Month Of Wisdom

تدبرکامہینہ ….رمضان الکریم

:Share

رمضان المکرم کی آمدپرمسلمانوں کاخوش ہونابرحق ہے کیوںکہ یہ تمام بھلائیوں کولے کرآتاہے۔اس کادن روزہ،اس کی رات قیام اوراس کے شب وروزنیکیوں اور بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کیلئے ہیں۔یہ بخشش کاموسم ہے۔اس میں نیکیوں کے اجروثواب میں اضافہ ہوتاہے۔ لہذا اس کی نعمتوں،عطیوں اورمہربانیوں سے مسرورہوناہر مسلمان کاحق ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: تمہارے زمانے کے ایام میں تمہارے رب کے تمہارے لیے عطیات ہوا کرتے ہیں،لہذاان عطیات کوحاصل کرنے میں لگے رہو۔

یہ نزولِ قرآن کامہینہ ہے۔ اس ماہِ مقدس میں ایک ایسی رات ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے۔اس ماہ میں نفل کی ادائیگی فرض کی مانندہے اوراس میں فرض اداکرناغیر رمضان میں70 فرضوں کی ادائیگی کی طرح ہے۔اس ماہ کی ان ہی برکات کی خاطررسول کریم ۖرجب ہی سے اس کے استقبال کی تیاری شروع فرماتے تھے۔رمضان نفس وروح کی راحت کامہینہ اوردل کی خوشی کا زمانہ ہے۔ اس میں ایمان کے مظاہر ہر طرف نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت ہوتی ہے، خود غرضی نہیں بلکہ ایثارہوتاہے۔ اس میں سختی وتشددنہیں بلکہ کرم ومہربانی ہوتی ہے۔اس ماہِ مبارک میں مسلمان کوخواہ کوئی کتناہی برانگیختہ کر دے یااسے کوئی کتناہی غصے میں لے آئے،یااگرخدانخواستہ اسے کوئی گالی بکے یااس پرکوئی الزام تراشے،ان تمام صورتوں میں مسلمان بس یہ کہتاہے کہ:میں روزے سے ہوں۔ظاہرہے کہ مسلمان اپنے منہ سے کوئی ایسالفظ نہیں نکالتاجوبے معنی ہو،جو نفس کی گہرائیوں میں ثبت نہ ہو،جواس کے ایمان کی ترجمانی نہ کرتا ہو،جس سے شیاطین جِن وانس پراسے فتح وکامیابی نہ ملتی ہو۔ مسلمان میں روزے سے ہوں کے الفاظ دہراتاہے تواس کاظاہروباطن ہم آہنگ ہوتاہے۔ وہ ایک اخلاقی اسلامی شخصیت کامظہر کامل بن کریہ الفاظ اداکرتاہے۔

رسالت مآبۖ فرماتے ہیں:جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے توشیطانوں کوجکڑدیاجاتاہے،سرکش جنوں کوپابندِ سلاسل کردیاجاتا ہے،دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اوراس کاکوئی دروازہ کھلانہیں رہنے دیاجاتا۔بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اوراس کاکوئی دروازہ بندنہیں رہنے دیاجاتا۔حق تعالی کی طرف سے ایک پکارنے والاپکارکرکہتاہے:اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ!اوراے شرکے طلب گارپیچھے ہٹ!اس ندائے ربانی پرلبیک کہنے کیلئے کیامسلمان نیکی کی چاہت میں آگے نہ بڑھے گا؟ضروربڑھے گا۔

اپنے خالق کی معرفت حاصل کرنے کایہ بہترین موقع ہے۔آپ اس ماہِ مبارک میں نازل ہونے والی کتاب کی تلاوت کیجیے اوراس میں خوب تدبرکیجیے۔ آپ غورکیجیے توآپ کی سماعت سے مخاطب ہوکرکوئی کہہ رہاہوگا:جس صورت میں چاہاتجھ کوجوڑکر تیارکیا (الانفطار8)اللہ نے انسان کوپیداکیا،پھراس کی نوک پلک سنواری ،اسے پیداکیااوراسے راہ نمائی دی۔دورانِ تلاوت ہی کوئی آپ سے مخاطب ہوکرآپ کوایک زندہ جاویدحقیقت سے آگاہ کررہاہوگا: اے انسان،توکشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلاجارہاہے اوراس سے ملنے والاہے۔(انشقاق:6)

لہذا،توبہ کیلئے جلدی کیجیے،اپنے رب کی طرف رجوع کیجیے تاکہ آپ تروتازہ چہرے کے ساتھ اس سے ملاقات کرسکیں۔ آپ جلدی قدم بڑھایئے اوراس کے جودو سخا،کرم ولطف اورمغفرت واحسان کے عطیات کو سمیٹ لیجیے۔ آپ اپنے حواس خمسہ پرغورکیجیے،اپنی پیدایش کے بارے میں تدبرکیجیے،اپنی ذات کے بارے میں سوچئے۔غورکریں توآپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے جسم کے ہرجزکوخالقِ ارض وسمانے بہترین ساخت میں پیداکیاہے۔پھراس نے ہرعضو کوجوکام کرناہے اس سے ہم آہنگ کیاہے۔دیکھیے آنکھیں،زبان،ہونٹ اورجسم کے مختلف اعضااورنظام اپنے اپنے افعال کے ساتھ کیسی مطابقت رکھتے ہیں۔وہ کون سی ہستی ہے جس نے انہیں اس کام کوکرنے کی ہدایت کی ہے؟کوئی عضوسننے کیلئے ہے،کوئی دیکھنے کیلئے ہے،کوئی چکھنے اورکوئی چھونے کیلئے ہے،کوئی ہضم کرنے کیلئے ہے۔انسان اگراپنے تمام اعضاکواپنے خالق کی مرضی کے مطابق استعمال کرے تووہ جنت کاحق دارٹھہرتاہے۔اگراس ماہِ مبارک میں اترنے والی کتاب نہ اتری ہوتی تویقینا انسان بھٹکتارہتا،اوراپنے آپ پرغوروفکرسے محروم رہتا۔انسان کوکون بتاتاکہ وہ اپنی پیدائش میں،اپنے حواس میں اوراپنے جسم کے مختلف نظاموں میں ایک معجزہ ہے،قدرت کاشاہکارہے۔اس کاجسم اوراس کے تمام اعضااس کائنات کے ساتھ کس قدرہم آہنگ ہیں جس میں وہ رہ رہاہے۔اگریہ ہم آہنگی سلب کرلی جائے توانسان اورکائنات کے مابین رابطہ واتصال ختم ہوجائے۔ایسی صورت میں انسان کسی آرزوکوپوراکرنے یاکسی چیزکودیکھنے یاکسی معاملے میں غوروفکرکرنے سے قاصررہ جائے۔

بلاشبہ اللہ ہی خالق ہے،قادرہے،کائنات کااورانسان کاپیدافرمانے والاہے،خود تمہارے اپنے وجود میں بہت سی نشانیاں ہیں: کیاتم کو سوجھتانہیں (الذاریات:21)
ا اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اورزمین کی قِسم سے بھی انہی کے مانند۔ان کے درمیان حکم نازل ہوتارہتاہے (یہ بات تمہیں اِس لیے بتائی جارہی ہے)تاکہ تم جان لوکہ اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے،اوریہ کہ اللہ کاعلم ہرچیزپرمحیط ہے(الطلاق:12)

روزے کی حالت میں ان تمام امورپرغوروفکر سے آپ عبادت کے سا تھ ساتھ ایمان کی لذت سے بھی آشناہوں گے۔آپ کی عبادت محض رسم نہیں رہے گی۔آپ اپنے رب کو پہچانئے،اپنے آپ پرغورکیجیے،اس کائنات کودیکھئے جس نے آپ کوچاروں طرف سے گھیررکھاہے۔آپ اپنے اورکائنات کے مابین موازنہ کیجیے،اورقرآن کے الفاظ میں اپنے آپ سے دریافت کیجیے:تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یاآسمان کی؟اللہ نے اس کوبنایا،اس کی چھت خوب اونچی اٹھائی پھراس کاتوازن قائم کیا،اوراس کی رات ڈھانکی اور اس کادن نکالا۔اس کے بعد اس نے زمین کوبچھایا،اس کے اندرسے اس کاپانی اورچارہ نکالا،اورپہاڑاس میں گاڑدیے سامانِ زیست کے طورپرتمہارے لیے اورتمہارے مویشیوں کیلئے(النزعت)قرآن مجیدمیں غورکرناچاہئے۔کیا اِن لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا، یادلوں پران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟(محمد)

انسان اپنے رب کی نافرمانی کرکے اپنے ساتھ خودزیادتی کرتاہے۔سوال یہ ہے کہ انسان خیانت کیوں کرتاہے؟اپنے پروردگارکی معصیت کیوں کرتاہے؟ وہ تکبر کیوں کرتاہے؟اپنے آپ کوبڑاکیوں سمجھتاہے؟کیاغوروفکرتجھے اللہ کے شایانِ شان قدردانی کی دعوت نہیں دیتاکہ تواللہ کی رحمت کی امیدرکھے اوراس کے عذاب سے ڈرے؟ قرآن نے اس ماہِ مبارک میں نازل ہوکرتجھے وہ کچھ بتادیاجوتونہیں جانتاتھااوریوں اللہ نے تجھ پرفضلِ عظیم کیااورمجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ گزشتہ صدی میں ربِ کریم نے پاکستان کی شکل میں براعظم کے مسلمانوں پرپاکستان جیسی معجزاتی ریاست جیسافضل عظیم فرمایا۔

اس عظیم خیرکیلئے ہم نے اپنے رب سے بڑی مناجات،قربانیوں اوردعاں میں ایک ایسے خطہ ارض مانگااورمیرے رب نے وہ ہمیں عطاکیا۔ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کس دن معرض وجودمیں آیا۔حکومت برطانیہ کی جانب سے 14اگست ،بروزجمعرات، صبح نوبجے دستورسازاسمبلی کے خصوصی اجلاس میں مائونٹ بیٹن نے آزادی اورانتقالِ اقتدارکااعلان کیا۔ قیامِ پاکستان کے لئے مڈنائٹ کاوقت طےہواتھا۔14اور15اگست کی درمیانی شب مطابق27رمضان المبارک 1366ھ رات ٹھیک بارہ بجے دنیاکے نقشے پرایک آزاداورخودمختار اوردنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت کااضافہ ہوا ،جس کا نام ”پاکستان”ہے۔

آزادی کااعلان صبح دستورسازاسمبلی میں ہوچکاتھا۔پاکستان کے پرچم کی منظوری دستورسازاسمبلی سے12اگست کولی جاچکی تھی۔چنانچہ کراچی میں 14 اگست کوقائدِ اعظم قومی پرچم لہرانے گئے تومولاناشبیراحمدعثمانی کوساتھ لے گئے اورانہی سے پرچم کشائی کی رسم اداکروائی۔قائدِاعظم کے حکم پرڈھاکہ میں مولانااشرف علی تھانوی کے خواہرزادے مولاناظفراحمدعثمانی نے پاکستان کاپرچم لہرانے کااعزازحاصل کیا۔آزادی اورانتقالِ اقتدارکااعلان اور پاکستان کے پرچم لہرانے کی رسم14 اگست کوہوئی اور 14اگست کے دن26رمضان تھا۔دوپہر2بجے مائونٹ بیٹن دہلی روانہ ہوگئے،جہاں اسی رات 12 بجے بھارت کی آزادی کے اعلان کے ساتھ انہیں گورنرجنرل کامنصب سنبھالنا تھا۔

14/15اگست کی درمیانی شب لاہور،پشاوراورڈھاکہ کے ریڈیوسٹیشنوں سے رات گیارہ بجے آل انڈیاریڈیوسروس نے اپنا آخری اعلان نشرکیا۔ 12بجے سے کچھ لمحے پہلے ریڈیوپاکستان کی شناختی دھن بجائی گئی اورظہورآذرکی آوازمیں انگریزی زبان میں اعلان گونجاکہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزادوخودمختارمملکت وجود میں آئے گی۔رات کے ٹھیک12بجے پہلے انگریزی اورپھراردومیں یہ الفاظ گونجے:یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے۔ فوراًبعدمولانازاہرالقاسمی نے قرآن مجید کی سور فتح کی آیات تلاوت فرمائیں ۔15اگست کو جمعة الوداع تھا۔اسی دن پاکستان کاپہلاسرکاری گزٹ شائع ہواچنانچہ15-14اگست کی درمیانی شب”’لیلة القدر’ ‘تھی۔

مجھے پروفیسر مرزا محمدمنور مرحوم ماہرِاقبالیات اور ماہرِ تحریکِ پاکستان اور قائداعظم کے الفاظ یاد آرہے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب ”حصارِ پاکستان”کے صفحہ نمبر194 پر لکھتے ہیں: لاکھ لاکھ شکر اس خدائے مہربان کا جس نے اولادِآدم کی دائمی ہدایت کے لئے قرآن الفرقان ،ماہِ رمضان کی آخری متبرک راتوں میں سے ایک میں نازل کرنا شروع کیا، اسی طرح لاکھ لاکھ شکر خدائے رحمن کا جس نے رمضان ہی کے ماہ مبارک کی آخری مقدس راتوں میں سے ایک میں امتِ مسلمہ کو پاکستان عظیم الشان کی نعمتِ مترقبہ سے نوازا۔

یقیناًانسان اپنے رب کی نافرمانی کرکے اپنے ساتھ خودزیادتی کرتاہے۔سوال یہ ہے کہ انسان خیانت کیوں کرتاہے؟اپنے پروردگارکی معصیت کیوں کرتا ہے ؟ وہ تکبرکیوں کرتاہے؟ اپنے آپ کوبڑاکیوں سمجھتاہے؟کیاغوروفکرتجھے اللہ کے شایانِ شان قدردانی کی دعوت نہیں دیتاکہ تواللہ کی رحمت کی امید رکھے اوراس کے عذاب سے ڈرے؟ قرآن نے اس ماہِ مبارک میں نازل ہوکرتجھے وہ کچھ بتادیاجوتونہیں جانتاتھااوریوں اللہ نے تجھ پرفضلِ عظیم کیا۔

امام ابن قیم فرماتے ہیں:سب سے عجیب بات یہ ہے کہ تم اللہ کوجانتے ہواورپھراس سے محبت نہیں کرتے۔ اس کے منادی کی پکارسنتے ہواورپھرجواب دینے اورلبیک کہنے میں تاخیر سے کام لیتے ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کرنے میں کتنا نفع ہے مگرتم دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے پھرتے ہو۔تم اس کے غضب کی جانتے بوجھتے مخالفت کرتے ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ اس کی نافرمانی کی سزاکتنی بھیانک ہے مگرپھربھی تم اس کی اطاعت کرکے اس کے طالب نہیں بنتے ہو۔افسوس کہ تم اس ماہ مبارک کے قیمتی لمحات ضائع کردیتے ہواوران کے دوران اللہ کے قرب کوتلاش نہیں کرتے۔ ابن قیم نے کیاہی خوب فرمایا ہے:روزے داراپنے معبود کی خاطراپنی لذتوں کوترک کرتاہے۔وہ اللہ کی محبت اوراس کی رضاکواپنے نفس کی لذات پرترجیح دیتاہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:جوکوئی بندہ، اللہ کے راستے میں ایک دن کاروزہ رکھتاہے،تواس دن کی وجہ سے اللہ جہنم کو اس شخص سے 70 خریف دورکر دیتاہے۔

امام حسن البنافرماتے ہیں:لوگ دوقسم کے ہیں۔ایک وہ جوکوئی بھلائی کرتاہے یانیکی کی بات کرتاہے توچاہتاہے کہ اس کافوری معاوضہ ملے۔اس کے
بدلے میں مال ملے جسے وہ جمع کرے،یااسے شہرت ونیک نامی ملے،یااسے کوئی مرتبہ وعہدہ ملے،یا اسے کوئی لقب ملے کہ اس لقب کے ساتھ اس کاشہرہ ہرطرف ہو۔دوسراوہ ہے جس کاہرقول وفعل محض اس لیے ہوتاہے کہ وہ خیرکوخیرہونے کی وجہ سے چاہتاہے۔وہ حق کااحترام کرتاہے اورحق سے اس کے حق ہونے کی وجہ سے محبت کرتاہے۔اسے معلوم ہے کہ دنیاکے معاملے کاسدھار صرف اورصرف حق وخیرسے ہی ہے۔انسان کی انسانیت دراصل یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو حق وخیر کیلئے وقف کردے۔

آپ ان دوقسموں میں سے کون سی قسم کے مسلمان بنناچاہتے ہیں؟کتنااچھاہوکہ آپ دوسری قسم میں داخل ہوں اورایسے مسلمان بن جائیں جوحکم کو بجا لاتاہے ، جس سے منع کیاگیا ہے اسے ترک کردیتاہے،جوکچھ مل گیاہے اس پرصبرکرتاہے۔انعام ملے توشکر کرتاہے،آزمائش آئے توصبرکرتا ہے ،گناہ کرے تومغفرت طلب کرتاہے۔آپ بھی ایسے ہی ہو جائیے۔ایسے لوگوں میں شامل ہوجائیے جن کادایاں ہاتھ صدقہ دے توبائیں کوخبرنہ ہو۔آپ کمزور کی مددکیجیے۔صلہ رحمی کیجیے۔لوگوں کے بوجھ اٹھایئے،لوگوں کی حصولِ حق میں مدد کیجیے۔ضرورت مندکاساتھ دیجیے اوراس کی مدد کیلئے تعاون کیجیے۔یتیم کے سرپردستِ شفقت رکھیے،بیوہ کی سرپرستی کیجیے۔کشمیر،فلسطین،عراق،افغانستان،سوڈان،اریٹیریا اور صومالیہ کے اپنے بھائیوں کی غم خواری کیجیے۔دنیامیں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی جان، مال، عزت وآبرو خطرے میں ہے ان کیلئے دعائیں کیجیے۔آپ ان مظلوم مسلمانوں کیلئے دعا کیجیے، جن کے گھروں کومنہدم کیاگیااورانہیں ان کے علاقوں سے بے دخل کردیا گیا۔آپ صلاح الدین ایوبی کایہ قول یادرکھیے: میں کیسے ہنسوں،جب کہ اقصی اسیرہے؟

رمضان کے اس پیغام اوروقت کی اس آوازکو توجہ سے سنیے اوراس پرغورکیجیے کہ کیاہم نے اس مہینے کاحق اداکردیا؟ اگرجواب مثبت ہے توآپ کامران وکامیاب ہیں اورآپ ناکام ونامراد نہ ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں