گم گشتہ اقدار

:Share

ایک بہت ہی کرم فرماقاری نے پوچھاہے کہ آپ نے وطن عزیزمیں امیدکی فصل کاشت کرنے کامشورہ توخوب دیاہے مگریہ بھی توبتائیے کہ امیدکیسے کاشت کی جاتی ہے۔ہمیں کاشت کاری سے گہری دلچسپی ہےیعنی معاملہ توتدّبرکے ذیل میں آتا ہے، ہمیں تفکّر کی الف بے بھی نہیں آتی تو”تدّبر”کیاآئے گاالبتہ ایک دوباتیں توبالکل عیاں ہیں۔

مثل مشہورہے کہ ڈوبتے کوتنکے کاسہارا۔ظاہرہے کہ ڈوبتے کوتنکے کاسہاراہوتاہے توکاغذکی کشتی تواس کے مقابلے میں بڑی چیزہے۔اس میں اورکچھ نہیں توکشتی کا”ڈیزائن”موجودہوتاہے لیکن کاغذ کی کشتی کے ساتھ لکڑی کی چھوٹی سی ناؤ فراہم ہوتوکون ہوگاجوکاغذکی کشتی پرہاتھ ڈالےگا۔ظاہرہے کہ لکڑی کی چھوٹی سی ناؤکے مقابلے پرجہازفراہم ہوتو طوفان میں گھرے ہوئے لوگ جہازہی کی طرف جائیں گے اوراگرجہازکے ساتھ”سفینہ”بھی فراہم ہوتوپھرآپ کے خیال میں پھرلوگوں کاانتخاب کیاہوگا؟عقل تویہی کہتی ہے کہ لوگ جہازکوچھوڑکرسفینے کاانتخاب کریں گے۔

ظاہرہے کہ یہ”امکانات”کامعاملہ ہے۔کاغذکی کشتی کے مقابلے پرلکڑی کی چھوٹی سی ناؤکے امکانات کروڑگنازیادہ ہیں اور لکڑی کی چھوٹی سی ناؤکے مقابلے پرجہازکے امکانات اتنے ہی زیادہ ہیں۔رہاسفینہ تواس کی بات ہی کیاہے۔واضح رہے کہ امکانات میں اضافے کامطلب امیدوں میں اضافہ ہے ۔امیدوں کی فی انچ یافی ایکڑپیداوارمیں اضافہ ہےلیکن ہماری مشکل کیاہے؟ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم سفینے کوبھول کرکاغذکی کشتی کی طرف”ہماراسفینہ ہماراسفینہ”کہتے ہوئے بھاگتے ہیں لیکن کاغذ کی کشتی کیاہے اورسفینے سے ہما ری مراد کیاہے؟کاغذ کی کشتی امریکاہے۔شخصی اورگروہی آمریت ہے، خود ساختہ یامغرب سا ختہ سیکولرازم ہے۔اسلامی سوشلزم ہے۔اپنی حکومت کی فکرمیں ڈوبے ہوئے حکمرانوں کی اسلام پسندی ہے،اپنی عقل پرانحصارہے اورسفینہ کیاہے؟صرف ایک اسلام اوراس کی تہذیب وتاریخ۔

لوگ پریشان ہوتے ہیں،وہ سوچتے ہیں،ایک فرد،ایک گروہ،ایک تنظیم ،ایک پارٹی،ایک جماعت،ایک حکومت،اورایک ریاست کی حیثیت سے ان کامستقبل کیاہے؟بلاشبہ ان حیثیتوں میں کسی کامستقبل طے شدہ اوریقینی نہیں لیکن اسلام کا مستقبل طے شدہ ہے۔ اسلام ہی حق ہے۔اسلام ہی غالب آئے گا۔کل عالم اسی کاہے۔اسلام کی دائمیت یقینی ہے۔جو “دائمی” کے ساتھ ہوگاوہ بھی دائمی ہو جائے گا۔سلیم احمدکیاخوب یادآئے:
ایک پتنگے نے اپنے رقص آخرمیں کہا روشنی کے ساتھ رہے روشنی بن جائے
لیکن زیربحث موضوع کے حوالے سے اصل مشورہ یہ ہے کہ”دائمی”کے ساتھ رہئے”دائمی”بن جا ئیے۔البتہ ہماری کوشش یہ ہے کہ کیکربوتے ہیں اوراس سے انگورتوڑنے کی آرزوکرتے ہیں۔تنکے کوکشتی اورکاغذکی ناؤکوسفینہ سمجھتے ہیں اوروہ ڈوب جاتے ہیں توخودبھی مایوس ہوتے ہیں اوردوسروں کوبھی مایوس کرتے ہیں۔ذراغورتوکیجئے ہم کاغذکی کتنی کشتیاں ڈبوچکے ہیں لیکن ہماری خودفریبی ہماراساتھ نہیں چھوڑتی۔ہم بنجرزمینوں میں کاشت کاری کے جوہردکھاتے ہیں اور صحرامیں “کلّیاں”کرکے اسے سیراب کرنے کی آرزوکرتے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ زندگی کے عام معاملات میں ہم اچھی خاصی عقلمندی کامظاہرہ کرتے ہیں۔کاروبارکرناہوتوصرف وہاں پیسہ لگاتے ہیں جہاں دوکے چاراورچارکے آٹھ آنے کی قوی امیدہو۔ لوگ داؤبھی لگاتے ہیں توجیتنے والے گھوڑے پرمگراجتماعی زندگی میں جیسے ہراصول الٹ جاتاہے۔یہاں ہم نے سراسر گھاٹے کے سودے کوعزیزازجان بنایاہواہے۔ہم عارضی کاہاتھ پکڑتے ہیں اورعارضی بن جا تے ہیں۔

اصول یہ ہے کہ چائے کی پیالی میں چائے کی پیالی کے برابرہی پانی آئے گا،آپ اس میں سمندرکیابالٹی بھی نہیں انڈیل سکتے۔ چنانچہ جسے پانی کی مقدار بڑھانی ہووہ ظرف بڑھائے یابڑے ظرف سے وابستہ ہوجائے۔امیدوں کے زیر کاشت رقبے اورفی ایکڑ پیداوارمیں ازخوداضافہ ہوجائے گا۔

ہم گلیوں،بازاروں،حلف اٹھاکرعدالتوں،اسمبلیوں اوراقتدارکے ایوانوں میں بیٹھ کرکس دھڑلے سے ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اورجھوٹی گواہیاں دیکرامانت میں خیانت کرتے ہیں۔کیاساری دنیاکے سامنے ہم زبانی اورتحریری وعدے کرکے پوری مکاری کے ساتھ برملایہ نہیں کہتے کہ یہ کون سے قران وحدیث ہیں؟کیاہم یوٹرن کوسیاسی دانائی کانام نہیں دیا؟ کیاہمارے ذمہ جوامانت سپردکی گئی کہ جب تم حکمران بنوتوعدل وانصاف کانظام قائم کرو،اس میں کھلم کھلاخیانت نہیں کررہے؟کیاہم کشمیر کیلئے کسی بھی قسم کے جہادکوبرملاردکرکے تضحیک کے مرتکب نہیں ہوئے؟یہ سب کچھ کرنے کے باوجود آپ اپنے لئے کس منہ سے عزت وکامرانی کاحق مانگتے ہیں؟جب تک آپ یہ سب کچھ نہیں بدلتے،اس جھوٹ سے توبہ نہیں کرتے تومیرے رب کے رحمت کے فرشتے اس جھوٹ سے توکئی فرسنگ دوربھاگ گئے ہیں۔ہمیں توواضح طورپربتادیا گیا تھاکہ منافق کی تین نشانیاں ہیں کہ جب بات کرے توجھوٹ بولے،جب وعدہ کرے توپورانہ کرے اورجب اس کے باس امانت رکھی جائے تواس میں خیانت کرے۔اس امت پرہی نہیں بلکہ اس پوری دنیاکی ترقی کی بنیادہی ان تین ستونوں پررکھی ہوئی ہے۔اب آپ خودہی فیصلہ کرلیں کہ کیامیرا ماتم اورمیرے نالے درست نہیں کہ اپنی انہی گم گشتہ اقدارکی طرف لوٹ جانے میں ہی ہماری عافیت ہے؟

یادرکھیں ہماری ذلت ورسوائی اس وقت ختم نہیں ہوسکتی جب تک ہم واپسی کاسفرشروع نہیں کرتے۔اس کاتووعدہ ہے کہ تم نے اگرایفائےعہدنہ کیاتو دنیاکی رذیل قوموں سے رسوا ہوجاؤگے۔آج ہم اپنے اس آقاکی پہچان بھی بھول چکے ہیں وہ جوساری دنیا کا خالق ورازق ہے،جودنیاوآخرت کے تما م خزائن کا مالک ہے،اس سے مانگنے کی بجائے ہم آئی ایم ایف اور عالمی اداروں کی تمام شرائط کوبلاچون وچرامان کربھیک کاکشکول اٹھائے دربدرہورہے ہیں ۔ پھربھلاہم پررحمتیں کیسے نازل ہوں؟؟
کچھ توسمٹوکہ نظرہم بھی اٹھاکردیکھیں
ہم کواے جلوۂ بے باک حیاآتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں