NAB There Is A Defect Now

نیب،ہوئی اب عیب

:Share

اسلام اللہ کاوہ بہترین اورپسندیدہ مذہب ہے جوقیامت تک ساری دنیاکیلئےرشدوہدایت کاسبب ہے،وہی ذریعہ نجات ہے،رضائے الٰہی کاسبب ہے۔اس عظیم کامذہب کامرجع ومصدراوراس کی بنیادوہ وحی الٰہی ہے۔اوریہی ضابطۂ حیات ہے،قرآن وحدیث سے ہمیں اعمال پرمحاسبہ کرنے کاواضح اشارہ ملتاہے اوراحادیث میں ایمان کے ساتھ احتساب کاذکربھی ملتاہے۔اسلامی نظام زندگی میں عدل وانصاف کویقینی بنانے اورمعاشرے کومنظم ومستحکم کرنے کیلئےبہت سے ادارے متعارف کروائے گئے جن میں سے ایک ادارہ احتساب ہے۔محاسبہ انفرادی ہویااجتماعی،اصلاح معاشرہ اورقیام عدل کیلئےنہایت ضروری ہے ۔ کسی بھی قوم کی نشوونمااورتعمیروترقی کیلئے عدل وانصاف ایک بنیادی ضرورت ہے ۔جس سے مظلوم کی نصرت،ظالم کاقلع قمع اورجھگڑوں کافیصلہ کیاجاتاہے اورحقوق کوان کےمستحقین تک پہنچایاجاتاہے اوردنگافسادکرنے والوں کوسزائیں دی جاتی ہیں تاکہ معاشرے کے ہرفردکی جان ومال،عزت وحرمت اورمال واولادکی حفاظت کی جاسکے۔یہی وجہ ہے اسلام نے”قضا”یعنی قیام عدل کاانتہادرجہ اہتمام کیاہے۔اوراسے انبیاءکی سنت بتایاہے۔نبی کریم ﷺ کواللہ تعالیٰ نے لوگوں میں فیصلہ کرنے کاحکم دیتےہوئے فرمایا:’’اے نبی کریم !آپ لوگوں کےدرمیان اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کریں۔

ایک زندہ انسانی وجودکوجتنی ضرورت آکسیجن کی ہوتی ہے تقریباًاتنی ہی ضرورت نفاذاسلام میں قیام عدل کی ہے۔کیونکہ قیام عدل کے بغیراسلامی نظام کاکوئی بھی جزاپنی صحیح صورت میں نشوونمانہیں پاسکتاہے۔اسی لئے قرآن مجید اورسنت رسول اللہ ﷺ میں عدل کوقائم کرنے پربہت زیادہ زوردیاگیا ہے۔پاکستان میں عدل قائم کرنے کے راستے میں بے شماردشواریاں اوررکاوٹیں ہیں۔ان رکاوٹوں میں سے سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک وہ ادارے صحیح معنوں میں قائم نہیں ہو سکے ہیں جن کے توسط سے اسلام کاحقیقی نظام عدل قائم کیاجاسکے۔یہ کام قدرے صبرآزما اوردیرطلب بھی ہے،اگرکوئی چاہتا ہے کہ چندمہینوں میں یہ کام ہوجائے تواس کی یہ خواہش درست نہیں ہے۔تاہم اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ اس کام کوکٹھن سمجھ کر ہمت ہی ہاردی جائےاورکسی قسم کی پیش رفت ہی نہ کی جائے۔کام کرناہوگااورمحنت کرناہوگی ان شاءاللہ جلدیابدیرکامیابی حاصل ہوگی۔

بدنصیبی یہ ہے کہ آج کل عوام سے سانس لینے کی بھی قیمت وصول کی جارہی ہے۔یہ کیسی اسلامی فلاحی ریاست ہے جہاں لوگ بھوک سے مررہے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ صحیح اسلامی فلاحی ریاست تب قائم ہوگی جب ہمارے ملک میں اسلامی نظام عدالت قائم ہوگا۔ہمارے ہاں جو نظام عدالت قائم ہے، اسے اسلامی نظام عدالت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلامی نظام عدالت میں کوئی شہری قانون سے بالانہیں۔ جب حضورنبی کریم کی ذات مبارک اس سے بالانہیں ہے توپھرآپ کاکونساامتی ہے جوقانون سے بالاترقرارپائے۔اسی طرح آئین میں حکمرانوں کو عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قراردینے کی دفعات حذف کی جانی چاہئیں۔اسلامی نقطہ نظرسے دیکھاجائے تواسلامی ریاست کے صدر، وزیراعظم ،وزرااورگورنروں کوتحفظ وزیراعظم کوعام شہری کی طرح عدالت میں پیش ہونےکاپابندہوناچاہئے تاکہ بلاامتیازسب کے ساتھ یکساں سلوک کیاجا سکے۔

دراصل پاکستان کیلئے مشکلات کاآغازتواسی دن ہوگیاتھاجب قائداعظم کی رحلت کے بعدملک کے اندرسازشوں کی ایک بڑی بساط بچھادی گئی۔قائداعظم جو کرپشن سے پاک معاشرہ کی بنیادرکھنے کیلئے شب وروزمحنت فرمارہے تھے کہ اچانک اجل کابلاوہ آگیا اوراس کے بعددستورسازاسمبلی ایسے بکھیڑوں میں پڑگئی جہاں کرپشن کاایساآغازہواکہ آج تک اس ٹیڑھی دیوارکی بنیادمیں لگی ہوئی اینٹیں آسمان کوچھورہی ہیں۔اس کرپشن میں اس وقت اضافہ ہواجب ہمیں ترقی کے نام پرامریکی امدادکے نشے میں مبتلاکردیا گیااورآج یہ نشہ ہماری رگووں میں اس قدرسرایت کرچکاہے کہ ان ہم عالمی مالیاتی اداروں کی ٹھوکروں کی زدپرہیں۔آج عالم یہ ہے کہ ہماری موجودہ پارلیمنٹ اس معاملے میں اپنی پیشرتمام اسمبلیوں کومات دے چکی ہے۔اس پارلیمنٹ کویہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے بیشتر اراکین پرکسی نہ کسی حوالے سے سنگین کرپشن کے الزامات عائدہوچکے ہیں،ہمارے وزیراعظم سے لیکروزیراعلیٰ اورکابینہ کے بیشتراراکین تک ضمانتوں پرہیں اوعدوسری طرف قوم کی قسمت اورمقدرکافیصلہ پھرسے ان کے ہاتھ میں دے دیاگیا ہے۔

ہمارے حکمرانوں میں ایسے اہسے باکمال ہنرمندموجودہیں کہ ان کے بینک اکائونٹس میں خودبخودلوگ پیسے جمع کرتوادیتے ہیں جن کاان کوعلم ہی نہیں ہوتا، وہ اس رقم کوخرچ بھی کررہے ہوتے ہیں مگریہ بتانے سے قاصرہیں کہ یہ ہن کیسے برس رہاہے۔بات یہی تک نہیں بلکہ ایک صاحب نے صرف اپنے مکان کیلئے ایک سرکاری رہائشی سکیم کانقشہ ہی بدل ڈالا،جب ان سے وجہ دریافت کی گئی تووہ ایسے بیمارہوگئے کہ چلناپھرناان کیلئے دوبھرہوگیااورہسپتال سے ان کی تصاویرجاری ہوناشروع ہوگئیں کہ اب دمِ واپسی ہے لیکن اب پچھلے تین ماہ سے ایسے روبصحت ہیں کہ بیرون ملک کے دوروں کے علاوہ اگلی حکومت کے پلان کیلئے مستقل ریشہ دوانیوں میں مشغول ہیں۔

مشرف نے اپنے دورمیں احتساب کے قوانین میں یقیناًایک شق شامل کی تھی جس کی تحسین دنیاکے تمام ماہرین قوانین نے کی کہ آمدن اوراثاثوں کی جوابدہی ہراس سرکاری عہدیدارپرعائدہوتی ہے کہ جس کی آمدن توتمہاری پچاس پزارماہانہ ہے لیکن وہ تین کروڑکی گاڑی اوربیس کروڑکے اثاثوں کامالک کیسے بن گیا؟ اگروہ شخص قانونی طورپرثابت نہیں کرسکتاتووہ پھرمجرم ہے اوراس کے تمام اثاثے نہ صرف بحق سرکارضبط کرلئے جائیں بلکہ معاشرہ کیلئے بطورعبرت ان کا ٹھکانہ جیل ہوناچاہئے۔ اقوام متحدہ کے ایک کنونشن میں یہ بتایاگیاکہ کہ مشکوک آمدنی سے حاصل شدہ اثاثوں کے بارے میں ثبوت مہیا کرنااس کی ذمہ داری ہے جس کے قبضے میں وہ اثاثے ہیں۔

اب ہماری پارلیمنٹ نے نیب کے قانون کی اس شق کوختم کرکے یہ لازم کردیاہے کہ پہلے نیب یہ ثابت کرے اورعدالت میں اگرنیب کاافسریہ ثابت کرنے میں اگرناکام ہواتوعدالت اس تفتیشی افسرکوپانچ سال کیلئے جیل بھیج سکتی ہے۔اب آپ زرایہ تصورکیجئے کہ وہ کون ساپاگل تفتیشی افسرہوگا جو کرپشن کے ملزم کوجیل بھیجنے کی بجائے خوجیل جانے کارسک لے گا۔گویاہم نے ساری دنیاکو یہ پیغام دیاہے کہ پاکستان توایساکرپشن فری ملک ہے جہاں کرپشن کے الزام لگانے پرہی جیل یاتراہوسکتی ہے۔

اگرہم باہرکے ممالک پرایک نظردوڑائیں تومعلوم ہوتاہے کہ جوچیزان قوموں کی ترقی کاباعث ہے اورافراتفری سے عوام کوباہر نکال کرایک ساتھ کھڑاکررکھاہے وہ ان کاقانون ہے۔اس کے برعکس اگرمیں اپنے پیارے وطن میں دیکھوں توہماراملک جس بے سکونی اوربے چینی سے دوچار ہے اس کی باقی وجوہات کے ساتھ ساتھ جوسب سے بڑی وجہ ہے وہ امیراورغریب کیلئے قانون میں فرق ہے۔لوگوں کے سامنے توقانون کو سب کیلئے برابردکھایا جاتا ہے لیکن جب عملی طورپربات کی جائے توپاکستان کاقانون صرف اورصرف غریب افرادکیلئےہے۔میرے ملک کاعام شہری اگرچھوٹے سے چھوٹاجرم بھی کرلے تواس پرپورے کاپوراقانون حرکت میں آجاتاہے،اس کے برعکس ایک امیرآدمی سرعام جرم کرکے آرام وسکون سے اپنااثرورسوخ استعمال کرتاہے اورقانون کی گرفت سے باآسانی نکل جاتاہے۔کچھ عرصہ قبل میری نظرسے ایک کیس گزراکہ بھوک کی وجہ سے چوری کرنے پرکسی خاتون کوقیدکی سزاسنائی گئی تھی۔اس کے برعکس اگرہم دیکھیں توہمارے جوبڑے بڑے سیاستدان کرپشن کی انتہاکرکے ہمارا ملک کھاگئے وہ اثرورسوخ استعمال کرکے قانون کی گرفت سے دوراپنی زندگی گزاررہے ہیں،نہ توان پرکوئی ہاتھ ڈالتاہے اورنہ انھیں کوئی قیدکرتاہے۔ میرا سوال ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف کایہ دہرامعیارکیوں ہے؟

دوسری بدنصیبی یہ ہے کہ آج انصاف مہنگاہوچکا ہے اورعام شہری کیلئےانصاف حاصل کرنابہت مشکل ہوگیاہے۔اسلامی عدل کو سامنے رکھاجائے تومیں سمجھتاہوں کہ انصاف کوسستااورسادہ ہوناچاہئے تاکہ عام شہری باآسانی اپناحق حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔حضرت عمرفاروقؓ نے اسلام میں نظام عدالت کی دینی اہمیت،عدلیہ کی خصوصیات،فیصلوں پرمراجعت،حقوق کا تحفظ، قانون کی بالادستی اورکتاب وسنت کے ساتھ قیاس واجتہادکواختیار کرنے ، فریقین کوگواہی کاپوراحق دین،عدالتی طریق کاراورقواعد وضوابط پرمشتمل ایک جامع عدالتی چارٹرتیارکیاتھاحضرت عمرؓکے عہدہی میں عدلیہ کانظام قائم ہوا۔حضرت عمرؓسے پہلے حضرت ابوبکرصدیقؓ کاعہدتھا،اس سے پہلے عہدرسالت تھااورپوراقرآن حکیم موجودتھا۔پھران کےپاس ہرفیصلے کونافذ کرنے کیلئےقوت نافذہ موجودتھی۔باقاعدہ تحقیق کاایک محکمہ قائم کررکھاتھا۔جب کوئی کیس رپورٹ ہوتاتواس کی تحقیق کیلئے ایک تفتیشی افسرمقررہوتا جو باقاعدہ تفتیش کرکےحقائق سامنے لاتا۔پھراس کے بعدباقاعدہ سماعت ہوتی اورفریقین کوپیش کیاجاتا،گواہیاں ہوتیں۔ اس زمانے میں نظام عدالت میں کسی قسم کی کوئی کورٹ فیس نہیں تھی۔نظام عدل سستاجلداورسادہ تھا۔اس میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں تھی۔

کون صحیح ہے اورکون غلط۔آخر ان سب باتوں میں قصورہے کس کا؟ہمارے عدالتی نظام کا،ہمارے آئین کا،ہمارے حکمرانوں کا، ہمارے منصفوں کایا ہماری عوام کا؟مگرقصورجس کسی کابھی ہواس تمام صورتحال میں اگرکسی کاکوئی نقصان ہوتاہے تووہ صرف اس مملکت خدادادپاکستان کااوراس عوام کاجس کے خون پسینے کی کمائی سے ان منصفوں،قانون کے دعویداروں اور رکھوالوں کاپیٹ اورکرپٹ سیاستدانوں کی تجوریوں بھری جاتی ہیں۔بے چاری عوام کوآٹا،دال کے بھاؤکے چکرمیں اتناالجھادیاگیا ہے کہ وہ اپنے حق کوپہچاننے سے ہی محروم ہوگئی ہے۔ایوب خان کے دورمیں چینی پر”چار آنے”کااضافہ کیا گیاتھاتوپوری قوم ڈکٹیٹرکے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی اوراضافہ واپس لے لیاگیاتھامگرآج پٹرول،گیس،بجلی،اناج اوردیگراشیائے خوردونوش کی قمیتوں میں ہوشربااضافہ ہوگیاہے مگرعوام کو تولگتاہے کہ سانپ سونگھ گیاہے۔

ایک ضرب المثل بڑی مشہورہے کہ”بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کوکھاجاتی ہے”میں آج تک اس کی حقیقت کااندازہ نہیں کرپایا تھامگرکچھ عدالتی فیصلوں کے پیش نظراب ضرب المثل کے معانی مکمل طورپرسمجھ میں آگئےہیں۔جب ہم پاکستان میں کرپشن کی بات کرتے ہیں توہماری نظریں عدالت عظمیٰ کی طرف ہی اُٹھتی ہیں مگرجب عدالت ہی کرپشن کے الزامات کوطول دے اوران الزامات میں ملوث افرادکوضمانت پررہا کرتی رہے توملوث افرادکوسزائیں کیسے ملیں گی؟ پاکستان کے عدالتی نظام پراب پہلے سے زیادہ سوالات اٹھناشروع ہوگئے ہیں اوراٹھیں بھی کیوں نہ جب کسی غریب کوتوقیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے مر جانے کے دوسال بعد”باعزت بری”کاپروانہ ملے مگرامیرکوفوری ضمانت پررہاکردیاجائے۔جب امیرکیلئے قانون الگ اورغریب کیلئے قانون الگ ہوتو ریاستیں جنگل کامنظرپیش کرنے لگتی ہیں جہاں شیرچھوٹے جانوروں کابے دریغ شکارکرتاہے اوروہ کسی قانون کی گرفت میں نہیں آسکتا۔

کمزوراورطاقتورکیلئے الگ الگ قانون نہیں ہوناچاہیے۔عدالتیں عوام میں اپنااعتمادبحال کریں۔عدالت جب کسی طاقتورشخص کو ریلیف دے توایک عام آدمی کاخیال بھی ذہن نشین رکھے۔ججزکی ذمہ داری ہے کہ وہ عدل وانصاف کے تقاضے پورے کریں۔ اسلام نے عدل وانصاف کے تقاضے واضح انداز میں بیان کردئیے ہیں۔جب تک کمزوروں کوانصاف نہیں ملے گااس وقت انصاف کابول بالاممکن نہیں۔عدل کے معنی حق دارکواس کاپوراحق اداکر دیناہے۔اسلام میں عدل وانصاف پربہت زوردیاگیاہے۔یہ وہ وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سربلندی وسرفرازی سے ہم کنارہوتی ہیں اورجن معاشروں میں اس گوہر گراں مایہ سے محرومی پائی جاتی ہے وہ رْو بہ زوال ہوکرتباہی وبربادی سے دوچارہوجاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجیداوراحادیث مبارکہ میں عدل وانصاف کے قیام پربے انتہازوردیاگیاہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ قائداعظم کی وفات کے بعداس مملکت کومخلص لیڈرمیسرنہ ہوا،جوآیاوہ اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہا کسی نے اس ملک کے بارے میں نہیں سوچا۔سوچتابھی کیوں؟جب وہ خوداس ملک کے حالات سے واقف نہ ہو،جس کے بچے یہاں کے فرسودہ نظام تعلیم کے تحت نہ پڑھتے ہوں،جن کواگرکھانسی بھی آ جائے توعلاج کیلئے فوراًبیرون ملک روانہ ہوجاتے ہوں تو ان لوگوں کویہاں کے اسپتالوں کی حالت زارکاکیسے پتہ چلے؟ جنہیں جرائم پیشہ افراد تونظرآتے ہیں مگروہ جرائم کے دلدل میں کیوں اورکیسے پھنسے اس کاسدباب کوئی نہیں کرناچاہتا۔مگرآفرین ہے عوام پرجوبارباران ہی لوگوں کومنتخب کرکے جونک کی مانندخون چوسنے کیلئے ایوانوں میں لے جاتے ہیں۔ایک بڑامشہورلطیفہ ہے کہ”ایک آدمی سے کسی نے پوچھا:آپ گرفتارکیوں ہوئے تھے؟اس نے کہا:رشوت لیتے ہوئے،اوررہاکیسے ہوئے؟رشوت دیکر”کچھ ایساہی حساب ہمارے ملک میں قانون کاہے جس کا حشر نشربگاڑدیاگیاہے،یہ قانون صرف چھوٹی مچھلیوں کوپکڑنے کیلئے ہے،بڑی مچھلیاں تواس جال کوچیرتی ہوئی دوسری طرف نکل جاتی ہیں۔ہمارے یہاں قانون اورعدالتی نظام کی مثال اس مکڑی کے جالے کی سی ہے جس میں چھوٹے کیڑے مکوڑے تو پھنس جاتے ہیں مگربڑے جانوراس کوتہس نہس کرکے نکل جاتے ہیں۔

جہاں قانون کی عملداری ہوتی ہے وہ قومیں دنیامیں باعزت تصورکی جاتی ہیں اور وہی ممالک ترقی کرتے ہیں جہاں قانون کی نظرمیں امیرغریب، چھوٹابڑا سب برابرہوں۔جورہنماءاصول آج سے1400سال پہلے ہمارے مذہب نے پیش کئے،آج ان پرعمل کرکے غیر مسلم ترقی کی جانب گامزن ہیں۔عدل وانصاف، رواداری،فلاح وبہبودپرعمل پیراہوتے ہوئے وہ اپنے وطن کودنیامیں باعزت مقام دلوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگرجن اصولوں کو ہمارے مذہب نے پیش کیا،اُن سے روگردانی کرکے ہم نے اپنے لئے تنزلی کاراستہ اپنالیا۔ضرورت اس اَمرکی ہے کہ ہمیں اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی،ہمیں اپنے قانون اورعدالتی نظام کوازسرنو اسلامی احکامات کی روشنی میں مرتب کرناہوگااوران پرعملدرآمدکیلئے سختی سے اقدامات کرناہوں گے ورنہ ہمارامقدرتباہی اور بربادی کے سواکچھ نہیں ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں