قومی غیرت وحمیت

:Share

ہم سب کواپنے پاکستانی ہونے پرفخرہوناچاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس اضافے کیلئے ہمیں کچھ کرتے بھی رہنا چاہئے۔ اگر ایک شخص جس کے ہاتھ پیرسلامت ہوں،وہ جوان ہواوراس کی ہڈیاں مضبوط ہوں،اس پر اللہ کا شکر ادا کرناتوواجب ہے لیکن اگرکوئی اجنبی بندوق کی نوک پراس کے سارے خاندان سے ناک کی لکیریں نکلوارہاہواوروہ شخص کہے کہ اللہ کا شکر ہے ، عزت کی زندگی بسرہورہی ہے تواس کی صحت،اس کی جوانی،اس کی عزت کی زندگی کے آگے بہت بڑاسوالیہ نشان نظرآنے لگتاہے۔ہم پاکستانی گزشتہ برسہابرس سے کچھ اسی قسم کی عزت کی زندگی بسرکررہے ہیں ۔ہماری دونوں آنکھیں سلامت ہیں مگرہربارکوئی کاندھاہماراآگے کرتاہے اورحکم ملتاہے کہ اس پرہاتھ رکھ کرسڑک پارکرو،ہماری دونوں ٹانگوں میں دم ہے لیکن ہمارے ہاتھ میں بیساکھی پکڑادی جاتی ہے،ہم عاقل وبالغ ہیں لیکن ہماراحقِ رائے دہی کوئی اور استعمال کرجاتاہے ۔

ہم خودکو انسان کہلاتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ ڈھورڈنگروں والاسلوک ہوتاہے۔پاکستان کے کئی شہروں میں یہ منظرآپ نے دیکھاہوگاکہ اکثر چالیس پچاس بھینسیں،جن کاجثہ اورسینگ دیکھ کرڈرلگتاہے،خراماں خراماں چلی جارہی ہوتی ہیں۔انہیں ایک بڑی بڑی مونچھوں والاگجّرصرف درخت کی ایک شاخ سے جدھرچاہتاہے،ادھرہانک کرلیجاتاہے۔یہی حال ہمارابھی ہے۔ہمیں اپنے جثوں اورسینگوں کے نوکدارہونے کاادراک ہی نہیں ہے چنانچہ جوگجرہم سے جیساسلو ک کرناچاہتاہے، ویسا کرتاہے۔وہ ہمیں جن راستوں پرچلنے کیلئے کہتاہے ہم گروہ درگروہ ان راستوں پرچلنا شروع کر دیتے ہیں،بھینس کے تھنوں کے پاس کٹا چھوڑاجاتاہے اورجب وہ اپنے بچے کیلئے دودھ اتارتی ہے توگجراس کٹے کوپرے کرکے اپنابرتن دودھ سے بھرلیتاہے اور بازارمیں بیچ دیتاہے۔

ہمارے بچوں کے حصے کادودھ بھی ہمارے بچوں تک نہیں پہنچتا۔بھینس توپھربھی کبھی کبھارکسی کوسینگ مارلیتی ہے،ہم اشرف المخلوقات ہیں،ہم ایسانہیں کرتے۔ہمیں توسیدھاراستہ دکھانے کیلئے درخت کی ایک شاخ ہی کافی ہے۔جانوروں کے ریوڑ میں جب کسی جانورکاسودہ ہوجاتاہے تواسے ریوڑسے الگ کردیاجاتاہے۔ہمارے درمیان بھی کچھ جانورایسے ہیں جن کاسودہ ہوچکاہے۔ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں اوران کے جسموں پر قیمتی پوشاکیں ہیں کہ اب یہ آوارہ نہیں،ان کی حیثیت بڑے بڑے ایوانوں میں پالتوکی ہے۔یہ کان پرقلم دھرے گلی گلی آوازلگاتے ہیں،قصیدہ لکھوا لو ،ہجولکھوالو۔ان انسان نما جانوروں کے غول کے غول اپنے جسموں پراپنی قیمتوں کے ٹیگ لگائے نیلام گھرکے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ان سے پارٹی بنوا لو،پارٹی بدلوالو ،بندے چکوالو،بندے مروالو،ہرکام کی قیمت مقررہے۔

ان میں سے کچھ نے مونچھیں رکھی ہوئی ہیں،کاندھے پر”پرنا“ڈال رکھاہے۔یہ مٹھی میں سگر یٹ دبائے دفتروں،تھانوں، عدالتوں،اخباروں، اسمبلیوں اور بڑے بڑے ایوان میں نظرآتے ہیں،قوم کی موت ان کی حیات ہے۔انہیں یہ بھی احساس نہیں کہ اگر ان کی آئندہ نسل میں خدانخواستہ کوئی بےغیرت پیدانہ ہواتووہ بیچارہ بھوکوں مرجائے گا۔بے غیرتی کارزق نہ ملنے کی وجہ سے اس کی جوحالت ہوگی انہیں اس کی بھی فکر نہیں۔انہیں صرف آج کی فکرہے اورصرف اپنی فکرہے۔

ایک طبقہ ہم ”انسانوں“کے درمیان اوربھی ہے اس نے چپ کاروزہ رکھاہواہے،اس کے افراد صرف اپنی پیدائش کے وقت رو کر احتجاج کرتے ہیں۔یہ ان کی”سحری“ہے”افطاری“کی نوبت ان کے آخری سانس تک نہیں آتی۔یہ نہ کسی سے اختلاف کرتے ہیں نہ اتفاق کرتے ہیں،ان کے سامنے ملک وقوم پرآسمان ٹوٹ پڑے ،لوگوں کی دلدوزچیخوں سے کلیجے شق ہوجائیں،ان کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ان کاایک مخصوص جملہ ہے”بس جی دعا کریں جوہورہاہے ملک وقوم کے حق میں بہتر ہو “۔ ان بے حس چہروں پرغیرجانبداری کاایک ملکوتی سااطمینان ہمہ وقت طاری رہتاہے۔یہ کچھ بھی دیکھیں،کچھ بھی سنیں، ان کے ذہنوں میں کوئی سوال نہیں اٹھتا،خصوصاًشعروادب سے وابستہ کچھ لوگوں میں تو جانب داری گناہِ کبیرہ میں شمار ہوتی ہے۔

حبیب جالب کوشاعراس لئے نہیں ماناگیاکہ وہ اس گناہِ کبیرہ کاباربارمرتکب ہوتاتھا،چنانچہ خودادیب اسے سنگسارکرتے رہے۔ ادیب کاکام صرف داخلی گتھیاں سلجھاناہے،خارج سے اسے کوئی تعلق نہیں ہوناچاہئے۔سوداکے بالیں پہ شورقیامت ہواتوخدام ادب بولے”یہ شورروکو،صاحب کی ابھی آنکھ لگی ہے۔ہمارامنشور،
جی چاہتاہے پھروہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور ِجاناں کئے ہوئے
والے شعرمیں پوری طرح آگیاہے چاہے”مراقبے“کی اس کیفیت میں”جاناں“اپنے آشناکے ساتھ فرارہوجائے یاکوئی غندہ اسے ٹیکسی میں ڈال کرلے جائے۔کچھ ایساہی حال مجھے اپنے موجودہ حکمرانوں کے مزاج میں بھی نظرآرہاہے۔

اس بات کوبھی ذہن میں رکھیں کہ ان کایوٹرن ہی ان سب کے زوال کاسبب بنے گا۔بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے حکمرانوں کا تعلق ان ممالک سے ہوتا ہے جواپنے اقتدارکی خاطراپنی غیرت ،حمیت،عزت اوروقار بیرونی آقاوں کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں اورایساہی غیرت فروش ڈکٹیٹر تھاجس نے عافیہ کوامریکاکے حوالے کیا،اس ملک کے بیٹوں اوربیٹیوں کو امریکاکے حوالے کرنے اوراس کے عوض ڈالروں کی آگ اپنے پیٹ میں بھرنے کااعتراف بڑے فخرسے اپنی کتاب میں کر چکاہے۔اس فاسق جرنیل نے اپنے اقتدارکوطول دینے کیلئے اپنے ہم وطنوں پرظلم وتشددکرنے کیلئے امریکیوں کوپاکستان میں ہی عقوبت خانے کھولنے کی اجازت دے رکھی تھی اوراس کی بے شرمی اوربےغیرتی کایہ عالم تھا کہ اس نے اپنے ہی ملک کی خواتین کواذیت ناک مرحلوں میں مبتلاکرنے کیلئے بغیرکسی تحقیق کے امریکی سی آئی اے کے حوالے کردیا۔اذیت کے اس گھنے جنگل میں سفر کرنے والی خواتین کی ایک طویل فہرست ہے جس میں عافیہ صدیقی ایک ایسا روشن نام ہے جس کی بناءپراس فاسق ڈکٹیٹرپر تاریخ ہمیشہ لعنت اورذلت کے تبرے بھیجتی رہے گی!

عراق میں پندرہ لاکھ مسلمانوں کا خون پی گئے،افغانستان میں توکوئی گنتی ہے نہ شمار،کیا آج تک کسی امریکی عدالت نے ان بھیانک جرائم کی طرف توجہ دی؟کیاامریکاکے ہاتھوں مارے جانے والے مشرق کے افتادگان خاک کووہ حشرات الارض سے بھی حقیرجانتے ہیں؟کیاامریکا کی انصاف کی منڈی میں ان کی بھی کوئی قیمت یابولی لگائی گئی ہے؟(ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کوبدستورگرے لسٹ میں برقراررکھتے ہوئے متنبہ کیاہے کہ اگر فروری 2020 تک خاطرخواہ اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں بھی ڈالاجاسکتاہے۔کیااسی لئے سفاک مودی کوخوش اور کشمیر میں ماتم برپاکرنے کیلئے حافظ سعیدکو11برس قیدکی سزاسنائی گئی ہے؟ہمارے حکمران اپنی قومی غیرت اورحمیت پرکب تک یہ تازیانے برداشت کریں گے؟
حیرت نہ کربدن کومرے چوردیکھ کر
ان رفعتوں کودیکھ جہاں سے گراتھامیں

اپنا تبصرہ بھیجیں