Last moment of life Prophet PBUH

آقاﷺکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات

:Share

وفات سے3روزقبل حضوراکرم ﷺام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے گھرتشریف فرماتھے،آپﷺنے تمام ازواجِ مطہرات کو بلا کردریافت فرمایا”کیاتم سب مجھے اجازت دیتی ہوکہ بیماری کے یہ ایام میں عائشہ(رضی اللہ عنہما)کے ہاں گزارلوں؟”سب نےبیک زبان کہا”اے اللہ کے رسول آپ کواجازت ہے”۔پھراٹھناچاہالیکن اٹھ نہ پائے توحضرت علی اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماآگے بڑھے اورنبی ﷺ کوسہارے سے اٹھاکر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم ﷺکواس(بیماری اورکمزوری کے)حال میں پہلی باردیکھاتوگھبراکرایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ رسول اللہﷺکوکیاہوا؟صحابہ کرام کی کثیرتعدادفوری طورپرمسجدمیں جمع ہوگئی۔آقاﷺکاپسنہ شدت سے بہہ رہا تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہافرماتی ہیں کہ”میں نے اپنی زندگی میں کسی کااتناپسینہ بہتے نہیں دیکھا ۔میں رسول اللہ ﷺکے دست مبارک ک پکڑتی اوراسی کوچہرہ اقدس پرپھیرتی کیونکہ نبی ﷺکا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اورپاکیزہ تھا۔حبیب خدا ﷺ سے بس یہی وردسنائی دے رہاتھاکہ”لاإله إلاالله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں”۔

اسی اثناءمیں مسجدکے اندرآنحضرتﷺکے بارےمیں خوف کی وجہ سے لوگوں کاشوربڑھنےلگا۔نبیﷺنےدریافت فرمایا”یہ کیسی آوازیں ہیں”عرض کیاگیاکہ اے اللہ کےرسولﷺ! تمام اصحابہ آپ کی حالت سے خوفزدہ ہیں۔ارشادفرمایا:مجھے ان کے پاس لے چلو۔ اٹھنے کاارادہ فرمایالیکن اٹھ نہ سکے توآپ ﷺپر7مشکیزے پانی کے بہائےگئے،تب کہیں جاکرکچھ افاقہ ہواتوسہارے سے اٹھاکر ممبرپرلایاگیا۔یہ میرے آقاﷺکا آخری خطبہ تھااورآپ کے آخری کلمات تھے:اے لوگو!شائدتمہیں میری موت کاخوف ہے۔سب نے سرجھکائے کہاکہ:جی ہاں ، اے اللہ کے رسول ﷺ!

ارشادفرمایا:اے لوگو!تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیانہیں،تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض(کوثر)ہے،اللہ کی قسم گویاکہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو)دیکھ رہاہوں۔اے لوگو!مجھے تم پرتنگدستی کاخوف نہیں بلکہ مجھے تم پردنیا(کی فراوانی)کا خوف ہے،کہ تم اس(کے معاملے)میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤجیساکہ تم سے پہلے(پچھلی امتوں)والے لگ گئے، اوریہ(دنیا)تمہیں بھی ہلاک کردے جیساکہ انہیں ہلاک کردیا۔ اے لوگو:نمازکے معاملے میں اللہ سے ڈرواوراس کوتین مرتبہ دہرایا ۔پھرفرمایا:اے لوگو!عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،(یعنی عہدکروکہ میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتاہوں۔ نمازکی پابندی کروگے،اوریہی بات بارباردہراتے رہے۔

مزیدفرمایا:اے لوگو۔۔۔!ایک بندے کواللہ نے اختیاردیاکہ دنیاکوچن لے یااسے چن لے جواللہ کے پاس ہے،تو اس نے اسے پسندکیا جواللہ کے پاس ہے۔اس جملے سے حضورﷺکامقصد کوئی نہ سمجھاحالانکہ ان کی اپنی ذات مرادتھی جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہاشخص تھےجو اس جملے کوسمجھے اورزاروقطاررونے لگے اوربلندآوازسے گریہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اورنبی اکرمﷺکی بات قطع کرکے پکارنے لگے: ہمارے ماں باپ،داداآپ پرقربان،ہمارے بچے آپ پرقربان،ہمارے مال ودولت آپ پرقربان،روتے ہوئےبارباریہی دہراتے رہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم(ناگواری سے)حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگےکہ انہوں نےنبی اکرمﷺکی بات کیسے قطع کردی؟اس پرنبی کریمﷺنے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کادفاع ان الفاظ میں فرمایا:اے لوگو!ابوبکرکوچھوڑدوکہ تم میں سے ایساکوئی نہیں کہ جس نے میرے ساتھ کوئی بھلائی کی ہواورمیں نے اس کا بدلہ نہ دے دیاہو، سوائے ابوبکرکے کہ اس کابدلہ میں نہیں دے سکا،اس کابدلہ میں نے اللہ جل شانہ پرچھوڑدیا۔مسجد(نبوی)میں کھلنے والے تمام دروازے بندکردیے جائیں،سوائے ابوبکرکے دروازے کے کہ جوکبھی بندنہ ہوگا۔آخرمیں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کیلئےآخری دعاکے طورپرارشادفرمایا:اللہ تمہیں ٹھکانہ دے،تمہاری حفاظت کرے،تمہاری مدد کرے،تمہاری تائید کرے۔اورآخری بات جومنبرسے اترنے سے پہلے امت کومخاطب کرکے ارشادفرمائی:اے لوگو!قیامت تک آنے والے میرے ہرایک امتی کومیراسلام پہنچادینا۔پھرآنحضرتﷺکودوبارہ سہارے سے اٹھاکرگھرلے جایاگیا۔

اسی اثناءمیں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضرہوئے اوران کے ہاتھ میں مسواک تھی،نبی اکرم ﷺمسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کرپائے چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاحضوراکرمﷺ کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اورانہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے کرنبی کریمﷺکے دہن مبارک میں رکھ دی،لیکن حضورﷺاسے استعمال نہ کرپائے توسیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے حضوراکرمﷺسے مسواک لے کراپنے منہ سے نرم کی اورپھرحضورنبی کریمﷺکولوٹادی تاکہ دہن مبارک اس سے تررہے۔فرماتی ہیں:آخری چیزجونبی اکرمﷺکے پیٹ میں گئی وہ میرالعاب تھا،اوریہ اللہ تبارک وتعالٰی کامجھ پرفضل ہی تھاکہ اس نے وصال سے قبل میرااور نبی کریم علیہ السلام کالعاب دہن یکجاکردیا۔

أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشادفرماتی ہیں:پھرآﷺکی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاتشریف لائیں اورآتے ہی روپڑیں کہ نبی کریم ﷺاٹھ نہ سکے ،کیونکہ نبی کریمﷺکامعمول تھاکہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں،حضوراکرم ﷺان کے ماتھے پربوسہ دیتےتھے۔حضورﷺنے فرمایا:اے فاطمہ!قریب آجاؤ۔۔۔پھرحضورﷺنے ان کے کان میں کوئی بات کہی توحضرت فاطمہ اورزیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتادیکھ کرحضورﷺنے پھرفرمایا:اے فاطمہ!قریب آؤ۔۔۔دوبارہ ان کے کان میں کوئی بات ارشادفرمائی تووہ خوش ہوہوگئیں۔حضور اکرم ﷺکے وصال کے بعدمیں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھاسے پوچھاکہ وہ کیابات تھی جس پرآپ روئیں اور پھرخوشی کااظہار کیاتھا؟سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھاکہنے لگیں کہ پہلی بار(جب میں قریب ہوئی)توفرمایا:فاطمہ!میں آج رات(اس دنیاسے)کوچ کرنے والاہوں جس پرمیں رودی۔جب انہوں نے مجھے بےتحاشاروتے دیکھاتوفرمانے لگے،فاطمہ!میرے اہل خانہ میں سب سے پہلے تم مجھے آملوگی ، جس پرمیں خوش ہوگئی۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھافرماتی ہیں پھرآنحضرت ﷺنے سب کوگھرسے باہرجانے کاحکم دیکرمجھے فرمایا:عائشہ!میرے قریب آجاؤ۔آنحضرت ﷺنے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پرٹیک لگائی اورہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے فرمانے لگے:مجھے وہ اعلیٰ وعمدہ رفاقت پسندہے۔(میں اللہ کی،انبیاء،صدیقین،شہداءاور صالحین کی رفاقت کواختیارکرتاہوں)۔صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں”میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کوچن لیاہے۔

جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضرہوکرگویاہوئے:یارسول الله!ملَکُ الموت دروازے پرکھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔آپ ﷺنے فرمایا:جبریل!اسے آنے دو۔۔۔ملَکُ الموت نبی کریمﷺکےگھرمیں داخل ہوئےاورکہا: السلام علیک یارسول الله!مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجاہے کہ آپ دنیامیں ہی رہناچاہتے ہیں یااللہ سبحانہ وتعالی کے پاس جاناپسندکرتے ہیں؟نبی اکرمﷺنے جواب میں فرمایاکہ مجھے اعلیٰ وعمدہ رفاقت پسند ہے اوردوبارہ اپنی اس خواہش کودہرایا: ملَکُ الموت آنحضرت ﷺکے سرہانے کھڑے ہوئے اورکہنے لگے:اے پاکیزہ روح!اے محمدبن عبداللہ۔۔۔اللہ کی رضاوخوشنودی کی طرف روانہ ہو،راضی ہوجانے والےپروردگار کی طرف جوغضبناک نہیں!

سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہافرماتی ہیں: پھرنبی کریم ﷺ کاہاتھ نیچے آن رہا،اورسرمبارک میرے سینے پربھاری ہونے لگا،میں سمجھ گئی کہ آنحضرتﷺکاوصال ہوگیا۔۔۔ مجھے اورتوکچھ سمجھ نہیں آیا،سومیں اپنے حجرے سے نکلی اورمسجدکی طرف کادروازہ کھول کراندرسے کہا۔۔”رسول اللہ کاوصال ہوگیا۔۔۔!رسول الله کاوصال ہوگیا”۔۔۔۔۔! مسجد آہوں اورنالوں سے گونجنے لگی۔ادھرعلی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔

ادھرعثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔ اورسیدناعمررضی الله تعالی عنہ تلواربلندکرکے کہنے لگے:خبردار!جوکسی نے کہاکہ رسول اللہﷺوفات پاگئے ہیں،میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔میرے آقاتوالله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کو گئے تھے،وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔!اب جووفات کی خبراڑائےگا،میں اسے قتل کرڈالوں گا ۔۔ اس موقع پر سب زیادہ ضبط،برداشت اورصبرکرنے والی شخصیت سیدناابوبکرصدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے رحمت دوعالَم ﷺکے سینۂ مبارک پرسررکھ کررودیئے اورساتھ ہی کہہ رہے تھے: وآآآخليلاه،وآآآصفياه،وآآآحبيباه،وآآآنبياه۔۔۔۔ہائےمیرے پیارے دوست۔۔۔!ہائے میرے مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرے محبوب۔۔۔!ہائے میرے نبی۔۔۔پھرآنحضرتﷺکے ماتھے پر بوسہ دیااورکہا:یا رسول الله!آپ پاکیزہ جئے اورپاکیزہ ہی دنیاسے رخصت ہوگئے۔

سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ باہرآئے اورخطبہ دیا:جوشخص محمدﷺکی عبادت کرتاہے سن رکھے کہ آنحضرتﷺکاوصال ہوگیااورجوالله کی عبادت کرتاہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ہمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔یہ سنتے ہی سیدناعمررضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوارگرگئی۔۔۔عمررضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:پھرمیں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگاجہاں اکیلابیٹھ کرروؤں۔ آنحضرت ﷺکی تدفین کردی گئی۔۔۔!

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:تم نے کیسے گواراکرلیا کہ نبی اکرمﷺکے چہرہ انورپرمٹی ڈالو؟پھرفرمانے لگیں:ياأبتاه،أجاب ربادعاه،يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه،الى جبريل ننعاه۔۔۔ہائے میرے پیارے بابا جان!کہ اپنے رب کے بلاوے پرچل دیے،ہائے میرے پیارے باباجان،کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے،ہائے میرے پیارے باباجان،کہ ہم جبریل کوان کے آنے کی خبردیتے ہیں۔اللھم صل علی محمدکماتحب وترضا۔

عیدمیلادالنبی کااصل اوربہترین پیغام تویہ ہے کہ ہم اپنے آقاﷺ کی زندگی،ان کی تعلیمات اوررحمتوں کویادکریں۔اس موقع پران کی سنتوں اور معاشرتی اقوال کواپنی زندگیوں کااوڑھنابچھونا بنانے کاعہدکریں کہ ہم ان کے انعامات اوررہنمااصولوں کواپناکراپنی باقی ماندہ زندگی گزاریں گے۔ہم سب اس دن کے حوالے سے یہ عزم کریں کہ ہم سیرت النبی کی روشنی سے اس دنیاکی ظلمتوں کودور کریں گے۔عیدمیلادالنبی کاتقاضہ ہے کہ ہم دنیا بھرمیں اپنے کردارسے امن،اخوت اورمحبت کااستعارہ بن کریہ پیغام دیں کہ ہمارے آقاﷺنے اپنے آخری سانسوں میں بھی دنیاکی فلاح،عورتوں کی بھلائی اورحفاظت کاحکم دیاہے،ظلم وجبرکے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوارکاسبق دیاہے تاکہ دنیامیں سب کوجینے کاحق مل سکے اورانسانیت بلاجبروکراہ کے آشتی ومحبت کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق اداکریں۔

عیدمیلادالنبی کے موقع پرہمیں پیغامبرِاسلامﷺکی شان وشوکت کویادکرنے کاعظیم موقع ملتاہے۔ان کی عالمی اخلاقی اورانسانی حقوق کواپنے زندگیوں میں منتقل کرنے کی تحریک کادن ہے کہ ہم ان کے پیغام کودنیاکے ہرکونے تک پہنچانےکاوعدہ کرتے ہیں تاکہ دنیاسیرت النبی کی روشنی اوررحمت کوچھوسکے۔اس موقع پرہمیں اپنی زندگیوں کودوسروں کی مدداورخدمت کیلئے وقف کرنے کاعزم کرناچاہئے۔ہمیں اپنے گھروں،اجتماعات میں امن،اخوت اورمحبت کوفروغ دینے کیلئے پہلے خوداپنی زندگی کوتبدیل کرنےکی محنت کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنے آقاﷺکے پیغامات کوعملی شکل دے کردوسروں کوبتاسکیں جوپیغامبرِاسلام نے ہمیں دیے ہیں۔

ہمارے آقاﷺکاسب سے بڑامعجزہ توقرآن مجیدہےجس کے من وعن حفاظت کی ذمہ داری خودرب کریم نے روزِ قیامت تک کیلئے اپنے ذمے لے رکھی ہے،اس کے بعدہمارے آقاکی زندگی کی سیرت کے تمام لمحات بھی ہمارے پاس محفوظ ہیں۔قرآن میں ہمیں آیت الکرسی جیسی عظیم آیت رب کریم کی طاقت اورکمال کی تعریف سے آشناکرتی ہے اورایک پیغام دیتی ہے کہ اللہ کی ذات میں کمال اورقدرت ہےجوکہ عالمی امن کی اہمیت کوبنیاداور اہمیت کوظاہرکیاگیاہے اوراسی پیغام کومیرے آقانےاپنے امتیوں کیلئے چھوڑاہے۔

میں نے سوچا کیوں نہ جشن عید میلاد النبی کے فضائل کوپڑھ لوں لہذا میں نے بطورطالب علم اپنے شیوخ الحدیث سے صحاح الستہ کے علاوہ دیگراحادیث کی کتب کامطالعہ کیا،احادیث کے بعد فقہ کی کتابوں میں جشن عیدمیلاد النبی کاعنوان تلاش کیا،چاروں خلفائے راشدین،تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین،تابعین وتبع تابعین،چاروں ائمہ کرام،امام مالک کی فقہی کتب المدونہ الکبریٰ،امام شافعی کی مشہورزمانہ فقہی کتاب”الامم”قدوری، فتاویٰ عالمگیری،کنزالدفائق،فتاویٰ شامی،بدائع الصنائع،ان تام کتب میں عیدین کاتوتذکرہ ہےلیکن عیدمیلادالنبی کاکوئی عنوان نہیں۔گزشتہ صدی کے تمام امتِ مسلمہ کے مستندعلماءاحناف وفقہا کی کسی بھی کتاب یاتقریرمیں عیدمیلادالنبی کی سندنہیں ملی،توپھریہ مروجہ جشن آیاکہاں سے؟دراصل یہ ملکِ اربل کے صوفی المزاج بادشاہ ملک مظفرکادیاہواتحفہ ہے،جس کاوجودقرآن وسنت اورخیرالقرون کے سہنری ادوارمیں نہیں ملتا،اس بات کا اقرارخود میلادی حضرات کے جیدعلماءبھی کر گئے

مروجہ عیدمیلاد النبی کی کوئی اصل نہیں ہے اس کی ابتداچھٹی صدی عیسوی میں ہوئی،سب سے پہلے مصرمیں نام نہادشیعوں نے یہ جشن منایا-(الخط اللمقریزی 490/1) ۔مشہورحنفی عالم احمدیارخان نعیمی کے مطابق”میلادشریف تینوں زمانوں نہ کسی نے کیا،بعدکی ایجادہے(جاالحق236/1)نبی کے یوم پیدائش کویوم میلادقراردیناعیسایئوں کاوطیرہ ہے۔ اوربدعت سیہ ہے جبکہ کفارکی مشابہت اوران کی رسومات پرعمل کرنے سے منع کیاگیا ہے۔لہذا آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ایک بدعت ہے جس کا اسلام کوئی تصور نہیں،عیدمیلادالنبی کابہترین پیغام تویہ ہے کہ گھراورمسجد،تمام تعلیمی اداروں،منڈیوں اورتھانے،چھاؤنی،عدلیہ اورپارلیمنٹ،ایوانِ وزارت وصدارت اورتمام سفارت خانوں کواپنے آقاۖ کی تعلیم کے مطابق چلایاجائے جسے ہم اپنا ہادی برحق مان چکے ہیں۔یہی عیدمیلادالنبی کااصل پیغام ہے اور ہمارے آقاکی خوشنودی ان کے بتائے ہوئے راستے سے ہی مل سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں