محبت کی گواہی

:Share

محترم رفیق عزیزانتہائی واجب الاحترام جناب قبلہ محمد آصف عنائت بٹ صاحب
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ پراللہ کی سلامتی وبرکت ہوآپ کے قدم استقامت علی الحق کے ستون ہوں،آپ کاسینہ بدر کی چٹان، بازو غازیان صف شکن کی سنان اورحوصلہ خالدسیف اللہ کاپیکان ہو۔ آپ کے قدموں کی دھمک میرے دل کی دھڑکنوں کو تیزاورراہِ حق کے نشیب وفرازکوہموارکرتی چلی جایاکرتی ہے۔ کتنی ہی ان گنت دعائیں اورپرخلوص محبتیں آپ کیلئے رکھتاہوں،روزِ قیامت مالک الملک کے سامنے ملک الملائک اس کی گواہی دیں گے ان شاءاللہ۔

آج ایک مدت کے بعد آپ سے ندامت کے گھڑوں پانی میں شرابورقلمی طورپرمخاطب ہوں حالانکہ آپ کے کئی ایک مکاتیب طویل ومختصرمیری فائل میں اس طرح آرام فرمارہے ہیں جیسے مومن اپنی قبرمیں ،لیکن اس آخری طویل خط میں آپ نے مجھے مجبورکردیا ہے کہ میں آپ کی تحریر کی داددیئے بغیر نہ رہ سکوں حالانکہ آپ کی ہرتحریراس طرح عشقِ رسول ﷺ کی خوشبومیں بسی ہوئی ہوتی ہے کہ ہرکسی کواپنادامنِ خیرات تنگ نظرآتاہے۔اس میں شک نہیں کہ ایک مدت سے آپ مشرق کی پنہائیوں میں کھوگئے ہیں اورمیں جبری طورپرمغرب کی ظالم مردم خورتہذیب کاشکارہونے کیلئے دھکیل دیاگیا لیکن بقول ہمارے باباجی کے ،،اسلام اگرگلشن ہے تواس کیلئے بادِ سموم مغربی تہذیب ہے،،۔جہاں اس تہذیب نے انسان کو انسان سے کاٹ کررکھ دیا ہے،مادہ پرستی کاشکارکردیا ہے ،آنکھوں سے شرم وحیاکاپانی اتاردیاہے اورانسانی سطح سے حیوانی سطح پرلاکرچھوڑدیاہے لیکن وہاں ہمدردی،اخلاق، مہرومحبت، بے لوث خدمت،ایثار وقربانی ،کمزورپررحم اورمحروم پر شفقت کاتصور عملاً یہاں دیکھنے کوملاہے۔

سوڈان،صومالیہ میں قحط سے مسلمان پریشان ہوں یابنگلہ دیش،پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے انسانیت سسک رہی ہو،یہاں کابوڑھا پنشن یافتہ طبقہ بھی ان کی عملی مدد کیلئے اپنے دل میں تڑپ رکھتاہے۔اب آپ ہی بتایئے کہ یہ عادت حسن فطرت سے کس قدرقریب ہے!
حسن بے پرواہی کواپنی بے حجابی کیلئے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے توشہراچھے کہ بن

جناب سے پہلی ملاقات کاشرف دوسال قبل قلمکاروں کے اجتماع میں ہوالیکن اب یوں محسوس ہورہاہے کہ جب بارالہٰ نے تمام ارواح سے پوچھا:{۔۔۔۔اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) ۔ یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن (کہیں یوں نہ) کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی}اغلب امکان،ہم ساتھ ساتھ ہی فروکش تھے،اس عہدوپیمان کی گواہی مل کر دی تھی،اسی لئے پہلی ملاقات میں ہی تمام حجاب کے پردے اٹھ گئے اورپھرکمال تویہ ہواکہ آپ نے میرے آقا ﷺ کے روضہ اقدس پرحاضری کا قصہ سناکرکندچھری سے ایساذبح کیاکہ آج بھی تڑپتے دل کوسکون نہیں اورمیں اپنے درجنوں پروگرامزاورلیکچرزمیں یہ واقعہ آپ کی نسبت سے سناچکا ہوں اورہرمرتبہ روح تک سیراب ہوجاتی ہے۔
آپ نے حرمین شریفین کے سفرسے ایک دن قبل میرے گھرکورونق بخشی ،قیام حرمین میں بھی آپ مسلسل یادفرماتے رہے اورمیرے دل میں چھپے ہوئے سارے خطوط اورمیری یادوں کے انمول خزانے کے سارے رازوں کے امین بھی بن گئے اورمیرالوئی عمل مستورنہ رہا۔اس کے بعدکئی بار ملاقات کاموقع ملا،کتنی ہی باتیں ہوئیں،مجالس تعارف میں بندھے بندھائے تعارفی پروگرام کے تحت ہم کتنی بارمتعارف ہوئے لیکن پھر بھی کھل کر باتیں کرنے کی حسرت دل میں رہی۔بارہاایسے مواقع آئے کہ ہم کچھ اپنی باتیں کرتے لیکن انفرادی گفتگوکی بجائے سیمناروں،کانفرنسز،اجتماعات میں طویل تقریروں کاتذکرہ تورہا، مشرق ومغرب میں پاکستان اورعالم اسلام میں اسلامی انقلاب کی ڈھیر ساری باتیں کرتے رہے ،اس کے طریقہ کارپرلوگوں کی فکرکی اصلاح کی منصوبہ بندیوں میں حصہ لیتے رہے لیکن آپس کی باتوں کاایک ڈھیر جمع ہوگیا۔آپ توپیغامات اورکالمزکے ذریعے پھربھی اپناپیٹ خالی کرتے رہے لیکن مجھے تواس کی بھی فرصت نہ ملی۔آج آپ کاواٹس ایپ پرمحبت بھراپیغام اور خصوصی خط موصول ہواتو سوچایہ صبح آپ کے نام کردوں،جوڈھیروں سوال جواب طلب ہیں ان کوضابطہ تحریر میں لے آؤں توبہتر ہے۔

آپ کے محبت نامے کی ایک ایک سطرمجھ روسیاہ سے کئی مطالبے کررہی ہے اورجواب میں آج پہلی مرتبہ خودکوبہت ہی ناتواں اوراعجازِ نطق سے محروم ہونے کااحساس سامنے آرہاہے تاہم جواب دینے کی جسارت ہی کرسکتاہوں:

مجھے اس بات کااعتراف ہے کہ ایک مدت کے بعدجب آپ کی شگفتہ وفکرانگیزتحریرپڑھنے کوملی تومیں نمازفجرکیلئےمسجد میں تھا۔مجھے آپ سے یہی گماں تھاکہ وہ ہاتھ جوبرسوں سے انسان کے تخلیق کردہ قوانین کاپوسٹ مارٹم کررہا ہو، ایک بہترین قانون دان ہو،وہ ہاتھ جوشرکے خلاف قصابوں جیساکام کرکے انسانوں کوراحت پہنچارہاہو یقیناً ایک دن انسان کی روح کی آسودگی کیلئے اس سے بڑھ کرکسی اعلیٰ اورارفع مقاصد کیلئے اپنی ندگی کارخ متعین کرے گا۔الحمداللہ آپ نے بر وقت مستحسن قدم اٹھایااوریہ وقت کی ضرورت بھی تھی اورآپ نے ہاتھ میں اس قلم کوتھام لیاجس کی رب العزت نے قسم کھائی۔{وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ ۔۔۔۔قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں اس کی قسم}قیامِ پاکستان کے دوران کئی دفعہ ان معاملات پرآپ کی علمی صحبت بھی میسررہی جہاں کتنی ہی باتیں، کتنی ہی الجھنیں اورکتنے ہی مسائل بیان ہوتے تھے۔اس علمی بحث میں ہم دونوں اپنے دل دماغ کی کتنی ہی تصویریں بلکہ تصویروں کاپوراالبم ایک دوسرے کے حوالے کردیتے تھے،پھر ہرتصویر کے ہرپہلو پربامقصدبات ہوتی تھی لیکن وسائل اورافرادی قوت پرآکرہمیں یہ تمام تصویریں نامکمل اورادھوری نظرآتی تھیں اورہم جوایک دوسرے کے ساتھ بہت فلسفیانہ باتیں کرتے تھکتے نہیں تھے ،رنج والم کی بہت سے داستانیں اشاروں میں بیان کرتے تھے ،اپنے ہی فلسفے سے شکست کھاکرکسی اگلے دن کیلئے تیاری کرتے تھے کیونکہ یہ سارااندازِ فکرایک خالص رضائے الٰہی کے حصول کیلئے ہوتا تھا،اس لئے ناامیدی قریب بھی نہیں پھٹکتی تھی کیونکہ اس بات کاہم دونوں کوعلم تھاکہ مہلتِ زندگی پرچہ دینے کاوقت ہے ،دنیاکمرۂ امتحان ہے،مالکِ کائنات خودممتحن ہے اورنفاذِاسلام کا نصب العین پرچہ امتحان ہے اوریہ پرچہ مومن کے ایمان کی کسوٹی ہے نہ کہ اس کاقیام مطلوب ِ مشیت ہےلیکن اس خطے میں آپ نے جہاں انداز فکرمیں تبدیلی پیداکرنے کی خواہش کااظہارکیا وہاں مجھے بھی مغرب کی آسائش زدہ زندگی سے تائب ہوکرارضِ وطن میں آنے کاشوق مچلنے لگا!

یہاں مجھے معمولی سااختلاف کرنے کی اگراجازت ہوتوکچھ عرض کروں کہ جس طرح پاکستان کاشہرکراچی مغربی تہذیب کے داخلے کاسب سے پہلامستقرہے،بلاشبہ ہماراقبلہ بھی مغرب کی طرف ہے اوران لوگوں کابھی جو”مغرب”کے پجاری ہیں لیکن فرق اتناہے کہ ہم “رب المغربین”کی عطا کردہ تہذیب کے پیروکارہیں اوروہاں کے بسنے والوں کی اکثریت مغربی تہذیب کی گرویدہ ہے۔اس مغرب کی جہاں سائنس نے مشینیں بنابنا کر افکارو خیالات کی سادہ فضاکودھواں دارکررکھاہے ،اب یورپ سے جوبھی جہاز جاتاہے معلوم ہوتاہے کہ مغربی تہذیب کاجس قدرگندہ مال درآمدکرکے لاتا ہے بلندآشیاں لوگ سب سے پہلے اس میں سے اپناحصہ وصول کرتے ہیں اور اس درآمدکی ہرکھیپ میں کچھ نہ کچھ نیامال آہی جاتاہے۔دین ومذہب کی طرف شکوک وشبہات،ریب وتذبذب کاطرزِ عمل،ظاہری چمک دمک پرجان دینامعاشرتی زندگی میں مختلف حدودوقیودسے بیزاری،مذہب سے جان چھڑانے کارحجان،عورتوںکی مساوات کابناوٹی اورنظرفریب نعرہ!غرضیکہ کیاکچھ ہے جو مغرب (یورپ وامریکا)سے برآمدہوکرکراچی اورلاہور پہنچتاہے۔

اس سارے انبارژولیدگی میں جودل ودماغ میں کانٹے چبھ جاتے ہیں ،اب اس سے پہلے کہ یہ کانٹے نکلیں اورزخم مندمل ہوکر قلب ونظرکی صحت بحال ہوکچھ دوسرے کانٹے آکردل ودماغ کومجروح کردیتے ہیں اورایک سخت عذاب تشکیک میں مبتلا کردیتے ہیں اوریہ سارامشاہدہ شدت سے ارضِ مملکتِ خداداد میں پچھلی کئی دہائیوں سے دیکھنے کوکچھ زیادہ ہی مل رہا ہے۔ مسلمان عورت جس کاطرۂ عظمت عصمت وحیاتھا،اب بازاروں میں ولائتی سامان نمائش کی طرح بے باکی وبے حجابی کا اشتہاربن کر گھس آئی ہے۔فیشن شوکے نام پرکیٹ واک کے اجتماعات میں ہوس بھری نظریں کھلے عام اپنی پسندو ناپسندکا پروانہ جاری کرکے اپنی راتوں کورنگین بنانے کاذریعہ بن چکی ہیں۔جن بازاروں کوحضوراکرم ﷺ نے شیطان کی گزرگاہیں قرار دیاتھا،وہ بازار اب نمائش کی گیلریاں بن گئے ہیں۔جن اخباروں میں کبھی مسلمان عورت کی تصویرنہیں دیکھی تھی اب نہ صرف اخبارات بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں ہر چندمنٹ بعدان میں حیافروش تاجروں کی تیارکردہ کریموں کے اشتہارات چند ٹکوں کی خاطر ان الفاظ میں شائع اورنشرہوتے ہیں کہ”برقعہ پہننا کالے پن کوچھپانے کی علامت ہے”اس طرح اب برقعہ جیسی پاکیزہ ومطہرڈھال متروک ہوچکی ہے۔

ثقافت کے لفظ کوعریانی،مے خواری،بے حیائی اورناچ رنگ کے مفہوم میں لیاجارہاہے اورحکومت خدادادپاکستان ثقافت کے نام پربڑی بڑی آرٹ کونسلوں پر اس غریب اورمظلوم قوم کالاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ صرف کررہی ہے بلکہ حکومت پاکستان کے کئی عہدیداروں ترنگ میں آکراعلان کرتے ہیں کہ یہ اسلامی مملکت کی آرٹس کونسلیں اپنے پروگرامزکے ذریعے ملک میں قہرخداوندی سے جوزلزلے اورسیلاب سے متاثرین کی امدادکررہی ہیں۔الاامان الحفیظ! خداکے غضب کومزید بھڑکانے کی کھلے عام دعوت دے رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اسلامی مدرسے میں جب صبح سویرے اسمبلی ہوتی تھی توتمام امت مسلمہ کیلئے بالعموم اور پاکستان کیلئے بالخصوص دعائے خیربھی ہوتی تھی اورہرروزکوئی نہ کوئی استادکسی اسلامی موضوع پرخطاب بھی کرتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اس اسکول کے فارغ التحصیل طلباء میں دوسرے اسکولوں کے طلباء کی نسبت اسلامی محبت واخوت کچھ زیادہ ہوتی تھی اوراپنے مافی الضمیرکی ادائیگی میں بے خوفی اوربیباکی حدسے زیادہ ہوتی تھی۔اس کاعمل تجربہ کویت میں ہوا جب میں اورآپ ایران کے انقلاب سے متاثر ہوکران کی پہلی انقلابی سالگرہ میں شمولیت کیلئے دوستوں کی شدید مخالفت کے باوجود روانہ ہوگئے تھے ۔واپسی پرکویت کے ائرپورٹ پرہی پاسپورٹ ضبط کر لئے گئے تھے ۔ یہ توکبھی سوچانہ تھاکہ کویت کے جس جدیدہوائی اڈے کی تعمیرکی نگرانی میرے ذمہ تھی،چندسال بعداس کے ایک حصے حوالات میں مجھے چندگھنٹے بھی گزارنے ہوں گے۔ کچھ گھنٹے سلاخوں کے پیچھے جانے کی سنت یوسفی اوراسوۂ حنبلی کی ادائیگی کابھی بھرپورموقع ملا۔بالآخرمیری بے گناہی میراجرم قرارپائی اوریہ قیدوبندکے چندگھنٹے ازراہِ لطف میرے کھاتے میں محض اس لئے ڈال دیئے گئے کہ افسرمجازدوپہرکے کھانے کے بعداپنی ڈیوٹی کے دوران ہی قیلولہ فرمارہے تھے۔میں حیران تھاکہ کیوں بند کر دیاگیا؟اربابِ اقتدار خوش کہ طاقت کانشہ ابھی مجھے ان کے پاؤں پکڑنے پرمجبورکردے گا لیکن بھلاہوان چنددوستوں کاجو میری خاطرپھرقربانی دینے کیلئے موقع پرآن دھمکے اوروہ جواللہ کوبھی بطورضامن ماننے کوتیارنہیں تھے اپنے ہی کویتی بھائیوں پراحسان کرکے مجھے مستقبل میں تائب وتابعداررہنے کافیصلہ سناتے ہوئے اگلے دن کیلئے سی آئی ڈی کے دفترمیں حاضری کے پروانۂ پردستخط کرواکراحسان جتارہے تھے۔

بات اگریہاں تک ہی موقوف ہوتی کہ پھولوں سے محروم کردیتے لیکن جب کانٹوں پرسے بھی حق چھین لیاگیاتوغیرتِ ایمانی کاتقاضہ یہی تھاکہ اس رزق سے منہ موڑلیاجائے جوپروازمیں کوتاہی پیداکررہا ہے۔ایک غیرمسلم اوروہ بھی ہندہ جو کل تک میراماتحت تھااس کوفوری طورپرمجھ پرترقی دیکراس کے ماتحت کام کرنے کاحکم صادرکردیاگیا۔گویامجھ پریہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ گویاتذلیل وتکذیب کا دوراب شروع ہواچاہتاہے اورمیرے احتجاج اوربیباکی کاسبق جو مجھے بچپن میں اسکول میں ملاتھا،عجب تماشہ کھڑاکردیا۔مجھے انتہائی معذرت اورافسوس کے ساتھ یہ تاثردیاگیاکہ “اوپر والوں”کامنشاء یہی ہے کہ کچھ ہفتوں تک اس سلسلے کوبرداشت کرناپڑے گا حالانکہ میں تو”بہت اوپروالے”ہی کی بندگی کاحق اداکررہاتھا۔اپنے کام کی اغلاط اورالزامات کے بارے میں دریافت کیا،ان کے سامنے ماضی کے واقعات جن میں ٹھیکیداروں کے انعامات کوٹھکرانے کاسب کوعلم تھا،سالوں کی کمائی دنوں میں حقارت سے ٹھکرادینے سے سبھی آگاہ تھے لیکن انہوں نے شائدیہ فیصلہ کرلیاتھاکہ یہ میرے بچوں کومحض اس لئے محرومی وافلاس کاشکاربناناچاہتے ہیں کہ میں اس مملکت کی خدمت کوبھی عبادت سمجھتاہوں۔اسی لئے یہ خطہ میرے نزدیک ایک مسجد کی مانندمقدس ہے لیکن “اوپر والوں” نے کچھ نہ سنا اورمجھے جبراً اسی عہدے پرکام کرنے کوکہاگیااورمیرے انکارپرمجھ کوالگ کرنے کی دھمکی سنادی گئی۔اس سے پیشتر کہ ان کے چہروں پرباطل کی مسکراہٹ آتی میں نے اپنااستعفیٰ خودتحریر کرکے ان کے منہ پردے مارااور اس میں صاف لکھ دیا:

“میرارزق اوپروالوں سے نہیں بلکہ بہت اوپرسے آتاہے اورکوئی اسے راستے میں کاٹنے کی ہمت نہیں رکھتا۔جس کی بندگی میں کرتاہوں وہی میرارازق ہے اورجوکوئی مجھے رزق کی دھونس دیکراپنی بندگی پرمجبورکرناچاہتاہے میں اس کی خدائی کونمرودکی خدائی سمجھ کرٹھکراتاہوں ۔۔۔۔ خدا ہی تو رزق دینے والا زورآوراور مضبوط ہے } میرے اس استعفے کے بعد مجھے دوسری کئی کمپنیوں میں سے بلاوہ آیالیکن دل اب اس قدرپریشان ہوچکاتھاکہ ایک عشرہ سے زائد جس ملک میں گزارا تھا وہاں کل کاسورج دیکھنے کی تمنابھی باقی نہیں رہی تھی۔پاکستان کے بارے میں جو حسین تانے بانے بنے ہوئے تھے وہ بھی سراب نظرآرہے تھے۔سوچاکہ اب مغرب کی طرف منہ کرکے خداکی بندگی کاجوعہددن میں کم ازکم پانچ مرتبہ کرتاہوں کیوں نہ دنیاکے مغرب میں جاکراس کااظہارکروں۔ میرے استعفیٰ پرمیرے کچھ محبت کرنے والوں نےاظہارناراضگی کاتاثربھی دیا مجھے “ضدی” اورنجانے اورکیاکیاالقاب سننے کو ملے حالانکہ ارفع مقاصد کیلئے بہت کچھ قربان کرناپڑتاہےلیکن جب اصولوں کی بات ہوئی تو سب مات کھاگئے ۔

قبلہ بٹ صاحب!
آپ نے اپنے محبت نامہ میں کشمیر،فلسطین اورپاکستان میں ہونے والی زیادتیوں کابڑادلسوزی کے ساتھ ذکرفرمایاہے۔مرحوم قائد اعظم کے نام سے کون واقف نہیں جوہندؤں اورانگریزوں کے مجموعی دباؤ اورلالچ کے مقابلے میں پہار کی طرح ڈتے رہے، اپنامقصد کسی قیمت پربیچنے کوتیارنہ ہوئے ۔مسلمان کوچھوڑیئے یہ توتاریخ کے اندربڑاجانبازکردارلے کرآیاہے ۔یہ توعلم دین شہید بن کر رسول اکرم ﷺ کے نام کی آبروپردیوانہ وار قربان ہوجاتاہے۔ آپ کافروں کوہی لے لیں،بھگت سنگھ جوآزادی کی کاطر اپنی جان نچھاورکرگیا،ہزاروں کیمونسٹوں کودیکھ لیں جوزارِ روس کی بدترین سزائیں بھگتے رہے، چینی اشتراکیوں کو دیکھ لیں جوخاقان چین کی بیس سال تک بدترین اذیتیں سہہ کربالآخر اسے پچھاڑگئے۔مردِ مجاہد سید علی گیلانی کوہی دیکھ لیں کہ باوجود ضعیف العمری اورساری عمرمصائب میں مبتلاہونے کے ان کے عزائم قابل رشک حدتک جواں ہیں کہ وہ اب تک اپنے ملک وقوم کی آزادی کیلئے ایک لمحہ غافل نہیں رہے۔پچھلے 70 سالوں سے کشمیری کیسی لازوال قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں اوراب مسلسل پانچ مہینوں کے کرفیو کے باوجود دشمن ظلم کرنے کے باوجودبے بس ہوتاجارہا ہے۔انسان کوتواللہ تعالیٰ نے بڑی ایٹمی قوت دی ہے۔وہ توجس چیز سے محبت کرتاہے اس کیلئے سب کچھ کرڈالتاہے ۔ فرہادبنتاہے تو جوئے شیرنکال لاتاہے،رانجھابنتاہے توتاریک جنگلوں میں بھینسوں کے گلے چراتاہے،ایک نازک اندام لڑکی کے روپ میں اپنے مقصد کی خاطر چناب کی تندوتیزلہروں سے لڑجاتا ہے،میں نے توابھی صرف مغرب کارخ کیاتھا۔سعی مسلسل اورپیہم کوشش کاراستہ اختیارکرکے اس فرنگی ملک میں جوکہ ڈھائی صدیاں حکمرانی کرکے اب تک غلامی کے وہ اثرات چھوڑ کرآیاہے جس سے ہم ابھی تک نکل نہیں پائے لیکن کشمیرمیرے دل ونگاہ سے کبھی اوجھل نہیں ہوابلکہ یوں کہیں کہ اب تواٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے،چلتے پھرتے،ہرلمحہ دل میں سفاک ہندوکاکانٹا جاگزیں ہوچکاہے۔

جناب قبلہ بٹ صاحب:
بالآخربرطانیہ میں بالکل انہی کی مانندتاجرکی صورت میں اس ملک میں داخل ہوا۔مجھے یادہے مجھے رخصت کرتے وقت بہت سے دوست اپنے جذبات پرقابونہ رکھ سکے تھے جبکہ میرے ذہنی وقلبی دکھ دردکونظرشناس بھانپ گئے تھے۔لیکن ایک انگارہ تھاجسے برف کی دبیزتہوں میں ڈھانپ کررکھ دیا گیاتھالیکن اس کی حدت پھربھی محسوس ہورہی تھی لیکن میں تو اس وقت بھی پریشان نہیں تھاکیونکہ کرم شب کی قدروقیمت رات کی تاریکی سے ہی ہوتی ہے اورتاروں کے حسن کاجھومر ظلمتِ شب کی سیاہ پیشانی پر ہی کھلتاہے۔چاندکاکنگن رات کی دلہن کوہی میسرآتاہے اوربارش کے قطرے کیلئے تپتی ہوئی زمین کاپیاسا دامن ہی سمندرکے لبریزپیمانے سے زیادہ مستحق طالب اورشائق ہوتاہے۔اپنی کمیابی اوراجنبیت پرمیں کبھی بھی پریشان نہیں ہوا،ہرقیمتی شئے کمیاب اور نادرہوتی ہے اورپھر یہ حدیث توآپ نے کئی مرتبہ پڑھی اورسنی ہوگی کہ
“ایک وقت مومن کاایمان بچانااپنی مٹھی میں انگارۂ تھامنے کے مترادف ہوگا”۔

اس لئے میں سمجھتاہوں کہ عالمِ اسباب میں سانس کاایک تموج اورذرے کاایک حقیروجودبھی تخلیقِ اسباب اورترتیبِ نتائج میں اپناحصہ اداکرتاہے۔جس طرح عمل بدکی ایک خراش آئینہ ہستی کودھندلاجاتی ہے اسی طرح کلمہ خیر کاایک بول بھی عالم کے اجتماعی خیر کے ذخیرے میں اضافہ کردیتاہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈ ہوکرکبھی نہ کبھی ضرورگونجتا اورمیزانِ نتائج میں اپناوزن دکھاتاہے۔بس ذرابدی کاشکنجہ ڈھیلاپڑنے کی دیر ہے کہ خیر کی کھیتی لہلہااٹھے گی،نیکی کااگر ایک ذرہ بھی معاشرے کے اجتماعی ضمیر میں موجودہوگاتووقت آنے پرضرورگلستانِ رعنابن کرنمودارہوگا۔بس اک آرزوبدلنے کی دیر ہے !میری شدیدخواہش ہے کہ میں بھی کشمیرکے ان لالہ زارکوپنی آنکھوں سے بوسے دوں جہاں میرے آباؤ اجدادکئی مختلف قبرستانوں میں آسودہ خاک ہیں ۔اب دیکھیں یہ آرزوکب پوری ہوتی ہے”۔
نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزوبدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں

گاڑی کے پہیوں کی مانند ہم بھی مسلسل حرکت میں رہے،ایک پہیہ دوسرے سے کیابات کرے،بس یہی کہ کتنے اسٹیشن گزارآئے،کتنے میل دوڑ آئے،کتنی منزل باقی ہے ،حال دل اوردردِ دل سنانے کی مہلت نہ ملی تھی،نہ ملی اورنہ ملتی نظرآتی ہے۔ اپنے ساتھیوں کوحال دل سنانے کیلئے ٹیپوسلطان کوسب سے عمدہ مہلت سرنگاپٹم کے دروازے پرجان دیکرملی تھی اورشائد ہمیں بھی یہ مہلت زیرِزمین پہنچ کرہی ملے گی جہاں چارآدمیوں کی شاہانہ سواری پردرازہوکر پہنچیں گے۔اس سے پہلے تو ساراعلاقہ تگ ودومیدان جنگ، ساری مدت حیات زمانہ جنگ،ساراسامان زیست اسلحہ جنگ، ساری خبریں حالاتِ جنگ اور ساری زندگی جنگی مورچہ ہے۔دشمن دائیں بائیں،آگے پیچھے ہرطرف سے حملہ آورہے،ساری زندگی سمٹ کر چومکھی لڑائی کاہتھیاربن گئی ہے۔جس روز یہ ہتھیارکند ہوگا،گردن سینے پر ڈھلک آئے گی تب کہیں مہلت یک دونفس ملے گی کہ کیسی گزری،کیونکرگزری کاحالِ دل ملائکہ کوسنائیں گے۔

کتنے ہی احباب کی یادیں ماضی کے وسیع دھندلکے میں مصری عجائب خانے کی ممیوں کی طرح پڑی ہیں ۔بے حس وحرکت، منجمداوربے روح،کبھی کبھی محسوس ہوتاہے کہ ان تمام قدیم یادوں پر پھپھوندی سی لگ گئی ہے۔ماضی کے وسیع میدان میں جہاں نشیب وفرازکی بھی کمی نہیں ،کتنے ہی احباب ہیں جنہوں نے حافظہ کے بے کنارہ میدان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ،ان کوآواز دیں ،ان کوسنائی نہیں دیتی،انہیں بلائیں توکوئی جواب نہیں آتا،معلوم ہوتا ہے کہ حافظہ کی دھندلی شاہراہ پرگزرے ہوئے راہگیروں کے نقوش قدم ہیں جوایاّم کی گردکے نیچے مدھم پڑتے جارہے ہیں،آپ اورمیں بھی ان مدھم نشانات میں ایک نشان بن کررہ گئے ہیں۔آپ نے آج جس محبت والفت سےجویادکیاتومحسوس ہواکہ ممیاں بھی گفتگوکرتی ہیں اور ماضی میں سے بھی چھن چھناکرآوازیں حال میں داخل ہوجایاکرتی ہیں ۔یقین کریں جب سے منہ پرموجودداڑھی میں سفیدی کاغلبہ ہواہے تویوں محسوس ہورہاہے کہ جیسے کوئی مسافرجوبغیر کسی زادِراہ لئے کسی طویل سفر کیلئے چل نکلا ہو، اور اپنے ہی بچھائے ہوئے کانٹوں کوپلکوں سے صاف کرکے یاتواس لق ودق صحرامیں جان دیدے گایاایسی کھائی میں گرجائے گا جہاں اندھیرے استقبال کریں گے اورروشنی کادل مسوس ہوکررہ جائے گا۔۔۔!
اک دیااوربجھاروشنی روتی رہی

بھلاہوان چنددوستوں کاکہ ہمیشہ کی طرح ہر سال کرسمس کی تعطیلات کافائدہ اٹھاتے ہوئے مجھ جیسے کھوٹے سکوں کی کالک اورسیاہی کواتارے کابندوبست پچھلے دنوں لندن کے ایک دوردرازگاؤں میں مل بیٹھنے اورتربیت کاسامان کررکھاتھا۔ دنیاسے کٹ کر مافیہا کے قریب انسانی کردارکی اصلاح جس انداز سے یہ حضرات کرتے ہیں اس سے دل میں ایک آرزو پیدا ہوتی ہے کہ یوم حشر کی گھڑی جب{…….جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ خدا نے ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ (سن رکھو کہ) خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے} اور{لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ۔۔ آج کس کی بادشاہت ہے؟}کانعرہ بلندہوگا تومیں بھی گھگھیائی آوازمیں{ ……خدا کی جو اکیلا اور غالب ہے}کاجواب انہی لوگوں میں کھڑاہوکردوں، یہی وجہ ہے کہ مجھے ان دوستوں کے ایسے تربیتی اجتماعات میں شرکت سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی دلنواز اورمحبوب محسوس ہوتی ہے۔

ایسی ہی ایک مجلس کالاہورمیں بھی انعقادہواتھاجس میں آپ نے خصوصی کمال وکلام محبت سے میزبانی فرماتے ہوئے مجھے”ڈائس”پرآنے کی دعوت دی تومیرے لئے براامتحان کاوقت تھاکہ میں آپ کے ارشادکردہ تعارف کے کسی آئینے میں اگر”ان فٹ” ہوگیاتوکیاقیامت برپاہوجائے گی ۔۔۔بس یوں سمجھ لیں کہ یہاں بھی ان دوستوں نے توحیدکی یہ شمع ایک مدت سے جلارکھی ہے اوریہ شمع اپنے رخِ تاباں سے اندھیرے کے اندرنورکے چھینٹے مسلسل برسا رہی ہے۔اس شمع پر اس کے جانثار پروانے کدھرکدھرسے آئے،کن کن تاریکیوں کوپھلانگ کر آئے،کیسے دیوانہ وار آئے ،کیاکیاتاثرات ،عشق ومحبت اپنے سینوں میں تڑپتے ہوئے لیکر گئے ،یہ داستان ہجرووصال بڑی دراز،بڑی پرلطف اوربڑی پرکشش ہے۔وقت کم ہے ،گردشِ روزگار میں بڑی تیزی ہے،کسے فرصت ہے کہ کہی ہوئی کہانیاں دہراسکے،بکھرے موتی چن سکے ،چٹکے ہوئے پھول وکلیاں چن چن کر دامن بھرسکے،ایک لحظہ اور کارواں کہیں کاکہیں نکل جاتا ہے۔اس رواداری میں حکایات خونچکاں سنانے کی کسے مہلت ہے۔میری چشم تصورمیں یہاں بھی میں نے آپ کواپنے ساتھ ہی پایاتاہم اس شمع توحیدکی کچھ خوبیوں کاتذکرہ کرنے کی جسارت کررہاہوں جنہوں نے ہزاروں لوگوں کے دلوں کوموہ لیا ہے ، اس راہِ محبت کے ان مقامات کاتذکرہ کرناضروری سمجھتاہوں جنہوں نے کتنے ہی اربابِ دل ونگاہ کومسخر کرکے اپناگرویدہ اوراپنی منزل کامستقل راہی بنالیاہے لیکن محترم بٹ صاحب! یہ بات کسی ایک شخص کے بتانے کی نہیں ہے۔

جب کسی محبوب کے ہزاروں شیدائی ہوں توظاہر ہے کہ اس محبوب کے عشوہ واداکے بھی ہززروں انداز ہوں گے اوروہ بوقلموں خوبیاں اسی صورت میں سامنے آئیں گی جب عشاق کرام کاہجوم ہو……!اوروہ اپنی اپنی جراحت دل کی داستان اپنی عاشقانہ زبان میں بیان کرے۔بس یہ اجتماع بھی ایسے عشاق کاتھا۔ بہرحال وہاںجوجواہرریزے اپنے تنگ دامن میں جمع کر سکا،اس محبوب ازل کے کشتگان کی داستان وابستگی کے جن جن حصوں نے مجھے زیادہ متاثرکیا،آپ کی ضیافت طبع کیلئے اس لئےتحریر کئے دیتاہوں کہ آج آپ کے محبت نامے بھی اس کے واضح اشارے موجودہیں:

آپ جانتے ہیں کہ مقصد زندگی کی جس سنگلاخ وادی میں سے یہ قافلہ جان گزرہاہے وہ کٹھن بھی ہے اوردشواربھی،حوصلہ شکن بھی ہے اورصبرآزما بھی ،لیکن ایک نصب العین کے حامل جب کچھ ساتھ جمع ہوجائیں توسارے بوجھ اترجاتے ہیں ، شکائتیں دورہوجاتی ہیں،دل شگفتہ ہوجاتے ہیں اوراشتراک غم،مرگ انبوہ کاجشن پیداکردیتاہے۔پھرکوئی حالات کے ہاتھوں دل گرفتہ نہیں ہوتااورمنزل کی کٹھن گھاٹیوں کاکوئی شکوہ سنج نہیں رہتا۔اس وقت محسوس ہونے لگتاہے کہ یہ کوئی رہینِ ستم ہائے روزگارلوگ نہیں ہیں بلکہ منہ زورزمانے کے شہہ سوارہیں اورحالات کی لگام تھامے جس طرف چاہیں زندگی کارخ موڑکرلیجاسکتے ہیں۔ایسے وقت میں ذکروشکران کے لبوںپرہوتاہے توعزیمت آگے بڑھ کر ان کے قدم چومتی ہے۔

اس محفل میں”اپنی تربیت آپ”کے اصول پر سب دوست جمع تھے۔جب یہ ذکرچل نکلاکہ نصب العین کی محبوبہ عالم کی کس اداسے کون مجروح ہوا، ظاہر ہے کہ عشاق کی محفل میں جب ذکر محبوب کی اداؤں کاچھڑجائے توبات قیامت کارنگ دھار لیتی ہے اورتب پتہ چلتاہے کہ کشتی دل کیلئے محبوب کاہرسانس ایک طوفان اورمرغ آرزوکیلئے اس کاہررونگٹا ایک بے پناہ تیرکی حیثیت رکھتاہے۔میں نے بارہاآپ کے عشق کواس محفل کے دولہاکے روپ میں دیکھا۔اس محفل عشاق کاآغاز جب غم ناک چشم سے خوفِ خدا،آخرت کی جوابدہی اوراس زمانے میں دین کی مظلومی سے کیاتوگویاوقت تھم گیاہو،سانس کا تسلسل جوپچھلی چھ دہائیوں سے کبھی مشکل نظرنہیں آتا تھا ،اب اگلے سانس لینے کی گویاہمت نہ ہو۔مجھ جیسے گناہ گارکوسورة بقرہ کی آیت چالیس سے لیکر چھیالیس تک درس قرآن کاجب حکم ملاتومحسوس ہوا کہ قرآن کی ان آیات میں یہود کونہیں بلکہ مجھے مخاطب کیاجارہاہو۔قرآن جوایک زندہ معجزہ ،اپنی جبروت وسطوت کے رنگ دکھارہاتھاوہاں میرا اپنارنگ پھیکا پڑ رہاتھا،قلب وضمیرساتھ نہیں دے رہے تھے ،زبان یوں لڑکھڑارہی تھی جیسے اس نے بولناکبھی سیکھاہی نہیں…..سب دعائیں یادنہ رہیں بس یہی سرور،کائنات ﷺ کی دعاکہ: {۔۔۔ اے میرے رب میرا سینہ کھول دے ۔ اورمیرا کام آسان کر اور میری زبان سے گرہ کھول دے کہ میری بات سمجھ لیں}

بعدمیں دوستوں کااس پرتبصرۂ ،سینہ مزید کھلتاگیا،دماغ سے پردے ایک ایک کرکے ہٹ رہے تھے،خداکی وحدانیت کایقین، میرے آقا جناب رسول اکرم ﷺ کی سیرت مبارک، اصحابہ کرام کاایثار،قربانی واستقامت دل پر نقش ہورہے تھے اورکالک و سیاہی اس طرح دورہورہی تھی جس طرح کالے بادلوں سے اٹاہواآسمان نورکی پہلی کرن سے خوفزدہ ہوکراس کیلئے جگہ چھوڑ رہا ہو،اورواقعی قرآن کی یہ آیت کہ:{۔۔۔۔ اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا۔ بےشک باطل نابود ہونے والا ہے} کی عملاً تفسیراپنے دل کی کیفیت سے محسوس ہوئی۔

غیرمسلموں کے اس معاشرے میں اسلام کی دعوت،پلاننگ،نمائش،تعارف،غرضیکہ زندگی کے تمام ضروری پہلوؤں پراس مختصروقت(ڈھائی دن)میں اس طرح عملی روشنی پڑی کہ سب ہی اندھیرے چھٹ گئے،گرددورہوئی توذہنی بوجھ اورجسم کواس طرح ہلکامحسوس کیاکہ داڑھی کی سپیدی بھی کچھ اچھی نظرآنے لگی اوردل میں یہ احساس جاگزیں ہوگیاکہ اس کیفیت میں محبوب سے ملاقات ہوگئی توعاشقِ صادق کاپروانہ مل جائے گاوروصل بھی نصیب ہوجائے گا۔
قبلہ بٹ صاحب:
آیئے!اپنی زندگی کے عشق کاآغازاس اندازسے کریں کہ محبوب منتظرومضطرب ہو،بے چین ہواور بے ساختہ محمدعلی جوہرکی مناجات لب پرہو:
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لئے ہے
پر غیب سے سامانِ بقا میرے لئے ہے
پیغام ملا تھا جو حسین ابنِ علی کو
خوش ہوں وہی پیغامِ قضا میرے لئے ہے
یہ حورِ بہشتی کی طرف سے ہے بلاوا
لبیک کہ مقتل کا صلہ میرے لئے ہے
کیوں جان نہ دوں غم میں ترے جب کہ ابھی سے
ماتم یہ زمانے میں بپا میرے لئے ہے
میں کھو کے تری راہ میں سب دولتِ دنیا
سمجھا کہ کچھ اس سے بھی سوا میرے لئے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
سرخی میں نہیں دستِ حنا بستہ بھی کچھ کم
پر شوخئ خونِ شہداء میرے لئے ہے
راحل ہوں مسلمان بصد نعرہء تکبیر
یہ قافلہ یہ بانگِ درا میرے لئے ہے
انعام کا عقبٰی کے تو کیا پوچھنا لیکن
دنیا میں بھی ایماں کا صلہ میرے لئے ہے
کیوں ایسے نبی ﷺ پر نہ فدا ہوں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لئے ہے
اے شافعِ محشر ﷺ جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لئے ہے
اللہ ہی کے رستے میں موت آئے مسیحا
اکسیر یہی ایک دوا میرے لئے ہے
کیا ڈر جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
جو صحبتِ اغیار میں ہو اس درجہ بیباک
اس شوخ کی سب شرم و حیا میرے لئے ہے
ہے ظلم بہت عام ترا پھر بھی ستمگر
مخصوص یہ اندازِ جفا میرے لئے ہے

دعاؤں کی درخواست پراجازت چاہتاہوں
احقر
سمیع اللہ ملک لندن
بروزسوموار4جمادی الاوّل 1441ھ
30دسمبرسالِ آخر2019ء

اپنا تبصرہ بھیجیں