إِنَّمَاذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَاتَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِين َیہ شیطان ہے جواپنے دوستوں سے ڈراتاہے،تم ان سے نہ ڈرواگرتم ایمان رکھتے ہوتوصرف مجھ سے ڈرو(آل عمران:175)۔اس دل میں صرف ایک خوف سماسکتاہے،اللہ کا خوف یاپھر دنیاکاخوف،اورجواللہ سے ڈرتاہے،ساری دنیااس سے ڈرتی ہے لیکن جودنیاسے ڈرتاہے تووہ ساری عمربزدلی،تذلیل اوررسوائی کاسامناکرناپڑتا ہے ۔ حالیہ پاک بھارت جھڑپ میں اسرائیل کے اشتراک کے بعداب ہمارے ہاں لبرل حواس باختہ ہوکریہ راگ الاپ رہے ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات استوارکرنے میں کیاحرج ہے کم ازکم ایک دشمن توکم ہوجائے گا۔اسرائیل،امریکاسے دوستی کاپل بن جائے گا،ہن برسے گا،بھلے ایمان کوگھن لگ جائے اس کی پرواہ ہی کب ہے۔ان کے پاس ایمان کی رمق بچی ہی کہاں ہے ورنہ جن یہودیوں پراللہ نے ذلت اورمسکنت کی چادر ڈال کردنیائے عالم میں ذلیل وخوارکیا،ان سے ہاتھ ملانے کی بات کرنااللہ کے عذاب میں شراکت کے سوااورکچھ نہیں جوقیامت تک یہودیوں پر نازل ہوتارہے گااوراب توفائنل راؤنڈ ہے۔ جنرل محمدضیاءالحق نے1981ءمیں خوب کہاتھاکہ اگراسرائیل سے یہودیت کونکال لیاجائے تووہ ملک ختم ہوجائے گااور اسی طرح پاکستان سے اسلام نکال دیاجائے توپاکستان ختم ہوجائے گا۔
یہ اسرائیل سے تعلقات بڑھانے میں سرگرم گروہ پاکستان میں اسلام کوگھٹانے کاجہاں گھٹیاجرم کر رہے ہیں وہاں وہ مادرپدر آزادی،بے روہ روی،عریانی کے حربے کواستعمال میں لارہاہےاوران تمام سرگرمیوں کوجاری رکھنے کیلئے خوب ڈالرسمیٹ رہا ہے اوریوں ایمان کے عوض تھوڑے داموں دنیاکاخریدارہے۔ان کاحشربھی چاہنے والوں جیساہوگا،ان شاءاللہ۔پاکستان نے اپنے قیام سے لیکر پرویزمشرف کی حکومت سے قبل تک ہمیشہ اسرائیل سے شدیدنفرت کی ہےحکومت خواہ کسی کی ہو۔ اعلان بالفورکی روشنی میں صہیونی ریاست کے قیام پراقوام متحدہ میں بحث شروع ہوئی توقائد اعظم محمدعلی جناح نے اپنے وزیرخارجہ کومکمل تیاری کے ساتھ نیویارک روانہ کیااورپاکستان نے ڈٹ کراسرائیل کے قیام کی مخالفت کی۔ 25/اکتوبر1947ء کورائٹرکے نمائندے سے انٹرویومیں قائداعظم نے واشگاف اندازمیں کہا”فلسطین کے بارے میں ہمارے مؤقف کی صراحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وزیرخارجہ نے کردی ہے،مجھے اب بھی امیدہے کہ تقسیم کامنصوبہ مستردکردیا جائے گاورنہ ایک خوفناک ترین اوربے مثال چپقلش کاشروع ہوناناگزیرہے۔یہ چپقلش صرف عربوں اورمنصوبہ تقسیم کرنے والے اختیارکے مابین نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے کی حمائت تاریخی اعتباسے کی جاسکتی ہے نہ ہی سیاسی اوراخلاقی طورپر”۔
19دسمبر1947ء کوایمانی حرارت سے لبریزبانی پاکستان قائداعظم نے بی بی سی کے نمائندہ سے گفتگوکرتے ہوئے اس الفاظ کے ساتھ اعادہ کیا”برصغیرکے مسلمان تقسیم فلسطین کے اقوام متحدہ کے ظالمانہ،ناجائزاورغیرمنصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب ولہجے میں غصیلااحتجاج کر رہے ہیں۔ظاہرہے کہ برصغیرکے مسلمان امریکایاکسی اورملک کی مخالفت مول نہیں لیناچاہتے لیکن ہماری حس انصاف مجبورکرتی ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہرممکن مدد کریں”َ ۔
قائداعظم کی وفات کے بعد1949ء میں اسرائیل نے پاکستان سے تعلقات استوارکرنے اورکم ازکم دو طرفہ کاروباری سرگرمیاں شرع کرنے کیلئے رابطہ کیالیکن منہ کی کھائی۔ 1950ء میں ایک وفد جس میں دنیاکی یہودی تنظیمیں اوراسرائیل کے نمائندے شامل تھے، لندن میں پاکستانی ہائی کمشنرکمشنرسے ملے اوردرخواست کی کہ افغانستان میں مقیم چندسویہودی براستہ بھارت اسرائیل آناآناچاہتے ہیں پاکستان کے راستے انہیں بھارت جانے کی اجازت دی جائے۔پاکستان نے حقارت کے ساتھ ان کی درخواست مسترد کردی اورپھریہ یہودی براستہ ایران اپنی منزل اسرائیل پہنچے۔یادرہے کہ پاکستان واحد ملک تھا جس نے 1949ء میں کوعرب اسرائیل جنگ کے خاتمہ پردواسرائیلی علاقے یہودیہ اور سماریہ جواردن نے فتح کر لئے تھے،ان کی آزادی کوتسلیم کیا۔
اسرائیل کوتسلیم کرنے کامطلب اس کے سوایہ بھی ہے کہ کشمیرکامقبوضہ علاقہ پر پاکستان کادعویٰ بھی ختم ہوجائے گا۔ جب اسرائیل کافلسطین پرقبضہ پاکستان جائزقراردے گا تو بھارت کاکشمیر پربزورقبضہ ناجائزکیسے کہے گا۔یوں یہ ڈالر گزیدہ ایک تیرسے دوشکارکرناچاہتے ہیں۔ان کے پاس دلیل یہ ہے کہ اسرائیل کواردن،مصراورترکی نے تسلیم کررکھا ہے۔ ہمارااسرائیل سے جھگڑاکیاہے،وہ بھی تواہل کتاب ہیں۔ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کہ بھلا جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیاانہیں کیافائدہ ہوا۔مصرپریشان ہے،اردان سراسیمہ ہے،ترکی شاکی اورندامت میں غرق ہے اورجس نے بھی مغضوب علیہ یہودیوں سے ہاتھ ملایاوہ یہودیوں کی سی ذلت کاشکارہوا۔ان کی فطرت میں ڈسناہے اوروہ ڈس کرہی رہتے ہیں۔
تاریخ کے ورق الٹیں توہاں یہ تذکرہ ملتاہے کہ اسپین میں مسلمان بادشاہ نے ایک یہودی وزیراعظم مقررکیاجس نے منصب سنبھالتے ہی اہم اداروں میں یہودی اہلکاروں کے تقررپرپابندی لگادی۔بادشاہ نے اپنے مقررکردہ یہود ی وزیراعظم سے پوچھا تواس نے جواب میں کہاکہ میں ان یہودیوں کی سرشت سے کسی بھی مسلمان کے مقابلے میں زیادہ جانتاہوں۔جرمنی اور آسٹریلیامیں ہٹلرکے ہاتھوں جوعرصہ حیات ان یہودیوں پرتنگ ہواتو ترک خلافت نے انہیں پناہ دی اورحسن سلوک سے نوازا مگریہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف سازشوں میں پیش پیش رہے اورشکست وریخت میں بھرپورکردار اداکیا۔کچھ شرارت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اسرائیل سے ہماری کیادشمنی ہے۔وہ یہی سوال اسرائیل سے کریں وہ آخرپاکستان کا شدیدترین دشمن کیوں ہے؟
یہودی دغاباز،شرارتی رہے ہیں اوراس کی اس سے بڑھ کراورکیامثال ہوگی کہ فتح خیبرکے بعد رسول اکرمۖ نے معاہدے کے تحت یہودیوں کو جان ومال کاتحفظ دیامگرکچھ عرصہ بعدیہ خلاف ورزی پراترآئے۔نتیجتاًمدینہ نے وعدہ شکنوں کوعین معاہدے کے تحت نکال باہرکیا۔عمران خان پاکستان کومدینہ جیسی ریاست بنانے کے داعی ہیں۔وہ کچھ عرصہ ان یہودیوں کے ساتھ گزارچکے ہیں ۔وہ اسرائیل کے عزائم اورسرشت سے واقف ہوں گے،وہ کچھ نہ کریں گے جوپرویزمشرف نے کیااور پھرجویہودیوں نے ان کے ساتھ کیا،وہی کچھ کرنے کاپھل ان کوبھی مل سکتاہے۔18/اکتوبر 2007ء کواسرائیل صدرشمعون نے پرویزمشرف کومتنازعہ ترین صدارتی الیکشن کے نتیجے پر مبارکبادکاخط لکھااوراسے شائع بھی کروایااوریہ تجدیددوستی تھی جس کاآغازستمبر2005ء میں اس وقت کے اسرائیل کے ظالم ترین صدرایریل شیرون نے پرویزمشرف سے اقوام متحدہ کی راہداری میں ہاتھ ملایاتومشرف نہال ہوگئے اورایک بڑہانکی کہ وہ اسرائیل اورفلسطین کے معاملہ کوحل کرانے میں کردار اداکرناچاہتے ہیں۔اسرائیل کے وزیراعظم نے طنزیہ اندازمیں جملہ کستے ہوئے کہا”ہمیں شک ہے کہ مشرف باوجود صدراور فوجی سربراہ ہونے کے اس قابل ہے کہ ہمارے لئے کوئی کرداراداکرسکے”۔اس جملہ میں صدرکی توہین اور پاک فوج سے اس کی نفرت کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔
1949ء میں اسرائیل کے کے اس وقت کے سربراہ ڈیوڈبن گوریان جوصہیونی تحریک کابڑارہنماءتصورہوتاہے،اس کی 1967ء کی فتح جنگ کی تقریب کی تقریرجو”جیوش کرانیکل میں شائع ہوئی، کہاکہ”عالمی صہیونی تحریک کوپاکستان کے خطرات سے باخبررہناچاہئے،اب پاکستان ہماراپہلا نشانہ ہوناچاہئے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجودکیلئے سب سے بڑاخطرہ ہے۔پوراپاکستان یہودیوں سے نفرت اورعربوں سے محبت کرتاہے۔عربوں کایہ عاشق عربوں سے زیادہ خطرناک ہے اس لئے موقع ملتے ہی صہیونی دنیاکواس کے خلاف فوری اقدام کرناچاہئے۔(19/اگست1947ء)