سیکھنے کے کئی اسباق

:Share

چین اوراسرائیل تعلقات کے حوالے سے بہت کچھ لکھاجاچکاہے،زیادہ ترمعاشی اورسیاسی تعلقات کے حوالے سے لکھاگیاہے،چین اسرائیل سکیورٹی تعلقات کے حوالے سے لوگ کم ہی جانتے ہیں۔چین اوراسرائیل کے سکیورٹی تعلقات کا آغاز جون۱۹۶۷ءکی جنگ کے بعدہوا،اس وقت روسی اسلحے کی بھاری کھیپ اسرائیلی فوج کے ہاتھ لگی تھی۔یہ اسلحہ شکست خوردہ عرب افواج سے قبضے میں لیا گیاتھا،اسرائیل کوروسی اسلحے کے خریدار کی تلاش تھی،چینی افواج بھی روسی اسلحہ استعمال کرتی تھیں،جس کے بعداسلحے کی فروخت کے حوالے سے اسرائیل اورچین میں خفیہ مذاکرات کا آغازہوا۔
فروری۱۹۷۹ء میں اسرائیل کے اعلیٰ حکام نے بیجنگ کے مضافات میں موجودفوجی اڈے کاخفیہ دورہ کیا۔وفد کی قیادت یہودی ارب پتی ساؤل ایسنبرگ کررہے تھے۔ ساؤل ہولوکاسٹ کے دوران یورپ سے شنگھائی فرارہوگئے تھےجس کے بعدانہوں نے مشرقی ایشیامیں بڑامالیاتی کاروبار کھڑا کیا۔ساؤل چین یا ایشیائی ممالک میں کاروبار کرنے و الے پہلے یورپی تاجر تھے،ساؤل نے اسرائیلی اسلحے میں چین کی دلچسپی پیدا کرنے میں اہم کردارادا کیا،یہاں تک کہ انہوں نے بیجنگ آنے و الے پہلے اسرائیلی وفد کے سفر کے لیے جہاز بھی فراہم کیا۔ ساؤل اسرائیلی اسلحے کے بارے میں جانتے تھے کیونکہ وہ ایشیائی ممالک سے ہونے والے گزشتہ معاہدوں سے واقف تھے۔
امیر بوہبوٹ اور کاٹز کے مطابق چینیوں کے ساتھ ابتدائی ملاقاتوں کے بعد ساؤل اسلحہ خریداری کی فہرست لے کر اسرائیل واپس لوٹے۔ جس میں میزائل، آرٹلری، گولہ باروداور بکتر بند کی خریداری شامل تھی،انہوں نے اسرائیلی حکومت پر چین وفدبھیجنے پر بھی زور دیا۔ اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم نے وفد بھیجنے کی تو منظوری دے دی مگر اسلحے کی فراہمی کا معاملہ اپنے وزیردفاع ایزر پر چھوڑ دیا۔ وزیر دفاع ایزر نے ذاتی طور پر منظوری دی کہ اسرائیلی کمپنیاں کون سا اسلحہ چین کوفروخت کرسکتی ہیں اور کون سا اسلحہ ناقابل فروخت ہے۔ اس کے اگلے برس اسرائیلیوں نے چین کے کئی اضافی دورے کیے، جس میں اسرائیلی ایئرفورس کے طیاروں کا خفیہ استعمال بھی کیاگیا۔ اس کے بعد چینی براہ راست اسرائیلی حکومت سے رابطے میں آگئے۔ چین ایک بار اسلحہ خریداری کی فہرست کو حتمی شکل دے کر اسرائیلی وفد کو فراہم کردیتا، جس کی منظوری اسرائیلی وزیراعظم اور وزیردفاع سے لی جاتی۔چین کو ۱۹۸۱ء میں اسلحے کی پہلی کھیپ ٹینک کے گولہ بارود کی شکل میں فراہم کی گئی، یہ کھیپ انتہائی خفیہ طور پر بھجوائی گئی، جس کے بعددونوں ممالک کا ایک دوسرے پر اعتماد بڑھ گیا۔ چینی حکام چند تصاویر اور ویڈیوز دیکھنے کے بعد کروڑوں ڈالر کے اسلحہ خریداری کے معاہدے کرنے کے لیے تیار ہوگئے، مگر انہوں نے اسرائیل جانے سے انکار کردیا۔ پیٹر برٹون کے مطابق اس دوران اسرائیل نے ہزاروں چینی ٹینکوں کی جدید کاری کی۔اکتوبر۱۹۸۴ءمیں چینی قومی دن کی پریڈ میں ان نئے ٹینکوں نے حصہ لیا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ان ٹینکوں کی جدید کاری کس ملک میں ہوئی ہے۔ان تعلقات کے حوالے سے رازداری قائم رکھنے کی شرط اسرائیل نے نہیں بلکہ چین نے عائد کی تھی، کیونکہ چین مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تعلقات خراب ہونے کے ڈر کی وجہ سے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ان دونوں ممالک کے درمیان خفیہ تعلقات کا سلسلہ ۱۹۹۰ء تک جاری رہا۔ اس دوران بیجنگ اور تل ابیب میں دونوں ممالک کے غیر سرکاری مشن موجود تھے۔اسرائیلی انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ شبتائی شیوت کے مطابق چین اور اسرائیل میں باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے ایک برس بعد اکتوبر۱۹۹۳ء میں اسرائیلی وزیراعظم رابن نے پہلی بار چین کا سرکاری دورہ کیا،اسرائیلی وزیراعظم نے چینی صدر جیانگ ژی من سے ملاقات کی۔ یہ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان پہلی ملاقات تھی، اس ملاقات کے دوران اسرائیلی انٹیلی جنس سربراہ نے اپنے چینی ہم منصب سے بھی ملاقات کی، یہ دونوں ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان کی پہلی سرکاری ملاقات تھی۔اسرائیلی انٹیلی جنس سربراہ کے مطابق انہوں نے وزیر اعظم رابن کو مشورہ دیا کہ اسرائیل کو چین سے معاملات طے کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنی چاہیے،کیونکہ چین مستقبل میں بین الاقومی سطح پر اہم کردار ادا کرے گا۔
اکیسوی صدی کے ابتدائی برسوں میں اسرائیل امریکی دباؤ پر چین کو اسلحے کی فراہمی اور ہتھیاروں کی جدید کاری کے معاہدے سے پیچھے ہٹ گیا۔ جولائی۲۰۰۰ء میں اسرائیل امریکی دباؤ پر چین کے ساتھ دستخط شدہ معاہدے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا،اس معاہدے کے اسرائیل چین سے پیسے بھی وصول کرچکا تھا،ایک ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت جدید ایئر بورن ٹریکنگ سسٹم (فیلکن طیارے) فراہم کیے جانے تھے،یہ منصوبہ ہائی ٹیک اسرائیلی ایویونکس پر مبنی تھا، جس کو چین میں روسی ساختہ طیارے پر نصب کیا جانا تھا۔امریکی ٹیکنالوجی کی منتقلی نہ ہونے کے باوجود امریکا کو اس معاہدے پر اعتراض تھا۔ اس کے بعد کئی برسوں تک چین اور اسرائیل تعلقات تلخی کا شکار ہوگئے۔ اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۱ء کے درمیان اسرائیل نے چین کو۳۵۶ملین ڈالرکااسلحہ فروخت کیا،جس میں ہارپی،بغیر پائلٹ طیارے، مختصر فاصلے کے فضامیں مارکرنے والے میزائل(پیتھون) شامل تھے،ان میزائلوں کوبعدمیں چین نے پی ایل آٹھ کے نام سے بناناشروع کردیا۔۲۰۰۴ء میں امریکا نے اسرائیل کوبغیرپائلٹ طیارے چین کوواپس کرنے سے روک دیا،یہ طیارے اسرائیلی ایئرکرافٹ کی صنعت میں جدید کاری کیلئےلائے گئے تھے اور ان طیاروںمیں امریکی ٹیکنالوجی کااستعمال بھی نہیں کیاگیاتھا۔اہم بات یہ ہے کہ ۹۰ کی دہائی میں اسرائیل اور چین کے درمیان بغیر پائلٹ طیارے کی خریداری کے معاہدے پر بات چیت کے دوران امریکا نے اعتراض نہیں کیا،پھر۲۰۰۳ میں ان طیاروں کو اپ گریٹ کرنے کے معاہدے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، دسمبر۲۰۰۴ء کی اطلاعات کے مطابق امریکی حکام اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ان طیاروں کے صرف پرزے ہی تبدیل نہیں کیے جارہے بلکہ ان طیاروں کا نظام ہی مکمل طور پر اپ گریٹ کیا جارہا ہے۔
مارچ۲۰۱۰ء میں چینی اور اسرائیلی حکام نے ایک بار پھر سکیورٹی تعلقات بحال کیے۔ سب سے پہلے چینی فوج کے ترجمان نے اسرائیل کا دورہ کیا، اس کے سات ماہ بعد اکتوبر۲۰۱۰ء میں اسرائیلی فوج کے ترجمان بر یگیڈیئر جنرل بیناہ کی قیادت میں ایک وفد نے چین کا دورہ کیا، دورے کے دوران بیناہ نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور اسرائیل کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے گفتگو کی۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی وفد نے کثیر آبادی والے علاقوںمیں لڑائی اور عوامی حمایت کے حوالے سے اپنے تجربات کا تبادلہ بھی کیا۔ اس دورے کے بعدچینی فوجیوں کواسرائیلی فوج کے ترجمان کے ماتحت تربیت حاصل کرنے کیلئےبھیج دیاگیا۔بغیر پائلٹ طیارے کے معاملے کے بعد پہلی بار دونوں ممالک نے عوامی اورسرکاری سطح پرتعاون کیاتھا۔جون۲۰۱۱ ء میں اسرائیلی وزیردفاع ایہود بارک نے چین کا دورہ کیا، یہ پوری دہائی کے دوران کسی اسرائیلی وزیردفاع کاچین کاپہلا دورہ تھا۔ بارک کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیر دفاع نے اپنے چینی ہم منصب اور وزارت دفاع کے حکام سے ملاقات کی اورخطے کی صورتحال پرگفتگو کی، دونوں ممالک کے درمیان ایرانی خطرے،اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن عمل میں پیش رفت اورانسداد دہشتگردی کے امور پر تبادلہ خیال کیاگیا۔مئی۲۰۱۲ء میں اسرائیلی چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل بینی گانتز نے چین کا دورہ کرکے اپنے چینی ہم منصب جنرل چن بنگڈ سے ملاقات کی۔ اگست۲۰۱۱ء میں اسرائیلی دورے کے بعد یہ پہلا دورہ تھا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کے بیان کے مطابق ملاقات کے دوران دونوں فوجی سربراہان نے باہمی تعاون پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تعلقات کو مزید فروغ دینے کا عزم کیا۔اطلاعات کے مطابق مئی۲۰۱۳ ء میں اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل ایویو کوچی نے چین کا خفیہ دورہ کرکے اپنے چینی ہم منصب ودیگر انٹیلی جنس حکام سے ملاقات کی۔اسرائیلی حکام نے ایرانی جوہری پروگرام اور بشاالاسد کی حکومت کے خاتمہ کے حوالے سے انتہائی خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا۔اسرائیل نے شام میں موجود کیمیائی اور جدید ہتھیار(جن میں چینی ہتھیار بھی شامل تھے) دہشتگرد وں کے ہاتھ لگنے کے خدشے کا اظہار بھی کیا۔
مارچ۲۰۱۴ء میں اسرائیلی فوج کی میڈیکل کور کے وفد نے’’ چائنا میڈ۲۰۱۴‘‘ نامی نمائش میں شرکت کی۔بیجنگ میں موجود اسر ائیلی اتاشی کرنل امیر اسیل نے چینی فوجی حکام سے میڈیکل لاجسٹک سیکٹر پرتفصیلی بات چیت کی۔اس موقع پر اسرائیلی فوج کی میڈیکل کور کے کمانڈر بھی موجود تھے۔چین کو سامان کی فراہمی کے حوالے سے گفتگو کیلئےملاقات میں طبی شعبے سے وابستہ تین اسرائیلی کمپنیوں کو بھی مدعو کیاگیاتھا ۔ ایہود بارک کے دورے کے جواب میں چین کے چیف آف اسٹاف جنرل چن بنگڈ نے اسرائیل کا دورہ کیا۔اطلاعات کے مطابق اس دورے میں دونوں ممالک نے اسرائیلی سرکاری کمپنی آئی اے آئی اور چین کے درمیان تعاون پر غور کیا،جس کا مقصد شہری استعمال کیلئےطیارے بنانا تھا۔ جنوری۲۰۱۶ء میں آئی اے آئی نے لنگ یان کمپنی کے ساتھ مل کرچین کے صوبے میں مشینری کی مرمت اوربحالی کاپہلاچینی انٹرپرائزقائم کرنے کا اعلان کیا۔طیارے والے معاملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا یہ پہلا اعلانیہ منصوبہ تھا۔اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج اورپولیس دونوں چینی ڈرونز کااستعمال کررہے ہیں۔ اسرائیل ڈیفنس کی رپورٹ کے مطابق ان ڈرونزکوزمینی فوجیں آپریشنزمیں استعمال کررہی ہیں،اسرائیلی فوج کومزید۲۰۰ ڈرونزاوران کے پرزہ جات کی ضرورت ہے۔ یہ پہلی چینی ساختہ مشین ہے جس کواسرائیلی فوج استعمال کررہی ہے۔ اسرائیل کااپنا ڈرون بنانے کامنصوبہ تاخیرکاشکارہے،اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی وزارت دفاع اپنے ضوابط کی وجہ سے براہ راست چینی کمپنی سے یہ ڈرونز حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کوئی نجی سپلائرہی یہ ڈرونزاسرائیلی فوج کوفراہم کرسکتاہے۔اسرائیل اورچین کے سکیورٹی تعلقات میں حالیہ پیش رفت یہ سوال اٹھاتی ہے کہ امریکاکے زیرسایہ دونوں ممالک کے سکیورٹی تعلقات کس حد تک مضبوط ہوسکتے ہیں۔دونوں ممالک کے سکیورٹی حکام کے درمیان ملاقاتوں کے باوجودعسکری تعاون کی سطح نسبتاً کم ہے،اس کے علاوہ اسرائیل کی دفاعی مصنوعات برآمدکرنے کی پالیسی میں بظاہرکوئی تبدیلی نہیں آئی ہے،لیکن پھربھی دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات سے چین کوفائدہ ہوسکتاہے۔چین کوصرف نئی ملٹری ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں بلکہ انسداد دہشتگردی کے حوالے سے بھی وسیع معلومات درکارہیں اورانسداد دہشتگردی کے حوالے سے اسرائیل کاعملی تجربہ کافی وسیع ہے۔اسرائیلی حکومت عالمی طاقت کے طورپرچین کی اہمیت کوسمجھتی ہے اوراس کے ساتھ سکیورٹی تعاون میں اضافہ کرناچاہتی ہے۔اندازہ ہے کہ چین کے حوالے سے اسرائیل کی سکیورٹی پالیسی پرواشنگٹن کواعتمادمیں ضرور لیاگیاہوگا،تاکہ اسرائیل اورامریکاتعلقات میں کشیدگی سے بچاجاسکے اوراسرائیل کے چین کے ساتھ سکیورٹی تعلقات میں بھی کوئی گڑبڑپیدانہ ہونے پائے۔چین کے ساتھ سکیورٹی تعلقات مضبوط کرکے اسرائیل کوایرانی جوہری اورمیزائل پروگرام کے خلاف اقدامات تیزکرنےکانیاراستہ مل سکتا ہے۔اسرائیل چینی ٹیکنالوجی اورہتھیاروں کی ایران اورمشرق وسطیٰ کے ممالک کومنتقلی روکنے کی کوشش کرے گا،کیوںکہ یہ ہتھیاردہشتگردتنظیموں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں،جواسرائیل کیلئےبڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ تاہم چین عالمی معیشت میں سی پیک اورون روڈ پراجیکٹس کی کامیابی کیلئے بہت بڑی سرمایہ کاری کررہاہے اس لئے وہ ہرمعاملے میں انتہائی محتاط روی کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے تاکہ وہ طاقتیں جوان پراجیکٹس کواپنے معاشی مفادات کے خلاف سمجھتے ہوئے اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں،تاکہ ان کوایساکوئی بہانہ میسرنہ آئے جس کی بناءپرمشرقِ وسطیٰ اوردیگرمنڈیوں کاراستہ مسدود ہوجائے۔چین کی کامیاب خارجہ ومعاشی پالیسیوں میں ہماری نئی حکومت کیلئے سیکھنے کے کئی اسباق موجودہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں