پچھلے کچھ عرصے کے دوران اسرائیلی حکام،خلیجی ریاستوں،مراکش اورسوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ایران کے برعکس،اسرائیل ان کادشمن نہیں بلکہ دوست ہے۔اس سے سیاسی حلقوں میں کافی ہلچل دکھائی دی ہے کیونکہ ان ملکوں نے بظاہر اسرائیل کے ساتھ اب تک اس لیے تعلقات تَرک کیے رکھے تھے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ سب افسانوی حقیقتیں ہیں،ماضی میں عرب ریاستوں کے اکثررہنماؤں کے اسرائیل اوراس سے قبل صہیونی تحریک کے ساتھ تعلقات قائم رہے ہیں۔مزاحمت کایہ بیانیہ عرب حکام اوراسرائیل دونوں کی جانب سے پیش کیاجاتارہا، جس میں یہ بھی کہاگیاکہ عربوں نے اپنے ذاتی مفادات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطینیوں کی خاطراسرائیل سے جنگیں لڑی ہیں۔اب باہمی معاونت کے نئےمؤقف کے بعدیہ کہاجارہاہے کہ وقت آگیاہے کہ عرب حکام اپنے مفادات کومقدم رکھیں،گویااس سے قبل توفلسطین کیلئے جدوجہدکررہے تھے۔
تقریباًانہی خیالات کااظہارسوڈان کے آرمی چیف نے حال ہی میں یوگنڈامیں اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے بعدکیاتھاحالانکہ کسی سوڈانی سرکاری شخصیت کی نیتن یاہوسے یہ پہلی ملاقات نہیں تھی۔سال1950ءکے دوران جب سوڈان برطانوی اورمصری حکومتوں کے ماتحت تھااور آزادی حاصل نہیں کی تھی تواس وقت ملک کی بڑی جماعت حزب الامت نے خفیہ طورپراسرائیل سے اپنی آزادی کی حمایت کیلئے تعاون مانگا تھا،جب آزادسوڈان کاقیام عمل میں آگیاتو1957ءمیں پہلے سوڈانی وزیراعظم عبداللہ خلیل نے پیرس میں اسرائیلی رہنما گولڈامیئرسے خفیہ ملاقات کی تھی۔80ءکی دہائی کے اوائل میں صدرجعفرنمیری نے اسرائیلی حکام کے ساتھ مل کرایتھوپیا کے یہودیوں کی اسرائیل نقل مکانی کو یقینی بنایاتھاتاکہ وہ فلسطینی زمینوں پرجاکے رہائش اختیار کریں۔اسی طرح2016ء میں جب عمرالبشیرحکومت میں تھے،سوڈانی وزیرخارجہ نے اپنے ملک سے امریکی اقتصادی پابندیاں اٹھانے کے عوض اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کی پیشکش کی تھی،اس موقع پران سے سوال کیاگیاتوانہوں نے کہاکہ”سوڈان کی سیکورٹی اوراس کے مفادات مقدم ہیں”۔
باہمی تعلقات کی یہ تاریخ اسرائیل کے قیام کے بعدکی نہیں بلکہ اس سے پہلے کی ہے۔امیرفیصل الحسین جوکہ کچھ وقت کیلئے حجازکے اوربعدازاں عراق کے بادشاہ رہے،نے پیرس امن کانفرنس ہونے سے دو ہفتے قبل3جنوری1919ءکواس وقت عالمی صہیونی تنظیم کے رہنماکے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھاکہ اگراس کے ساتھ ایک وسیع سلطنت کے قیام میں تعاون کیاجائے تووہ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام میں مددکریں گے مگر1920ء میں فرانسیسی استعمارنے امیرفیصل بن الحسین کوحکومت سے الگ کر دیا۔اس کے بعدان کے بھائی امیرعبداللہ بھی صہیونی تحریک کوساری زندگی یہ کہتے رہے کہ اگرانہیں فلسطین اورمشرقی اردن میں بادشاہ بنایاجائے تووہ ان کے مقاصد کے حصول میں راہ ہموارکریں گے۔امیرعبداللہ کوانہی تعلقات پرناراضی کی وجہ سے 1951ءمیں قتل کردیاگیاتھا۔
اردن کے شاہ حسین نے1960ءمیں اپنے ملک کے فوجی رہنماؤں کواسرائیلی حکام کے ساتھ تعاون کی اجازت دی تھی۔اس کے بعد 1963ءمیں لندن میں اپنے ذاتی معالج کے کلینک میں اسرئیلی رہنماؤں سے ملے تھے۔بعدازاں تواترکے ساتھ وہ خفیہ طورپر اسرائیل جاتے رہے۔ اضحاق رابن جس نے 1948ءمیں خودفلسطینیوں کوان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کاآغازکیاتھا،1994ء میں جب اس کی وفات ہوئی تواردن کے شاہ حسین اپنے
دوست کے جنازے میں شرکت کیلئے اسرائیل آئے تھے۔شاہ حسین اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کے جوازکیلئے ایک تواپنی حکومت کے تحفظ کو دلیل بناتے تھے اوردوسرامصری صدر جمال عبدالناصر کے دباؤاورفلسطینی حریت پسند تحریکوں کے خطرات کوبھی وجہ بتاتے تھے۔
ایسے ہی لبنان کے مارونی چرچ کے1940ءکی دہائی سے صہیونی رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہیں۔لبنان کے مسیحی وہاں اپنے لیے اسرائیلی طرز کی فرقہ پرست ریاست کے قیام کی خواہش رکھتے ہیں۔1950ءمیں تیونس کی حزبِ دستورنے فرانسیسی استعمارسے آزادی کیلئے اسرائیلی نمائندگان کے تعاون کے ساتھ اقوام متحدہ میں قراردادپیش کی تھی۔ آزادی کے بعدتیونس کے حکمران حبیب بورقیبہ نے1987ءمیں اپنی وفات کے وقت تک اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے تھے۔
60ءکی دہائی میں اسرائیل نے یمن میں بادشاہت اورجمہوریت پسندوں کے مابین تنازع کے دوران بادشاہت کوقائم رکھنے کے سعودی موقف کی حمایت کی تھی اوریمن میں بادشاہت کے تعاون کیلئے اسرائیلی جہازاسلحہ اوربھاری رقم لیکراترے تھے۔80ء کی دہائی سے مراکش کے اسرائیل کےساتھ دوستانہ روابط چلے آرہے ہیں۔مراکش کے شاہی خاندان نے خفیہ معاہدوں کے تحت اپنے ملک کے یہودیوں کواسرائیل منتقل کیاتاکہ وہ فلسطینی اراضی پراپنے گھرتعمیرکرسکیں۔1963ءمیں مراکشی وزیرمحمد اوفقیرنے اسرائیلی حکام کے ساتھ اپنی خفیہ ایجنسیوں کی تربیت کا معاہدہ کیاتھااوراپنی حکومت کے مخالفین کوٹھکانے لگانے کا تعاون بھی طلب کیاتھا۔1976ءمیں اضحاق رابن کومراکش کے خفیہ دورہ پرمدعو کیا گیاتھا۔1986ءکے بعدسے دونوں ملکوں میں کچھ خفیہ نہیں ہے کیونکہ اسی سال شمعون پیریزکاعلی الاعلان فقیدالمثال استقبال کیاگیاتھاجبکہ اسرائیل نے2018ءمیں ٹرمپ کی جانب سے پیش کی گئی”صدی کی ڈیل”کوتسلیم کرنے اوراسرائیل میں اپناسفارت خانہ کھولنے کے عوض یہ پیشکش کی کہ وہ اس بات کی ضمانت دے گاکہ امریکامراکش کی حدودکے ساتھ واقع غربی صحراپراس کی ملکیت کوتسلیم کرلے گا۔
مصراوراسرائیل کے روابط کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہیں۔1991ءکے بعدسے اسرائیلی سرکاری نمائندگان اورکھلاڑیوں کاخلیجی ریاستوں میں کھلا آناجاناہے۔بالخصوص قطر،بحرین،متحدہ عرب امارات اورعمان،سعودی عرب سے تعلقات پوشیدہ رکھے گئے ہیں۔عرب حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات عداوت کے رہے ہوں یادوستی کے،اس کی بنیادان حکام کے ذاتی مفادات تھے، جنہیں”قومی مفادات”کے نام سے تعبیرکیاجاتارہا۔ان دو طرفہ تعلقات کے نتیجے1991ءمیں”اوسلو معاہدہ”اور”میڈرڈامن کانفرنس”ہوئیں جس کے بعدفلسطینی قومی قیادت اورفلسطین لبریشن آرگنائزیشن اسرائیلی فوج کے ماتحت ہوکررہ گئے ہیں۔یہ ساری پیش رفت اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل نے مسلسل عرب اشرافیہ اوران ملکوں کے تاجر طبقے کواپنے حق میں مائل کرنے کی سعی جاری رکھی ہے۔
اسرائیل نے اگرچہ کامیابی کے ساتھ ان ممالک کی سیاسی اورتاجراشرافیہ کواپنی طرف راغب کیاہے،تاہم وہ عرب ملکوں کے عام حلقے کواپنے حق میں نرم کرنے میں ناکام ہواہے،سوائے ان گنے چنے افرادکے جوعرب حکام کے اشاروں پرکام کرتے رہے۔ اسی طرح عرب عوام نے بھی اسرائیل کو سختی سے مستردکیے رکھاہے،ان کاخیال ہے کہ اسرائیل ان کاسب سے بڑادشمن ہے۔