گذشتہ6ماہ سے پاکستانی معیشت کی کشتی جس ابترحالات میں ہچکولے کھارہی ہےجسے”مرے کو ماریں شاہ مَدار”کے مصداق حالیہ سیلاب کی تباہ کاری اور معاشی اثرات نے مزید بڑھا دیا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شہباز شریف نے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی بات کی جس پر اسمعیل مفتاح نے بھی” پیرس کلب سے قرضوں کی ری شیڈولنگ” کا عندیہ دیا تھا لیکن اسحاق ڈارن ے منصب سنبھالتے ہی یہ کہہ کرپیرس کلب سے رجوع نہ کرنے کااعلان کردیاہےکہ پاکستان کے مالی معاملات اورقرضوں کی بروقت ادائیگی کیلئےپالیسی مرتب کی جاچکی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان نے پیرس کلب کے قرضوں کی مدمیں تقریباً10 ارب ڈالرز اداکرناہیں جن میں سے1.1ارب ڈالرزکی ادائیگیاں رواں مالی سال کے دوران کرنی ہیں۔پیرس کلب ترقی یافتہ ممالک کاایساگروہ ہے جوقرضوں میں ادائیگی کی مشکلات کاسامناکرتے ممالک کیلئےراستے نکالتاہے،جس میں امریکا،برطانیہ،آسٹریلیا، کینیڈا،جاپان، ناروے اورسویڈن جیسے ممالک شامل ہیں۔
آخرایساکیاہواکہ پاکستان پیرس کلب کے پاس قرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئےنہیں جاناچاہتاجبکہ اسحاق ڈاراس وقت آئی ایم ایف اورورلڈبینک سے مذاکرات کیلئےامریکامیں موجودہیں؟ماضی میں دومواقع پر2001اورکچھ عرصہ پہلے کوروناوبامیں،پاکستان اس سہولت کافائدہ اٹھاچکاہے۔حالیہ سیلاب کے تناظرمیں اس سہولت سے فائدہ اٹھانے سے سیلاب زدگان کی مدداوربحالی کیلئےکچھ نا کچھ مالی گنجائش پیدا کی جاسکتی تھی لیکن شائدحکومت سمجھتی ہے کہ پیرس کلب کے پاس جانے سے مارکیٹ میں ایک منفی تاثرجائے گااورقرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئےجانے سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ متاثرہوگی جوکہ بانڈزمارکیٹ میں پاکستان کی ساکھ کومتاثرکرے گی اوراس کے ساتھ ساتھ جہاں سرمایہ کاربھی پاکستان آنے سے گھبرائیں گے وہاں پاکستانی روپے کی قدر میں بھی کمی ہوجائے گی،اسی لیے پاکستان نے پیرس کلب نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے دورحکومت میں وزیرخزانہ رہنے والے سینیٹرشوکت ترین جن کی”کے پی کے”وزیرخزانہ جھگڑاکے ساتھ ایک آڈیونے میڈیامیں بڑا تہلکہ مچایاتھا،جس میں انہوں نے موجودہ حکومت کی مشکلات میں اضافہ کرنے کرنے کیلئے براہ راست آئی ایم ایف کوخط لکھنے کاکہاتھا،نے بھی ایک نجی ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے اسحاق ڈار کے پیرس کلب نہ جانے کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔واضح رہے کہ موڈیزنے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کوایک پوائنٹ کم کرتے ہوئے B3سےCaa1کردیا تھاجسے وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے شدیدتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے پیرس کلب جانے کی باتوں کواس تنزلی کاذمہ دارٹھہرایاتھا۔اس لئےحکومت کایہ فیصلہ کمرشل کریڈٹرزکیلئےایک مثبت اشارہ ہے اورحکومت نہیں چاہتی کہ کسی قسم کامنفی تاثرمارکیٹ میں جائے ۔
یقیناًپاکستان میں فکرمندکمرشل کریڈٹرزکوحکومت کے اس فیصلے سےایک مثبت اشارہ ضرورملاہے۔پاکستان کے ایک ارب ڈالرز کے بانڈزکی مدت دسمبر میں پوری ہورہی ہے اوروزیرخزانہ کےاعلان کے مطابق وقت پرادائیگی بھی کریڈٹ مارکیٹ میں پاکستان سے متعلق مثبت رجحان پیدا کرنے کا باعث بنے گی۔تاہم پاکستان کورواں مالی سال میں قرضوں کی ادائیگیوں اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارے کوپوراکرنے کی مدمیں تقریباً35ارب ڈالرزکی ضرورت ہے اورجب پوری دنیا عالمی کساد بازاری کے خطرے سے دوچارہے توان ضروریات کوپوراکرنے کیلئےحکومت کے پاس کیاراستہ ہے؟حکومت کوکہیں نہ کہیں سے توریلیف لیناپڑے گا، اس کے بغیرکوئی دوسراراستہ نظرنہیں آتا۔
ایسے میں حکومت نان پیرس کلب ممالک کے پاس جاسکتی ہے۔پیرس کلب کے ہم نے تقریباً10ارب ڈالردینے ہیں جس میں سے 1.1ارب اس سال ادا کرنے ہیں جبکہ باقی ادائیگیاں نان پیرس کلب کی ہیں جن میں چین اور سعودی عرب جیسے ممالک شامل ہیں جن کے پاکستان نے سب سے زیادہ قرضے ادا کرنے ہیں۔صرف چین کے پاکستان نے23ارب ڈالرزاداکرنے ہیں تومیراخیال ہے کہ اب حکومت ان ممالک سے کسی قسم کی سہولت حاصل کرنے کی ضرور کوشش کرے گی۔خیال رہے کہ امریکانے حال ہی میں پاکستان پرزوردیاکہ وہ چین سے قرضوں کی چھوٹ اوران کی ری سٹرکچرنگ کرنے کی کوشش کرے۔ادھر اسحاق ڈار صاحب آئی ایم ایف سے بھی نرمی اور ریلیف کی توقعات وابستہ کرکےپیرس کلب کے پاس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔
تاہم پاکستان کے پاس مختلف آپشنز موجود ہیں جن کا استعمال کر کے پاکستان اس صورت حال سے نکل سکتاہے۔سب سے پہلے تو پاکستان کو ہرحال میں آئی ایم ایف پروگرام میں رہنے کا کڑوا گھونٹ پینا ہو گا تاکہ دنیا کا پاکستان پراعتماد بنا رہے۔اس کے بعد پاکستان کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سنبھالنے کی ضرورت ہو گی تاکہ ادائیگیوں کاتوازن خراب نہ ہو۔پاکستان کوایک ارب ڈالرکے بانڈز کی ری فائنانسنگ کی طرف بھی جاناچاہیے جوکہ اس سال دسمبر میں میچورہورہاہے۔
اس کے ساتھ پاکستان اپنے شراکت داروں(Bilateral Partners)کے ساتھ موجود سات ارب ڈالرزکے قرض کے رول اوورکی طرف بھی دیکھ سکتاہے ۔ ان اقدامات سے وقتی طورپرسہارامل سکتاہے جس سے ممکن ہے کہ ان اقدامات سے وقتی طورپرممکنہ بحران کوٹالنے میں کچھ مددمل سکے۔ اسحاق ڈاراپنے حالیہ بیانات میں کہتے آئے ہیں کہ حکومت پائیدارمعیشت بنانے کی کوشش کررہی ہے توکیاحکومتی پالیسی اورحالیہ فیصلے بھی اس طرف اشارہ کررہے ہیں؟بظاہریوں لگ رہاہے کہ اس وقت حکومتی پالیسی معاشی بحران کو صرف کسی طرح وقتی طورپرٹالنے کی کوشش ہے تاکہ2023کے الیکشن تک کسی طرح گزارہ ہوجائے اور معاشی طورپرملک کوایسی مستحکم پالیسیوں پرگامزن کردیاجائے جس سے ایک توروپے کی قدرمیں مزیدکمی ہواور اسحاق ڈارپہلے ہی یہ بتاچکے ہیں کہ ڈالرکوپاکستان کے آٹھ بینکوں نے مصنوعی طورپرسازش کرکے اپنے منافع کیلئے پاکستانی روپے کی قدرمیں کمی کرکے ملک کواس معاشی ابتری میں مبتلاکردیاجس سے مہنگائی آسمانوں کوچھورہی ہے اوردوسراانرجی کی درآمدات پرکافی بڑاحکومتی بل اداکرناپڑتاہے جس نے زندگی کے روزمرہ کے مسائل کوکئی گنابڑھادیاہے اس لئے یقیناًحکومت کے سارے اقدامات انہی اہداف کے حصول کیلئے ہوں گے۔
حکومت الیکشن سے پہلے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف دیناچاہتی ہے اوراس لیے ابھی طویل المدتی معاشی استحکام کی منصوبہ بندی کے اقدامات کافقدان نظرآتا ہے لیکن یادرکھیں کہ اگرمہنگائی اورمفلسی کے راستے کونہ روکاگیاتووہ شرفاءبھی سرپرکفن باندھ کرمیدان میں اترآئیں گے جن کے بچے اسکول کی فیسیں ادانہ کرنے اورگھرمیں جاری فاقے کی بناءپراپنے فیصلے کی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔
کھڑاہوں آج بھی روٹی کے چارحرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیادیامجھ کو