Just Walk As Far As The Saghir

چل سکے بس جب تلک ساغرچلے

:Share

کیاکوئی چیز،یاکوئی شخص ہمیں سوئچ آف کرسکتاہے؟کیاایساہوسکتاہے کہ کہیں،کوئی وجودمحض ایک بٹن دبائے اورجوکچھ بھی دکھائی دے رہاہے وہ ختم ہو جائے؟ بات بہت عجیب سی لگتی ہے،مگرماہرین نے اس سوال پرصدیوں غورکیاہے کہ انسان کی زندگی کیاہے،حقیقت یاافسانہ۔کیاہم اس تصورپریقین کر سکتے ہیں کہ ہماری دنیا،ہماراوجودکوئی کمپیوٹرپروگرام ہے،ہولوگرام ہے یاکسی کاخواب ہے؟کیاآپ کو کبھی کبھی ایسامحسوس نہیں ہوتاکہ جوکچھ بھی ہم دیکھ رہے ہیں وہ کسی نہ کسی اعلی ہستی کاتصوریاخواب ہے؟کبھی کبھی حالات ایسارخ اختیارکرتے ہیں کہ ہمیں کسی بھی امرپریقین کرنے کی تحریک نہیں ملتی،اورجی چاہتاہے کہ ہرچیز پرسے اپنااعتقاداٹھادیں! فلسفیوں اورسائنسدانوں نے اس سوال پرغیرمعمولی حد تک غوروخوض کیاہے کہ ہمارے اردگردجوکچھ بھی ہے وہ سب کچھ اورخود ہمارا وجود بھی واقعی وجودرکھتاہے یانہیں۔ہوسکتاہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال سراٹھائے کہ یہ تمام سوالات بے معنی ہیں،اس لیے کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے ،محسوس ہورہاہے وہی اصلی ہے،حقیقت ہے اورجوکچھ ہمارے حواس کی حدودمیں نہیں وہ درحقیقت نہیں ہے۔جولوگ صرف حواس کی حد میں رہ کربات کرتے ہیں ان کاکہناہے کہ جوکچھ بھی ہے وہ واقعی ہے۔اس کے بارے میں یہ نہیں سوچاجاسکتاکہ وہ بیک وقت ہوبھی سکتاہے،اورنہیں بھی ہوسکتا!

سب سے پہلے آپ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ جسے ہم حقیقت کہتے ہیں وہ کچھ اتنی زیادہ حقیقی نہیں!حقیقت کے مضافات میں ہم آپ کا استقبال کرتے ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں فلسفہ اورنظریاتی طبعیات گلے ملتے ہیں،اورجہاں سائنس اورمذہب کسی حدتک اپنی بساط لپیٹ کرسکون کاسانس لیتے ہیں۔ اپنے ذہن کی نشست پراچھی طرح،جم کربیٹھ جایے،حفاظتی بیلٹ کس لیجیے،کیوںکہ جوکچھ بھی اب آپ کے سامنے آنے والاہے وہ دماغ کی چولیں ہلادینے والا ہے!یہ بھی ممکن ہے کہ آپ بہت پریشان ہواٹھیں اور اپنے وجوداورکائنات کے بارے میں آپ نے جوتصورات یاعقائدقائم کررکھے ہیں ان کے بارے میں آپ کاعزم متزلزل ہوجائے!جسے ہم حقیقت کی دنیاکہتے ہیں وہ اتنی حقیقی نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں۔مشکل یہ ہے کہ ہم چنددائروں میں رہتے ہوئے سوچتے ہیں ۔جب آپ کسی بھی شے کوزیادہ قریب سے دیکھیں تواس کی دراڑیں زیادہ نمایاں ہوتی جاتی ہیں۔یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ کوئی اداکار سیٹ پرکھڑاہو اور دیوارسے ڈررہاہو،مگرپھراسے اندازہ ہوجائے کہ جسے وہ دیوارسمجھ رہاہے وہ توگتے کے ٹکڑے ہیں جنہیں دیوارکی شکل دے دی گئی ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب توسائنس فکشن کی فلموں میں ہوتاہے!آپ نے اگر”دی میٹرکس” دیکھی ہوتواندازہ ہوگاکہ جوکچھ ہمیں اپنے اردگرد دکھائی دے رہاہے وہ اس حدتک موجودنہیں جس حدتک موجودمحسوس ہورہاہے۔”دی میٹرکس”میں یہی تصورپیش کیاگیاہے کہ ہم کہنے کوتوموجودہیں ، مگردرحقیقت موجودنہیں ہیں اورممکنہ طورپرہماری حیثیت اس سوفٹ ویئرکی سی ہے جسے کسی کمپیوٹرپرچلایاجارہاہو،اورکمپیوٹرآف کرتے ہی وہ سوفٹ ویئر بھی آف ہوجائے! ہوسکتاہے کہ ہم سے کہیں زیادہ ذہانت کی حامل کوئی نسل یہ کمپیوٹر گیم چلارہی ہو،اورپھروہ اس گیم سے بیزارہوکراسے سوئچ آف کردے ! یعنی آپ ابھی ہیں ، اور دیکھتے ہی دیکھتے نہیں ہیں!کہیں یہ سب کچھ پڑھ کرآپ پریشان تونہیں ہورہے؟ اگرایساہے توذہنی طورپرالجھنے سے گریزکرتے ہوئے پڑھتے رہیے لیکن یاد رکھیے کہ آنے والی سطورمیں آپ جوکچھ پڑھیں گے وہ زندگی کے بارے میں آپ کے نظریے کوشایدمکمل طورپربدل کررکھ دے! ہم ”فائن ٹیوننگ والی کائنات ؟’ ‘کی بات کرنے جارہے ہیں۔

ہوسکتاہے بہت سوں کویہ بات بہت عجیب محسوس ہومگرسچ تویہ ہے کہ ہمیں قدم قدم پرمحسوس اورغیرمحسوس دونوں سطحوں پر، یہ گمان گزرتاہے کہ ہماری کائنات اس مقام تک خودبخود نہیں پہنچی۔کسی برتروجودنے اِسے ہمارے لیے”فائن ٹیون”کیاہے،حالات کواس طرح تبدیل کیاہے کہ روئے ارض پر ،کہکشاں کہکشاں میں یاپھراس کائنات میں کہیں بھی زندگی کا وجود ممکن ہوسکاہے۔کیاآپ کویہ محسوس نہیں ہوتاکہ اس کائنات کوفعال رکھنے والے طبعی قوانین کسی کے تیارکردہ ہیں؟کیاہرمعاملے میں ناقابل یقین حدتک قطعیت اورموزونیت خود بخودپیداہوجایاکرتی ہے؟ہم جس کائنات کاحصہ ہیں اس کے تمام طبعی معاملات انتہائی موزونیت کے حامل ہیں۔کہیں بھی کوئی ایسی کھوٹ دکھائی نہیں دیتی جس کی موجودگی میں زندگی کے میلے کی رونق برقراررہ سکتی ہو۔
اسکول میں آپ کوطبعیات کامضمون شایدخشک ترین محسوس ہواہو۔طبعیات کے قوانین کامدارکسی نہ کسی معین حقیقت پرہے۔مثلاً قوانین تجاذب بھی کسی نہ کسی بنیاد پر قائم ہیں۔ چند ایک امورمعین ہیں۔ان کی عدم موجودگی کائنات کی تفہیم کوشدیدمشکل بناسکتی ہے۔قوت تجاذب ہی ذروں کے سینے میں قوت کومتحرک رکھتی ہے۔برقی مقناطیسی قوت،جوکڑکتی ہوئی بجلی اورکمپیوٹرزکی روح رواں ہے،طبعی قوانین کے تابع ہے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ پہلے سے طے شدہ ان قوتوں کی وہ خاصیت اتنی ہی کیوں ہے جتنی ہے؟ یہ خاصیت کچھ کم یا زیادہ ہوتی توکیا ہوتا؟

برطانوی ہیئت داں فریڈہوئلے ان سائنسدانوں میں سے ہے،جنہوں نے پہلے پہل یہ دریافت کیاکہ کائنات میں جوبھی خاصیت پائی جاتی ہے وہ حادثاتی نوعیت کی نہیں۔یعنی جو کچھ بھی معین حیثیت سے موجودہے،وہ خودبخودمعین نہیں ہوگیابلکہ اسے اس مقام تک لایا گیاہے!اس کائنات میں جوکچھ بھی ہے وہ اگراپنی موجودہ شکل سے ذرہ بھربھی مختلف ہوتا توکہکشائیں،ستارے،چاند،سورج،زمین کچھ بھی نہ ہوتااورہم بھی نہ ہوتے۔

ذرے(ایٹم)کے سینے میں چھپی ہوئی قوت کااندازہ لگائیے۔اگریہ خفیف سی بھی زیادہ ہوتی توکائنات کی تشکیل کے وقت ستاروں کے معرض وجودمیں آنے کاعمل شایداگلے ہی سیکنڈمیں ختم ہوجاتاکیونکہ ستارے اپنی ہی گرمی کے باعث پھٹ جاتے!ہماراسورج بھی نہ ہوتا،اوریوں ہمارے ہونے کی راہ بھی ہموارنہ ہوئی ہوتی۔اوراگرذرات کے سینے میں قوت ذرابھی کم ہوتی تویہ مختلف گیسوں کے سالموں کوباہم متحدرکھنے میں کامیاب نہ ہوئے ہوتے۔اس صورت میں ستارے اپنی توانائی سے محروم ہوجاتے اورہمارے معرض وجود میں یامنصہ شہودپرآنے کی راہ بھی مسدودہوجاتی۔

یہ توہواذرات کی ماہیت کامعاملہ۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں کوئی بھی شے ایک خاص تناسب کے بغیردکھائی نہیں دیتی۔برطانوی ہیئت داں سرمارٹن ریزکہتے ہیںہمیں کائنات میں جابہ جااس امرکاثبوت ملتاہے کہ اسے ہمارے لیے”فائن ٹیون”کیاگیاہے،یعنی حالات سازگاربنائے گئے ہیں۔کسی نے تمام امور کوایک طے شدہ تناسب کے ساتھ پیش کیاہے۔ہمارے ذہنوں کوہلادینے والاسوال یہ ہے کہ اگرکائنات میں کوئی بھی معاملہ ایک خاص تناسب اورعدل کے بغیردکھائی نہیں دیتا،توایساکیوں ہے؟ہیئت دان اس امرپر متفق ہیں کہ یہ سب کچھ محض حسن اتفاق کانتیجہ ہرگزنہیں ہوسکتا۔توپھرکون ہے جس نے قوانین طے کیے،اصول مرتب کیے؟

سب سے پہلے تواس تصورکو اپنائیے کہ جوکچھ دکھائی دے رہاہے صرف وہی حقیقت نہیں ہے۔آپ کہیں گے کہ کرسی ایک ٹھوس حقیقت ہے جس پربیٹھ کر آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں۔اسی طورآپ یہ دلیل بھی پیش کرسکتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے کمپیوٹرکی اسکرین ایک حقیقت ہے مگرسچ تویہ ہے کہ ہر حقیقت کی پشت پرایک اوریعنی حقیقی حقیقت موجود ہے جس کی موجودگی میں آپ کی اپنی حقیقت(جوآنکھوں کے سامنے ہے)محض ایک سراب کی سی ہے۔ آپ کسی بھی شے کی حقیقت تک کس طرح پہنچتے ہیں؟ظاہرہے اس کاتجزیہ کرکے !تجزیے سے مرادکسی بھی شے کے اجزاکو الگ الگ کرکے ان کاجائزہ لینا، ان پرغورکرنا۔فرض کیجیے آپ نے کسی بھی چیزکے ٹکڑے کیے تواس کے سالموں تک پہنچے۔ سالموں کوچیراتوذرات تک پہنچے۔اگرکسی ذرے کادل چیرکر دیکھا تواس میں مرکزی حصہ ملاجس کے گردالیکٹران گردش کرتے ہوئے پائے گئے۔اب اگرآپ ذرے کے مرکزی حصے کوچیرکردیکھیں گے توحیران رہ جائیں گے،کہ وہاں توکچھ بھی نہیں ہے!اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اب تک آپ نے کیادیکھااورکیاپایا؟کچھ بھی نہیں!بات بہت حیرت انگیز ہے مگر حقیقت پرمبنی ہے کہ ہم جوکچھ بھی دیکھ رہے ہیں،حتمی تجزیے میں اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں۔

سائنس دان کہتے ہیں کہ ایٹم کامرکزی حصہ جن ریزوں پرمشتمل ہوتاہے انہیں انگریزی میں”پارٹیکل”کہاجاتاہے مگریہ لفظ اس لئے استعمال ہورہاہے کہ اورکوئی موزوں لفظ میسر ہی نہیں۔”پارٹیکل”کالفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں گیندکاتصورابھرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوانٹم فزکس میں گیندجیسی کسی بھی ایسی ٹھوس چیزکاکوئی تصورموجود نہیں جسے آپ دیکھ اورچھوسکیں۔سائنسدان کہتے ہیں کہ ایٹم کامرکزی حصہ جن ریزوں پرمشتمل ہوتاہے انہیں انگریزی میں”فوٹون، الیکٹرون اورکوارکس”کہاجاتاہے۔یہ اتنے عجیب و غریب اور ہمارے دائرہ علم میں موجودکسی بھی دوسری شے سے اس قدرمختلف ہیں کہ ان کیلئے ہمارے پاس کوئی موزوں لفظ ہے ہی نہیں۔ پارٹیکلزبیک وقت دومقامات پرہوسکتے ہیں اوروہ لہرکی صورت سفرکرنے کے علاوہ مادے کے جزکے طورپر بھی اپنا وجودبرقرار رکھ سکتے ہیں۔اس کامداراس بات پرہے کہ آپ ان کے ساتھ کس نوعیت کاتفاعل چاہتے ہیں۔پارٹیکلز اچانک معرض وجود میں آسکتے ہیں ، اورپھراتنی ہی تیزی کے ساتھ غائب بھی ہوسکتے ہیں۔پارٹیکلزکوگرفت میں لے پاناانتہائی دشوارہے اوراب تک ناممکن ثابت ہواہے۔بیک وقت یہ بتاناممکن نہیں کہ اس وقت کوئی پارٹیکل کہاں ہے اوراس کی حرکت کی رفتارکیاہے۔

مگرخیر،پارٹیکل بھی توکوئی نہ کوئی چیزہی ہے!یہی سبب ہے کہ طبیعت داں”سٹرنگ تھیوری”کی طرف لپک رہے ہیں۔اس نظریے کی روسے مادے کا تصور موہوم سے دائروں کے تصورسے وابستہ ہے۔یہ دائرے ارتعاش پیداکرتے ہیں مگران کاپیداکیاہواارتعاش ہماری معلومات کے دائرے میں موجودکسی بھی دوسری چیزکے پیداکردہ ارتعاش سے یکسر مختلف ہوتاہے،کیوں یہ ارتعاش دس مختلف سمتوں میں ہوتا ہے!ہم جنھیں پارٹیکلز کہتے ہیں وہ دراصل ان دائروں یعنی سٹرنگ کے ارتعاش سے پیداشدہ موسیقی کے سواکچھ نہیں!یعنی اس کامطلب یہ ہواکہ مادہ در اصل کسی اورشے کااظہاریاکسی عمل کانتیجہ ہے!

سائنس ایک قسم کی ایکٹیوٹی نہیں ہے۔اس کوکرنے کے کئی طریقے ہیں۔(پارٹیکل فزکس بمقابلہ نیوروبائیولوجی)یااس سے ہے کہ سسٹم کااپناتعلق ہسٹری سے کتناہے(کیمسٹری بمقابلہ آسٹرونومی)۔جتناسادہ آبجیکٹ ہوگا،اتنے زیادہ پریسائزجوابات ہوں گے۔جتناپیچیدہ ہوگا، اتنی زیادہ شماریاتی اپروکسیمیشن پر انحصار کرناہوگا۔اس کاتعلق اس بات سے نہیں کہ کس شعبے میں سائنسدان زیادہ قابل ہیں یا کس کے پاس طریقہ بہترہے بلکہ اس سے ہے کہ ہمارے تصوراتی اوزار اورپیمائشی آلات ہماری کتنی مددکرسکتے ہیں۔سخت اورنرم سائنس کاایک سپیکٹرم ہے،جویہ نہیں بتاتاکہ سائنس کتنی اچھی ہے بلکہ یہ کہ زیرِمطالعہ موضوع کی اپنی نیچرکیاہے لیکن ہرقسم کی سائنسی انکوائری میں مشترک چیزایسی تھیوری اورہائپو تھیسس کی تعمیرہے جس کی تصدیق ایمپیریکل طریقے سے کی جاسکے۔

تین عناصر ہیں جوسائنس کودیگرانسانی ایکٹیوٹی سے جداکرتے ہیں۔نیچرل ازم،تھیوری اورایمپریسزم۔سائنس کاتعلق “نیچرل فینامینا”اورپراسس سے ہے ۔ اس کی اپنی تعریف کے مطابق اس کا سپرنیچرل ازم سے کچھ لینادینانہیں۔سپرنیچرل کی موجودگی یاعدم موجودگی کوثابت کرنے کی کوشش سائنسی نہیں ہے کیونکہ سائنس کے ذریعے یہ ممکن ہی نہیں۔اس بارے میں کسی بھی رائے کاتعلق سائنس سے نہیں،خواہ ایسا کام سائنسدان ہی کیوں نہ کریں۔نیچرل عوامل کی وجہ نیچرل ہے۔یہ فقرہ سائنس کی مرکزی بنیادہے۔(اوریہ وجہ ہے کہ کری ایشن ازم کاخیال اصولی طورپربھی سائنس نہیں ہوسکتا)۔

یہاں انفلیشن تھیوری کاذکربھی ضروری ہوگیاہے۔یہ تھیوری وہ نظریہ ہے جس کے مطابق کائنات کی ابتدا اچانک پھیلاسے ہوئی۔ اوراب سائنسی تحقیق کے مطابق یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔گزشتہ صدی کے دوسرے عشرے میں ہبل دوربین نے یہ ثابت کردیاتھا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ کائنات کے اس مسلسل پھیلامیں جوبات نہائت اہم ہے کہ یہ پھیلاہرطرف یکساں ہے۔اس پھیلاکو سمجھانے کیلئے جدیدفلکیات کے اساتذہ ایک ایسے غبارے کی مثال دیتے ہیں جس پربہت سے رنگارنگ نقاط اوردائرے نقش ہیں۔آپ اس غبارے میں جوں جوں ہوابھرتے ہیں اس پرموجودنقطے اوردائرے ایک دوسرے سے دورہوتے چلے جائیں گے لیکن اس پھیلاؤ میں جوبات نمایاں رہے گی،وہ ان کے آپس کے فاصلوں کاتناسب ہے۔وہ نقاط اوردائرے اپنے مخصوص فاصلوں کاتناسب برقراررکھتے ہوئے ایک دوسرے سے دوربھاگیں گے اوراس وجہ سے کائنات کے پھیلاؤ میں موجودتناسب سائنسدانوں کیلئے بےپناہ توجہ کاباعث بن گیا۔ اس یکساں پھیلاؤ کی نیچرکوسمجھتے سمجھتے ماہرین طبیعات ایک عجیب وغریب نتیجہ پرپہنچے کہ کوئی برترایسی طاقت ہے جوکائنات کے اس یکساں پھیلاؤ کوایک قاعدے کے ساتھ ب کسی غبارے کی طرح باہرکی طرف مسلسل تیزی کے ساتھ بڑھارہی ہے۔

فطرت کاایک عجب مظہرہے کہ مادے کاانتہائی باریک پیمانے پرملاحظہ کیاجائے تووہاں کوئی مادہ موجودنہیں،وہاں فقط توانائی کی لہریں ہیں۔توانائی کی ان لہروں کوجدیدتھیوریٹکل فزکس میں سٹرنگزکہا جانے لگا۔یہ سٹرنگ اتنی باریک چیزہے کہ اگرہم ایک ایٹم کواپنے نطام شمسی جتنابڑاکرلیں توایک سٹرنگ ہماری زمین پرموجودکسی درخت کے برابرہوگی۔اتنی چھوٹی چیزکے تصورکاامکان سرِ دست صرف ریاضی کیلئے ہی ممکن ہے۔سائنسدانوں کاخیال ہے کہ کائنات کی پیدائش “بگ بینگ”سے ہوئی اوریہ بگ بینگ کس طرح پیش آیا؟سب سے پہلے ایک سٹرنگ جتناباریک ذرہ نجانے کیسے “انفلیٹ”ہوگیا۔ڈکشنری میں لفظ “انفلیٹ”کامطلب ہے کسی غبارے یاٹائریاٹیوب کاہوایاگیس سے سے اس طرح بھرجاناکہ وہ پھول کرکپاہوجائے۔چنانچہ ہم بجائے یوں کہنے کے کہ وہ چھوٹا
ساذرہ اچانک پھٹ گیا،انفلیشن تھیوری کی وجہ سے یوں کہیں گے کہ وہ چھوٹاساذرہ اچانک پھٹ کربگ بینگ کہلایا۔ قرآن میں دی ہوئی یہ اطلاع”وہ تو آسمانوں اورزمین کاموجدہے(انعام:101)”دورِحاضرکی سائنس کی دریافتوں کے عین مطابق ہے۔آج کی فلکی طبیعیات اس نتیجے پرپہنچی ہے کہ پوری کائنات اپنی پوری مادی وسعتوں سمیت ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں ظہور ہوئی تھی۔اس واقعے کوبگ بینگ یا’’انفجارِ عظیم ‘‘ کہاجاتاہے۔

اب ایک بارپھرکائنات کی طرف آئیے۔ہمارے سروں پرجوستارے جگمگارہے ہیں اورہم جس خلائے بسیط میں پائے جاتے ہیں وہی کائنات ہے۔کبھی آپ نے سوچاہے کہ کائنات سے پرے کیاہے؟ماہرین کے خیال میں یہ تصوراب تک ممکن نہیں۔ایک لمحہ وہ بھی تھا جب کچھ بھی نہ تھااورپھربقول ڈارون تھیوری یاایسے کئی اورسائنسدانوں کے مطابق ایک دھماکاہواجسے بگ بینگ کہتے ہیں۔اس کے بعد کائنات کے پھیلنے کاعمل شروع ہواجواب تک جاری ہے۔ یہ توسیع ”لاشیئیت” کے سمندرمیں موجزن ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جوکچھ کائنات سے پرے ہے(یاہوسکتاہے)اس کیلئے ہم ”لاشیئیت” کالفظ بھی استعمال نہیں کر سکتے۔ایک تصوریہ ہے کہ دوبڑے بلبلے ٹکرائے توہماری کائنات معرض وجودمیں آئی۔ ماہرین اب اس تصورکواہمیت دے رہے ہیں کہ کائنات ایک نہیں ، بلکہ کئی ہیں اورہوسکتاہے کہ ہماری کائنات میں کئی کائناتیں گڈمڈکردی گئی ہوں! اب ایک نظریہ یہ بھی سامنے آیاہے کہ جسے ہم ”مکانیت”کہتے ہیں ممکن ہے کہ وہ صرف نظرکادھوکاہو۔ممکن ہے کہ چندجہتیں ایک دوسرے سے ٹکراکرمکانیتکاتصوراتی دھوکاپیدا کررہی ہوں اورکسی کائنات کومعرض وجودمیں لانا کون سابڑامسئلہ ہے؟ماہرین کہتے ہیں غیرمعمولی مقدارمیں توانائی لے کربہت چھوٹی سی جگہ میں اسے جمع کیجیے،ایک بڑادھماکاہوگا (جو ایک اوربگ بینگ کہلائے گا)اوریوں ایک نئی کائنات معرض وجودمیں آجائے گی! مگریہ سب کچھ آپ دیکھ نہیں پائیں گے،کیوںکہ اس کے نتیجے میں جوبلبلہ پیداہوگاوہ ہمارے بلبلے (کائنات)سے بہت مختلف ہوگا۔

اگرآپ الجھ رہے ہیں توکوئی بات نہیں،ٹھہرجائیے اورایک دوسرے پہلوسے معاملات کاجائزہ لیجیے۔کیایہ ممکن نہیں کہ ہماری کائنات کسی اورذہین ترتہذیب کی تیارکردہ ہو؟اس پہلوپرغورکرنے سے اندازہ ہوسکے گاکہ ہماری کائنات اس قدرسازگارکیوں ہے۔ہم جس مکانیت میں ہیں وہ مکانیت ہے ہی نہیں۔ہم جس مادے سے بنے ہیں اس کاکوئی وجود نہیں۔جوکچھ ہے وہ محض نظرکادھوکا معلوم ہوتاہے مگراس کے باوجودآپ کوایک بات سے ضروراطمینان ہوتاہوگا کہ آپ کاوجودتواصلی ہے!آپ چاہیں توایسا سمجھ سکتے ہیں۔لوگ آپ کوچھوسکتے ہیں،آپ کی بات سن سکتے ہیں،آپ کودیکھ سکتے ہیں۔اس کامطلب یہ ہواکہ آپ کاوجودہے۔مگر ٹھہریے، زیادہ خوش فہمی میں مبتلاہونے کی ضرورت نہیں۔

آئینے میں اپناچہرہ دیکھیے اوردیرتک دیکھتے رہیے۔آخرکارآپ کوایسامحسوس ہونے لگے گاکہ آئینے میں جوچہرہ ہے وہ آپ کا ہی نہیں،کسی اورکابھی ہے۔آپ کواپنے آپ کسی اور کے وجودکاگمان ہونے لگے گا۔یہی معاملہ شعورکابھی ہے۔ہماراذاتی وجودہمارے ذہن کی پیداوارہے۔دماغ ہمیں جوکچھ دکھاتااورسناتا ہے وہی کچھ ہمارے شعورکا حصہ بنتاجاتاہے۔شعورپانچ حواس اوران کے ذریعے آنے والی معلومات کے تجزیے سے مل کربناہے۔شعورخواہ کچھ ہو،درحقیقت اس کا وجوددماغ کامرہون منت ہے۔یہ معاملہ بھی بہت حدتک سوفٹ ویئرجیساہی ہے۔یعنی کمپیوٹرکی اسکرین پرجوکچھ دکھائی دے رہاہے وہ ہے توسہی مگر نہیں ہے،کیوںکہ سب کچھ ”ورچوئل”ہے یعنی حقیقت نہیں بلکہ حقیقت نماہے۔ہم میں سے بیشترکاعقیدہ ہے کہ روح نام کی کوئی شے بھی ہے۔مگر طبیعیات دان اورہیئت دان کہتے ہیں کہ ایساکچھ نہیں۔ہم جوکچھ کہتے،کرتے یامحسوس کرتے ہیں وہ صرف ذہن کی کارفرمائی ہے،اورکچھ بھی نہیں!اورتجربات سے یہ بات کسی حد تک ثابت بھی کی جاچکی ہے۔

دماغ کواگرچھیڑاجائے توخیالات برہم ہوجاتے ہیں،اورپھرہمارا وجود اجنبی سامحسوس ہونے لگتاہے اوریہ کیفیت برقراررہے توہمیں اپناوجوداپنے ہی جسم سے باہر محسوس ہونے لگتاہے۔اِسی کو ”جسم کے تجربے سے باہر”کہتے ہیں۔کچھ لوگ اِسے موت کی چوکھٹ تک ہوآنابھی کہتے ہیں۔موت کامزاچکھنے کیلئے مرنا ضروری نہیں۔لیباریٹری میں ایک ایسا ہیلمٹ سرپرلگائیے جس میں گھومنے والے مقناطیس لگے ہوں۔جب یہ مقناطیس حرکت کرتے ہیں توذہن کی فعالیت میں اچھاخاصا خلل واقع ہوتاہے۔آپ کویہ محسوس ہونے لگے گاجیسے آپ اپنے جسم کے دائرے میں نہیں۔ظاہر ہے کہ یہ صرف احساس ہے،ورنہ آپ تواپنے جسم کی حدودمیں ہی رہتے ہیں!اوراس تجربے سے گزرنے کیلئے مقناطیس والا ہیلمٹ بھی درکارنہیں۔جہاں زمین کی کشش کم ہواس مقام پربھی یہ تجربہ کیاجاسکتاہے۔اورکبھی کبھی تویہ سب کچھ اس مقام پربھی ہوتاہے جہاں آکسیجن کاتناسب کم ہو۔

ذہن کی مخصوص کیفیت آپ کوجسم کی حدسے باہرموجودہونے کااحساس دلاسکتی ہے۔مراقبے یاعمیق عبادت کے دوران بھی ایساممکن ہے۔جو لوگ پورے خشوع وخضوع سے حج کا فریضہ اداکرتے ہیں انہیں بھی کچھ ایساہی محسوس ہواکرتاہے۔ذہن سے باہرکی اس کیفیت میں آپ کوایسامحسوس ہوسکتاہے جیسے آپ سے کسی نے ملاقات کی ہے۔مثلاًاگرآپ مذہبی اعتقادات رکھتے ہیں توآپ کسی عظیم مذہبی ہستی سے ملاقات محسوس کریں گے۔اگرآپ بھوتوں پریقین رکھتے ہیں تومحسوس ہوگا کہ کسی مردہ شخص کی روح آپ سے ملنے آئی ہے۔کچھ لوگوں کاذہن اس کیفیت میں انھیں یہ یقین دلاتاہے کہ ان سے ملنے کوئی غیر ارضی مخلوق آئی ہے!حقیقت یہ ہے کہ آپ کاذہن آپ کوجوکچھ دکھارہاہوتاہے،وہی کچھ آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

لاکھ کوشش کے باوجودسائنسدان اورفلسفی اب تک حقیقت کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصررہے ہیں۔وقت،جہتوں،خلااوردوسری بہت سی”حقیقتیں”کسی بھی وقت فناہوسکتی ہیں ، وجودسے محروم ہوسکتی ہیں۔کائنات میں کب کیاہوجائے،کچھ کہانہیں جاسکتا۔یہ جو چندسانسیں ہیں، غنیمت ہیں!آپ سوچیں گے کہ جب کسی بھی شے کاکوئی حقیقی وجودہے ہی نہیں،اوراگرسب کچھ دھوکایاسراب ہے توپھرموت یامعدومیت سے کیاڈرنا؟ہماراخواب اچانک ختم ہوجائے تو خواب میں آنے والے ہم سے ناراض ہوتے ہیں؟نہیں!اگرہم کمپیوٹر گیم روک دیں تواس کے کردارہم سے خفاہوتے ہیں؟نہیں،نا! بس توپھرہم بھی اگرکسی کاخواب،یاکوئی کمپیوٹرگیم ہیں توسوئچ آف کیے جانے پرکیوں ناراض ہوں گے؟ مختصراً یہ کہ
چل سکے بس جب تلک ساغر چلے

اپنا تبصرہ بھیجیں