اب اس بات کایقین کرلیناچاہئے کہ امریکی تسلط کاخاتمہ ہوچکاہے اوررہی سہی باقیات کابھی جلدخاتمہ ہوجائے گاکیونکہ امریکا اب 1990ءکی دہائی کی طرح دنیاپراجارہ دارنہیں رہا۔سوویت یونین کے خاتمے کے بعدامریکاکادعویِ تھاکہ وہ دنیا کاسب سے زیادہ بہتر مہارت اورنئے خیالات دینے والاملک ہے لیکن اب تمام معاملات میں امریکی کردارکوچیلنج کیاجارہاہے۔دیگرممالک خاص کر چین اب سرمایہ کاری اورخدمات فراہم کرنے میں سب سے آگے ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم جیسے نئے علاقائی اتحاداب روس اور چین جیسے حریفوں کے ایجنڈے کوفروغ دے رہے ہیں۔ مغرب کی مالی اعانت سے چلنے والی غیرسرکاری تنظیموں کولبرل اقدار کے فروغ سے حکومتیں روک رہی ہیں،کبھی طاقتوررہنے والی ان تنظیموں کومعاشرے کے تنگ نظرعناصرکی جانب سے سخت مشکلات کاسامناہے۔لبرل ڈیموکریسی اب ملکوں کیلئےایک قابل تقلید نظام نہیں رہا ۔امریکا کے اندرتقسیم نے عالمی سطح پرلبرل ازم کو فروغ دینے کی صلاحیت کوجہاں متاثر کیاہے وہاں اس دہرے کردارکاپردہ بھی چاک کیاہے۔امریکااب بھی فوجی اورمالی حساب سے دنیاکاسب سے طاقتور ملک ہے لیکن اس کاعالمی تسلط ختم ہوچکا،وہ اب ماضی کی طرح یکطرفہ طورپردنیا کے فیصلے نہیں کرسکتا ہے اوریہ مانناپڑے گاکہ دنیاکے لحاظ سے بے سروسامانی سے لڑنے والے افغان مجاہدین نے پہلے سوویت یونین کونہ صرف اس کی پہلی حیثیت”روس” میں تبدیل کردیابلکہ افغان جہادکی بدولت اس کے بطن سے مزیدچھ ریاستیں دنیاکے نقشے پر معرضِ وجودمیں آگئیں۔۔۔۔ اب امریکاکب اس حالت کوپہنچتاہے،یہ تووقت ہی بتائے گالیکن امریکاکی امیرترین ریاست کیلی فورنیاکی طرح چنددیگر ریاستوں سےعلیحدگی کی آوازیں توآناشروع ہوگئی ہیں۔
کورونانے کئی رجحانات کوتیزی کے ساتھ بڑھاوادیاہے۔ایک عالمی رہنماکی حیثیت سے امریکا کی ساکھ اندرون ملک غیرمؤثر حکمت عملی اور عالمی ادارہ صحت سے دستبرداری کی وجہ سے بُری طرح مجروح ہوئی ہے۔اس کے علاوہ امریکاکورونا کے حوالے سے عالمی ردّعمل کومربوط کرنے میں ناکام رہا۔اس کے برعکس چین،جہاں سے کورونا کی عالمی وباشروع ہوئی اورجس ملک پروائرس کے پھیلاؤ کی تفصیل چھپانے کاالزام بھی لگایا گیا،وہ دنیابھرمیں ہنگامی طور پرصحت کے سامان کی فراہمی کی حوالے سے سب سے آگے نظرآتاہے،اس کے ساتھ ہی چین عوامی سطح پرکوروناکے حوالے سے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پرزوربھی دے رہاہے۔
چین اورروس نے امریکاکی بالادستی کوکئی طریقوں سے کمزورکیاہے۔انہوں نے نئی علاقائی اورعالمی تنظیمیں قائم کیں،جن میں ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اوریوریشین اکنامک یونین جیسی تنظیمیں شامل ہیں۔دونوں ممالک نے5جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے امریکااورمغرب کی شرکت داری کوکمزورکیا،روس پریوکرائن میں مداخلت کی وجہ سے پابندیاں لگانی پڑیں۔دونوں ممالک نے انفرادی اقدامات کیے۔شام میں روسی مداخلت سے یہ تاثر گہرا ہوگیاکہ ماسکوسابق سویت یونین کے علاوہ بھی دیگر ریاستوں کادفاع کرے گاجبکہ چین ایک کھر ب ڈالرکے بیلٹ اورروڈ منصوبے کے ذریعے 70 سے زیادہ ممالک میں سرمایہ کاری کررہاہے تاکہ دیگرممالک میں چین کااثرورسوخ بڑھایاجاسکے،اس منصوبے کے ذریعے چین اپنے لیے جیوپولیٹیکل اثرات کے نئے راستے کھولنے کے ساتھ موجودعالمی نظام میں مزیدطاقتورہوجائے گا۔مثال کے طورپر جون2017ء میں چین کے بی آرآئی میں اہم شریک یونان نے انسانی حقوق کے حوالے سے چین پرتنقیدکے یورپی مسودے پردستخط سے انکارکردیاتھا۔یورپی یونین کے ایک اہم ممبرکی طرف سے یہ نہ صرف چین کی عالمی حیثیت کااقرارتھابلکہ امریکاسمیت اس کی چندیورپی اتحادیوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے ایک سخت ترین پیغام اورتازیانہ بھی تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے عوامی غصے کواقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیموں سے بہترسودے بازی کیلئےاستعمال کیا۔عالمی معاہدے اور فنڈروکنے کی دھمکیوں کے ذریعے ان تنظیموں پرزیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ طریقہ کار زبردست نقصان کاباعث بھی بن گیا کیونکہ دوسرے ممالک نے زیادہ فنڈاوردیگرمعاشی فوائد بہم پہنچاکرامریکاکی اس کوشش کوبھی ناکام بنادیااورامریکاکاقابل یقین نعم البدل ثابت کردیا۔عالمی ادارہ صحت سے دستبرداری کے نتیجے میں عالمی وبا کے دوران چین کوبہترمواقع میسرآئے،کوروناکی وباکے دوران تمام خرابیوں کے باوجود عالمی ادارہ صحت کاصحت کے حوالے سے عالمی تعاون اورمعلومات کے تبادلے کیلئےکردارناگزیر سمجھاجاتاہے۔اقوام متحدہ کی مختلف تنظیمیں جیوپولیٹیکل مقابلے کامیدان ہیں،اسی بات کوتسلیم کرتے ہوئےٹرمپ نے رواں سال کے شروع میں اقوام متحدہ میں چینی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئےخصوصی نمائندے کا تقرر کیاتھا لیکن واشنگٹن فنڈکی فراہمی روک کراورعالمی معاہدے سے دستبردارہوکران تنظیموں پراپنے اثرات کوخودہی کم کردیااورچین نے انتہائی سرعت سے اس موقع سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے امریکاکاخلاء پُرکردیا۔
تاہم یہ بات درست ہے کہ ٹرمپ لبرل ڈیموکریسی کے تسلط کے خاتمے کی بنیادی وجہ نہیں لیکن انہوں نے گراوٹ کاعمل تیز ضرورکردیا۔ٹرمپ نے نیٹواورمشرقی ایشیاجیسے اہم اتحادیوں کے ساتھ محاذآرائی اورسودے بازی کاراستہ اختیارکرکے بہت تیزی کے ساتھ امریکاکونقصان پہنچایا ہے۔اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی شعلہ بیانی اورآمرحکمرانوں کی حمایت نے عالمی سطح پرلبرل ڈیموکریسی کے اصولوں کی نفی کردی ہے۔ عالمی اداروں اوردیگرممالک کیلئےلبرل ڈیموکریسی قابل تقلید نہیں رہی ہے اوریہ ساراکریڈٹ بہرحال ٹرمپ ہی کوجاتاہے۔اب نئی امریکی حکومت کیلئے قصرسفیدکے کھوئے ہوئے وقارکوواپس حاصل کرنے کیلئے ٹرمپ کے بچھائے کانٹے پلکوں سے چننے ہوں گے جس کیلئے جہاں انتھک محنت درکارہوگی وہاں اپنے پرانے اتحادیوں کے اعتمادکوبھی بحال کرناہوگااورانہیں یقین دلاناہوگاکہ امریکا “اپنے ہی دوستوں کی قربانی”والی روایت کو بھولناچاہتاہے۔نئے صدرجوبائیڈن کااپنے دورِ نائب صدارت میں اس خطے سے قریبی تعلق رہاہے۔انہوں نےاپنی انتخابی مہم میں جہاں عالمی طورپر انسانی حقوق کی سربلندی کاوعدہ کیاتھا،اس کے جواب میں انہوں نے یمن کی جنگ سے علیحدگی اورسعودی عرب کواسلحے کی ترسیل کوختم کرنے کاجہاں حوصلہ افزاءاعلان کیاہے وہاں انہیں اس بات کابھی ادراک ہوگاکہ بے تحاشہ قربانیاں دیکرکن طاقتوں نے امریکاکودنیاکی واحدسپرپاور بنانے میں کرداراداکیاجس کاانہوں نے میڈیاکے سامنے اعتراف بھی کیااورانہی سے بے وفائی کے نتیجے میں یہ دن دیکھنے میں آئے کہ دنیامیں اجالے کیلئے امریکاکاکوئی کردارنہیں بچا۔اس سلسلے میں ہمارےفارن آفس کوبھی بہتراندازمیں متحرک ہوکراپنی پالیسیوں کوترتیب دیناہوگا۔