اسلام میں اقلیتوں کے حقوق

:Share

ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام دین رحمت ہے اوراس کی شفقت ورافعت کادائرہ کارکسی خاص قوم ،کسی مخصوص ملت یا گروہ کیلئے وقف نہیں ہے بلکہ اسلام میں تمام بنی نوع انسانوں کیلئے خیروعافیت کے بے پناہ خزائن موجود ہیں۔ اسلام میں تمام بنی نوع انسان کواللہ کا کنبہ قرادیاگیاہے اور اللہ نے اپنے کنبے کے ساتھ بلاتفریق نیکی وبھلائی کادرس دیا ہے اوراللہ کے نزدیک سب سے بہترین انسان وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بہترین سلوک روارکھے بلکہ یہاں تک فرمایاگیاہے کہ اگرتم چاہتے ہوکہ رب کریم تمہارے ساتھ پیار کریں توتم اس کے کنبے کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آؤ۔ قرآن کریم میں تمام معاملات کوعدل وانصاف اوراحسان ومروّت سے طے کرنے کاحکم دیا گیاہے اور مسلم وغیرمسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے اوریہ بھی فرمایاگیاکہ دوسروں کے ساتھ اس طرح بھلائی کروجس طرح اللہ تمہارے ساتھ بھلائی کا سلوک فرماتے ہیں۔
اسلام میں جتنے بھی اخلاقی احکام ہیں وہ مذہب وملت کی تخصیص کے بغیرساری انسانیت کیلئے عام ہیں اوراس میں مسلم اورغیرمسلم سب شامل ہیں ۔کسی ہندوسکھ عیسائی یاکسی بھی مذہب کیلئے کوئی تفریق نہیں۔اسلام میں غریبوں کی دستگیری اورمظلوموں کی دادرسی ،اخوت ورواداری اور دیگرتمام نیک کاموںکاجوحکم دیاگیاہے وہ کسی ایک کیلئے مخصوص نہیں بلکہ اس میں اقلیتوں کا برابرکاحق ہے ۔ان احکامات میں اسلام نے اپنے ماننے والوںکی غیرمذاہب کے ماننے والوں کیلئے ایک بنیادی اصلاح کی ہے جس میں مسلم معاشرے میں اقلیتوں کے تحفظ کی تمام ترذمہ داری نہ صرف ریاست پربلکہ ہرمسلمان کواس پرعمل پیراہونے کاحکم دیاگیاہے۔اسلام کے پیغام سے پہلے تمام اہل مذاہب ایک دوسرے کو باطل اورکاذب قرار دیتے تھے حتیٰ کہ یہودی اورعیسائی جوایک ہی درخت دین ابراہیمی کی دوشاخیں ہیں ایک دوسرے کوجھوٹاسمجھتے تھے اورایک دوسرے کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے جنگ وجدل میں مصروف تھے۔ہندواپنے مذہب کے علاوہ دنیاکے کسی اور مذہب کومذہب ہی نہیں سمجھتے تھے اوریہی حال ایرانیوں کے احساسِ برتری کاتھالیکن سب سے پہلے صرف اسلام نے آکربنی نوع انسانیت کے اس نفرت اورفرق کو ختم کیاکہ دنیاکی کوئی قوم اللہ کی رحمت سے محروم نہیںاوراس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اس نے ہرقوم کی ہدائت و رہنمائی کیلئے ایک ہادی وپیغمبرمبعوث فرمایا۔
نبی کریم ۖکے لائے ہوئے دین سے قبل تمام قدیم ادیان میں اس قدرتحریف ہوچکی تھی کہ ان کے اصل حقائق وتعلیمات کوبری طرح مسخ کردیاگیا تھالیکن دین اسلام کی رحمت کااس بات سے اندازہ لگائیں کہ اس نے پہلے دن ہی اس بات اعلان کردیاکہ لَاإِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ”دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طورپرممتازہوچکی ہے۔البقرہ(۲۵۶۔۲)” بلکہ قرآن کریم نے توبحث مباحثے سے گریزاختیارکرتے ہوئے یہ حکم دیاہے کہ ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَ جَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَأَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖوَهُوَأَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ) اے رسولِ معظم! آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اورعمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اوران سے بحث (بھی)ایسے انداز سے کیجئے جونہایت حسین ہو،بیشک آپ کا رب اس شخص کوبھی (خوب جانتا ہے جواس کی راہ سے بھٹک گیااوروہ ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے النحل (۱۲۵۔۱۶)۔اسلام میں تو غیرمذاہب کے معبودوں کوبھی برابھلاکہنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے کہ مبادانادانی میں غیر مذاہب کے ماننے والے جواب میں سچے رب کوبرا بھلانہ کہیں حالانکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ شروع دن سے ان تمام مذاہب کے ماننے والوں نے باہمی اتحاد کرکے اسلام کوختم کرنے کیلئے محاذقائم کرلیاتھالیکن اس کے باوجودمسلمانوں کو ان کے درمیان بھی انصاف قائم کرنے کاحکم دیا”کہ اللہ صرف انصاف کرنے والوں کواپنا دوست سمجھتا ہے” یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اسلامی ریاست میں غیرمسلموںکوان کے حقوق سے کبھی بھی محروم نہیں کیاگیا۔
ایک دفعہ حبشہ کے حکمران شاہ نجاشی کی طرف سے ایک وفدرسول اکرم ۖکی خدمت میں حاضر ہواتومہمان نوازی کے تمام فرائض خودرسول اکرمۖ نے اپنے ہاتھوں سے انجام دیئے ۔ صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے جب مہمان نوازی کے حقوق اداکرنے کی خواہش کااظہارکیا تو رسول اکرم ۖ نے یہ ارشادفرمایاکہ انہوں نے میرے ساتھیوں کی خدمت کی تھی اس لئے میں خوداپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت کروں گا۔ نبی اکرمۖنے غیرمذاہب کے افرادکوتوتمام مساجد کی سردارمسجدنبوی میں عبادت کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی تھی۔ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کاایک وفدرسول اکرمۖسے ملنے کیلئے حاضرہوا،عیسائیوں کی نمازکاجب وقت آن پہنچاتوانہوں نے مسجدنبوی میں نمازپڑھنا شروع کی تومسلمانوں نے انہوں نے روکنے کی جونہی کوشش کی تورسول اکرمۖ نے صحابہ کومنع فرماتے ہوئے عیسائیوں کونمازپڑھنے کی مکمل اجازت دی اورعیسائیوں نے اپنے عقائدکے مطابق رسول اکرمۖ اورصحابہ کرام کی ساری جماعت کے سامنے الٹی سمت کی طرف منہ کرکے اپنی نمازادا کی۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کے اصل دشمن مشرکین عرب تھے اورمسلمانوں کے خلاف تمام مذاہب کے ماننے والے قبائل نے ایک مشترکہ محاذقائم کرلیاتھااورمسلمانوںکو تکلیف و ایذا پہنچانے اوران کوختم کرنے کیلئے برسوں جنگ وجدل اورحملوںمیں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تھامگرمسلمانوں کواپناوجودباقی رکھنے کیلئے جنگ کے دوران مقابلے کاحکم توضروردیالیکن دورانِ جنگ بھی کسی بیجازیادتی وظلم کی اجازت نہیں دی حتیٰ کہ کھڑی فصلوںاوردرختوں کو کاٹنے سے بھی منع فرمادیاگیا۔قرآن کریم میں بڑی صراحت کے ساتھ حکم دیاگیاکہ”جولوگ تم سے لڑیں،تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑولیکن کسی قسم کی کوئی زیادتی مت کروکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کوپسندنہیں کرتا”۔جن لوگوں نے صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کومسجداحرام جاننے سے زبردستی روک دیاتھاجبکہ تمام مسلمان احرام کی حالت میں تھے،ان سے بھی زیادتی کرنے سے روک دیاگیا۔ قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہواکہ”جن لوگوں نے تمہیں مسجداحرام جانے سے روکا تھا ان کایہ عمل زیادتی کاسبب نہ بنے”۔ قرآن وحدیث میں کئی مواقع پرایسے اوربے شماراحکام موجودہیں جس میں اسلام کی رواداری،اخوت اورمحبت کے بیش بہادروس موجودہیں۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ اسلام نے اپنی غیرمسلم اقلیتوں کوکیاحقوق دیئے ہیں اورمسلم ریاستوں نے کہاں تک ان پرعمل کیاہے؟؟تاریخ کی ورق گردانی کی جائے توبین ثبوتوں کے ساتھ اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ غیرمسلم اقلیتوں کیلئے اسلام سراسرایک رحمت،امن اوربھائی چارے کا مذہب ثابت ہواہے۔ان کے دورِحکومت میں ان اقلیتوں کوجوحقوق واختیارات اسلام نے دیئے ہیں ایسے حقوق واختیارات توان کی اپنی قوم اوراپنے ہم مذہب حکومتوں میں بھی میسرنہ تھے۔ان کی حیثیت توغلاموں سے بھی بدترتھی اوران کاکام تواپناخون پسینہ بہاکراپنے حاکموں اورجاگیرداروں کیلئے سامان تعیش فراہم کرناہوتاتھا۔ان کوادنیٰ ادنیٰ غلطیوں پرانتہائی وحشیانہ سزائیں دی جاتی تھیں۔وہ قومیں جوآج خود کوبڑامہذب اور اخلاق کے اعلی اقدارکے حامل ہونے کادعویٰ کرتی ہیں ان کی تاریخ خودان کی لائبریریوں میں ان کامنہ چڑارہی ہیں۔اس کی ایک ادنیٰ مثال سمجھنے کیلئے ایک یہی واقعہ کافی ہوگا۔شیفرڈبش مغربی لندن برطانیہ کاایک بہت مشہورعلاقہ ہے جو”بش چرواہے” کے نام سے آج بھی موسوم ہے۔اس چرواہے کے غلطی سے چلائے ہوئے تیرسے اس کاؤنٹی کے شہزادے کے محبوب ہرن کی آنکھ پھوٹ گئی جس کی پاداش میں اس شہزادے نے اس قبیلے کی تمام افرادکی آنکھیں پھوڑدیں،جہاں ایسی کئی اور وحشیانہ سزاؤں کابھی اس کتاب میں ذکرملتاہے وہاں اسلام میں مسلم اقلیتوں کو جوحقوق دیئے گئے ان کابھی ذکر موجود ہے۔
حضرت عمر فاروق کے زمانے میں پوراجزیرة العرب اسلام کے زیرنگیں ہوچکاتھا۔غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا سب سے پہلاواقعہ نجران کے عیسائیوں سے معاہدے کاملتاہے جس کانعم البدل اورنظیرآج تک تاریخ دینے سے قاصرہے۔ ہمیں آج بھی تاریخ میں اس معاہدے کی بارہ شرائط ملتی ہیں۔
(۱)ان کی جان ہرحال میں محفوظ رہے گی (۲)ان کی زمین وجائیداداور تمام مال واسباب ان کے اپنے قبضے میں رہے گا(۳)ان کومکمل مذہبی آزادی ہوگی اوران کے مذہبی عہدیدار بدستور اپنے اپنے عہدوں پرقائم رہیں گے اوران کومعزول کرنے کااختیاربھی ان کے اپنے پاس ہوگا (۴)ان کی عبادت گاہوں،صلیبوں،عورتوں اوربچوںکوکوئی نقصان نہیں پہنچایاجائے گا(۵)ان کی کسی بھی چیزپرہرگزقبضہ نہیں کیاجائے گا (۶)(مسلمانوںکویہ حکم ہے کہ ریاست جب بھی جہادکااعلان کرے گی توتمام مسلمانوں پراس کی تعمیل فرض ہوگی) تاہم ان سے کسی بھی قسم کی کوئی بھی فوجی خدمت نہیں لی جائے گی (۷)پیداوارکاعشربھی نہیں لیا جائے گا(۸)ان کے ملک میں فوج بھی نہ بھیجی جائے گی (۹)ان کے مقدمات کافیصلہ انہی کے قوانین کے مطابق کیاجائے گا(۱۰)ان پرکسی قسم کاکوئی ظلم بھی نہ ہونے پائے گا(۱۱)کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں کسی اورکوگرفتارنہ کیاجائے گا اور(۱۲) ان پرکسی بھی قسم کاکوئی بھی ظلم روا رکھنے کی قطعاًاجازت نہ ہوگی۔
غیر مسلموں کو ان کے مذہب و مسلک پر برقرار رہنے کی پوری آزادی ہوگی۔ اسلامی مملکت ان کے عقیدہ و عبادت سے تعرض نہ کرے گی۔ اہلِ نجران کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا :ولنجران وحاشیتہم جوار اللہ و ذم محمد النبی رسول اللہ علی نفسہم وملتہم ورضہم وموالہم وغائبہم وشاہدہم و بیعہم وصلواتہم، لا یغیروا اسقفا عن اسقفیتہ ولا راہبا عن رہبانی ولا واقفا عن وقفانیتہ وکل ما تحت یدیہم من قلیل و کثیر.طبقات ابن سعد (۲۲۸:۱:۳۵۸) نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ اور اس کے رسول محمد ۖکی پناہ حاصل ہے۔ ان کی جانیں، ان کی شریعت، زمین، اموال، حاضر و غائب اشخاص، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔ کسی پادری کو اس کے مذہبی مرتبے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اورکسی صاحب منصب کواس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا اوران کی زیر ملکیت ہرچیز کی حفاظت کی جائے گی۔اس معاہدے میں اقلیتوں کووہ تمام حقوق حاصل ہوگئے جس کاانہوں نے اپنے ہم مذہب حکومتوں میں کبھی تصوربھی نہیں کیاتھا ۔
اس معاہدے میں اقلیتوں کووہ تمام حقوق عطاکردیئے گئے جوان کے جان ومال کے تحفظ کیلئے ضروری تھے ۔ان بارہ شرائط سے اسلام کااپنی اقلیتوں سے اخوت ورواداری اورعدل وانصاف کے اس سنہری دورکاپتہ چلتاہے جوصدیوںتک نافذالعمل رہا جس سے متاثرہوکربغیرکسی جبرکے ہزاروں افراد اسلام کے دائرہ کارمیں نہ صرف داخل ہوئے بلکہ ان میں کئی افرادنے اسلام کی بے مثال خدمت بھی کی۔اسلام میں ذمیوں کی جان مسلمانوں کی جان کے برابرقراردی گئی۔اس زمانے میں یہ عام دستورتھاکہ قاتل کومقتول کے بدلے میں قتل کردیاجاتا لیکن اگرمقتول کے ورثاء راضی ہوجاتے توقصاس کی بجائے خون بہااداکردیاجاتااوریہی دستور(یعنی قصاص وخون بہا)رسول اکرمۖ اورخلفاء راشدین کے زمانے کے بعد بھی عرصہ درازتک رائج رہا۔ مشہورتاریخی کتاب بیقہی میں یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اکرم ۖ کے دورمیں ایک مسلمان نے ایک ذمی اہل کتاب کوقتل کردیا، رسول اکرمۖ کے سامنے جب یہ معاملہ پیش ہواتوآپ ۖ نے فرمایاکہ”مجھ پرذمی کے ساتھ کئے گئے عہدپوراکرنے کی زیادہ ذمہ داری ہے اورقصاص میں مسلمان کوقتل کرنے کاحکم دے دیاگیا” ۔اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ذمیوں کی جان ومال بھی مسلمانوں کے جان ومال کے برابرسمجھی جاتی تھی اورقصاص وخون بہا اوردیت کاجوقانون مسلمانوں کیلئے رائج تھاوہی قانون غیرمسلم اقلیتوں کیلئے بھی تھااوراسی طرح غیرمسلم اقلیتوں کی جائیداد اور املاک کی مکمل ذمہ داری بھی اسلامی ریاست پرعائد ہوتی تھی۔حضرت عمرفاروق نے مفتوحہ علاقوں میں وہی قانون نافذکئے جوخود مسلمان علاقوں میں رائج تھے۔کسی قسم کے قانون میں کوئی تفریق روانہ رکھی گئی تھی۔
آج بھی تاریخی کتب میںشام وعراق اورمصرمیں اقلیتوںکے ساتھ اخوت ورواداری اورعدل وانصاف کاذکرملتاہے اوراس سے دوسرے مفتوحہ ملکوں کے بارے میں قیاس بھی کیا جا سکتا ہے ۔ جب عراق فتح ہواتواس وقت بڑے بڑے صحابہ کی رائے تھی کہ یہاں کی اراضی مسلمانوں میں تقسیم کر دی جائے لیکن حضرت عمرفاروق کی رائے اس سے بالکل مختلف تھی اوران کااصرارتھا کہ اس زمین پرانہی کاشتکاروں اورزمینداروں کاقبضہ برقرار رہنا چاہئے جواس کوپہلے سے کاشت کر رہے ہیں بلکہ آئندہ بھی ان کی نسلیں اس زمین پرکاشت جاری رکھیں اوراس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ کئی دن کے بحث ومباحثے کے بعدصحابہ کرام کوحضرت عمرفاروق کی رائے سے اتفاق کرناپڑا اوراس طرح مفتوحہ علاقوں کی تمام اراضی سابقہ مالکان کے پاس رہنے کاقانون تشکیل پاگیاکہ یہ اراضی نسل درنسل منتقل ہوتی رہے گی اوروہ اپنی مرضی سے اس کی خریدوفروخت بھی کر سکتے ہیں۔حکومت کی طرف سے ان کومالکانہ حقوق دیئے گئے اورحکومت کوبھی ان اراضی کو واپس لینے کاکوئی اختیارنہیں تھاتاوقتیکہ متعلقہ فریق کواس کی مرضی کے مطابق اس کا معاوضہ اداکردیاجائے۔
حضرت عمرفاروق کے زمانے میںجب کوفہ آبادہواتوشہرمیںایک جامع مسجدکی تعمیرمیں حیرہ کے خستہ وکھنڈرمحلات کاملبہ استعمال کیاگیا۔ان محلات کاکوئی وارث نہ تھالیکن زمین ذمیوں کی تھی جس کیلئے اس ملبے کی قیمت ذمیوں کے جزیہ سے منہاکرکے عدل وانصاف کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی گئی۔تاریخ میں مفتوحہ اقوام سے جومعاہدے نقل کئے گئے ہیں ان میں اقلیتوں کومکمل مذہبی آزادی کی سرکاری ضمانت دی گئی تھی۔ جس طرح اسلامی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو جانے یا بوجہ عمر رسیدگی اور غربت کے محتاج ہو جانے پر کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے اسی طرح اسلامی بیت المال پر ایک غیر مسلم کے معذور ہونے یا عاجز ہونے کی صورت میں اس کی کفالت لازم ہے۔ کتاب الاموال میں ابوعبید نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے :ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تصدق صدقہ علی اہل بیت من الیہود فہی تجری علیہم.رسول اللہۖ نے یہودیوں کے ایک گھرانہ کو صدقہ دیا اور حضورۖ کے وصال کے بعد بھی وہ انہیں دیاجارہاہے۔عہد صدیقی میں شام کے مفتوحہ علاقوں میں معاہدے کی ایک مثال حضرت خالد بن ولید نے اہل حیرہ کوجوامان نامہ لکھ کر دیا تھااورشام کے پادری کوایک تحریری معاہدے میںاس کی مکمل ضمانت دی گئی:کسی بھی حال میں ان کی خانقاہیں یاگرجاگھرقطعاً مسمار نہیں کئے جائیں گے اوران کو تہواروں پر ناقوص بجانے اورصلیبیں اٹھاکرجلوس نکالنے کی بھی مکمل آزادی ہو گی اورایک دوسری روایت کے مطابق نمازکے اوقات کالحاظ کرتے ہوئے وہ جب چاہیںناقوص بجاسکتے ہیں۔ ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مال دار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ وخیرات دینے لگے، تو اس کا جزیہ معاف کر دیا جائیگا اوراسے اور اس کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ دیا جائے گا۔اگرکوئی ذمی مر جائے اور اس کے حساب میں مکمل جزیہ یا جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیاجائے گا اور نہ اس کے ورثا پراس کا بارڈالا جائے گا۔کیونکہ یہ اس پرقرض نہیں ہے۔ امام ابویوسف لکھتے ہیں:اگر اس پرجذیہ واجب ہوتواس کی کل یاکچھ ادائیگی سے قبل وہ مر جائے تواس پربقیہ واجب الادا جزیہ وارثوں سے وصول نہیں کیاجائیگاکیونکہ یہ اس پرقرض نہیں ہے۔ (کتاب الخراج :۱۳۲ )
اسی طرح حضرت ابوعبیدہ نے بھی شام کے بعض مفتوحہ علاقوں غیرمسلموںکومکمل مذہبی آزادی کاتحریری معاہدہ کیاجوآج بھی تاریخی کتابوں میں موجودہے اورخلفائے راشدین کے دورِحکومت میں ان معاہدوں کی مکمل پاسداری کی گئی اوران معاہدوں میں کسی تبدیلی کاتصوربھی نہیں کیا گیا۔ امام ابویوسف نے ان معاہدوں کی تصریح کی ہے کہ حضرت ابوبکر،عمرفاروق،عثمان غنی اور علی المرتضیٰ کے ادوارمیں ان معاہدوں کی مکمل پاسداری کی گئی بلکہ ان مذہبی خانقاہوں کے پجاری،راہبوں اوردیگرعہدیداروں کے ساتھ ساتھ ان کے اوقاف کوبھی برقراررکھااوران عہدیداروں کو سرکاری خزانے سے باقاعدہ وظائف جاری کئے گئے۔اسی طرح مصرمیں مفتوحہ علاقوںمیں ان مذہبی علاقوں کے ساتھ جس قدر اراضی وقف تھی ،نہ صرف ان کوبحال رکھابلکہ ان عبادت گاہوں کی تزئین وآرائش کیلئے باقاعدہ سرکاری معاونت بھی کی گئی۔مقریزی کے زمانے میں ایک گرجا گھرکے ساتھ ڈیڑھ ہزارفدان اراضی وقف تھی جس کی کاشت پربھی کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا ۔ مسلمانوں کے اس سنہرے ادوارمیں نہ صرف ان کی مذہبی عبادت گاہوں کی مکمل حفاظت کی گئی بلکہ بہت سے نئے گرجاگھر،آتش کدے اورمندرتعمیرہوئے جس میں بیشتر سرکاری اراضی استعمال کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ اس طرح اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں اللہ کے ہاں جوابدہی کاخوف بھی ان پرطاری رہااورعدل وانصاف کی وہ درخشاں مثالیں قائم کیں کہ جس کی مثال آج کے روشن خیال وتہذیب یافتہ ممالک میں بھی نہیں ملتی۔
تاریخ کامشہورواقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اموی نے دمشق کے کلیسایوحنا کوزبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کرلیا۔ بلاذری کے مطابق:جب حضرت عمربنعبدالعزیزتختِ خلافت پرمتمکن ہوئے اورعیسائیوں نے ان سے ولید کے کلیساپرکیے گئے ظلم کی شکایت کی توانہوں نے اپنے عامل کوحکم دیا کہ مسجد کاجتنا حصہ گرجاکی زمین پرتعمیرکیاگیاہے اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالہ کردو۔(فتوح البلدان: ۱۵۰)
راجہ داہرکے ظلم کے خلاف جب محمدبن قاسم نے سندھ کوفتح کیاتوسب سے پہلے تمام ادیان کے پیروکاروںاورہندوؤںکومکمل امان اورمذہبی آزادی کااعلان کیاگیا۔الغرض اسلام نے اقلیتوں کے جان ومال اورمذہبی اقدارکانہ صرف تحفظ کیابلکہ مسلم اخوت ورواداری کی یہ عالم تھاکہ جب محمدبن قاسم کوسندھ سے واپس بلایاگیاتواس وقت بیشترہندؤوںنے اپنے مندروںوعبادت گاہوں اورگھروں میں محمدبن قاسم کے حسنِ سلوک کی وجہ سے اس کے بت سجارکھے تھے ۔اسلام میں ان کے جان و مال اورمکمل مذہبی آزادی پرہی اکتفا نہیں کیاگیابلکہ اس زمانے میں ہندوؤں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق بڑے بڑے عہدوں پرماموربھی کیاگیاجہاں ان کے تمام مقدمات ان کے اپنے مذہبی رسوم ورواج کے مطابق طے کئے جاتے تھے ۔ اقلیتوں کے بارے میں بے تعصبی،وسعت قلبی،اعلیٰ ظرفی اورعدل وانصاف کی یہ وہ چندمثالیں ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ اسلام میں اقلیتوں کو کس قدرامان اورتحفظ حاصل تھالیکن اس کے برعکس آج کے روشن خیال اورمہذب مغرب اورننگ انسانیت متعصب ہندوبھارت میں کیاہورہاہے اس کی تازہ مثالیں ان دو خبروں میں ملاحظہ فرمالیں۔
“یورپی ملک جرمنی کے شہر برلن میں مسلم اوریہودی تنظیمیں ختنے پرپابندی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہی ہیں۔رواں سال جون میں کولون کی ایک عدالت نے حکم دیا تھا کہ صرف مذہبی بنیادوں پر نوزائیدہ بچوں کی ختنہ سنگین جسمانی نقصان کے برابر ہوتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن نے قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے تمام ڈاکٹروں سے کہاتھا کہ وہ بچوں کی ختنہ نہیں کریں سوائے اس کے کہ جب یہ عمل طبی طور پر ضروری ہو۔اِس سے پہلے یورپ کی یہودی اور مسلمان تنظیمیں اِس ایک معاملے پر متحد ہوگئی تھیں اور انہوں نے مشترکہ طور پر جرمنی کے قانون سازوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بچوں کی ختنہ کے حق کا تحفظ کریں۔بیویریا میں ایک راہب کی جانب سے ختنے کرنے پر ان سے تفتیش کی جا رہی ہے”۔
ہندوستان کی راجدھانی سے صرف ۶۵کلومیٹردور شہرروہتک کے ایک گاؤں کٹولی میں ہندونیتاؤں کے ۱۴/افرادپرمشتمل ایک پنچائت میں ایک تغلقی فرمان کے مطابق مسلمانوں کی مسجدجس میں وہ اجتماعی طورپر نماز پڑھتے تھے،اس کوفوری طورپرمسمارکردیاگیاہے،اوریہ پابندی عائدکر دی گئی ہے کہ گاؤں میں تمام مسلمان فوری طورپراپنی داڑھی منڈوا دیں ۔ آئندہ کوئی بھی داڑھی والا شخص اس گاؤں میں داخل نہیں ہوسکتا، اگر کسی کواس گاؤں میں آناہے تواس کواپنی داڑھی منڈوا کرآناہوگا۔ اس ہندوپنچائت نے جن چھ احکام پرمبنی فرمان جاری کئے ہیں ان میں پہلافرمان یہ ہے کہ گاؤں کے ایک مسلمان نوجوان کے ہاتھوں ایک ہندوکی بکری مرگئی جس کی وجہ سے اسے جیل میں بندکرکے اس پرمقدمہ دائرکردیا گیا ہے،حکومت کی طرف سے جیل کی سزاکاٹنے کے باوجودوہ عمربھرگاؤں میں داخل نہیں ہوسکتاجبکہ مسلمانوں نے اس بکری کی مالیت سے کئی گنا زائدجرمانہ بھی ادا کر دیاہے۔دوسرا فرمان یہ کہ دھان کی کٹائی کے فوری بعد مسلمانوں کے قبرستان کومکمل طورپرصاف کردیاجائے گاگویاتمام قبروں کومسمارکرکے میدان بنادیاجائے گا۔تیسرافرمان یہ کہ کسی بھی مسلمان مولوی اس گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی اور چوتھا فرمان یہ کہ نہ ہی گاؤں کاکوئی فردنمازپڑھے گااورنہ ہی کسی بھی قسم کی اسلامی رسومات پرعملدرآمدکرے گا،پانچواں فرمان یہ کہ کسی بھی نئے مولودبچے یابچی کواسلامی نام نہیں دیا جائے گابلکہ اس کاہندوطرزپرنام رکھاجائے گااورگاؤں میں جتنے بھی مسلمان جوصدیوں سے یہاں بس رہے ہیں اپنے اسلامی ناموں کوختم کرکےسرکاری ریکارڈمیں ہندوؤں کے نام سے ازسرنواپنی رجسٹریشن کروائیں گے،چھٹافرمان یہ کہ اگرکسی مسلمان خاندان کاکوئی فردکسی دوسرے گاؤں یا شہرسے کسی اپنے مسلمان رشتے دارکی وفات پرتعزیت کیلئے آئے گاتواسے بھی گاؤں میں داخل ہونے سے قبل اپنے چہرے سے داڑھی کو مکمل صاف کرکے آناہوگا، اس فرمان کے جاری ہونے کے بعدگاؤں کے وہ تمام افرادجوکئی برس تک بھارت کی فوج میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں،ان کے چہروں سے بھی جبراً داڑھی کوصاف کردیاگیاہے۔اس انسانیت سوزفرمان پر عملدرآمدکیلئے وہاں کے مسلمانوں کوایک مہینے کی مہلت دی گئی ہے جس کے بعداس فرمان کی خلاف ورزی کرنے والے کے گھرکوجلادیاجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں