افغانستان کے شمالی صوبہ قندوزمیں مدرسے پربمباری کے نتیجے میں ڈیڑھ سوسے زائد معصوم حفاظ کرام،علمائے کرام اورعام لوگوں کے شہیدہونے اور پانچ سوکے قریب زخمی ہونے کے بعدکابل میں سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی ہے کیونکہ طالبان کی جانب سے بدلہ لینے اورلواحقین کی جانب سے بھی انصاف نہ ملنے کی صورت میں بدلہ کے اعلان سے تمام اہم تنصیبات کی نگرانی سخت کردی گئی ہے کیونکہ کسی بھی وقت اس حملے کابدلہ لینے کیلئے کاروائی کی جاسکتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ سیکورٹی معاملات کے علاوہ تمام غیرملکی اہلکاروں کو بلاضرورت سفرسے روک دیاگیا ہے۔ قندوز واقعے کے بعدافغان صدراشرف غنی نے افغان فوج کے ایک اعلیٰ جنرل خدا دادہزاروی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں یہ تسلیم کیاہے کہ حملے میں جاں بحق ہونے والے افرادکا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے اورغلط اطلاعات پر بمباری کی گئی ہے۔ افغان حکومت ایک ہفتے تک اس کو طالبان کااجتماع قراردیتی رہی تاہم افغان تحقیقاتی ٹیم،اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم اور عالمی اداروں کے صحافیوں کی آزادانہ تحقیقات کے بعدیہ بات سامنے آئی ہے کہ جان بوجھ کرغلط اطلاعات پر مدرسہ دارلعلوم الہاشمیہ العمریہ کو نشانہ بنایاگیاہے ۔
دوسری جانب قندوزواقعہ پرپوری دنیاسے ردّ ِ عمل سامنے آرہاہے۔گزشتہ جمعہ کوتیونس کے معروف عالم دین ،شیخ الحدیث بشیربن حسن نے امام کعبہ شیخ عبدالرحمان السدیس سے درخواست کی تھی کہ حرمین میں نمازجمعہ کے موقع پرقندوزواقعہ کی بھرپورمذمت اوران کیلئے دعائے مغفرت کریں تاہم مذمت نہ کرنے پر نہ صرف تیونس بلکہ عالم اسلام کے جیدعلماء کی طرف سے سعودی حکومت پرشدیدتنقیداورالزامات عائدکئے ہیں ۔ گزشتہ پچاس سال میں قندوزکاواقعہ ایشیاء میں پہلاواقعہ ہے جس میں تمام عرب ممالک میں شدیدردّ ِ عمل سامنے آیاہے جبکہ اس سے پہلے پشاور پاکستان میں اے پی ایس میں ہونے والے واقعے پربھی ایسی سردمہری کامظاہرہ ہواتھا۔امت مسلمہ پہلے ہی نفاق کاشکارہے لیکن اس واقعے پر سعودی بے اعتنائی کوخودغرضی اورمسلم دشمنی سے تعبیرکرتے ہوئے انتہائی دکھ اورغم کااظہارکرتے ہوئے مستقبل میں تجدید ِتعاون کااشارہ بھی دیا ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کے اندربھی ماضی کی نسبت ردّ ِ عمل میں میں انتہائی سستی نظرآرہی ہے تاہم کابل میں غیرملکی سفارتخانوںاورمشنزنے اس واقعے کے بعداپنے حفاظتی اقدامات سخت کردیئے ہیں۔
دوسری طرف طالبان کی اس معاملے پرقائم تحقیقاتی کمیٹی نے بھی اعلان کردیاہے کہ اس تقریب میں کوئی ایک بھی طالبان رہنماء یاکسی مقامی کمانڈر تک نے شرکت نہیں کی اورنہ ہی ایساکوئی شرکت کاکوئی وعدہ کیاگیاتھا کیونکہ طالبان کی ہائی کمان کی طرف سے ایسی کسی بھی تقریب میں سختی سے شرکت پرپابندی ہے۔اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کولواحقین نے تین گھنٹے پرمحیط ریکارڈکی گئی فلم مہیاکردی ہے اوران سے مطالبہ کیاہے کہ وہ افغان حکومت اورامریکی حکام کے ساتھ اس ویڈیومیں یی معلومات شیئرکریں کہ اس میں کہاں افغان طالبان یاان کی طرف سے کوئی مسلح افراد شریک ہیں؟لواحقین نے اقوام متحدہ کی ٹیم سے درخواست کی ہے کہ اس معاملے میں ان کی معاونت کی جائے۔اقوام متحدہ کی ٹیم نے افغان حکومت کی درخواست کے باوجوداپنی رپورٹ افغان حکومت کودینے سے انکارکردیاہے جبکہ اشرف غنی نے سردارداؤداسپتال میں قندوززخمیوں کی عیادت کے دوران لواحقین سے معلومات حاصل کیں اوراس کے بعدان کے ساتھ وعدہ کیاہے کہ وہ جنرل خدادادکی رپورٹ کوپبلک کرائیں گے اور غلط کوارڈی نیشن فراہم کرنےوالے حکام کے خلاف کاروائی کریں گے۔
دوسری جانب طالبان نے ہرات میں واقعہ سے لاتعلقی کا اظہارکیاہے جس میں سیکورٹی فورسزکونشانہ بنایاگیا۔ افغانستان میں قندوواقعے کے بعد افغان حکومت اور امریکا کے خلاف سخت اشتعال اورافغان طالبان کی حمائت میں حیران کن اور بے پناہ اضافہ ہورہا ہے کیونکہ افغان طالبان نے سب سے پہلے پندرہ صفحات پر مشتمل تمام شہداء اور زخمیوں کی شناخت ظاہرکرتے ہوئے مطالبہ کیاہے کہ ان میں کسی ایک کابھی طالبان کے ساتھ تعلق ثابت کیا جائے۔ قندوزواقعے کے ردّ ِ عمل کے خطرے کے پیش نظرافغان حکام نے اپنی تمام سرکاری مصروفیات انتہائی کم کردی ہیں اوراپنی رہائش گاہوں پرسیکورٹی بڑھادی ہے گویا خود کوگھروں میں قیدکرلیاہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ قندوز حملے کاردّ ِ عمل کابل میں خود کش حملوں کی صورت میں ضرور نکلے گا۔
ادھرقصرسفیدکے فرعون ٹرمپ کاایک بیان شائع ہواہے جس میں امریکی فورسزکوحکم دیاگیاہے کہ وہ طالبان پرحملوں کے دوران عام لوگوں کی ہلاکت کی پرواہ نہ کریں ۔یہ حکم امریکی صدرنے امریکی فوجیوں کی اس ویڈیوکے جواب میں جاری کیاہے جوافغانستان میں ایک گھرکے سامنے طالبان جنگجوؤں کی گرفتاری کیلئے بیٹھے ہیں جس پرامریکی صدرکاکہناہے کہ یہ بات حیران کن ہے کہ امریکی فوجی طالبان کی گرفتاری کیلئے انتظار کررہے ہیں بلکہ انہیں فوری حملہ کرنا چاہئے۔اس بیان کی اشاعت کے بعدافغان پارلیمان کے اراکین لال گل،امراللہ احمدی،نادرشاہ اور دیگر نے شدیدردّ ِ عمل کااظہارکیاہے کہ شک کی بنیادپربچوں اورخواتین کونشانہ بناناکہاں کاانصاف ہے اورٹرمپ کے اس طرح کے انتہائی غیر ذمہ دار احکامات سے افغانستان کے تباہ شدہ امن وامان میں مزیدابتری پیداہوگی۔
اراکین پارلیمان کاکہناہے کہ امریکی فورسزکاطرزِ عمل پہلے ہی شرمناک ہے اور اب ٹرمپ کے ایسا بیان افغانوں کے قتل عام کی کوکھلی چھٹی کے مترادف ہے۔امریکی صدرکی جانب سے عام لوگوں کی ہلاکتوں ہلاکتوں کی پرواہ نہ کرنے کے حکم سے افغانستان میں مزیدبے گناہ افرادکے مارے جانے کاخدشہ بڑھ گیاہے اورقندوزواقعہ کے بعدکوئی بھی واقعہ افغانستان کومزیدایسی خانہ جنگی میں دھکیل سکتاہے ۔قندوزواقعہ کے بعدافغانستان میں قیام امن کیلئے کوششیں تیزہوگئی ہیں تاہم افغان طالبان نے امریکاافغانستان حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کیلئے قندوزواقعہ کی آزاد تحقیقات کی شرط عائدکردی ہے اورتحقیقات کے بغیرمذاکرات خارج ازامکان ہیں ۔جن لوگوں نے غلط اطلاعات فراہم کی ہیں ان کومنظرعام پرلا کر ان کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جائے ۔اگران کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی اورلواحقین کو معاوضہ نہیں دیاجاتاتوافغان طالبان کسی بھی مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ امن مذاکرات کوبڑھانے کیلئے افغانستان میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کے دورے بڑھ گئے ہیں۔ادھرافغانستان کی علماءکونسل اورافغان حکومت کے درمیان شدیداختلافات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ علماء کونسل اورحکومت کے درمیان قندوزواقعے نے شدیددراڑپیداکردی ہے اورعلماء کونسل نے افغان حکومت کوذمہ داروں کے خلاف کاروائی کامطالبہ کرتے ہوئے اس واقعے کی تحقیقات پرکڑی نگاہ رکھنے کافیصلہ کیاہے تاہم قندوزکے دلدوزواقعے نے افغان طالبان کی حمائت میں بے پناہ اضافہ کردیاہے۔