Long Live The Immortal People

زندہ جاویداورامرلوگ

:Share

ایساہوتاآرہاہے کہ سب فلسفے دھرے رہ جاتے ہیں،دلیلیں منہ تکتی رہ جاتی ہیں،پندونصائح بے اثرہوجاتے ہیں،زورِخطابت دم توڑدیتا ہے ،اہل منبرومحراب دنگ رہ جاتے ہیں…….. جبے،عمامے اپنی شان وشوکت کھوبیٹھتے ہیں،پہاڑریزہ ریزہ ہوکرروئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگتے ہیں،زمین تھرتھرانے لگتی ہے،ساری حکمتیں ناکارہ اورسارے منصوبے نابودہوجاتے ہیں،ذلیل دنیاکے چاہنے والے دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں،اہل حشمت وشوکت منہ چھپانے لگتے ہیں،محلات بھوت بنگلے بن جاتے ہیں،منظربدل جاتا ہے ،موسم بدلنے لگتا ہے،آسمان حیرانی سے تکتا ہے،شجر میں بیٹھے ہوئے پرندے اور جنگل میں رہنے والے درندے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔جب دیوانے رقص کرتے ہیں،جنوں اپنے گریباں کاعلم بن کر نکل پڑتاہے،پھرعقل خود پرشرمندہ ہوتی ہے،جب عشق اپنی جو لانی پرآتاہے،نعرہ مستانہ بلندسے بلندتراوررقص بسمل تیزسے تیزترہوتاچلاجاتاہے۔ جب موت کی تلاش میں نکلتی ہے زندگی۔سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہوتاہے لیکن……. لیکن ہمیں نظرنہیں آتا،آئے بھی کیسے!ان دیدوں میں بینائی کہا ں ہے،روشنی کہاں ہے؟ روشنی اور بینائی تواندرسے پھوٹتی ہے،جی……..اندرسے،دل سے…..اورجسے ہم دل سمجھ بیٹھے ہیں،وہ توصرف خون سپلائی کرنے کا ایک پمپ بن کررہ گیاہے،دل کہاں ہے؟نہیں یہ دل نہیں ہے بس ایک آلہ ہے۔جن کے دل دھڑکتے ہیں وہ زمانے سے آگے چلتے ہیں۔نعرہ مستانہ لگاتے، سربکف میدان میں اترتے ہیں۔ موت کو للکارتے ہیں اور موت ان سے خائف ہوکرکہیں چھپ کربیٹھ جاتی ہے۔یہ دیوانے اورپاگل لوگ موت کوموت کے گھاٹ اتارنے نکلتے ہیں ہیں اورپھرزندہ جاویدہوجاتے ہیں ،جی یہی زندہ جاوید لوگ آگے بڑھ کرمنتظرمنزل کوپالیتے ہیں:

پھرمیرارب جلال میں آتاہے اورحکم دیتاہے:اورجواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مراہوانہ کہو،لیکن وہ تو زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کاشعورنہیں۔اورہم تمہیں کچھ خوف اوربھوک اورمالوں اورجانوں اورپھلوں کے نقصان سے ضرورآزمائیں گے،اورصبرکرنے والوں کوخوشخبری دے دو۔وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں کہ ہم تواللہ کے ہیں اورہم اسی کی طرف لو ٹ کرجانے والے ہیں۔”(البقرہ :154۔156)

یہ ہیں زندہ جاویداورامرلوگ،جنہیں رب بھی مردہ کہنے سے منع کرتاہے،وہ توکہتاہے کہ ایساخیال بھی دل میں مت لاؤ،خبردارجو ایساسوچابھی!زندہ ہیں ، امرہیں، رزق پاتے ہیں،زندہ جاویدلوگ…….امرلوگ،رب کے حضوراپنی نذرپوری کردینے والے،اپناعہد نبھانے والے،صلہ وستائش سے بے پرواہ لوگ،پاگل ودیوانے لوگ۔کہاں نہیں برپایہ معرکہ عشق ومحبت؟کہاں نہیں برپا؟رؤئے ارض پرچاروں طرف سجاہواہے یہ میلہ……اورمیلہ لوٹنے والے دیوانے، ہم صرف تماشائی،نوحہ گراورمرثیہ خواں۔اب گنواؤں توتکرارہو گی اورطبع نازک پرگراں گزرے گا۔یہ توسامنے برپاہے معرکہ عشق۔یہ غزہ میں نہیں دیکھ رہے آپ ،افغانستان میں پچھلی تین دہائیوں سے کیاکچھ نہیں کیاگیا،اب اسے کڑی سزادینے کیلئے ان کے اثاثہ جات کوضبط کرکے مطیع بنانے کی کوششیں جاری ہیں، عراق کو دن دیہاڑے لوٹ لیاگیا۔اس کی ہزاروں سال کی تہذیب کوبربادکردیاگیا،اس کے قیمتی نوادرات لوٹ لئے گئے،اس کی تیل کی پیداوارپر اب تک اجارہ داری جاری ہے اوران سے زندہ رہنے کاتاوان وصول کیاجارہاہے،کشمیرکی خومختاری ہراقوام متحدہ کی تمام قرار دادوں کوایک پل میں پس پشت ڈال کراس کومٹانے کی کوششیں جاری ہیں،کشمیراب بھی مسلسل جل رہاہے اورآئے دن اپنے زندہ ہونے کاخراج اداکررہاہے،اب توہرجگہ اپنے کمیں گاہوں سے تیربرس رہے ہیں،لیکن یہ پھربھی پروانہ واراپنی جانوں کوسربازار لٹاتے جارہے ہیں چاہے ان کوغداراوردہشتگردالقابات کہہ کرپکاراجائے۔

اب توسمجھ آگیاہوگاکہ انہیں کہتے ہیں زندہ انسان، بندہ رب،سب کاانکارکردینے والے پُراسراربندے،موت کوسینے سے لگاکرزندہ جاویدہوجانے والے، اپناخون اپنی جان،اپنے پیارے رب کی نذرکردینے والے قافلہ حسین کے لوگ!اہل غزہ!تم پرسلام ہو،تم نے اطاعت کی ایک مثال قائم کردی،یہ ہے اطاعت رب میں جاں سے گزرنا،تم نے ثابت کردیاتم ہوبندگاں خدا….. اہل غزہ،اے اہالیان کشمیر،تم پر سلام ہو،ہم سب دیکھتے رہ گئے اورتم اپنی مراد پا گئے، اے بامرادلوگو!تم پرسلام ہو،اے خوش نصیب لوگو!تم پرسلام ہو۔اے اس دنیائے ناپائیدارکوٹھوکرمارنے والو!تم پرسلام ہو،آنکھیں کھولو……. . آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھیروں میں ٹا مک ٹوئیاں مارنے والو!آنکھیں کھولو،یہ دیکھودل کش منظر،سونگھواس خوشبوکو،جوخوشبوئے شہداء ہے۔دیکھویہ ہے زندگی.. ….سب کاانکار،کوئی نہیں روک سکتا اس قافلہ حق کو۔اقوام متحدہ ،اوآئی سی،عرب لیگ اورانسانیت کے علمبرداروں اورسامراج کے ایجنٹ لکھاریوں کے منہ پرتھوک دینے والو!تم پرسلام ہو۔

کچھ عقل سے عاری تمہاری ان قربانیوں کوپہچان نہیں پائے کہ اللہ نے ان سے دیکھنے اورسمجھنے کی صلاحیت ہی چھین لی ہے۔” اللہ نے ان کے دلوں پرمہر لگادی ہے اوران کی آنکھوں پرپردہ ہے اوران کیلئے بڑاعذاب ہے۔اورکچھ ایسے بھی لوگ ہیں جوکہتے ہیں ہم اللہ اورقیامت کے دن پرایمان لائے حالانکہ وہ ایمان دارنہیں ہیں۔( البقرہ:7۔8)

حالانکہ اللہ نے توقلم کی بھی قسم کھائی ہے لیکن شائد وہ اس قلم کی حرمت سے ابھی واقف نہیں۔وہ اس بات کولکھنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ تمہاری قربانی محض ضائع ہوگئی،وہ پڑوسی ملک کی مثال دیکرسمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھووہ کس قدردانشمندی سے اپنی قوم کواس جنگ کے شعلوں سے بچارہاہے،لیکن زمینی حقائق سے آنکھیں چراکرنجانے کس کوخوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔پڑوسی ملک کا چاروں طرف سے ایسامحاصرہ نہیں کیاگیا، سیال مادہ کی دولت سے مالامال ایران اس وقت اپنے پاؤں پرکھڑاہے اورمالی طورپرکسی کامحتاج نہیں۔وہ آبنائے ہرمزکوبندکرنے کی صلاحیت رکھتاہے “جیدے گھردانے،اودے کملے وی سیانے”لیکن کمال آفریں ہے تم پرکہ تم ایسے لکھاریوں کوخاطرمیں نہیں لائے!!!

کیاآپ جانتے ہیں،کبھی سوچاہے،ہاتھی گھاس کاگٹھااپنی سونڈمیں پکڑکرجھٹکتاکیوں ہے؟اس لئے کہ کہیں اس گھاس میں چیونٹی نہ ہو۔وہ جانتاہے کہ اگروہ چیونٹی کونگل لے تووہ اس کے دماغ میں جاکربیٹھ جاتی ہے اوراپناننھاساپاؤں مارتی رہتی ہے اوربالآخر ہاتھی دم توڑدیتاہے۔غزہ اورکشمیرکے شیروں کودشمنوں نے چیونٹی سمجھ کرمسلناچاہاتھا،وہ چیونٹی ان کے ہاتھی جیسے جثے کو نابودکردے گی۔ہاں!یہ بات اب ان ظالم دشمنوں کوسمجھ آگئی ہے،ہمیں اب تک سمجھ نہیں آئی۔ مزاحمت ہی میں ہے زندگی……با وقار وقابل رشک زندگی۔

غزہ کاباسی محموداپنے سات ماہ کے شیرخواربچے کواپنے سینے سے الگ کرکے جب لحدمیں اتاررہاتھاتو تکبیر بلندکرتے ہوئے اپنے رب سے کہہ رہاتھاکہ یہ آخری پونجی تھی جوتیرے راستے میں قربان ہو گئی۔تیری دی ہوئی نعمت سے سات ماہ استفادہ کیااوراے میرے رب اس کومیرازادراہ بنادے۔ بوڑھی اسی سالہ فاطمہ اس بات پرفخرکررہی تھی کہ میں نے اپنے خاندان کے تمام افرادراستے کے کانٹے چننے کیلئے رخصت کردیئے اورمیں بھی اب تیری ملاقات کیلئے بے تاب ہوں۔احمد دوران یہ کہتاہے کہ میں اپنے بچوں کوہرروزرات کویہ کہانی سناتاہوں کہ ہم مرنے والے نہیں ہیں،ایک عارضی زندگی کے چنگل سے نکل کردائمی اورکامیاب زندگی ہماراانتظارکررہی ہے۔جب بھی میرے گھرکے ارد گردکوئی بم پھٹتاہے میں ناچناشروع کردیتاہوں۔میری ایک ہی بچی جواس جنگ کی تباہ کاریوں سے ابھی تک بچی ہوئی ہے،وہ بھی اس کوایک کھیل تماشہ سمجھ کرلطف اندوزہوتی ہے۔موت کوکھیل تماشہ سمجھنے والو!تم پرسلام ہو۔تم نے اپنے عزم سے ثابت کردیاکہ تمہارے پائے اسقلال میں کوئی جنبش نہیں آئی۔تم آج بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سامنے کھڑے موت کامسکراتے ہوئے انتظار کر رہے ہو۔اس گھڑی جب سب کوحاضرہوناہے،تم بھی اپنے خون آغشتہ لاشوں سے حاضر کئے جاؤگے۔تمہاری فلاح اورکامیابی کااعلان جب فرشتے باآواز بلند کریں گے،لیکن تمہاری قربانیوں کوتمہاری قیادت کی غیرذمہ داری ٹھہرانے والے دنیااورآخرت میں تم سے منہ چھپاتے پھریں گے۔
اے ہمارے رب! بیشک تو سب لوگوں کو اس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ، بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔(عمران :9)
توحیدتویہ ہے کہ خداحشرمیں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفامیرے لئے ہے

کشمیریوں اورفلسطینیوں پرقیامت بیت رہی ہے لیکن صدافسوس کہ یہاں ہماری مسلم حکومتوں کی محفلیں شگوفہ بنی ہوئی ہیں۔یہ ہمیں کیاہوگیاہے؟بستی میں ایسی بے حسی توکبھی نہ تھی۔درست کہ ہم آج کمزورہیں اوران کی عملی مددسے قاصرہیں لیکن ہم نے تو کشمیریوں سے وعدہ کیاتھاکہ ہم تمہارے وکیل ہیں اور ہرجمعہ کے دن ایک گھنٹے کی علامتی یکجہتی کااظہارکریں گے لیکن چندمنٹ فوٹوسیشن کے بعداس طرح غائب ہوگئے جیسے کسی نے کوئی جرم کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیاہو۔ہم اتناتوکرہی سکتے ہیں کہ یہ دکھ امانت کی طرح سنبھال کررکھیں اورنسلوں کووراثت میں دے جائیں۔کیا عجب ہماری نسلیں ہماری طرح بے بس نہ ہوں۔وقت کا موسم بدل بھی توسکتاہے۔ہم اتناتوکرسکتے ہیں کہ موسموں کے بدلنے تک اپنے زخموں کوتازہ رکھیں۔ان سے رستے لہوکوجمنے نہ دیں لیکن ہم سے تویہ بھی نہ ہوسکا۔وعدے کیلئے جان قربان دنیا،یہ بھلے وقتوں کی بات تھی،ابھی روشن خیالی کی مسندمسخروں کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی۔ہمارا ادیب دائیں اوربائیں کی تقسیم سے بے نیازہوکریہ امانت نسلوں تک پہنچارہاتھالیکن اب توہم ان تمام روشن روایات سے محروم ہوگئے ہیں۔

مقبوضہ کشمیرکی’’وولرجھیل کے کنارے‘‘میں سیدعلی گیلانی نےاپنی سوانح حیات میں دل کے زخم دکھانے سے توگریزکیالیکن بین السطورمیں چشم کشامنظر ناموں کی نشاندہی کردی ہے۔بھارتی بنئے کے سینے پربیٹھ کراپنے لاکھوں چاہنے والوں اورسرفروشوں کے درمیان علی الاعلان یہ دعویٰ رقم کردیاکہ”ہم ہیں پاکستانی، پاکستان ہماراہے‘‘لیکن کشمیریوں کاقصوریہ ہے کہ وہ تاریخ ِ عالم میں اُنچند پُرعزم، بلندحوصلہ،حق پرست،حریت پسنداورجذبۂ اِستقلال سے سرشاراقوام میں سرِ فہرست ہیں جو8لاکھ سے زائد بھارتی درندوں کے ظلم سے نہ توخوفزدہ ہیں اورنہ ہی ان کے سامنے سرتسلیم خم کیاہے۔ایک نہتی مجاہدہ آسیہ اندرابی نے تم سب کی مسنداقتدارپر تھوک کرتہاڑجیل کی سختی کواوڑھنابچھونابنالیاہے لیکن تمہاری فرعونیت کے سامنے سرنہیں جھکایا۔اس نے تاریخ میں یہ رقم کردیا ہے کہ1947ءسے لیکرآج تک کشمیریوں پرزندگی تنگ کردی گئی ہے جوبلاشبہ ہندوبنئے ڈوگرہ راج کے تسلسل سے بھی بدترہے۔ گمنام اجتماعی قبریں ،بے گناہ شہداء،معصوم یتیم، بیوہ ونصف بیوہ عورتیں،نابینابچے،جوان،معذوروبے سہارابوڑھے اورلہولہان وادیٔ کشمیربھارتی مظالم کامنہ بولتاثبوت ہیں لیکن وہ آج بھی اقوام عالم کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ جوان دنوں بڑی طاقتوں کی ایک لونڈی کاکرداراداکررہاہے،سے اپناوہ جائزحق مانگ رہے ہیں جواس ادارے میں اقوام عالم کے اتفاق رائے سے دنیاکی چندبڑی طاقتوں کے بطورضامن،ان کودینے کاوعدہ کیاگیاتھا۔آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم کشمیری خاموش زبانوں،نابینا آنکھوں، بہتے زخموں، لُٹی عزتوں اوربے بس ہاتھوں میں جوان لاشے اٹھائے ضمیرعالم کوجھنجھوڑنے کی ناکام مگرپُرامید کوشش میں مصروف وشکوہ کناں ہیں۔

تاہم غزہ کے دردسے چشم پوشی کرنے والے اورپاکستان کوریاست مدینہ بنانے والے میرے رب کایہ اٹل فیصلہ بھی ذہن نشیں کرلیں کہ:…کیالوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ وہ بس اتناکہہ دینے سے چھوڑدیئے جائیں گے کہ”ہم ایمان لائے”اوران کوآزمایانہ جائے گا؟ اللہ کوتویہ ضروردیکھناہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون!( العنکبوت:2۔3) اورہاں یہ بھی سن لو:اوراس سے بہترکس کی بات ہے جس نے لوگوں کواللہ کی طرف بلایااورخودبھی اچھے کام کیے اور کہابے شک میں بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں!(الفصلات:33)

اے دنیاکے اسیرو!دنیائے ذلیل کی چاہت میں خوارہونے والو!اے57 ریاستوں کے مردودحکمرانو،بےغیرتی کے مجسم پتھروں،دیکھو یہ ہے زندگی۔اہل غزہ اورشہدائے کشمیر،تم پرسلام ہو۔وہ دیکھوشہداءکے خون سے پھوٹنے والی سحر۔دیکھو،آنکھیں چرانے سے یہ انقلاب نہیں رکتا۔اپنے محلات بچانے کی آخری کوشش کرلو……نہیں بچیں گے یہ!رب کعبہ کی قسم ،کچھ بھی نہیں بچے گا۔وہ دیکھو بابااقبال بھی یہی کہہ رہے ہیں۔
اززلزلہ می ترسندہماکاخ نشیناں
ماخانہ بدوشم غم سیلاب نہ داریم
(امراءکے محلات پرزلزلہ طاری ہے۔خانہ بدوش سیلاب کاغم نہیں پالتے)

اے کیمپوں میں رہنے والوغزہ کے باسیوں اورکشمیرمیں بسنے والے مظلوموں!تم پرسلام ہوکہ تم تواپناسب کچھ لٹاکرربِّ کریم کی دیدکوبڑی شان سے جاپہنچے لیکن اے دنیاکے پرستارو!مغربی اورامریکی بینکوں میں اپنے خزائن پرتکبرکرنے والو!بچاسکتے ہو توبچالو۔کچھ نہیں بچے گاکوئی بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گا میرے رب کاجوحیی قیوم ہے۔
خوف تادیب سے مظلوموں پہ رویانہ گیا
شام مقتل میں کوئی بھی نہ عزاداراٹھا
سامنے ترے زرافشاں ہے نئی صبح امید
اپنی پلکوں کوذرادیدہ خوں باراٹھا

اپنا تبصرہ بھیجیں