہد کرتے بتائے گئے اورچاریااس سے کم پوائنٹس لینے والوں کو مایوس ٹھہرایاگیا۔ اکثریت نے سات تا نو پوائنٹس حاصل کیے۔
دنیا بھر میں نئی نسل کو تعلیم، صحت اور ملازمت یا کیریئر کے حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نارڈک ممالک میں یہ دباؤ برائے نام بھی نہیں کیونکہ تعلیم اور صحت پر کچھ بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ سب کچھ حکومت کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ معاشرتی اور معاشی ڈھانچا ایسا ہے کہ جوتعلیم مکمل کرتاہے اسے جاب مل ہی جاتی ہے۔ بے روزگاری الاؤنس بھی ہے اورجولوگ کام کرنے کے قابل نہیں رہتے انہیں بھی بہتر زندگی بسر کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جاتا ہے، پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ مثالی نوعیت کا ہے۔ دنیا بھر میں نارڈک ریاستوں کی مثال دی جاتی ہے کہ فلاحی ڈھانچا ہو تو ایسا ہو۔ حکومت بڑے پیمانے پر ٹیکس وصول کرتی ہے مگرٹیکس اداکرنالوگوں کوبرانہیں لگتاکیونکہ زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں اورآسائشوں کااہتمام حکومت ہی کرتی ہے۔
مگر خیر، حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی سہولتوں اور پُرمسرّت زندگی کے اہتمام کے ساتھ کچھ نہ کچھ دباؤ بھی ضرور آتا ہے۔ نارڈک اقوام کی نئی نسل پر بہتر کر دکھانے کے حوالے سے دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ ہے وہ اس قدر مثالی نوعیت ہے کہ اُسے محض برقرار رکھنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ حکومت بہت کچھ دیتی ہے مگر پھر بھی بہت کچھ ایسا ہے جو لوگوں کو کرنا ہے،اور وہ اس حوالے سے غیر معمولی ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ عمومی صحت کا معیار تو بہت اچھا ہے مگر ذہنی صحت کا معاملہ تھوڑا سا ڈانوا ڈول ہے۔ خاص طور پر نئی نسل زیادہ دباؤ میں ہے۔ تعلیم اور صحت کے مواقع کے حوالے سے تو معاملات درست ہیں مگر تعلیم کے بعد عملی زندگی شروع کرنے پر نئی نسل کو غیر معمولی ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ دوسروں سے بہتر کچھ کر دکھانے کی گنجائش پیدا کرنا دردِ سر ہے۔ سوئیڈن میں 10 برس کے دوران ایسے لوگوں کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو ذہنی صحت کے حوالے سے مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔ اور ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ وہ عملی زندگی کے حوالے سے مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔ کچھ کر دکھانے کے لیے انہیں غیر معمولی محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ ڈنمارک کی ہیلتھ اتھارٹی نے ایک لاکھ 80 ہزار افراد پر مشتمل سروے کے نتائج کی روشنی میں بتایا ہے کہ 16 سے 24 سال تک کی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں غیر معمولی تنہائی محسوس کر رہے ہیں، جیسے زندگی کا کوئی مقصد ہی نہ ہو۔
دی ہیپی نیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار مائیکل برکجیئر کہتے ہیں ’’ایک طرف تو مسابقت بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کا موازنہ ان کی کارکردگی کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال بھی نئی نسل کو تناؤ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ پسماندہ ممالک میں نئی نسل پر کچھ کرنے کے لیے بہت دباؤ ہوتا ہے مگر ان کے پاس وسائل یا مواقع نہیں ہوتے۔ نارڈک اقوام کی نئی نسل کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس وسائل بھی ہیں اور مواقع بھی مگر اُس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں اور کیسے کریں۔ بہت کچھ ہے مگر جیسے کچھ بھی نہیں ہے۔ زندگی کسی واضح مقصد سے محروم ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ حل کیسے کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے ہاتھوں پریشانیاں بڑھ رہی ہیں تو کیا سوشل میڈیا پر پابندی لگادی جائے؟ اگر ایسا کیا گیا تو کچھ اور آجائے گا، کچھ اور کرنا پڑے گا۔‘‘
مائیکل برکجیئر مزیدکہتے ہیں’’لوگوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی خطرناک ہے۔اس کے شدید معاشی اورمعاشرتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اورہورہے ہیں۔ ڈیوٹی سے غائب رہنا،کارکردگی کے گراف کا گرنااورہیلتھ سروسزکازیادہ استعمال انتہائی خطرناک رجحان ہےجوبالآخرقومی سطح پرشدید منفی اثرات مرتب کرکے دم لے گا‘‘۔ ان رپورٹس کے بعدنجانے مجھےکیوں یورپی مورخ اورمصنف مائیکل ہارٹ کی مشہورزمانہ اورسب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب یادآگئی جس میں دلائل کے ساتھ وہ یہ لکھنے پرمجبورہوگیاکہ”سب سے زیادہ مؤثرافرادکی فہرست کی قیادت کرنے کیلئے میراانتخاب دنیا کیلئے بعض قارئین کوحیران کن اوردوسروں کی طرف سے سوال کیا جا سکتا ہےلیکن تاریخ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم واحدشخص ہیں جو کامیابی کی بلندیوں پرسب سے پہلے اور سب سے بڑےرہنماء ہیں۔عقل کی ابتداء میں، محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی عظیم مذاہبوں
میں سے ایک کو قائم کیااوران کوفروغ دیااورایک انتہائی مؤثرسیاسی رہنمابن گیا۔آج،ان کی وفات کے 13صدیاں گزرجانےکے بعدبھی ان کااثراب بھی طاقتوراوروسیع ہے۔
میں دوسرا نمبرعمربن خطاب کودینے پراس لئے مجبورہوگیاہوں کہ وہ نہ صرف ہجری تقویم کے بانی ہیں بلکہ ان کے دورخلافت میں عراق،مصر،لیبیا، سرزمین شام،ایران،خراسان،مشرقی اناطولیہ ،جنوبی آرمینی اورسجستان فتح ہوکرمملکت اسلامی میں شامل ہوئے اوران فتوحات کارقبہ بائیس
لاکھ اکاون ہزاراورتیس (22,51,030) مربع میل پرپھیل گیا۔ان ہی کے دورخلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا،اس طرح ساسانی سلطنت کامکمل رقبہ اوربازنطینی سلطنت کاتقریباًتہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیرنگین آگیا۔انتہائی مہارت،شجاعت اورعسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کودوسال سے بھی کم عرصہ میں زیرکرلیا،نیزاپنی سلطنت وحدودسلطنت کا انتظام،رعایاکی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگرامورسلطنت کوجس خوش اسلوبی اورمہارت وذمہ داری کے ساتھ نبھایاوہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔
مجھےحضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کاوہ سنہری دوریادآرہاہے جنہوں نے اللہ کے احکام کے مطابق قرآن کی حکومت قائم کی جس کی وجہ سے جہاں آدھی دنیاپران کی خلافت کاپرچم لہراتارہا بلکہ خوشحالی اورسکون کایہ عالم تھا کہ وہاں کوئی زکوٰۃ لینے والاباقی نہیں رہااورسیکیورٹی اور عدل وانصاف کی لازوال مثالیں تاریخ میں موجودہیں۔قرآن کانظام توآج بھی مشکلات کاسب سے بڑا حل ہے اورضرورت اس امرکی ہے کہ مدینہ ریاست بنانے کادعویٰ کرنے والے اس کااعلان کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں