اللہ تعالی کی تخلیق کردہ خوبصورت شاہکاروں میں سے ایک شاہکار،حسین و خوبصورت، آبشاروں کی جھرمٹ میں حسین چنار،پھل پھول، پودے،چرندپرند،پہاڑوں اور نہروں کی خوبصورتیوں سے ہر وقت جگ مگ کرتی ہوئی سرسبز ،جس کی بیش بہا خوبصورتی کو دیکھ کر بالکل ایسا گماں ہوتا ہے جیسے دنیا میں جنت کا ٹکڑا اتر آیا ہو۔مقبوضہ کشمیرکوجنت نظیرسے تشبیہ اس لئے دی جاتی ہے کہ کشمیرکے دلفریب نظارے اوراس کا قدرتی حسن ہرکسی کومسحورکردیتاہے ۔ کشمیرکے فلک بوس پہاڑ،اس میں جاری میٹھے اورٹھنڈے پانیوں کے جھرنے، صاف وشفاف پانی کی جھیلیں، آنکھوں کوخیرہ کردینے والے سرسبزجنگلات ،پھلوں سے لدے ہوئے باغات اورپانی کے ذخیرے اور دیگربے شمارنعمتوں سے مالامال دھرتی کے باسی پچھلی سات دہائیوں سے جبری غلامی سے آزادی کیلئے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے میں بھی سرفہرست ہیں۔
لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ یہ حسین و سرسبزجنت نظیرکہلانے والاخطہ متعصب ہندوکے ظلم وستم کا نشانہ بناہواہے۔ وہ کون سا ظلم ہے جو ان پر نہیں ڈھایاجا رہا۔ آئے دن یہ خبریں سننے کو اور دیکھنے کو ملتی ہیں کہ بھارتی جلاد پسند وں نے کشمیر کو جنگ کا میدان بنایا ہوا ہے بہیمانہ تشدد اور بے گناہوں کا خون سر عام بہانا بچوں کو بوڑھوں کو اذیت ناک موت کے گھاٹ اتارنا اور یہ ہی نہیں بلکہ عورتوں کی عزت و آبرو کو پامال کرنا بھی بھارتی جلادوں کے ظلم و ستم کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ایک نہ ختم ہونے والی جنگ جہاں ہرروزکئی گھرانوں کے نوجوان چشم وچراغ شہادت کوگلے لگارہے ہیں،معصوم بچوں کے سروں سے باپ کاسایہ چھین کران کویتیم اورخواتین کوبیوہ بناکربے آسرازندگی گزارنے پرمجبورکردیاگیاہے اوراب تک ایک لاکھ سے زائدکشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں لیکن اقوام متحدہ اور ساری دنیا چپ سادھے بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے۔
ہندودرندے کشمیرمیں نسلی کشی کے ساتھ ساتھ اب اس دھرتی کے تمام وسائل کوکس قدر بیدردی اورخطرناک منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے فوائد کیلئے استعمال کررہاہے شائداس جنت نظیرکے باسیوں کوبھی اس کامکمل ادراک نہیں ہوپایا۔ اس خطے میں مقبوضہ جموں وکشمیرمیں پن بجلی کی پیداوار کی صلاحیت بے پناہ اورسب سے زیادہ ہے۔بھارت نے اپنی تمام شمالی ریاستوں بشمول دہلی کوروشن رکھنے اورانہیں بجلی فراہم کرنے کیلئے ہی مقبوضہ کشمیرکے آبی ذخائرپربڑے بڑے ڈیم بنائے ہیں تاہم کسی بھی خوفناک زلزلے یاحادثے کی صورت میں ان ڈیموں کے پھٹنے سے جو قیامت خیزتباہی رونماہوگی، متعصب بنئے نے محض اس لئے چشم پوشی اختیارکی ہے کہ اس کا شکارکشمیری مسلمان ہی بنیں گے لیکن بھارت یہ بھول گیاکہ یہ طوفان بھارت کے بھی تنکوں کی طرح بہالے جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیرمیں ان تمام بجلی پروجیکٹس کے باوجود مقبوضہ کشمیرمیں بجلی ناپیدہے۔بھارتی فوجی جابرانہ قبضے کے جلو میں مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی بجلی کمپنی نیشنل ہائیڈروپاور کمپنی نے پاورجنریشن پردو ہزارملین کی سرمائے سے شروعات کی تھی لیکن بعدمیں اس نے نئے پروجیکٹ لیکربھارت کی دس بڑی کمپنیوں میں جگہ بنالی اورآج یہ کمپنی کھربوں کابزنس کررہی ہے۔ نیشنل ہائیڈروپاورکمپنی اورمقبوضہ کشمیرکی کٹھ پتلی سرکارکے درمیان 1975 ء کے معاہدے کے تحت برابرکا پیداواری حصہ تھااور2002 ء میں جموں ریجن کاسلالی بجلی پروجیکٹ جموں و کشمیرسرکلرکو واپس کیاجاناتھا لیکن یہ تحریری معاہدہ ریکارڈ سے ہی غائب کردیاگیاہے اوربھارتی کمپنی نے ”این ایج پی”اپنی مرضی اورمن مانی شرائط پرپے درپے بجلی پروجیکٹس تسلیم کرتی گئی۔اس حوالے سے 2 اکتوبر2017 ء کوبانڈی مورکے گریز علاقے میں لائن آف کنٹرول کے قریب کشن گنگاڈیم کی تعمیراتی سرگرمیاں شروع کردی گئیں۔یہ پروجیکٹ چھ سوکروڑ کے سرمائے سے تعمیرہورہاہےجس کی پیداواری صلاحیت تین سومیگاواٹ ہوگی۔اس سے دہلی،پنجاب،ترانچل،اگرا کھنگ اور ہماچل پردیش براہِ راست مستفیذ ہوں گے۔
ماہرین ارضیات کہتے ہیں کہ کسی خوفناک زلزلے یاحادثے کی صورت میں کشن گنگاپروجیکٹ کی حساس علاقے کے زیر زمین شگافوں میں ہلچل کی صورت میں یہ ڈیم پھٹ سکتاہے اوراس کے نتیجے میں جنوبی کشمیرکے تین اضلاع باڈی پورہ، بارہ مولا اورکپواڑہ کی انسانی آبادی صفحۂ ہستی سے فناہو سکتی ہے ۔قابل ذکربات یہ ہے کہ گریزمیں آٹھ ہزار کنال پرپھیلے ہوئے اس رقبے میں زیر زمین سرنگیں تعمیرکی گئی ہیں جن میں لاکھوں گیلن پانی ذخیرہ کیاجا رہاہے۔ اس منصوبے سے بجلی پیداکرنے کیلئے دریائے نیلم سے فی سیکنڈ 45000 لیٹر پانی ڈیم میں منتقل کیا جائے گا۔
24فٹ بلنداس ڈیم میں فی الوقت 60 لاکھ مکعب میٹر پانی ذخیرہ کیاجا رہا ہے۔دوسری طرف بھارت کے ہی ماہرارضیات وآبی وسائل ڈاکٹروی پی جوہری نے ورلڈکمیشن آن ڈیمزکے حوالے سے جو تحقیقاتی مقالہ تحریرکیاہے، اس کے مطابق پن بجلی منصوبوں کیلئے زلزلوں سے مناسبت رکھنے والے حساس علاقوں میں ڈیموں کی تعمیرقیامت ڈھاسکتی ہے۔ان کی تحقیق کے مطابق زلزلہ سیکٹرمیں پانی کے بڑے ذخائرخوفناک تباہی کا موجب بن سکتے ہیں، بالفاظ دیگراب زلزلے کیلئے کسی آتش فشاں کے پھٹنے کی ضرورت نہیں بلکہ ڈیم ہی زمین کے اندر چٹانوں کی فالٹ لائنزیاشگافوں کو جوڑاکرتے ہیں اورزمین سب کچھ اگلنے پرآمادہ ہوجاتی ہے۔واضح رہے12مئی 2008 ء کوچین کے صوبے سوچواں کے شہرلوشاں میں جوزلزلہ آیاتھااس میں پانچ ہزاربچوں سمیت 80ہزار افراد مارے گئے جس سے چین کو150بلین ڈالرکا نقصان ہوا ۔بعدمیں انکشاف ہواتھاکہ بجلی پروجیکٹوں اورڈیموں میں پانی کے بڑے ذخائرنے زمین کی چٹانوں کے شگافوں کو بتدریج چوڑاکردیااوراسی سبب سے یہ زلزلہ آیاتھا۔
چین میں سب سے زیادہ ڈیم ہیں لیکن اب اس نے امکانی زلزلوں کی بناء پران علاقوں میں مزیدڈیموں کی تعمیرفوری طورپر منسوخ کردی ہے لیکن ماہرین کے مطابق مقبوضہ کشمیرسے پاکستان کی طرف بہنے والے دریائے نیلم جس کو بھارت میں کشن گنگادریاکے نام سے موسوم کیاجاتاہے،اس پر ڈیم کی تعمیرسے جہاں پاکستان کی زراعت شدیدآبی قلت کاشکارہوگی وہاں کشن گنگاڈیم کی تعمیر کشمیراورکشمیریوں پرخوفناک لٹکتی تلوارہے۔ ماہرین کایہ بھی کہناہے کہ کشن گنگاڈیم سے صرف زلزلے کاہی خطرہ نہیں بلکہ تباہ کن سیلاب کابھی خطرہ ہے اس لئے کہ جھیل وولرمیں پانی کی سطح بڑھ جائے گی اور اس کے اردگرد25 مربع کلومیٹر کی پٹی میں زراعت اورآبادیاں غرق ہوسکتی ہیں۔یوں کشن گنگاڈیم کی تعمیرصرف جہلم اورنیلم کے پانیوں پرپاکستان کے حقوق کامسئلہ ہی نہیں بلکہ ایک کروڑتیس لاکھ کشمیریوں کی بقاء کے مسئلے کے ساتھ ساتھ دونوں ایٹمی طاقت کے حامل پڑوسیوں میں خطرناک جنگ کاموجب بھی ہوسکتی ہے۔