جب سے امریکی لاابالی صدرٹرمپ نے ایران سے عالمی ایٹمی معاہدہ منسوخ کیاہے تب سے ایران پردباؤ بڑھانے کیلئے دنیاکے دیگرممالک کوبھی ایران سے ہرقسم کی تجارت اور تعلقات توڑنے کیلئے دباؤبڑھارہاہے۔ امریکاکے اپنی اتحادی یورپی یونین ابھی تک امریکی دہمکی کوخاطر میں نہیں لارہی لیکن کمزورممالک امریکاکے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں جس کاامریکا بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے گردگھیراتنگ کرتاچلاجارہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ماہ ٹرمپ کی جانب سے ایران پرعائدکی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی کرنسی ریال کی قدر میں40 فیصدتک کمی واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ایرانی تاجروں کی جانب گزشتہ کئی دنوں سے احتجاج جاری ہے ۔اس احتجاج کے موقع پر ایرانی سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای نے کہاہے کہ امریکی پابندیوں کامقصدایرانی عوام کو موجودہ حکومت کے خلاف کرناہے۔امریکاچاہتاہے کہ ایرانی عوام اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں لیکن ٹرمپ سے پہلے چھ امریکی صدور بھی ایسی ہی ناکام کوششیں کرچکے ہیں۔
امریکی پابندیوں کے نتیجے میں پیداہونے والی ممکنہ مشکلات پرقابوپانے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ایرانی حکومت اورپارلیمنٹ نے ایک کمیٹی قائم کردی ہے جوایرانی تیل کے خریداروں کی فہرست کامفصل جائزہ لے رہی ہے اوریہ دیکھ رہی ہے کہ کون سے ممالک امریکی پابندیوں سے متاثرنہیں ہوتے اورایرانی تیل کے استعمال کوبندکرنے سے انکارکردیتے ہیں۔ایران کی طرف سے ایسے ممالک کورعایتی پیکج کی پیشکش کی جائے گی ۔اس کے علاوہ متذکرہ کمیٹی تیل کے نئے خریداروں کوتلاش کرنے کی بھی کوشش کرے گی۔قابل ذکربات یہ ہے کہ پچھلی بارجب ایران پرزیادہ سخت پابندیا ں عائد کی گئی تھیں بہت سے ممالک جوتیل کی شدیدضرورت کے محتاج تھے وہ دوسرے خفیہ ذرائع سے ایرانی تیل حاصل کرتے رہے تھے جس کے نتیجے میں امریکاکی جانب سے اقتصادی پابندیاں لگانے کامقصدپورانہیں ہواتھااس لئے اب بھی ایسالگتاہے کہ امریکا اپنے مقاصدمیں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوگا۔
ایران کے نائب صدراسحاق جہانگیری نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہاہے کہ ان کے ملک کو اپناتیل فروخت کرنے میں کوئی مشکل یادشواری کاسامنا نہیں ہوگا۔انہوں نے کہاکہ جوبھی ملک چاہتا ہے کہ تیل کی منڈی میں ایران کی جگہ لے وہ ایرانی عوام اورعالمی برادری سے غداری کرے گااوراسے اس عمل کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ایرانی نائب صدرکے بیان کوایرانی ٹی وی چینل آرآئی آراین این پرنشرکیاگیا۔اسحاق جہانگیری نے کہاکہ تیل کے علاوہ امریکاایران کی دیگربرآمدات اورکرنسی کی ترسیل کوبھی متاثرکرناچاہتاہیاوربعض علاقائی ممالک ایران میں غیر ملکی کرنسی کی قلت کے معاملے کوبڑھاوادے رہے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے جس کی وجہ یہ خیال کیاجارہاہے کہ یہ ایران پرکڑی پابندیاں عائدکرنے کے منصوبے کاحصہ ہے۔
یادرہے کہ سعودی عرب دنیابھرمیں سب سے زیادہ تیل برآمدکرنے والاملک ہے اس سال مئی میں تقریباً ایک کروڑ بیرل تیل اس کی روزانہ کی پیداوارتھی جوایک عالمی ریکارڈہے۔سعودی عرب یومیہ ایک کروڑبیرل پیداوارسے زیادہ پسندنہیں کرتااس لیے اس بات کے امکانات نظرنہیں آتے کہ سعودی حکمران امریکی صدرکی جانب سے یومیہ پیداواربڑھانے کی درخواست قبول کریں۔تیل کی پیداواربڑھاناکافی مہنگابھی ثابت ہو سکتاہے اس لیے سعودی حکمرانوں نے امریکی صدرپرکسی ردّ ِعمل کااظہارنہیں کیا۔وریں اثنا ء ترکی پہلاملک ہے جس نے امریکی دباؤ کوبرملامسترد کرتے
ہوئے ایرانی تیل کی درآمدجاری رکھنے کااعلان کردیاہے۔ترکی کے وزیر اقتصادیات نیہات زیبکی نے کہاہے کہ ان کاملک امریکی فیصلے کاپابند نہیں، ہماراملک صرف اقوام متحدہ کے فیصلوں کااحترام کرتاہے،اس سے ہٹ کرہم صرف اپنے مفاد کی پاسداری کریں گے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ہمارے دوست ملک ایران کوکسی ناجائز اقدام کاسامنانہیں کرنے دیاجائے گا۔دلچسپ امریہ ہے کہ امریکی صدرٹرمپ کےقانونی مشیرروڈی جولیاتی نے دعویٰ کیاہے کہ ایک سال کے اندرتہران کاموجودہ نظام ختم ہوجائے گا۔
ادھرپاکستان نے امریکا کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یکطرفہ انحراف پر ایران کے اصولی مؤقف کی حمایت کی ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق یہ یقین دہانی پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد کے دورے پرآئے ہوئے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کے ساتھ مذاکرات میں کروائی۔پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد یہ کسی بھی اعلی غیر ملکی وفد کاپہلا دورہ ہے۔ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف دوروزہ دورے پرپاکستان آئے تھے۔ انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصرسے ملاقات کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔وزیر خارجہ کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات میں علاقائی اورعالمی امورپربھی بات ہوئی جس میں افغانستان کی صورتحال اورجوہری معاہدے سے یک طرفہ امریکی انخلاء شامل ہے۔
شاہ محمودقریشی نے امیدکااظہارکیاہے کہ جوہری معاہدے میں شامل دیگرفریق اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نمٹائیں گے کیونکہ عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے نے کئی مرتبہ ایران کی جانب سے معاہدے کی پاسداری کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان اس مشکل گھڑی میں ایران کے ساتھ کھڑاہے۔ پاکستان اورایران کے مابین مشترکہ سرحد پرشدت پسندوں کی موجودگی اورایران گیس پائپ لائن اہم مسائل رہیں ہیں۔ مشترکہ بیان میں اس کے متعلق کوئی نئی بات نہیں کی گئی تاہم اس پراتفاق کیاگیا کہ دونوں ممالک مشترکہ سیاسی اوراقتصادی کمیشنوں کے اجلاس جلد طلب کریں گے جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں ایرانی وزیرخارجہ کویقین دلایا گیا کہ پاکستان خطے میں امن وسلامتی کیلئے خلوص سے اقدامات اٹھا رہا ہے ۔2013ءمیں وزیرخارجہ کامنصب سنبھالنے کے بعد سے یہ جوادظریف کاپاکستان کاآٹھواں دورہ ہے۔دونوں ممالک باہمی تجارت کا حجم آئندہ پانچ برسوں میں پانچ ارب ڈالرزتک بڑھانے کاپہلے ہی ارادہ کرچکے ہیں۔گذشتہ ماہ ایرانی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجرجنرل محمد بغیری بھی ایک اعلی سطحی وفد کے ساتھ اسلام آباد کادورہ کرچکے ہیں۔ان دوروں سے دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کی اہمیت بظاہرظاہرہوتی ہے۔