یواے ای اوربحرین کااسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعدٹرمپ کی طرف سے جلدہی خطے کےمزید دس ملکوں کااسرائیل کوتسلیم کر لینےکاعندیہ ٹرمپ کاانفرادی فعل نہیں بلکہ امریکاکی پالیسیوں کے تسلسل کاحصہ ہے۔امریکاکے سابق صدورخواہش کے باوجود مصلحتوں کی وجہ سے جس پرعمل نہیں کرسکے۔ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں کم ازکم10وعدے کیے تھے۔جن میں اوباماکی غریب نوازصحت پالیسی کے خاتمے سے لیکر میکسیکواورامریکاکے درمیان دیوارکی تعمیرتک شامل تھی۔ان میں سے مسلمانوں کی بربادی اوراسرائیل کی بہبود کے سواانہوں نے کسی وعدے کی تکمیل نہیں کی۔امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے منتقل کرنے کاحکم دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہاتھا”میں نے القدس کو اسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کااپناوعدہ پوراکردیا ہے”گویااسی دن گریٹراسرائیل کی بنیادرکھ دی گئی تھی۔
ہرامریکی حکمران نے یہودیوں کے”گریٹراسرائیل”کی تائیدمیں ایسے اقدامات کئے جس کابہرحال نقشہ اب سامنے آرہاہے۔عراق پر امریکاکاحملہ بھی دراصل گریٹراسرائیل کی طرف پیش رفت تھی۔امریکا اقوام متحدہ کوہمیشہ یہودی ریاست کی توسیع کیلئےاپنی خواہشات کے مطابق استعمال کرتارہاہے۔ امریکانے اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پرسختی سے عمل کراتے ہوئے جون1967ءکی جنگ میں غصب کردہ فلسطینی علاقے اورشام کی گولان کی پہاڑیوں پراسرائیل کے قبضے کویقینی بنایاتاکہ نصف کروڑمظلوم فلسطینیوں کوان کے چھنے ہوئے علاقے اورحقوق واپس نہ مل سکیں۔
سابق صدرریگن کے دورمیں ان کے نائب وزیرخارجہ کیسپروائن برگرنے گریٹراسرائیل بنانے کیلئےایک اچھوتافارمولاپیش کیاکہ ’’مغربی ایشیاکے دو اہم ملکوں کوآپس میں لڑادیاجائے جن میں سے ایک عراق ضرورہو۔‘‘امریکی یہودی جیمزواربرگ نے17 فروری1950ءکوامریکی سینیٹ پرواضح کیاتھا’’آپ پسند کریں یانہ کریں دنیامیں ایک عالمی یہودی طاقت قائم ہوکررہے گی۔سوال صرف یہ رہ گیاہے کہ یہ باہمی رضامندی سے ہوگایاجنگی فتح سے۔‘‘17جنوری1962ءواربرگ نے’’لائف ‘‘کوانٹرویودیتے ہوئے کہاکہ’’اگلے25برس یعنی1987ءتک سردجنگ ختم ہو جائے گی۔ کمیونسٹ روس میں جمہوریت رائج ہوگی۔ مشرقی اورمغربی یورپ باہم مل جائیں گے اوربالآخریروشلم،بیت المقدس میں ایک نئی حقیقی اقوام متحدہ قائم ہوگی جوساری دنیاکیلئےسپریم کورٹ کا کام کرے گی اورانسانیت کیلئےآخری عدالت بن جائے گی۔‘‘چناںچہ اس عالمی یہودی ریاست کے قیام کیلئے 1980 ءمیں عراق ایران جنگ کروائی گئی جس نے آٹھ سال میں ایران کے ساتھ ساتھ عراق اوراس کے تین بڑے اتحادی سعودی عرب،کویت اوریواے ای کےبیشتر وسائل تباہ کردیئے۔اس کے2سال بعدامریکی سفیرایریل گلاسپی نے صدام سے عشوہ طراز ملاقاتیں کرکے اسے کویت پر حملے کیلئےاُکسایااورکویت پرعراقی قبضہ کرواکے دوسری خلیجی جنگ میں جہاں عراق کوبربادکرکے رکھ دیاوہاں کویت اور سعودی عرب سے 1500بلین ڈالر جنگی اخراجات وصول کرنے کے علاوہ وہاں مستقل اپنے فوجی اڈے بھی بنالئے۔اس کے بعد عرب بہار کے نتیجے میں مصر،شام،لیبیااورپورے مشرق وسطیٰ کوجہنم کادہانہ بنادیاگیا۔امریکاکے پے درپے اقدامات اوراسرائیل کی مدد کے نتیجہ میں آج فلسطین محض22فی صد حصے تک محدود ہوکررہ گیاہے۔آج مشرق وسطیٰ عرب ایران جنگ کی وجہ سے بدامنی کی آگ میں جل رہاہے اور اسرائیل مشرق وسطیٰ کی واحد طاقت ہے جس کے آگے مشرق وسطیٰ کے تمام اسلامی ممالک ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔
ٹرمپ پہلے امریکی صدرنہیں جواسرائیل کی خوشنودی اورحمایت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔سابق صدرجمی کارٹرنے یہود نوازی کامظاہرہ کرتے ہوئے کہاتھا’’میں بائبل کے دینی علوم کاماہرہوں اوراپنی بصیرت کی بناپرکہتاہوں کہ اسرائیل کاقیام بائبل کی پیشگوئی کی تکمیل ہے۔ ‘‘اس طرح رونالڈ ریگن نے ایک چرچ میں تقریرکرتے ہوئے کہاتھا’’میراعقیدہ ہے کہ آخری بڑی جنگ،آرما گیڈن،یروشلم میں لڑی جائے گی جس میں کم ازکم 24کروڑفوج مشرق سے مسلمانوں کی آئے گی اور کروڑوں فوج مغرب سے عیسائیوں کی آئے گی اوربالآخریسوع مسیح آکرفتح حاصل کریں گے اوردنیامیں ایک خدائی حکومت قائم کریں گے۔‘‘ ریگن ہرہفتے ایک یہودی صومعہ میں عبادت کیلئےحاضری دیاکرتاتھاجہاں اسرائیل کیلئےمزیدزمین کے حصول کیلئےدُعا کی جاتی تھی۔بل کلنٹن نے بھی خواہش ظاہرکی تھی کہ وہ اسرائیل کے دفاع کیلئےمورچہ لگاکرلڑنے کی سعادت حاصل کرناچاہتاہے ۔ بش نے عراق پرحملے کے وقت اسے ایک مذہبی جنگ قراردیتے ہوئے کروسیڈکالفظ استعمال کیاتھا۔
مقبوضہ بیت المقدس ڈیڈ سی کے مغربی کنارے پرآبادشہرہے جومسلمانوں،مسیحیوں اوریہودیوں کیلئےقابل احترام اورمقدس ہے، جہاں ان تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ زیارت کیلئےجاتے ہیں۔یہیں پریہودیوں کی مقدس دیوارگریہ بھی ہے اور مسلمانوں کاقبلہ اوّل بھی ہے۔فلسطینی اور اسرائیلی، دونوں دعویٰ کرتے ہیں کہ مقبوضہ بیت المقدس ان کاحقیقی اورقانونی دارالحکومت ہےمگراسرائیل کااس پرمکمل قبضہ ہے اوروہاں اُس نے اپنی حکومت کے قریباًتمام اداروں کے مراکز بنالیے ہیں۔ برطانیہ کے وزیرخارجہ آرتھربیلفورنے1917ء میں مشرقی وسطیٰ کاجغرافیہ بدلنے کی بات کی تھی اورایک ایسا تنازع کھڑاکیا جوسوسال سے مشرق وسطیٰ کواپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
گریٹراسرائیل کاشیطانی منصوبہ چارنکاتی ایجنڈے پراستوارہے جس پریہودیوں اورقدامت پسندمسیحیوں نیوکانزکاکامل اتفاق ہے جس کی تکمیل کیلئےوہ سر دھڑکی بازی لگانے پرتلے ہیں۔اوّل سب سے خوفناک اوربڑی جنگ۔ دوسرے نمبرپرمسلمانوں کے دو اہم ترین مقدس مقامات کا انہدام۔تیسرے نمبر پرمعبدکی تعمیراورچوتھے نمبرپرحضرت داؤدکی تاج پوشی کیلئےاستعمال ہونے والے پتھر(تھرون آف ڈیوڈ)کونوتعمیرشدہ معبد میں رکھاجاناہے۔
پروٹوکولزآف زائیان1897ءمیں بنے تھے اورگریٹراسرائیل کانقشہ تیارہواتھا۔اس نقشہ میں ایک سانپ ان تمام علاقوں کواپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔دنیابھرمیں کل ڈیڑھ کروڑیہودی ہیں جس میں سے صرف35لاکھ وہاں آئے ہیں۔انہوں نے تمام یہودیوں کو اسرائیل لاکرآبادکرناہے۔اس کیلئےانہیں جگہ چاہئے۔واقعات کی ترتیب کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے قیامتِ صغرٰی یابہت بڑی اورخوفناک جنگ کہاجاتاہے ۔ عام فہم الفاظ میں شایداسے تیسری عالمی جنگ کہاجاسکتاہے جس کامیدان جنگ اسرائیل میں مجیدونام کی ایک پہاڑی اوراس کے اردگردکے علاقہ کوبتایاجاتاہے۔ مسیحی اوریہودی بائبل کی کتاب’’مکاشفات‘‘سے اس قیامت صغریٰ کہلانے والی جنگ کی سندلاتے ہیں جس کے بعد گریٹراسرائیل یاوسیع تراسرائیل کامرحلہ آئے گا۔مسجداقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کاانہدام کرنے کاملعون منصوبہ زیرغورہے۔صخرہ چٹان کوکہتے ہیں۔ قبۃ الصخرہ وہ سنہری گنبد والی عمارت ہے جو اکثرتصاویرمیں دیکھی جاسکتی ہے۔مسلمانوں کیلئے یہ دونوں مقدس مقامات یروشلم میں ایک پہاڑی پرواقع ہیں۔اس پہاڑی کو یہودی”ٹیمپل مائونٹ‘‘ یامعبدکی پہاڑی کے نام سے پہچانتے تھے۔
جناب حضرت سلیمان علیہ اسلام نے اللہ کاگھریامسجدجسے یہودی معبدکہتے ہیں،اس پہاڑی پرتعمیرفرمایاتھا۔نبی آخرالزماں ﷺ جب بیت المقدس سے صدرۃ المنتہیٰ کیلئےتشریف لے گئے،آپ کابراق اسی چٹان سے آسمانوں کی جانب روانہ ہواتھا، عبدالملک بن مروان نے اس چٹان پرایک گنبدبنوایاجسے قبۃ الصخرہ کہتے ہیں۔اردن کے شاہ حسین مرحوم نے اس گنبد پرسونے کی چادر چڑھائی تھی جس کا وزن لگ بھگ 35 ٹن بتایا جاتا ہے اوریہودیوں نے یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ یہ سونا ایک دن ہمیں نئے معبد کیلئےکام آئے گا۔یہ وہی’’ٹیمپل مائونٹ‘‘ہے جس کے نام پرصلیبی جنگجو”ٹیمپل نائٹ” کے نام سے مشہور ہوئے یعنی حضرت سلیمان کی پہاڑی کی حفاظت کیلئے لڑنے والاسالار1099ءمیں صلیبیوں کایہ’’مقدس جنگوں کاسلسلہ‘‘شروع ہواتھاقبۃ الصخرہ کے ساتھ مسجدعمرتھی، وہاں مسجداقصیٰ ہے۔مسلمانوں کی لاعلمی کاعالم تویہ ہوچکاہے کہ انہیں قبۃ الصخرہ اور مسجد اقصیٰ میں فرق کابھی علم نہیں۔عمومی طورپرسنہری گنبد والی عمارت کوہی مسجد اقصیٰ تصورکرلیاجاتاہے حالانکہ حقیقت یہ نہیں۔ یہ بھی ایک گہرادکھ ہے کہ جن وارثوں کواپنے اثاثوں کا ہی علم نہ ہو،وہ ان کے تحفظ اوردفاع کیلئے کیا کرسکیں گے۔
مصراورترکی پہلے ہی اسرائیل کوتسلیم کرچکے ہیں۔پاکستان،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور دیگرخلیجی ممالک جواسرائیل کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں ان میں سے یواے ای اوربحرین بھی ٹرمپ کے ہاتھ پربیعت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں اور دیگر دس قطارمیں باری کاانتظارکررہے ہیں۔ان ممالک کے بارے میں بھی کسی نہ کسی حوالے سے اسرائیل سے تعلقات کی خبریں آتی ہی رہتی ہیں۔ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے سے پہلے ان حکمرانوں سے رابطہ قائم کیاتھا۔عالم اسلام کے ان حکمرانوں کوفون کیے تھے جوالقدس کے بارے میں بلندبانگ دعوے کرتے رہتے ہیںسعودی عرب کے شاہ سلمان،مصرکافرعون السیسی،فلسطین کاصدرمحمودعباس کو بتایا گیاکہ وہ چند گھنٹے بعد کیااعلان کرنے والاہے۔اس کے باوجودان حکمرانوں نے مُردوں جیسی خاموشی اختیارکیے رکھی۔ٹرمپ کے اعلان کے بعد ان کے بیانات بعدازمرگ واویلے سے زیادہ کچھ نہیں۔امریکا اور اس کی پیروی میں عالم اسلام کے حکمرانوں نے بیت المقدس کو صرف فلسطینیوں کا مسئلہ بنادیا ہے۔ آج وہ تنہااس کیلئےجدوجہد کررہے ہیں۔ ان کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پورا عالم اسلام اور ان کی افواج بیت المقدس کی آزادی کیلئےمتحرک نہ ہوں۔ مسلم افواج کبھی حرکت میں نہیں آئیں گی جب تک یہ حکمران ان پرمسلط ہیں۔کفرملت واحدہ ہے اس میں کوئی شک نہیں اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام کے حکمران کفرکی اس ملت واحدہ کے ساتھ ہیں۔بیت المقدس کی آزادی تب تک ممکن نہیں جب تک مسلم ممالک کے عوام ان حکمرانوں سے آزادی حاصل کریں اور جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر اپنی افواج کے ساتھ حرکت میں آئیں۔
ان تمام تفصیلات سے یہ بتانامقصودہے کہ1948ءسے لیکرتاحال امریکااسرائیل کامعاون ومددگاراورمسلمانوں کااوّلین دشمن رہا ہے لیکن اس کے باوجودعالم اسلام کے حکمران پالتوکتوں سے بدترامریکاکے وفا داررہے ہیں۔1967ءمیں اسرائیل نے فلسطین کے بقیہ حصے پرقبضہ کرلیااوراس کے ساتھ ہی بیت المقدس بھی اسرائیل کے قبضے میں چلاگیا۔اس جنگ اورفلسطین پرقبضے میں امریکا نے اسرائیل کی ہرممکن مددکی لیکن ہمارے حکمران اس وقت بھی امریکاکے وفاشعاردوست تھے اورآج بھی ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے میں بھی انہوں نے امریکاہی کوثالث تسلیم کیا۔پاکستان بھی کشمیرکے معاملے میں امریکاکوثالث تسلیم کرنے پرہمہ وقت آمادہ رہتاہے۔اس حقیقت کے باوجودکہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت سے امریکاکاپہلا انتخاب ہندوستان تھا اور افغان جنگ میں افغان اور پاکستانیوں کی بے تحاشہ قربانیوں کے بعدجب امریکاواحدسپرپوربن گیاتواس نے فوری طورپربھارت کو گودمیں لیکراسے نوازناشروع کردیا۔پاکستان کوامریکابطورلیور بھارت کواپنی طرف راغب کرنے کیلئےاستعمال کرتارہااوراسی بھارت کوافغانستان میں پاکستان کے خلاف کھلی دیشتگردی کیلئے استعمال بھی کرتارہالیکن بالآخرافغانستان سے نکلنے کیلئے بھی پاکستانی کندھااستعمال کرنے سے گریزنہیں کیا۔عرب ممالک کے حکمران اپنے عوام کویہ تاثردیتے ہیں کہ امریکا اسرائیل پردباؤ ڈال کراسے مقبوضہ علاقوں میں سے کچھ سے دستبردارہونے پرآمادہ کرلےگاجس پروہ ایک آزاد ریاست کے قیام میں کامیاب ہو جائیں گے،مشرقی القدس جس کادارالحکومت ہوگا اورایساہی خواب ٹرمپ نے کشمیرکے بارے میں ثالثی کرنے کا ہمیں دکھایااور اسی آڑمیں مودی کوکشمیرمیں 5/اگست2019ء کوراست اقدام کااشارہ کردیا۔اب صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کے اردگردکمزور اسلامی ممالک اسرائیل کوتسلیم کرنے کیلئےبے چین ہیں اورہم اپنے بیانات میں مودی کے مظالم کاتذکرہ کرکے ہی کشمیرکاسفیر بننے کادعویٰ کر رہے ہیں۔
آخرمیں فلسطین اورموصل کی ماؤں کاایک گیت:
ٹھہروٹھہرو۔۔۔ابھی ہم ہارے نہیں ہیں۔۔۔ابھی ہمارے گھوڑوں کی ٹاپوں میں بڑادم ہے۔۔۔دیکھ لینا۔۔۔دیکھ لینا۔۔۔ہم تمہیں اُڑادیں گے۔۔۔ ریت کے بگولوں کی طرح۔۔۔۔ان شاءاللہ