ہرعقل وشعوراورسمجھ بوجھ رکھنے والایہ بات جانتاہے کہ کسی بھی مکان یاجگہ کوفضیلت،مقام،مرتبہ اورعظمت وبلندی اس کے مکین کی وجہ سےحاصل ہوتی ہے۔اسی لئے یہ مثال مشہورہ ے کہ”شَرَفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ”یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے کی وجہ سے ہوتی ہے،پھرجب قرآن نے مکین کی عظمت پریہ مہرثبت کردی: اگرانہوں نے یہ طریقہ اختیارکیاہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پرظلم کربیٹھے تھے توتمہارے پاس آجاتے اوراللہ سے معافی مانگتے، اوررسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا،تویقیناًاللہ کو بخشنے والااوررحم کرنے والاپاتے۔(النساء:64)
میرے آقاﷺکومعراج سے پہلے تمام انبیاء کی امامت کاشرف بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جس مکان کے مکین ہیں تووہ مکان ان کے قدموں کی برکت پاکریقیناًافضل واعلیٰ ہوگیااوروہ مقام ہے ہمارے پیارے نبیﷺکامبارک روضہ،کہ جس پرگنبدِخضریٰ اپنی بہاریں لُٹارہاہے۔یقیناًگنبدِخضریٰ کے مکینﷺکے وجودِمسعودنے اس مقام کوبھی افضل واعلیٰ بنادیا،اسی لئے اس کی زیارت کرنا، وہاں جاناافضل عبادات میں سے ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہماکے غلام حضرت نافع رحمۃُ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکو100مرتبہ سے بھی زیادہ بار دیکھاکہ آپ روضۂ رسول پرسلام عرض کرنے کیلئے حاضری دیا کرتے۔ حضرت محمد بن مُنکدررحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک بار میں نے حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کودیکھاکہ وہ رسولُ اللہﷺکی قبرِانورکے قریب روتے ہوئےعرض کر رہے تھے:یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں آنسوبہائے جاتے ہیں،میں نےرسولُ اللہﷺسے سناہے:یعنی میری قبراورمیرے منبرکے درمیان کاحصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ جن دنوں ملکِ شام میں رہاکرتے تھے،آپ کوایک دن خواب میں رسولُ اللہﷺکی زیارت ہوئی تورسولُاللہﷺنےارشادفرمایا:اے بلال!یہ بے رُخی کیسی؟تم ہم سے ملاقات کرنے نہیں آتے؟حضرت بلال رضی اللہ عنہ بیدارہوگئے۔آپ نے فوراًرختِ سفر باندھا اور اللہ پاک کے حبیبﷺکی بارگاہ میں حاضری کے لئے روانہ ہو گئے۔وفاءُ الوفاءمیں ہے:حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے مزارِپُرانوارپرحاضرہوکرروناشروع کیااوراپنا منہ آقاﷺ کی قبرپر ملتے تھے۔
روضہ مبارکہ میں نبی کریم،حضرت ابوبکرصدیق اورحضرت عمربن خطاب کی قبریں موجود ہیں۔روضہ مبارکہ جسے حجرہ نبویہ شریفہ کہاجاتاہے،اس میں نبی کریمﷺام المؤمنین عائشہ صدیقہ کے ہمراہ رہاکرتے تھے۔اس کادروازہ مسجد نبوی کے اس حصے کی طرف کھلاکرتاتھاجسے جنت کی کیاری ہونے کااعزازحاصل ہے۔
نبی کریم کاانتقال اسی حجرہ مبارکہ میں ہوا۔صحابہ کرام رضون اللہ اجمعین نے مشورہ کیاکہ پیغمبراسلام کوکہاں دفن کیاجائے، اس پرابوبکرصدیق نے رسول اللہ کی ایک حدیث کاحوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ نبی کامدفن وہی مقام ہوتاہے جہاں اس کی روح قبض کی جاتی ہے۔ارشادرسالت کی تعمیل میں رسول اللہ کی تدفین اسی حجرہ مبارکہ میں ہوئی جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ حجرہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاتھا۔وہ حجرہ مبارکہ کے شمالی حصے میں قیام پذیررہیں۔پھرجب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاانتقال ہواتوعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اجازت سے ان کی تدفین بھی حجرہ مبارکہ میں رسول اللہ کے پہلوہی میں کی گئی۔رسول کی قبراوران کی رہائش کے درمیان کوئی دیواریارکاوٹ نہیں تھی۔عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حجرہ مبارکہ میں ایک طرف توان کے شوہراوردوسری جانب ان کےوالدتھےلہٰذاحجاب کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی لیکن جب عمرفاروق کاانتقال ہوااورانہیں حضرت ابوبکر صدیق کےپہلومیں دفنایاگیا توانہوں نے اپنی رہائش والے حصےاورقبروں کے درمیان پردے کاانتظام کرلیاکیونکہ عمرفاروق محرم نہیں تھے۔
آج اللہ کی عطاکردہ توفیق سے ایک مجرم کی حیثیت سے اپنے آقاﷺکے حضورسلام کیلئے حاضری کاجب موقع ملاتونجانے کیوں پسینہ سے شرابور گھبراہٹ اورخوف سے جہاں ساراجسم کانپ رہاتھاوہاں اپنے آقاﷺکے احسانات،رحمت العالمین کی اپنی امت سے محبت کے مناظرنے میرااحاطہ کیاہواتھاکہ اچانک مجھے اپنے آقاکی زندگی کے آخری لمحات یادآگئے کہ آپﷺاس وقت بھی اپنی امت کی بخشش کیلئے اپنے رب سے مناجات فرما رہے تھے۔
وفات سے3روزقبل حضوراکرم ﷺام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے گھرتشریف فرماتھے،آپﷺنے تمام ازواجِ مطہرات کو بلاکردریافت فرمایا”کیاتم سب مجھے اجازت دیتی ہوکہ بیماری کے یہ ایام میں عائشہ(رضی اللہ عنہما)کے ہاں گزار لوں؟”سب نےبیک زبان کہا”اے اللہ کے رسول آپ کواجازت ہے”۔پھراٹھناچاہالیکن اٹھ نہ پائے تو حضرت علی اورحضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماآگے بڑھے اورنبی ﷺ کوسہارے سے اٹھاکرسیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم ﷺکواس (بیماری اورکمزوری کے)حال میں پہلی باردیکھاتوگھبراکرایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ رسول اللہﷺکوکیاہوا؟صحابہ کرام کی کثیرتعدادفوری طورپرمسجدمیں جمع ہوگئی۔آقاﷺکاپسنہ شدت سے بہہ رہاتھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہافرماتی ہیں کہ”میں نے اپنی زندگی میں کسی کااتناپسینہ بہتے نہیں دیکھا۔میں رسول اللہﷺکے دست مبارک کوپکڑتی اوراسی کوچہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبیﷺکاہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اورپاکیزہ تھا۔حبیب خداﷺسے بس یہی وردسنائی دے رہاتھاکہ”لاإله إلاالله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں”۔
اسی اثناءمیں مسجدکے اندرآنحضرتﷺکے بارےمیں خوف کی وجہ سے لوگوں کاشوربڑھنےلگا۔نبیﷺنےدریافت فرمایا”یہ کیسی آوازیں ہیں”عرض کیاگیاکہ اے اللہ کےرسول ﷺ!تمام اصحابہ آپ کی حالت سے خوفزدہ ہیں۔ارشادفرمایا:مجھے ان کے پاس لے چلو ۔ اٹھنے کاارادہ فرمایا لیکن اٹھ نہ سکے توآپ ﷺپر7مشکیزے پانی کے بہائےگئے،تب کہیں جاکرکچھ افاقہ ہواتوسہارے سے اٹھاکر ممبرپرلایاگیا۔یہ میرے آقاﷺکا آخری خطبہ تھااورآپ کے آخری کلمات تھے:اے لوگو!شائدتمہیں میری موت کاخوف ہے۔سب نے سر جھکائے کہاکہ:جی ہاں،اے اللہ کے رسول ﷺ۔
ارشادفرمایا:اے لوگو!تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیانہیں،تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض(کوثر)ہے،اللہ کی قسم گویاکہ میں یہیں سے اسے(حوض کوثر کو)دیکھ رہاہوں۔اے لوگو!مجھے تم پرتنگدستی کاخوف نہیں بلکہ مجھے تم پردنیا(کی فراوانی)کا خوف ہے،کہ تم اس(کے معاملے)میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤجیساکہ تم سے پہلے(پچھلی امتوں )والے لگ گئے، اوریہ(دنیا)تمہیں بھی ہلاک کردے جیساکہ انہیں ہلاک کردیا۔ اے لوگو:نمازکے معاملے میں اللہ سے ڈرواوراس کوتین مرتبہ دہرایا ۔پھرفرمایا:اے لوگو!عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو(یعنی عہدکروکہ میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔نمازکی پابندی کروگے،اوریہی بات بارباردہراتے رہے۔
مزیدفرمایا:اے لوگو۔۔۔!ایک بندے کواللہ نے اختیاردیاکہ دنیاکوچن لے یااسے چن لے جواللہ کے پاس ہے،تواس نے اسے پسندکیا جو اللہ کے پاس ہے۔اس جملے سے حضورﷺکا مقصد کوئی نہ سمجھاحالانکہ ان کی اپنی ذات مرادتھی جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہاشخص تھےجو اس جملے کوسمجھے اورزاروقطاررونے لگے اوربلندآوازسے گریہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اورنبی اکرمﷺکی بات قطع کرکے پکارنے لگے: ہمارے ماں باپ،داداآپ پرقربان،ہمارے بچے آپ پرقربان،ہمارے مال ودولت آپ پرقربان،روتے ہوئے بارباریہی دہراتے رہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم(ناگواری سے)حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگےکہ انہوں نےنبی اکرمﷺکی بات کیسے قطع کردی؟اس پرنبی کریمﷺنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کادفاع ان الفاظ میں فرمایا:اے لوگو!ابوبکرکوچھوڑدوکہ تم میں سے ایساکوئی نہیں کہ جس نے میرے ساتھ کوئی بھلائی کی ہواورمیں نے اس کا بدلہ نہ دے دیاہو،سوائے ابوبکرکے کہ اس کابدلہ میں نہیں دے سکا،اس کابدلہ میں نے اللہ جل شانہ پرچھوڑدیا۔ مسجد(نبوی)میں کھلنے والے تمام دروازے بندکردیے جائیں،سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جوکبھی بندنہ ہوگا۔آخرمیں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کیلئےآخری دعاکے طورپرارشادفرمایا:اللہ تمہیں ٹھکانہ دے،تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔اورآخری بات جومنبرسے اترنے سے پہلے امت کومخاطب کرکے ارشادفرمائی:اے لوگو! قیامت تک آنے والے میرے ہرایک امتی کومیراسلام پہنچادینا۔ پھر آنحضرت ﷺکودوبارہ سہارے سے اٹھاکرگھرلے جایاگیا۔
اسی اثناءمیں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضرہوئے اوران کے ہاتھ میں مسواک تھی،نبی اکرم ﷺمسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کرپائے چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاحضوراکرمﷺ کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اورانہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے کرنبی کریمﷺکے دہن مبارک میں رکھ دی،لیکن حضورﷺاسے استعمال نہ کرپائے توسیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے حضوراکرمﷺسے مسواک لے کراپنے منہ سے نرم کی اورپھرحضورنبی کریمﷺکولوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تررہے۔فرماتی ہیں:آخری چیزجونبی اکرمﷺکے پیٹ میں گئی وہ میرالعاب تھا،اوریہ اللہ تبارک وتعالٰی کامجھ پرفضل ہی تھاکہ اس نے وصال سے قبل میرااور نبی کریم علیہ السلام کالعاب دہن یکجاکردیا۔
أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہامزیدارشادفرماتی ہیں: پھر ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لائیں اورآتے ہی روپڑیں کہ نبی کریم ﷺاٹھ نہ سکے، کیونکہ نبی کریمﷺکامعمول تھاکہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں،حضوراکرم ﷺان کے ماتھے پربوسہ دیتےتھے۔حضورﷺ نے فرمایا:اے فاطمہ!قریب آجاؤ۔۔۔پھرحضورﷺنے ان کے کان میں کوئی بات کہی توحضرت فاطمہ اورزیادہ رونے لگیں،انہیں اس طرح روتادیکھ کرحضورﷺنے پھرفرمایا:اے فاطمہ! قریب آؤ۔۔۔دوبارہ ان کے کان میں کوئی بات ارشادفرمائی تووہ خوش ہوگئیں۔حضور اکرم ﷺکے وصال کے بعدمیں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھاسے پوچھاکہ وہ کیابات تھی جس پرآپ روئیں اورپھر خوشی کا اظہار کیا تھا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ پہلی بار(جب میں قریب ہوئی)توفرمایا: فاطمہ!میں آج رات(اس دنیاسے)کوچ کرنے والاہوں جس پرمیں رودی۔جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھاتوفرمانے لگے،فاطمہ!میرے اہل خانہ میں سب سے پہلے تم مجھے آملو گی ، جس پرمیں خوش ہوگئی۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھمافرماتی ہیں پھرآنحضرت ﷺ نے سب کوگھرسے باہرجانے کاحکم دیکرمجھے فرمایا: عائشہ!میرے قریب آجاؤ۔آنحضرت ﷺنے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پرٹیک لگائی اورہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے فرمانے لگے: مجھے وہ اعلیٰ وعمدہ رفاقت پسندہے۔(میں اللہ کی،انبیاء،صدیقین،شہداء اورصالحین کی رفاقت کواختیارکرتاہوں)۔صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں ” میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کوچن لیاہے”۔
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضرہوکرگویاہوئے:یارسول الله!ملَکُ الموت دروازے پرکھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی ۔آپﷺنے فرمایا:جبریل!اسے آنے دو۔۔۔ملَکُ الموت نبی کریمﷺکےگھرمیں داخل ہوئےاورکہا: السلام علیک یارسول الله!مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئے بھیجا ہے کہ آپ دنیامیں ہی رہناچاہتے ہیں یااللہ سبحانہ وتعالی کے پاس جاناپسندکرتے ہیں؟نبی اکرمﷺنے جواب میں فرمایاکہ مجھے اعلیٰ وعمدہ رفاقت پسندہے اوردوبارہ اپنی اس خواہش کودہرایا:ملَکُ الموت آنحضرت ﷺکے سرہانے کھڑے ہوئے اورکہنے لگے:اے پاکیزہ روح!اے محمدبن عبداللہ۔۔۔اللہ کی رضاوخوشنودی کی طرف روانہ ہو،راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جوغضبناک نہیں!
سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہافرماتی ہیں:پھرنبی کریم ﷺ کاہاتھ نیچے آن رہا،اورسرمبارک میرے سینے پربھاری ہونے لگا،میں سمجھ گئی کہ آنحضرت ﷺکاوصال ہوگیا۔۔۔مجھے اورتوکچھ سمجھ نہیں آیا،سومیں اپنے حجرے سے نکلی اورمسجدکی طرف کا دروازہ کھول کراندرسے کہا:”رسول اللہ کاوصال ہوگیا۔۔۔!رسول الله کاوصال ہوگیا”۔۔۔۔۔! مسجد آہوں اورنالوں سے گونجنے لگی۔ ادھرعلی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ادھرعثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگےاورسیدناعمررضی الله تعالی عنہ تلواربلندکرکے کہنے لگے:خبردار!جوکسی نے کہاکہ رسول اللہﷺوفات پاگئے ہیں،میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا،میرے آقاتوالله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئےتھے،وہ لوٹ آئیں گے،بہت جلدلوٹ آئیں گے!اب جووفات کی خبراڑائےگا،میں اسے قتل کر ڈالوں گا۔اس موقع پر سب زیادہ ضبط،برداشت اورصبرکرنے والی شخصیت سیدناابوبکرصدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے رحمت دوعالَم ﷺکے سینۂ مبارک پرسررکھ کررودیئے اورساتھ ہی کہہ رہے تھے: وآآآخليلاه،وآآآصفياه،وآآآحبيباه،وآآآنبياه۔۔۔۔ہائےمیرے پیارے دوست۔۔۔!ہائے میرے مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرے محبوب ۔۔۔!ہائے میرے نبی۔۔۔پھرآنحضرتﷺکے ماتھے پربوسہ دیااورکہا:یا رسول الله!آپ پاکیزہ جئے اورپاکیزہ ہی دنیاسے رخصت ہوگئے۔سیدناابوبکررضی اللہ عنہ باہرآئے اورخطبہ دیا:جوشخص محمدﷺکی عبادت کرتاہے سن رکھے کہ آنحضرتﷺکاوصال ہوگیا اور جوالله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ہمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔یہ سنتے ہی سیدناعمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوارگرگئی ۔۔عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:پھرمیں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگاجہاں اکیلابیٹھ کرروؤں۔ آنحضرت ﷺکی تدفین کردی گئی۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:تم نے کیسے گواراکرلیا کہ نبی اکرمﷺکے چہرہ انورپرمٹی ڈالو؟پھرفرمانے لگیں:ہائے میرے پیارے بابا جان!کہ اپنے رب کے بلاوے پرچل دیے ،ہائے میرے پیارے باباجان،کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کوپہنچ گئے،ہائے میرے پیارے باباجان،کہ ہم جبریل کوان کے آنے کی خبردیتے، اللھم صل علی محمدکماتحب وترضا۔
امت کیلئےاصل اوربہترین پیغام تویہ ہے کہ ہم اپنےآقاﷺ کی زندگی،ان کی تعلیمات اوررحمتوں کویادکریں۔اس موقع پران کی سنتوں اور معاشرتی اقوال کواپنی زندگیوں کااوڑھنابچھونابنانے کاعہدکریں کہ ہم ان کے انعامات اوررہنمااصولوں کواپناکراپنی باقی ماندہ زندگی گزاریں گے۔ہم سب اس دن کے حوالے سے یہ عزم کریں کہ ہم سیرت النبی کی روشنی سے اس دنیاکی ظلمتوں کودورکریں گے۔آقاﷺسے محبت کاتقاضہ ہے کہ ہم دنیا بھرمیں اپنے کردارسے امن،اخوت اورمحبت کااستعارہ بن کریہ پیغام دیں کہ ہمارے آقاﷺنے اپنے آخری سانسوں میں بھی دنیاکی فلاح، عورتوں کی بھلائی اورحفاظت کاحکم دیاہے،ظلم وجبرکے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوارکاسبق دیاہے تاکہ دنیامیں سب کوجینے کاحق مل سکے اورانسانیت بلا جبر وکراہ کے آشتی ومحبت کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق اداکریں۔
بطورامتی پیغامبرِاسلامﷺکے احسانات کویادکرنےاوران کی شان وشوکت کویادکرنے کاعظیم طریقہ تویہ ہےکہ ہم ان کی عالمی اخلاقی اورانسانی حقوق کواپنے زندگیوں میں منتقل کریں،ہم ان کے پیغام کودنیاکے ہرکونے تک پہنچانےکاعملی ثبوت دیں تاکہ دنیاسیرت النبی کی روشنی اوررحمت کو چھوسکے۔اس موقع پرہمیں اپنی زندگیوں کودوسروں کی مدداورخدمت کیلئے وقف کرنے کاعزم کرناچاہئے۔ہمیں اپنے گھروں،اجتماعات میں امن، اخوت اورمحبت کوفروغ دینے کیلئے پہلے خوداپنی زندگی کوتبدیل کرنے کی محنت کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنے آقاﷺکے پیغامات کوعملی شکل دے کر دوسروں کوبتاسکیں جوپیغامبرِاسلام نے ہمیں دیے ہیں۔
ہمارے آقاﷺکاسب سے بڑامعجزہ توقرآن مجیدہےجس کے من وعن حفاظت کی ذمہ داری خودرب کریم نے روزِقیامت تک کیلئے اپنے ذمے لے رکھی ہے،ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے( الحجر: 9) ۔ یہ پہلی وہ آسمانی کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا، گویا اس کی حفاظت کے لیے یہ وعدہ الٰہی ہے اور قرآن کا اعلان ہے: اللہ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔( آل عمران:9) بس اللہ نے اپنا یہ وعدہ سچ کر دکھایا۔ اور کتاب اللہ کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا ۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ بھی محفوظ، اس کے معانی بھی محفوظ، اس کا رسم الخط بھی محفوظ، اس کی عملی صورت بھی محفوظ، اس کی زبان بھی محفوظ، اس کا ماحول بھی محفوظ، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا اس کی سیرت بھی محفوظ، اور اس کے اولین مخاطبین کی سیَرْ بھی یعنی زندگیاں بھی محفوظ۔ غرضیکہ اللہ رب ا لعزت نے اس کی حفاظت کے لیے جتنے اسباب و وسائل اور طریقے ہوسکتے تھے، سب اختیار کئے، اور یوں یہ مقدس اور پاکیزہ کتاب ہر لحاظ اور ہر جانب سے مکمل محفوظ ہوگئی۔ الحمدللہ آج 1459/ سال گذرنے کے بعد بھی اس میں رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہ ہوسکا، لاکھ کوششیں کی گئیں، مگر کوئی ایک کوشش بھی کامیاب اور کارگر ثابت نہ ہوسکی، اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔
اس کے بعدہمارے آقاکی زندگی کی سیرت کے تمام لمحات بھی ہمارے پاس محفوظ ہیں۔قرآن میں ہمیں آیت الکرسی جیسی عظیم آیت رب کریم کی طاقت اورکمال کی تعریف سے آشناکرتی ہے اورایک پیغام دیتی ہے کہ اللہ کی ذات میں کمال اورقدرت ہےجوکہ عالمی امن کی اہمیت کوبنیاد اور اہمیت کوظاہرکیاگیاہےاوراسی پیغام کومیرے آقانےاپنے امتیوں کیلئے چھوڑاہے ۔