The life of this world is based on death

دنیاکی زندگی موت پرموقوف ہے

:Share

آج میں نے فکرآخرت،ذکرموت پرقلم اٹھانے کی جسارت کی ہےکہ ہم سب اس اٹل حقیقت سے کچھ نصیحت حاصل کریں۔شائدو بایدکوئی اہل دل اس سے نصیحت حاصل کرے اور آخرت کے لئے کوئی سامان ایمان،ایقان،قرآن،نبی آخرالزمان کافرمان بن جائے ۔اللہ اوراس کارسولﷺ راضی ہوجائیں،اللہ کے فضل سے خاتمہ بالخیرہوجائے،سچی بات پریقین کریں، قبروحشرمیں نجات ہو جائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی اورموت کی کشمکش ابتداء سے چلی آرہی ہے۔زندگی نے دعویٰ کیاکہ اس دنیامیں ہمیشہ رہوں گی لیکن موت نے اس کو باطل کرکے دکھایا۔
کش مکش ہوتی رہی دن رات مرگ وزیست میں
انتہامیں موت جیتی اورہاری زندگی

زندگی میں انسان نے مکان بنایا کارخانے بنائے۔ دکان بنائی۔ملیں لگائیں،باغات لگائے،کوٹھیاں ائیرکنڈیشنڈ تیارکیں،محل بنائے، ایٹمی حملوں سے بچنے کیلئے پناہ گاہیں بنائیں،آرائش وزیبائش کے سامان تیارکئے۔بناوٹ سجاوٹ سج دھج دکھایا۔قلعے تیارکیے اورحفاظتی جنگلے لگائے مگرجب موت نے ڈیراڈالا،اجاڑکے رکھ دیا،خودکورب اعلیٰ کہنے والاجب ڈوبنے لگاتوپکاراٹھاکہ میں سچے رب پرایمان لاتاہوں لیکن دیرہوگئی۔رہنے والے مکین چلے گئے۔گاہک آئے،دکاندارروانہ ہوچکاتھا۔بیوی تھی مگربیوہ تھی ۔بچے تھے مگربے سہارا۔ہنستے ہوئے گھرغمزدہ ہوگئے۔خوشی غمی میں تبدیل ہوگئی۔ آبادی بربادی میں تبدیل ہوگئی۔خانہ سرسبز و شاداب خراب ہوگیا۔اللہ اللہ کتناہولناک منظرہے۔نومولودچیخ رہاہے مگردودھ پلانے والی شفیق ماں دنیا سے چل بسی۔

حضرت ابن منبہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملک الموت ایک بہت بڑے جابرظالم کی روح قبض کرکے جارہے تھے۔فرشتوں نے ان سے پوچھاکہ تم نے ہمیشہ جانیں قبض کیں،کبھی کسی پررحم بھی آیا؟انہوں نے کہاکہ مجھے سب سے زیادہ ترس اس عورت پرآیاجوجنگل میں بالکل تنہاتھی۔جونہی اس کابچہ پیداہوامجھے اس عورت کی جان قبض کرنے کاحکم ہوا۔مجھے اس بچہ کی تنہائی پربڑاترس آیاکہ جنگل میں جہاں کوئی دوسرانہیں ہے اس بچے کاکیابنے گا؟فرشتوں نے کہا یہ ظالم جس کی روح تم لے جا رہے ہو،وہی بچہ ہے۔ملک الموت حیران ہوگئے۔کہنے لگے: مولیٰ توپاک ہے بڑامہربان ہے۔جوچاہتاہےکرتاہے۔اس کے برعکس دودھ بہہ رہاہے مگرپینے والاقبرکے اندرچلاگیا۔ہاں ہاں بادشاہوں کے محلات مضبوط تھے۔قلعے موجود ہیں مگراب وہ کھنڈرہیں۔ خالی ہیں،یادگارہیں،آثار قدیمہ ہیں تاکہ دیکھنے والے عبرت پکڑیں۔تخت ہے تخت نشین نظرنہیں آتا۔آرام کرسیاں موجود ہیں مگر کرسی نشین مفقود۔گاؤتکیے رہ گئے مگرٹیک لگاکرآرام کرنے والے چلے گئے۔اس جہان فانی میں بڑے بڑے لوگ آئے:بدکار آئے، باوقارآئے،انبیاء،اولیاء،صلحاء،اتقیاء،امراء،عقلا،فصحاء،بلغاءآئے،طاقتوربہادرپہلوان آئے، نوجوان آئے، شہنشاہ وبادشاہ آئے، وزراءآئے، حسین آئے،نازنین مہ جبین آئے،سپہ سالارآئے،شہسوارآئے،سردارآئے،مالدارآئے،نیکوکارآئے،بدکارآئے،پدمہاکروڑہا لکھوکھاہزارہا آئے، تندرست آئےلاچارآئے مگرسب چنددنوں کے مہمان تھے۔کیسے ہی ذی شان تھے۔بہادرتھے،پہلوان تھے مگرموت نے کسی کونہیں چھوڑا۔مغرورکاغرورتوڑا۔دولت میں قارون، تکبرمیں فرعون اورموجودہ دورکے فراعین قصرسفیدکے مکین،ظلم میں ہلاکواورشہ زوری میں رستم،خوبصورتی میں یوسفؑ،صبرمیں ایوبؑ،درازی عمرمیں نوحؑ،جلالی میں موسیٰ وصداقت میں صدیقؓ، عدالت میں عمرؓ، سخاوت میں عثمانؓ،وحسینؓ،فصاحت میں سبحانؒ، عدل وانصاف میں نوشیرواںؒ،حکمت میں لقمانؒ،جودمیں حاتم ،موسیقی میں تان شجاعت میں علیؓ،شہادت میں حمزہ اور حسین، عشق میں مجنوں،شاعری میں انوری،سعدی، حافظ،جامی،فردوسی اوراقبال، خاموشی میں زکریاؑ، گریہ میں یعقوبؒ، رضاجوئی میں ابراہیمؑ، ادب میں اسماعیلؑ،حیاءمیں مریمؑ، امتحان میں کامیاب ہاجرہؑ،ایمان میں بنیان مرصوص آسیہ،وفامیں خدیجہؓ،علم میں صدیقہؓ،صبرمیں سمّیہؓ،سخاوت میں زبیدہؒ،عفت میں فاطمہؓ،حدیث میں رفاعیہؓ،حکومت میں سلیمانؑ،ذہانت میں فیضی، فلسفہ میں غزالیؒ،تفسیرمیں محمودآلوسیؑ،حدیث میں بخاریؒ ، دعوت میں نوحؑ،خونریزی میں چنگیزخاں،بش،ٹونی بلیئر،نیتن یاہو،مودی،فقہ میں امام ابوحنیفہؒ،خوش الحانی میں داؤدؑ،سیاحت میں ابن بطوطہ،فتح میں سکندراعظم،شہادت و صبرمیں امام حسینؓ،سیاست میں مولاناعبید اللہ سندھی،وعظ اورمیدانِ خطابت میں حضرت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری۔۔۔مگریہ سب قبرکے مہمان بن گئے۔
تھیں عظیم ہستیاں مگرخالی کرگئیں بستیاں
نہ آیاجوکہ باقی رہانہ ساغررہانہ ساقی رہا
بی بی عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا:
لوکانت الدنیا تدوم لواحد
لکان رسول اللہ فیھا مخلدا
اگردنیاایک شخص کیلئےقائم ہوتی تورسول اللہ ﷺوہاں ہمیشہ کے لیے مقیم ہوتے۔
فارسی میں کسی نے کیا عجیب کہا:
اگرکس درجہاں پایندہ بودے
ابوالقاسم محمد زندہ بودے

حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں ملک الموت آدمی کی صورت بن کرحاضر ہوئے۔ایک وزیرحضرت کے پاس بیٹھاتھا۔ ملک الموت نے کئی باروزیرکودیکھا۔جب ملک الموت چلے گئے،وزیرنے پوچھا،حضرت یہ کون تھا؟فرمایا!حضرت عزرائیلؑ۔ وزیرنے کہا،اس کے بارباردیکھنے سے خوف پیداہوگیاہے۔ابھی ہواکوحکم دیں کہ مجھے اپنے وطن بوماس جزیرہ میں پہنچادے۔ حضرت سلیمانؑ نے حکم دیا،آن کی آن میں خداکی شان وزیرباتدبیر وطن پہنچا۔ابھی گھرکی دہلیزپر قدم رکھاتھاکہ ملک الموت نے جان قبض کرلی۔دوسری ملاقات میں سلیمانؑ کے دریافت فرمانے پرملک الموت نے جواب دیا:میں حیران تھاکہ مجھے حکم ہواکہ اس وزیرکی جان جزیرہ بوماس میں قبض کرنی ہے اوریہ یہاں آپ کے پاس تھامگرحکم پوراہوگیا۔

ہارون الرشید کاشہزادہ،مگرنہ دولت کادلدادہ نہ شاہی محلات میں رہنے پرآمادہ،نہایت سادہ،مسکینی فقیری اختیار کی۔بیابانوں ویرانوں میں پھرتارہا ۔ بادشاہ نے کئی بار قاصد بھیجے۔بیٹا گھرآؤ، نعمتیں ہیں،لطف ہے،خزانے ہیں،دولت ہے،عیش ہے،آرام ہے، محل ہے،نوکرہیں،باندیاں ہیں،تیرے ہراشارے پرہرچیزمیسرہوسکتی ہے۔بیٹے نے کہا:والد محترم!یہ سب بے کار ہے،آخرفناہے، دنیابے وفاہے۔آخرت کے مقابلے میں ہیچ ہے۔دنیا قارون کاورثہ ہے اوردین محمدمصطفیﷺکا ورثہ ہے۔
میری نگاہ قرآن کی اس آیت پر ہے:
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَاقَلِیْل۔فرمائیے،سامان دنیابہت تھوڑاہے۔
وَالْآخِرَةُ خَیْرُوَّاَبْقٰی۔آخرت اچھی ہے اورباقی ہے۔

ایک دن شہزادے کی موت کاوقت قریب آیا۔صحرامیں کسمپرسی میں،مسکینی میں جان جانِ آفرین کے سپردکرنے سے پہلے زمین پریہ اشعار تحریرکرکے ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔اشعارنوشتہ برزمین یہ تھے۔
یا صاحبی لا تغرر بتنعمی
فالعمر ینفدو والنعیم یزول
اذا حملت الی القبرل جنازہ
فاعلم بانک بعدھا محمول
اے دوست دولت پرمغرور نہ ہو۔ یہ مال بھی ختم ہو گا اورعمربھی۔جب قبرستان کی طرف جنازہ اٹھاکرلے جائیں گے تویقین کرنا کہ اس کے بعد تیری باری بھی آئے گی۔

ہارون الرشید کو اطلاع ملی کہ تیرافرزندارجمند فلاں جنگل میں فقیری لباس، اینٹ سرہانے ،نہ پلنگ نہ غالیچے وہ نازنین نازک بدن،زیب چمن،بے وطن بے گوروکفن ، مسکینی اندازمیں دنیاسے بے نیازابدی نیندسورہاہے۔بادشاہ نے جب یہ سناتومحبت و شفقت پدری نے جوش مارا،چیخیں نکل گئیں ،بے اختیارروپڑا،فوراًعزیزبیٹے کے سرہانے پہنچا۔پیشانی چوم کرکہا!مبارک ہوبیٹاتو نے فقیری کوامیری پرترجیح دی،آج تورسول اللہ ﷺکی گود میں چلاگیا۔زندگی سادہ موت اعلیٰ مگر تیری جدائی کاداغ ہمیشہ سینے میں رہے گا۔
تواضع زگردن فرازاں نکوست
گدا گرتواضع کند خوئے اوست!
عاجزی تکبر نہیں بلکہ بھکاری کاکردارہے

ہارون الرشیدمتاثرہوئے بغیرنہ رہ سکا۔یقین ہوگیاکہ دنیافانی ہے۔آخرت باقی ہے۔اس کے بعدعلماءکی صحبت ومحبت اختیارکی۔ہارون الرشید کی بھی یہ مشہوربات ہے کہ نصیحت کے سننے پربہت رویاکرتے تھے۔ایک مرتبہ حج کوجا رہے تھے توسعدوں مجنوں راستہ میں سامنے آگئے۔چند اشعارپڑھے جس کامطلب یہ تھا:مان لیاکہ تم ساری دنیاکے بادشاہ بن گئے ہولیکن کیا آخر موت نہ آئے گی؟دنیاکواپنے دشمنوں پرچھوڑدو۔جودنیاآج تمہیں خوب ہنسارہی ہے،یہ کل کوتمہیں خوب رلائے گی۔یہ اشعارسن کر ہارون الرشید نے ایک چیخ ماری اوربے ہوش ہوکر گر گئے ۔اتنے طویل عرصہ تک بے ہوش رہے کہ تین نمازیں قضاہوگئیں۔

حضرت حسن بصریؒ جواہرات کی تجارت کیاکرتے تھے۔پھرتے پھراتے روم پہنچے،کیادیکھاکہ وزراء کی بیگمات،لونڈیاں اور فوج سب کہیں جارہے ہیں۔پوچھاکیاآج جشن ہے یابے وطن ہوکر جارہے ہو؟وزیرنے کہا:ہمارے ساتھ چلو۔ایک جنگل میں پہنچے۔ وہاں خیمہ ایستادہ ہے۔نہایت شاندار خیمہ،پہلے لشکرمسلح نے طواف کیااورروتے رہے۔پھرحکماء فلاسفروں نے پھرلونڈیوں نے پھرشاہی بیگمات نے،پھروزیروں نے۔آخرمیں بادشاہ نے طواف کیا،اندر گیا،بصدرنج وملال،یاس وحسرت،پریشان روتاہواسر جھکائے باہرنکلا۔کچھ آہستہ آہستہ بادشاہ کہتارہا۔حسن بصریؒ نے ماجرا پوچھا کہ کیاہے؟وزیرنے کہا،بادشاہ کانوجوان بچہ فوت ہو گیاہے۔ہرسال پورالشکریونہی معہ بادشاہ اس کی قبرپرآتے ہیں اوریہ تاثردیتے ہیں کہ بے نیاز کے قبضہ میں یہ فرزندہے؟اے عزیز بچہ!اگرمیرے اختیار میں ذرہ برابرزندہ کرنے کاامکان ہوتاتوہم سعی بلیغ کرتے،سب مال ملک اوردولت نثار کردیتے کہ تیری ایک بارملاقات ہوجاتی مگرہم ہارگئے۔ہماری طاقت ہیچ ہے،توایسی ذات کے قبضہ میں ہے جوبے نیازہے۔حضرت حسن بصریؒ پر اتنا اثرہواکہ سب کاروبارچھوڑکربصرہ واپس آئے اورتمام جواہرات فی سبیل اللہ غرباءمیں تقسیم کردئیے۔دنیاترک کردی اورگوشہ نشین ہوگئے۔ ستر سال اللہ کی عبادت اورمخلوق خداکی خدمت میں گزارے۔ ولی کامل بن کردنیاسےرخصت ہو گئے۔

قدیم بادشاہوں میں رواج تھاکہ ایک مشیر،ان کوہرصبح وشام موت یاددلایاکرتاتھا۔جب شاہجہاں کی تاج پوشی ہورہی تھی۔،راگ رنگ،ناچ گانے ،راجے مہاراجے،خوبصورت لونڈیاں،سپاہ لشکرسب موجودتھے۔ خزانے لٹائے جا رہے تھے۔اہل اللہ دعاکررہے تھے۔ فقرا،گدا مداح سرائی میں مصروف تھے۔شعراءقصیدے لکھ رہے تھے۔انتظام واہتمام دربارعام صبح وشام جاری تھا۔مرصع مزین شاندارچمکدارہیروں اورموتیوں والا تاج سرپرتھا۔آفرین مبارکبادی کے پیغامات اطلاعات،لگا تارمل رہے تھے۔خوشی و مسرت وشادمانی میں ہرشخص باغ وبہارتھا۔اچانک ایک فقیر نے بلندآوازسے کہا۔بادشاہ سلامت!اتنی خوشی کااظہارکروجتنی خوشی رہ سکے۔کل یہ تاج اتاراجائے گا۔یہ شاہی ختم ہوجائے گی۔یہ عیش وعشرت سب کافورہوجائے گی،جوعزت دے سکتاہے ۔ذلت بھی دے سکتاہے۔شاہی دینے والاتباہی بھی کرسکتاہے۔تاج دینے والااتاربھی سکتاہے۔ ہزاروں میں رونق افروزہونے والاکل تنگ وتاریک قبرمیں جائے گا۔

شاہجہان کاچہرہ یکایک فق ہوگیا۔گردن جھک گئی،آنکھیں پرنم ہوگئیں،دماغ چکراگیا،وجودکانپنے لگا۔فوراًتخت سے اترکرمٹی پر سررکھا۔عاجزی و انکسار ی سے روتے ہوئے عرض کیا:اے مالک زمین وآسمان،اے حقیقی شاہجہان، اے رب دوجہان،اے رحیم و رحمان ،اے وارث کون ومکان، میں کمترین انسان شاہجہان ناپاک پانی کاقطرہ،لاش محض،محتاج فقیرناتواں،بندہ حقیرہوں۔اے اللہ! ذلت سے بچانا،حکومت تیری ہے میں تیرا محکوم ہوں،میں عاجزتوقوی،میں انسان توعالی شان،میں فقیرتومدبر،میں فانی توباقی، مجھے نازنہیں نیازہے،توہی شرافت دے، قوم کی خدمت دے، بادشاہ کی اس مسکینی،ناتوانی،بے چینی،بیقراری اوراضطراری کو دیکھ کرپورے دربارمیں سناٹاچھاگیا۔تمام خوشیاں،عیش وعشرت فکرآخرت میں تبدیل ہوگئیں۔ہرطرف خاموشی چھا گئی،تمام پروگرام موقوف،اذہان ماؤف۔
نمے ترسی ازاں روزے کہ درگورت فروآرند
عزیزاں جملہ باز آیند تو تنہا درلحد مانی
تم اس دن سے نہیں ڈرتے جس دن پیارے لوٹ آئیں گے تم لحد میں اکیلے ہوگے۔
ہم موت کوبھول جائیں مگرموت نے ہمیں نہیں بھلایا،آئے گی،ضرورآئے گی۔یہ شکایت ہی غلط ہے کہ موت اچانک آتی ہے۔پہلے مطلع نہیں کرتی ۔ ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے بچے، جوان،بوڑھے اورنوجوان مرتے دیکھتے ہیں۔ہرشخص جانتاہے کہ مرنے کا وقت مقررہے۔

جدیدتحقیق کے مطابق زمین1.9بلین سے زیادہ مسلمانوں کاگھرہے اوراسلام دنیاکاسب سے تیزی سے پھیلنے والامذہب بھی ہے۔2010ء میں دنیا میں کل57مسلم اکثریتی ممالک(جن میں مغربی کنارے،غزہ کی پٹی،مایوٹ اورمغربی صحاراکے علاقے شامل ہیں)کوتسلیم کیاگیاہے اوراب نائیجیریا کے شامل ہونے کے بعدان کی تعداد58ہوگئی ہے جہاں مسلم حکمران ہیں۔دنیاکے62فیصد مسلمان ایشیاپیسیفک کے خطے(ترکی سےانڈونیشیا تک) میں رہتے ہیں لیکن کیاہم نے سوچاہے کہ ہماری اس وقت کیاحیثیت ہے؟سوچنے کامقام ہے آج امریکاپچاس ریاستوں کوملاکرسپرپاوربناہواہے جبکہ ہمارے پاس58مسلم ممالک ہیں،ہم”سپرپاور”کیوں نہیں؟جبکہ مادی قوت کی بھی ہمارے پاس کمی نہیں۔

ثوبان رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا”قریب ہے کہ دیگرقومیں تم پرایسے توٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں”۔توپوچھاگیاکہ کیاہم تعداد میں کم ہوں گےَآپﷺنے فرمایا”نہیں،بلکہ تم تعدادمیں کثرت میں ہوگے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانندہوگے،اللہ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاراخوف نکال دے گا اور تمہارے دل میں”وہن” ڈال دے گا”توایک صحابی نے پوچھا!وہن کیاچیزہے؟توآپﷺنے فرمایا”یہ دنیاکی محبت اورموت کاڈرہے”۔(سنن ابوداؤد4297)

آج کئی افرادکہہ رہے ہیں کہ حماس نے آخراسرائیل پریہ حملہ کیوں کیاجبکہ انہیں پتہ ہے کہ اسرائیل کی پشت پرامریکااور پورےیورپ جیسی جابر قوتیں موجود ہیں اوران کے مقابلے میں مسلمان اپنی نااتفاقی کی بناء پران کامقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پچھلے دس سالوں سے غزہ کے مکین شدیدترین محاصرے میں ہیں اوراسرائیل جب چاہتاان پرزندگی کے دروازے بندکرکے ان پرظلم وستم توڑرہا ہے۔انہوں نے روزروزمرنے سے یہ بہترسمجھاکہ اپنی جانوں کی قربانیاں دیکردنیاکوایک مرتبہ پھریہ باورکرایاجائے کہ ہمیں اللہ کی راستے میں موت اتنی ہی عزیزہے جتنی تمہیں اس فانی زندگی میں اپنی زندگی۔ اگراللہ تعالی تمہاری مددکرے توتم پرکوئی غالب نہیں آسکتا،اگروہ تمہیں چھوڑدے تواس کے بعدکون ہے جوتمہاری مددکرے، ایمان والوں کواللہ تعالی ہی پربھروسہ رکھناچاہئے۔(آل عمران :160)

انسان کیسااحمق بے وقوف ہے،کیوں نہ ہو۔مگراسے موت کایقین ہے۔موت کاسیاہ بادل ہروقت سرپرمنڈلارہاہے۔جہاں موجودہو، جس جگہ ہو، ایک دن موت کے پنجہ میں گرفتارہوگا۔کون ہے جودعویٰ کرے کہ یہ چیزمیری ہے،مگرایک موت ہےجودعویٰ کر سکتی ہے کہ یہ میری امانت ہے۔آنے کاایک راستہ ہے مگرجانے کے ہزارراستے ہیں۔دنیاکی زندگی موت پرموقوف ہے۔
رہ مرگ سے کیوں ڈراتے ہیں لوگ
بہت اس طرف کوتوجاتے ہیں لوگ

اپنا تبصرہ بھیجیں