Iran And Israel At State Of War

ایران اوراسرائیل حالتِ جنگ میں

:Share

اسرائیلی قائدین ایک بارپھرایران کی جوہری تنصیبات پرحملہ کرنے کی بات کررہے ہیں جیساکہ انہوں نے2013ءمیں بھی کیاتھا۔تب بھی ایران کوجوہری ارادوں کے حوالے سے سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی تھی مگرخیر،کچھ کیانہیں تھا۔اب سیاسی،سماجی،معاشی اورتزویراتی حالات بہت مختلف ہیں اس لیے اسرائیل کی دھمکی کوسنجیدگی سے لیناچاہیے۔2015ءمیں جامع ایکشن پلان کی تیاری سے دوسال قبل اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کوختم کرنے کا انتباہ کیاتھا،تب اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہونے کہاتھا’’ہماری گھڑیاں اس بارمختلف رفتارسے چل رہی ہیں۔امریکابہت دورہے۔ہم ایران سے بہت نزدیک ہیں اوراس کیلئےآسان ہدف بھی ہیں۔ہمیں ایران کوکسی نہ کسی طورروکنے کی طرف جاناہی ہوگا۔ شایدامریکاکی طرف سے کچھ کیے جانے سے بھی پہلے ۔اگر معاشی پابندیاں موثرثابت نہ ہوسکیں توپھرفوجی اقدام ہی کی گنجائش رہ جائے گی۔ایساہوگا تب ہی وہ متوجہ ہوں گے‘‘۔

جو کچھ نیتن یاہو نے کہاتھااُس پرعمل نہیں کیاجاسکا۔شایداِس حقیقت ہی کی بنیادپرکچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیلی قیادت اس بار بھی جوکچھ کہہ رہی ہے وہ محض بڑھک ہے،گیدڑبھبکی ہے۔چندایک ایسے اشارے ملے ہیں جن کی بنیادپرکہاجاسکتاہے کہ اس بار اسرائیل شایدایران کونشانہ بنانے کافیصلہ کرچکاہے ۔ سب سے پہلے یہ نکتہ ذہن نشین رہناچاہیے کہ ایران کونشانہ بنانےکیلئےاسرائیل کوعوام کی بھرپورحمایت درکارہے۔2015ءمیں جامع ایکشن پلان کی منظوری سے قبل اسرائیلی عوام کی واضح اکثریت یہ کہتی تھی کہ اسرائیل کوایران پرحملے کے معاملے میں تنہاکچھ نہیں کرناچاہیے۔اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ نے بتایاہے کہ اب اسرائیلیوں کاذہن تبدیل ہوچکاہے۔اگرآج ایران پرحملےکیلئےریفرنڈم کرایاجائے تو58فیصداسرائیلی چاہیں گے کہ اسرائیل حملہ کردے اورزیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیلیوں کی اکثریت اس بات کے حق میں ہے کہ اگراُن کاسب سے بڑاحلیف امریکابھی حمایت نہ کرے توکوئی بات نہیں، اپنے طورپربھی ایران کونشانہ بنایاجائے۔ 2018ءمیں رائے عامہ کے ایک جائزے میں صرف10فیصداسرائیلیوں نے امریکاکی حمایت اور اشتراکِ عمل کے بغیربھی ایران پر حملہ کرنے کودرست قراردیاتھا۔تب50فیصدسے زائداسرائیلیوں نے اس بات کوپسندکیاتھاکہ اگرایران اپناجوہری پروگرام ترک نہ کرے یاجوہری ہتھیارتیارکرنے کاعمل بحال کرے اوراُس کی جوہری تنصیبات پرحملہ کرناہی پڑے توامریکاکی حمایت ضرورحاصل کی جائے اوراشتراکِ عمل بھی۔ مزیدبرآں اس وقت اسرائیلیوں کی اکثریت اس خیال کی حامل ہے کہ اُن کے اوراُن کی ریاست کے وجود کیلئےکوئی بڑاخطرہ اگرہے تو ایران ہے۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران میں بھی رائے عامہ تبدیل ہوئی ہے۔2015ءمیں ایران کی صدارت حسن روحانی کے ہاتھ میں تھی۔ انہیں تھوڑی بہت مقبولیت حاصل تھی اورعام خیال یہ تھاکہ اگراسرائیل نے حملہ کیاتوایرانیوں کی اکثریت اس بات کو سخت ناپسند کرے گی اورحکومت کا بھرپورساتھ دے گی۔اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی تھاکہ حسن روحانی اعتدال پسندرہنماتھے اور کسی نہ کسی طورقومی معیشت کوبہتربناناچاہتے تھے تاکہ عوام کامعیارِزندگی بلندہو۔ساتھ ہی ساتھ وہ بنیادی حقوق کی صورتِ حال بہتربنانے اورمغرب سے تعلقات معمول پرلانے کے خواہش مندبھی تھے۔تب ایک یہ خدشہ بھی موجودتھاکہ اگراسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات کونشانہ بنانے کی کوشش کی توانتہاپسندایرانیوں کوبھی اسرائیل پرحملے کرنے کی تحریک ملے گی اوروہ جوہری موادکے جنگی استعمال کی طرف جائیں گے۔ساتھ ہی ساتھ عالمی برادری میں اسرائیل کے خلاف بھی رائے عامہ ہموارہوگی۔یہ خدشہ تواناتھا کہ اسرائیلی حملے کی صورت میں ایرانی قیادت کے انتہاپسندعناصرعالمی برادری سے تعاون ترک کردیں گے اورجوہری معاملات پربات چیت سے بھی انکارکردیں گے۔یوں اسرائیلی حملے کی صورت میں ایران کے خلاف جومقاصد حاصل کیے جانے تھے اُن کے مقابلے میں نقصانات کااحتمال زیادہ تھا۔ چندماہ کے دوران ایران میں ماحول بہت بدل چکاہے۔رائے عامہ اب اصلاح پسندوں کے حق میں ہے نہ انتہاپسندوں کے۔بڑے پیمانے پر ہونے والے حالیہ مظاہروں میں دونوں کے خلاف نعرے لگائے گئے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف بھی رائے عامہ تیزی سے ہموارہوئی ہے۔ ایرانیوں کی اکثریت اس بات کے حق میں دکھائی دیتی ہے کہ جوہری پروگرام جاری رکھا جائے اورجوہری ہتھیار بھی تیارکیے جائیں۔

اسرائیلی قیادت نے2013ءاور2015ءکے دوران ایران کودی جانے والی دھمکیوں پرعمل شایداس لیے نہیں کیاکہ وہ امریکاکوایک موقع دیناچاہتے تھے کہ وہ ایران کومذاکرات کی میزپرلائے اورجوہری معاملات پرکوئی وسیع البنیادمعاہدہ کرلیاجائے۔اُس وقت کے امریکی صدربراک اوبامانے بھی یقین دلایاتھا کہ ایران کے ساتھ کوئی ایسامعاہدہ کرلیاجائے گاجوامریکااوراس کے اتحادیوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کوختم کرتاہو۔اس وقت اسرائیلی قیادت ایران کے ساتھ جوہری معاملات پرہونے والے کسی بھی معاہدے پریقین کرنے کو تیارنہیں کیونکہ اس نے ایک وسیع البنیادجوہری معاہدے کاحشردیکھ لیاہے۔اسرائیل اورچند دوسرے ممالک نے بھی دیکھ لیاکہ6ملکی جوہری معاہدے کے بعدایران پرسے اقتصادی پابندیاں اٹھالی گئیں اوریوں ایرانی قیادت کوعالمی سطح پر قبولیت حاصل ہوگئی۔جب ایران پرسے پابندیاں ہٹالی گئیں اوراُسے تجارت کے میدان میں کھل کرکام کرنے کاموقع ملاتوایرانی قیادت کوپاسدارانِ انقلاب اورایرانی ملیشیازکیلئےاربوں ڈالرجمع کرنے کاموقع ملا۔ ایرانی قیادت نے یہ موقع پورے خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنےکیلئے استعمال کیا۔شام، عراق،یمن اور لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیازکومضبوط کیاگیا۔ایرانی قیادت نے اپنے اثرات کادائرہ وسیع کرنے کی مہم کامیابی سے مکمل کی ہے۔

اسرائیل اورخلیجی(عرب)ریاستوں کی یہ رائے تھی اورہے کہ بین الاقوامی جوہری معاہدے کے بعد بھی یہ خطرہ ٹلا نہیں تھاکہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش جاری رکھے گا۔خطے نے دیکھاکہ یمن سے ایران نوازحوثیوں نے سعودی عرب میں شہری ٹھکانوں پرحملے بڑھادیے۔دوسری طرف حزب اللہ کے ہزاروں جنگجوؤں کو شام میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ایران کی حمایت اور مالی امداد سے کام کرنے والی تنظیم حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملے بھی بڑھا دیے۔ صورتِ حال کی نوعیت دیکھتے ہوئے بلاخوفِ تردیدکہاجاسکتاہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے جوخدشات اسرائیل میں پائے جاتے ہیں اُن کی بنیاد پرایران کی جوہری تنصیبات کونشانہ بنایاجاسکتاہے۔اس حوالے سے رائے عامہ بھی تبدیل ہوچکی ہے اورحالات بھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں