مودی کی حماقت

:Share

ان دنوں ٹی وی اسٹوڈیو کی آرام دہ کرسی میں دھنسے ہوئے(بخشی جیسے) بھارتی ریٹائرڈجنرل سیکورٹی کی صورتحال کا تجزیہ کرنے کے نام پرملک کوجنگ کی بھٹی میں جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں پاکستان کے خلاف فرضی جنگ سے متعلق جنون کو پروان چڑھانااب لت میں تبدیل کردیا ہے، جن کازمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ عمران خان نے ابھی نندن کورہاکرکے امن کوایک اورموقع دیاہےاس کے باوجودایسالگتا ہے کہ مودی کسی نہ کسی سطح پرکوئی اورمہم جوئی کرنے کے موڈمیں ہے۔ایک طرف مودی کی ٹیم ہےجو معاملات کو کہیں سے کہیں لے جانے کیلئے بے تاب ہے اوردوسری طرف ٹی وی اسٹوڈیومیں بیٹھے ہوئے نام نہاد دفاعی تجزیہ کارہیں جو ملک کی سلامتی کولاحق خطرات کوحدسے بڑھاچڑھاکرجنگی جنون کوہوادے رہے ہیں۔ٹی وی اینکربھی جنگی جنون کوہوادے رہے ہیں مگرانہیں جنگ کی ہولناکی کا اندازہ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھارتی فوج جدید ترین اسلحے سے بہت حد تک محروم ہے۔ ’’بروکنگز انڈیا‘‘نے ایک رپورٹ میں لکھاہے کہ میڈیا پرموجود’’اسٹریٹجک کمیونٹی‘‘محض جذبات کی رومیں فوج کے حوالے سے کچھ زیادہ ہی بڑھ چڑھ کربول رہی ہے۔1960ءکے عشرے میں اس وقت کے امریکی صدرآئزن ہاورنےملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے حوالے سے سخت انتباہ جاری کیاتھاجب انہوں نے دیکھاکہ قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے کچھ زیادہ ہی بڑھ چڑھ کراورخالص غیرحقیقت پسندانہ اندازسے بہت کچھ کہاجارہاہے توایسی باتیں کرنے والوں کے خلاف کاروائی کاانتباہ کیا۔بروکنگز انڈیانے اپنی رپورٹ میں لکھاہے کہ اِن لوگوں (ٹی وی اینکر اوردفاعی امور کے نام نہاد تجزیہ کاروں) کوکچھ اندازہ ہی نہیں کہ وہ کس لیڈرکا ساتھ دے رہے ہیں ۔معروف برطانوی جریدے دی اکنامسٹ نے مودی کوایک ایسالیڈرقرار دیا ہے جو قیامت سے کھیل رہاہے۔ پاکستان کے خلاف فضائی حملے کی صورت میں مودی نے جومہم جوئی کی وہ اس بات کو بھرپوراندازسے واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔
بالاکوٹ پرفضائی حملے کے بعدبھارت بھرزرخریدمیڈیاپراسے بڑی فتح قراردیتے ہوئےشادیانے بجائے گئے۔تجزیہ کاروں نے تو بولنے کی حدہی کردی۔اُن کے خیال میں یہ’’سرجیکل اسٹرائیکس‘‘ پاکستان کوسبق سکھانے اوراوقات میں رکھنے کے حوالے سے کافی ہیں مگراگلے ہی دن سب کچھ بدل گیا۔پاکستان نے اعلانیہ بھرپورجوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی حدود میں فوجی تنصیبات سے کچھ دوربم گراکریہ پیغام دیاکہ یہ بم تنصیبات پربھی گرائے جاسکتے تھے۔ساتھ ہی دو طیارے بھی گرائے اور پائلٹوں کوگرفتارکرلیا۔اس تبدیلی نے پورامنظرنامہ ہی تبدیل کردیا۔بھارتی میڈیا اور اس پرنمودارہوکرقومی سلامتی سےمتعلق تجزیوں میں اپنے خواب بیان کرنے والوں کیلئے یہ بہت بڑاتازیانہ تھامگربخشی بے پَرکی اڑانے سے پھر بھی بازنہ آیا۔
1961ءمیں آئزن ہاورنے اِس خطرناک حقیقت پرشدیدتشویش کااظہارکیاتھاکہ مذموم مقاصدکے حامل لوگ بہت زیادہ طاقت حاصل کرچکے ہیں۔اُنہوں نے اہم ریاستی امورپراثراندازہونے والوں کوملک کیلئے سب سے بڑاخطرہ قراردیاتھا۔یہ معاملہ واشنگٹن جیسے دارالحکومت کاتھاجہاں تمام معاملات بہت زیادہ کنٹرول میں رہاکرتے ہیں۔اب ذراسوچیے کہ نئی دہلی جیسی ڈھیلی ڈھالی جگہ کیامعاملہ ہوگا۔بھارتی پالیسی سازوں کے دل ودماغ اِس وقت اُن لوگوں کے کنٹرول میں ہیں، جوملک کی بنیادی زمینی حقیقتوں کاواقعی ادراک کیے بغیربے سوچے سمجھے بہت کچھ بیان کررہے ہیں۔بھارت میں چند برسوں کے دوران یہ تصور،بظاہر کسی جوازکے بغیر،پیدا ہی نہیں کیا گیابلکہ پروان بھی چڑھایاگیاہے کہ امریکاکی مددسے بھارت خطے میں بھرپوربالا دستی پاکرسپرپاورکادرجہ اختیار کرلے گا اوریہ سب کچھ اس لیے ضروری ہے کہ امریکی قیادت اب کسی بھی قیمت پرچین کوہرانے کانہیں بلکہ محض contain کرناچاہتی ہے،جہاں ہے وہ وہیں رہے، آگے نہ بڑھے۔
آج کی دنیامیں میڈیاوالے وہی کچھ کہتے ہیں جس کیلئے انہیں فنڈنگ کی جاتی ہے۔اگر اسلحہ ساز ادارے موزوں طریقے سے فنڈنگ کریں توایسا ماحول پیدا کرنے میں بھرپور کامیابی حاصل ہوتی ہےجس میں ہرطرف صرف جنگ اور تباہی کی بات کی جارہی ہو۔ بھارت کامعاملہ بہت عجیب ہے۔حکومتی صفوں سے باہردفاعی امورسے متعلق’’خفیہ اسٹیبلشمنٹ‘‘تیزی سے تقویت پاتی جارہی ہے۔اس کے نتیجے میں کتنانقصان ہوسکتاہے اس کاکسی کودرست اندازہ نہیں۔ جمہوریت اورامن دونوں ہی کوداؤپرلگادیاگیاہے۔2016ءمیں’’نیو یارک ٹائمز‘‘نے ایک رپورٹ میں بتایاتھا کہ کئی ممالک میں ایسے تھنک ٹینک کام کررہے ہیں جودراصل مغرب کے بڑے اسلحہ ساز اداروں کے پروردہ ہیں۔ان تھنک ٹینکس کوبڑے پیمانے پرفنڈ ملتے ہیں۔ اس فنڈنگ کی بنیادپروہ پورے کے پورے معاشرے کوجنگ پسندی کی طرف دھکیلتے ہیں۔بھارت جیسے معاشروں میں یہ معاملہ اوربھی خطرناک شکل اختیارکرگیاہے جہاں تحقیق کے نام پرمحنت کرنے والے اب ایجنڈوں پرکام کررہے ہیں۔ کل تک جوریسرچ اسکالرتھے وہ اب بہت حدتک لابسٹ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمزنے یہ معاملہ واشنگٹن کے حوالے سے بیان کیاتھاجہاں بیشترمعاملات اچھے خاصے کنٹرول میں ہواکرتے ہیں۔ایسے میں سوچاجاسکتا ہے کہ نئی دہلی میں کسی بھی بات کوغلط مقصدکیلئے استعمال کرنا کس حد تک آسان ہوگا۔
بھارت جیسے معاشروں میں حکومت،کارپوریشنزاوردانشوروں پرمشتمل ایک ایسااتحادقائم ہوچکا ہے،جوقومی مفادات کو بھی داؤپرلگارہاہے۔اس حوالے سے آئزن ہاورکابیان کردہ خدشہ بالکل درست ثابت ہواہے۔ٹرمپ کے دورمیں یہ سب کچھ مزید پریشان کن ہے۔ایک ایساماحول پروان چڑھایاگیا ہے جس کے نتیجے میں پوراملک شدید خوف اورمایوسی کے پنجے میں ہے اورنفرت خوب پروان چڑھ رہی ہے۔1984ءمیں امریکاکے بہترین سفارتکارجارج ایف کینن نے کہاتھاکہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کے مفروضے کواس قوم کے اعصاب اورحواس پرایساسوارکردیا گیا ہے کہ اب یہ لت کی حیثیت اختیارکرگیا ہے ۔پورے معاشرے میں یہ لت ایسی پروان چڑھی کہ بعد میں اس سے جان چھڑانامشکل ہوگیا۔سوویت یونین کی تحلیل کے بعدبھی امریکی معاشرہ جنگی جنون کے نشانے ہی پررہا۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ میڈیا اوردفاعی امورکے نام نہاد تجزیہ کار مذموم مقاصد کے حامل سیاستدانوں کے ساتھ مل کرملک کوکس نوعیت کی دلدل میں دھکیل سکتے ہیں۔
بھارت میں بھی تویہی ہورہاہے۔پاکستان کے خلاف جنگ کے مفروضے کوایک ایسی لت کی شکل دے دی گئی ہےجس میں پوری قوم مبتلاہے۔مودی کی حالیہ حماقت سےجموں وکشمیرکامسئلہ ایک مرتبہ پھربین الاقوامی فورمزپرسرفہرست آگیاہے لیکن بھارتی پالیسی سازکشمیریوں کے حقیقی مسائل دانش مندی سے حل کرنے کے بجائے طاقت کے ذریعے اُنہیں کچلنے کی راہ پرگامزن ہیں ۔ اجے شکل مین اسٹریم میڈیا کے اُن چندمصنفین میں سے ہیں جنہوں نے پہلے پہل اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ”بھارتیہ جنتاپارٹی نے ملک میں بڑے پیمانے پرمسلم مخالف ایجنڈابروئے کار لاتے ہوئے اُنہیں غیرمحب وطن قرار دینے پرکمرکس لی ہے۔مشکل یہ ہے کہ جب کشمیری اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرتے ہیں توانہیں ملک دشمن قراردے دیا جاتاہے،غدارٹھہرایاجاتاہے۔ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں مزیدالجھایاجاتاہے۔اس مجرمانہ سیاست میں میڈیا بھی برابرکا مجرم ہے۔بھارت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ ماہ پاکستان سے منہ کی کھائی ہے۔ایسے میں آئزن ہاور کے اس مشورے پرعمل کیاجائے کہ’’اختلافات کو اسلحے سے نہیں بلکہ ذہانت اور شائستگی سے دورکیاجاناچاہیے‘‘۔کشمیر کے معاملے میں بھارت کوانتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔اسی صورت دونوں ممالک میں سول سوسائٹی کی بقاکی راہ ہموار ہو گی۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں