انتہائی عزیز،بیٹا عبداللہ گل
ا لسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اللہ سے دعاگوہوں کہ آپ کودونوں جہانوں کی نعمتوں سے سرفرازفرمائے ثم آمین
کل رات دیرگئے آپ سے بات کرنے کوبڑاجی چاہ رہاتھاکہ اپنی مرحومہ بہن کی ڈھیرساری باتیں آپ کی زبانی سنوں تاکہ آپ کادکھ اورغم کچھ کم ہوسکے، کچھ آپ کوپرسہ دوں تاکہ میرے لئے بھی آخرت کیلئے کوئی زادِ راہ جمع ہونے کی کوئی سبیل نکلے لیکن نجانے کسی غیرمرئی قوت نے ایساکرنے سے روک دیاکہ کہیں آپ زیادہ پریشان نہ ہوجائیں۔
آج صبح پھرواٹس ایپ پرآپ کی والدہ محترمہ کارحمتِ حق سے جاملنے کاپڑھاتوبے ساختہ ان کی مغفرت کیلئے اللہ کے حضور ہاتھ اٹھ گئے۔میرادل جوپہلے ہی اہلیہ کی اس دارِ فانی سے رخصت ہونے کی وجہ سے ضعف کی طرف مائل ہے اس کی غیر متوازن دھڑکن کئی مرتبہ اپنے رب کی طرف متوجہ بھی کرتی رہتی ہے اورمیرایقین ہے کہ اس روئے زمین پرآپ کے دکھ کومیں بخوبی سمجھتاہوں کہ میں نے سات سال تک اس دردمیں ڈوب کراس سے آشنائی حاصل کی ہے اوریہ درد جس میں الفت و محبت ہرگام پررب سے قربت ویقین کے نئے راستوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے لیکن رب کے نیک بندوں کااس دنیاسے کوچ کرجانے کی خبریں ایک تلاطم پیداکردیتیں ہیں۔قرآن کریم میں ارشادہے:
اے اطمینان والی روح،اپنے راب کی طرف لوٹ چل،تواس سے راضی وہ تجھ سے راضی، پس میرے بندوں میں شامل ہواور پس میرے بندوں میں شامل ہوجا۔۔۔۔الفجر۔۔۔۔27۔۔۔30
اورشدت سے نبی کریمۖ ﷺکافرمان مبارک یادآتاہے کہ”دنیاایک جیل ہے”۔پہلے میں نے آج صبح سوچا کہ آپ کوٹیلیفون پر پرسہ دوں پھرخیال آیاکیوں نہ تحریری طورپردل کی کچھ باتیں کرلی جائیں جو آپ کے دل کے لئے کسی حدتک باعث سکون بن سکیں بس اسی خیال کی وجہ سے اس جا نکاہ حادثہ کی تعزیت کیلے ٔ فوراًیہ تحریرقلم کی نوک پرآ گئی ہے کہ شا یداس تحریرسے میرا اورآپ کے غم کابوجھ کچھ ہلکاہوسکے ۔
بیٹاعبداللہ!اس صدمے نے آپ کے قلب وذہن پریقیناًایک بہت گہرااثرچھوڑاہوگالیکن مو ت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہم سب لاپرواہ ہیں۔ دراصل مو ت سے زیادہ خوفناک شے موت کا ڈر ہے، جیسے جیسے زندگی کاشعوربڑھتاہے زندگی کی محبت بڑھتی ہے،پھر موت کاخوف بھی بڑھنے لگتا ہے ۔جس کوزندگی سے محبت نہ ہواسے بھلامو ت کاکیاخوف!جب ا نسان کے دل میں موت کاخوف پیداہوجائے تواس کی حالت عجیب ہوتی ہے ایسے جیسے کوئی انسان رات کےاندھیرے سے بھاگ جا ناچاہے یادن کوسورج سے بھاگ جانالیکن بھاگ نہیں سکتا۔
کہتے ہیں کہ ایک آدمی کوموت کاخطرہ اورخوف لاحق ہوگیا وہ بھا گنے لگاتیزبہت تیز،اسے آوازآ ئی ”پگلے موت تیرے پیچھے نہیں بلکہ تیرے آگے ہے”وہ آدمی فوراًالٹی سمت بھا گنے لگا پھر آوازآ ئی ”نا دان موت تیرے پیچھے نہیں بلکہ تیرے آگے ہے” آدمی بولا ”عجیب بات ہے پیچھے کو بھا گتاہوں توپھربھی مو ت آگے ہے،آگے کودوڑتاہوں توپھربھی موت آگے ہے” آوازآ ئی”موت تیرے ساتھ ہے،تیرے اندرہے، ٹھہرجا،تم بھا گ کرکہیں نہیں جا سکتے۔ جوعلا قہ زندگی کاہے وہ ساراعلا قہ موت کاہے”اس آدمی نے کہا”اب کیاکروں؟”جواب ملا ”صرف انتظارکروموت اس وقت خود ہی آجائے گی جب زندگی ختم ہو جائے گی اورزندگی ضرورختم ہوگی کیونکہ زند گی موت کی اما نت ہے اورکسی کی جرأت نہیں کہ اس میں خیانت کر سکے۔ز ندگی کاایک نام موت ہے،زندگی اپناعمل ترک کردے تواسے موت کہتے ہیں یازندگی کاانجام!”اس آدمی نے پھرسوال کیا”مجھے زندگی کی بہت تمنّاہے لیکن تومجھے موت کی شکل د کھادے تاکہ میں اسے پہچان لوں” آوازآئی ” آئینہ دیکھو موت کاچہرہ تیرااپنا چہرہ ہے،اسی نے میّت بننا ہے،اسی نے مردہ کہلانا ہے،موت سے بچنا ممکن نہیں”۔
مو ت کے خوف کا کیا علاج!لاعلاج کابھی بھلا کوئی علاج ہے۔لاعلاج مہلک مرض صرف زندگی کاعارضہ ہے جس کاانجا م صرف موت ہے۔زندگی ایک طویل مرض ہے جس کاخا تمہ موت کہلا تا ہے۔روزاوّل سے ز ندگی کایہ سلسلہ چلا آرہا ہے کہ زندگی کاآخری مرحلہ موت ہے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں،یہ توزندگی کاحصّہ ہے،بس اس کی تیّاری کی فکرہونا ضروری ہے۔ہم کشاں کشاں اس کی طرف سفرکرتے ہیں،ہم خودہی اس کے پاس چل کرآتے ہیں۔ زندگی کے امکانات تلاش کرتے کرتے ہم اس بند گلی تک آجا تے ہیں جہاں سے مڑنا ناممکن ہوتاہے۔آگے راستہ بند ہوتا ہے، ہم گھبراجاتے ہیں اورپھرشورمچاتے ہیں،خوب شورمچا تے مچاتے بالآخرہمیشہ کیلۓ خاموش ہو جاتے ہیں۔
موت نہ ہوتو شاید زندگی ایک المیہ بن جائے،ایک طویل دورانئے کا بے ربط ڈرامہ کہ ٹی وی پر چلتارہے اورلوگ بورہوکر سوجاناپسند کریں۔ ایک یونانی کہاوت کے مطابق لا فانی دیوی کوایک خوبرلیکن فانی انسان سے محبت ہوگئی۔اس نے غلطی کومحسوس کیا کہ یہ فانی انسان ہے مر جائے گا۔وہ دیوتاؤں کی ایک عظیم سردارکے پاس روتی ہوئی گئی کہ اے عظیم دیوتا! میرے محبوب کو لافانی بنادو۔دیوتا نے بڑی محبت سے سمجھایا کہ یہ ناممکن ہے،انسان کوموت کاحقداربنایاجاچکا ہے۔دیوی نے گریہ وزاری کے ساتھ اصرارکیاتوفیصلہ دیوی کی خواہش کے مطابق کردیا گیاکہ اسے موت نہیں آئے گی۔دیوی من کی مرادپانے پرخوش ہوگئی۔وقت گزرتاگیا،بڑھاپاآیا،خوبصورت چہرے پر جھریوں نے ڈیرہ ڈال دیا،توانائی کمزوری میں تبد یل ہوگئی،و قت کے ساتھ بینائی بھی رخصت ہو گئی،یادداشت نے ساتھ چھوڑ دیا۔”مضمحل ہو گئے قوأ سارے،” وہ انسان چلّا یا” اے دیوی خدا کیلئےمجھے نجات دلاؤ میں اس عذاب کوبرداشت نہیں کرسکتا۔” دیوی نے اپنی دوسری غلطی کوبھی محسوس کیا،پھردیوتاؤں کے سردارکے پاس حاضرہوئی کہ اے دیوتاؤں کے بادشاہ میرے محبوب کوموت عطا کر،انسان کوانسان کا انجام دے دو۔بس یہی راز ہے کہ انسان کوانسان کا انجام ہی راس آتاہے۔بات سمجھنے کی ہے،گھبرانے کی نہیں،مقام غورکا ہے خوف کانہیں۔ زندگی صرف عمل ہی نہیں عرصہ بھی ہے۔اگر صرف عمل ہوتاتوکوئی ہرج نہ تھا، اس عمل کیلئے ایک وقت بھی مقررہوچکا ہے۔
اس وقت کے اندراندرہی سب کچھ ہوناہے کیونکہ اس وقت کے بعد کچھ نہیں ہوتا۔ہمارا ہونا صرف نہ ہونے تک ہے۔اگرہم زندگی کودینے والے کاعمل مان لیں تواس کے ختم ہونے کا اند یشہ نہ رہے ۔دینے والاہی زندگی لینے والاہے ۔ڈرکی کیا بات ہے،دن بنانے والے نے ہی رات بنائی ہے اوررات بنانے والاہی دن طلوع کرتاہے۔پہاڑ بنانے والادریا وسمندربناتا ہے،صحرابنانے والا نخلستان پیدا فرماتا ہے۔زندگی تخلیق کرنے والاموت کوپیدافرماتا ہے،یہ اس کے اپنے اعمال ہیں،ہم صرف اس کے عطا کیے ہوئے حال پرزندگی گزارنے پرمجبورہیں۔اس نے زندگی اورموت کواس لیے پیداکیا کہ دیکھا جائے کہ کون کیاعمل کرتا ہے۔اس کائنا ت میں کوئی بھی ایسا نہیں آیاجو گیا نہ ہو۔کو ئی پیدائش موت سے بچ نہیں سکتی،جوکچھ بھی ہے نہ ہوگا۔ہرشے لاشے ہوجائے گی مگرصرف میرے رب کی ذات ہے جوہمیشہ ہمیشہ رہے گی۔باقی سب فناہے۔
بہت ہی عزیزبیٹے!بے مصرّف زندگی کی سزاموت کاخوف ہی ہے،بامقصد حیات موت سے بے نیاز،موت کے خوف سے آزاد، اپنے مقصد کے حصول میں مصروف رہتی ہے۔عظیم انسان بھی مرتے ہیں لیکن ان کی موت ان کی عظمت میں اضافہ بھی کرتی ہے اوروں کیلۓ باعث صد رشک بھی۔موت انسان سے اس کی بلندنگاہی،بلندخیالی اوربلند ہمّتی نہیں چھین سکتی۔وہ لوگ موت کے سائے میں زندگی کے ترانے گاتے ہیں،زندگی کا نغمہ الاپتے ہیں،زندگی کے اس مختصر عرصے میں جواں ہمّت تو آسمانوں کو چھوآئے۔۔عالی مرتبت عرش کی بلندیاں سرکرآئے اورکم حوصلہ اپنے اندیشوں کے خول سے باہرنہ نکلے۔موت فانی زندگی کودا ئمی حیات میں بدل دیتی ہے۔فناء سے بقاء کاسفر گھوڑے کی پشت پرہوتاہے۔موت کیلئے تیاررہو،موت کا خوف نہ کرو،بس یہی موت کا پیام ہے۔
موت کا غم اس لیے ہوتاہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے عزیزوں اورپیاروں سے جدا ہوجائیں گے ۔عزیزوں کوتوہم اپنی زندگی میں ہی جداکردیتے ہیں۔بیٹیوں کی رخصتی کیلئے کتنی دعائیں کرتے ہیں،کس قدرمناجات اورگڑگڑاکرجلدرخصتی کی تمنّا دل میں رکھتے ہیں۔ہم صاحب تاثیر اسی بزرگ کوکہتے ہیں جو ہماری گھرمیں بیٹھی بہنوں بیٹیوں کوجلد رخصت کروادے اورآج کچھ صاحب تاثیر ہیں کہ اپنی جدائی کیلئےدعاؤں میں نہ صر ف بخل کرتے ہیں بلکہ اس کے تصوّر سے بھی کانپ ا ٹھتے ہیں۔جدا ئی توایک دن ہوہی جانی ہے۔
ایک آدمی کاباپ فوت ہوگیا،وہ بڑارویا،بڑاپریشان ہوا!موت نے بڑاظلم کیا،اسے چین نہ آیا۔آخرکار اس نے ایک بزرگ استاد سے رجوع کیا۔اس نے جواب دیا”تم اتنے پریشان کیوں ہوتے ہو؟کچھ دنوں کی ہی توبات ہے تم بھی اپنے باپ کے پاس پہنچا دیئے جاؤگے۔”بس یہی ہے موت کارازیا زندگی کا راز۔ہم کچھ عرصہ اپنی اولاد کے پاس رہتے ہیں اورپھراپنے ماں باپ سے جا ملتے ہیں۔بس یہ الگ بات ہے کہ بعض اچانک اورجلد اس سفرکو طے کر لیتے ہیں بلکہ ایک ہی جست میں ساری مسافت پھلانگ کرمنزل پرجاپہنچتے ہیں اوربعض اپنے مولا کے احکام کی بجا آوری میں مصروف رہتے ہیں۔بس! یہی موت اور زندگی کا فلسفہ ہے بلکہ ہرموت اپنے لواحقین کیلئےیہ پیغام چھوڑ جاتی ہے کہ جلد یابدیرآپ نے بھی مجھے وہاں آکرملناہے۔جہا ں ہم سب بے بس اپنے مولاکی مغفرت کے منتظرہوں گے۔
ذرااس حقیقت پربھی غورکریں کہ کتابِ زندگی کے ورق برابرالٹ رہے ہیں ہرآنے والی صبح ایک نیاورق الٹ دیتی ہے یہ الٹے ہوئے ورق بڑھ رہے ہیں اورباقی ماندہ ورق کم ہورہے ہیں اورایک دن وہ ہوگاجب ہم اپنی زندگی کا آخری ورق الٹ رہے ہوں گے، جونہی آنکھیں بند ہوں گی یہ کتاب بھی بندہوجائے گی اور ہماری یہ تصنيف محفوظ کردی جائے گی…کبھی غورکیا اس کتاب میں ہم کیا درج کررہے ہیں،روزانہ کیا کچھ لکھ کرہم اس کاورق الٹ دیتے ہیں ہمیں شعورہویانہ ہو ہماری یہ تصنيف تیارہورہی ہے اورہم اس کی ترتيب وتکمیل میں اپنی ساری قوتوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اس میں ہم وہ سب کچھ لکھ رہے ہیں جو ہم سوچتے ہیں دیکھتے ہیں سنتے ہیں اورسناتے ہیں اس میں صرف وہی کچھ نوٹ ہو رہا ہے جوہم نوٹ کررہے ہیں ،اس کتاب کے مصنف ہم خودہیں۔ذرا سوچیں…غورکریں کہ ہم اپنی کتابِ زندگی میں کیا درج کر رہے ہیں جبکہ میرے آقاکے ایک فرمان کے مطابق ملک الموت ہرروزہرذی نفس کے گھرکر دروازے پرتین مرتبہ یہ منادی کرتاہے کہ
“میں تمہارے گھرمیں باربارآتارہوں گا،یہاں تک کہ تم میں سے کسی کوبھی باقی نہ چھوڑوں گا۔”
یہ الفاظ اس کے ہیں جوہرگھر،ہرعالیشان محفل اورہراس جگہ آتا ہے جہاں کوئی متنفس رہتا ہے۔دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جس کے پاس ملک الموت نے نہیں آنا۔ہرایک کے پاس آناہے،شاہ وگدا کے پاس بھی،امیروغریب کے پاس بھی،صحت منداوربیمارکے پاس بھی،نبی اورولی کے پاس بھی،کوئی حاجب ودربان،کوئی چوکیداراورپہرے داراورکوئی تالہ ودروازہ اسے اندرجانے سے نہیں روک سکتا۔
حافظ ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے کہ سیدناحسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ملک الموت ہرگھر میں تین مرتبہ روزانہ چکرلگا کردیکھتے ہیں کہ کس کارزق پوراہوگیا، کس کی مدت عمر پوری ہوگئی۔جس کارزق پوراہوجاتاہے۔اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اورجب اس کے گھروالے اس کی موت پرروتے ہیں توملک الموت دروازے کی چوکھٹ پرکھڑے ہوکر کہتے ہیں۔ “میراکوئی گناہ نہیں۔مجھے تواسی کاحکم دیاگیاہے۔واللہ!میں نے نہ تواس کارزق کھایااورنہ اس کی عمر گھٹائی ،نہ اس کی مدت عمرسے کچھ حصّہ کم کیا۔ میں تمہارے گھروں میں باربار آتا رہوں گا یہاں تک کہ تم میں سے کسی کو بھی باقی نہیں چھوڑوں گا۔”
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اگر میت کے گھر والے ملک الموت کا کھڑا ہونا دیکھ لیں اوراس کا کلام سن لیں تو اپنی میت کو بالکل بھول جائیں اوراپنے اوپررونا شروع کردیں۔
مرحومہ اس فانی دنیاسے داربقأکی طرف تشریف لے گئی ہیں۔اس عارضی زندگی کی بہاروں اور گلوں کی خوشبو سے منہ موڑ کردایٔمی بہار،سدا خوشبوؤں ومہک کے گلستانوں میں براجمان ہوگئی ہیں۔اپنے ہرتعّلق رکھنے والوں کوچھوڑکراپنے مولاکے ساتھ مضبوط تعلق ورشتہ جوڑچکی ہیں۔ انہوں نے توزندگی میں ہی اپنے رب سے ایسی مناجات شروع کردی تھی کہ جہاں بندہ اپنے رب اوررسول کے وصل کیلئے بیتاب رہتاہےاورپھر موت توکوئی نئی چیزنہیں۔ موت ہرایک کوآنی ہے ۔موت کے قا نون سے نہ توکوئی نبی مستثنیٰ ہے نہ کوئی ولی۔جوبھی آیاہے اپناوقت پوراکرکے اس دنیاسے رخصت ہوجاتاہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ہم سب اس کی امانت ہیں، پھر کس کی مجال جواس میں خیانت کرسکے۔موت لکھی نہ ہوتو موت زندگی کی خودحفاظت کرتی ہے اورجب مقدرہوتوزندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے۔زندگی سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتا اورموت سے پہلے کوئی مرنہیں سکتا۔
میرا کریم رب یقیناً آپ کی والدہ مرحومہ سے بڑا فیاضانہ سلوک فرمائیں گے اوریقیناًہماری بہن اپنے تمام حسنات کے طفیل بہت ہی شاداں اورفرحاں ہوں گی۔آپ نے زندگی بھر اپنے ربّ کریم سے کئی مناجات کی ہوں گی اوریقیناًمیراکریم رب اپنے نیک بندوں کی دعاؤں کوضرورقبول کرتاہے۔ ربّ رحمان سے میری دعاہے کہ آپ سب کواس دنیااورآخرت میں اس صبرکابہت ہی احسن نعم البدل عطافرمائے۔مرحومہ کے درجات بلندفرمائے اورروزِجزاکے دن ہمارے اورآپ سب کے آقاختم الرسول ۖ کے دستِ مبارک سے حوضِ کوثرپرشفاعت کاپروانہ نصیب ہواورہم سب کو بھی موت کی تیّاری کی فکر نصیب فرمائے۔آ مین
رب العزت کی بارگاہ میں آپ کی والدہ مرحومہ کے درجات کی بلندی اوراس دعاکے ساتھ آپ سے اجازت چاہتاہوں کہ بارالہ ۔۔۔ہماری پیاری بہن بمثل جنت کااپنی جنت میں خوب خیال رکھنا۔ میری طرف سے بالخصوص اپنے تمام بہن بھائیوں اوراپنے تمام متعلقہ عزیزو اقارب کومیراتعزیتی پیغام ضرورپہنچادیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ آپ سب کوخوش وخرم رکھے اوردونوں جہانوں کی تمام نعمتوں سے سرفرازفرمائےآ مین۔ربّ العزت ہمیں دنیاکے تمام امتحانات میں سرخروفرمائے اورروزِ قیامت اللہ کے رسولۖ کے سامنے شرمندہ ہونے سے محفوظ فرمائے۔ثم آمین
فی امان اللہ
والسلام،خیراندیش واحقر
سمیع اللہ ملک لندن