یوں توپچھلی سات دہائیوں سے بھارتی سفاک ہندوسامراج شب روزمسلمانوں کوایذاپہنچانے میں مصروف ہے لیکن جب سے بدنام زمانہ اور مسلمانوں کاازلی دشمن گجرات کا قصاب مودی سرکارنے اقتدارسنبھالاہے ،اسی دن سے مقبوضہ کشمیرمیں انسانیت سوزمظالم کی انتہاءہوگئی ہے۔ پیلٹ گن کے وحشیانہ استعمال سے سینکڑوں کشمیریوں کوبینائی سے محروم کردیاگیا،ایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کوشہیدکردیاگیاہے۔سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہزاروں کی تعدادمیں جبری آبروریزی کے واقعات رونماہوچکے ہیں،ہزاروں کی تعداد میں کشمیری خواتین بیوہ اوریتیموں کی ایک پوری نسل اس بر بریت پر نوحہ کناں ہے لیکن اقوام عالم کی مسلمانوں کے خون کی ارزانی پرمجرمانہ خاموشی نے نوجوان نسل کومشتعل کر دیا ہے اوریقینا وہ دن دورنہیں جب ظلم وزیادتی کے خلاف یہ طوفان یقینا بہت کچھ بہالے جائے گا ۔
بھارتی سامراج کے ظلم کااندھاگھوڑابگٹٹ بھاگ رہاہے ۔ایک ماہ پہلے شوپیاں میں پانچ کشمیریوں کوسفاکانہ طورپرموت کے گھاٹ اتاردیاگیااورپانچ مارچ کوایک مرتبہ پھرچھ نوجوانوں کوانتہائی بیدردی سے قتل کردیاگیا ۔بھارتی قابض فو ج کی بہیمت کے خلاف ساری وادیٔ سراپااحتجاج ہے۔اب یہ حقیقت پوری دنیاکے سامنے کھل کر آگئی ہے کہ بھارت میں انتہاء پسندمودی سرکارکے اقتدارمیں آنے کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں فی الواقع کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے جس کااصل نشانہ اسلامیانِ کشمیرہیں۔ زیادہ بڑاالمیہ یہ ہے کہ ان عالمی تنظیموں کی زبانیں بھی گنگ ہوچکی ہیں جو انسانی بنیادی حقوق کاعلم بلندکیے ہوئے ہیں اورجومسلسل اس کابرملادعویٰ کرتی ہیں کہ وہ ساری دنیامیں ہرقسم کے مظلوموں کی آوازہیں۔
شوپیاں کے عوام جوسرکاری فورسزکے عتاب کا شکار ہیں،کے ساتھ اظہاریکجہتی کرتے ہوئے اورسانحہ شوپیاں کے خلاف ”شوپیاں چلو”کی کال کو طاقت کے بل پرجس اندازمیں روکاگیااس سے کشمیریوں کے زخموں پرنمک پاشی ہوئی ہے اورشایدآخری بھی نہ ہوگی تاہم جس طرح یہ کاروائی انجام دی گئی ہے اس سے بھارتی فورسزکی بہیمت اوراس کے خونخوارجذبۂ انتقام کابآسانی اندازہ لگایاجاسکتاہے جو کشمیری عوام کے خلاف ان کے سینوں میں آگ کی طرح دہک رہاہے۔قتل وغارت کایہ طرزِ عمل نئی دہلی کی اس سوچ کامظہرہے جس میں تنازعہ کشمیرسے متعلق غیراصولی پالیسی اپنائی جارہی ہے اورجس کامنطقی نتیجہ تباہی وبربادی کی صورت میں نکل رہاہے چونکہ تنازعہ کشمیرایک سیاسی تنازعہ ہے جس کے حتمی حل کیلئے نہ قتل وغارت گری کام آسکتی ہے اورنہ یہ مسئلہ اندھادھندگرفتاریوں عمل میں لانے یاپابندیاں عائد کردینے سے حل ہوسکتاہے۔واضح رہے کہ کشمیر کے چپے چپے کوجلیانوالہ باغ بناڈالنے سے کشمیری عوام کے حوصلے پست نہیں کئے جاسکتے۔ البتہ یہ ضرورہے کہ اس نوع کی بربریت اورظلم کے مظاہرے سے بھارتی جمہوریت کابدنماچہرہ بے نقاب ہو رہا ہے ۔
شوپیاں کے محولابالاقتل عام کے سانحے کے بارے میں بھارتی درندہ صفت فوج کی طرف سے 24گھنٹوں کے دوران تین متضادبیانات سامنے آئے ۔پہلے بیان میں ایک کشمیری مجاہدکوشہیدکرنے کادعویٰ کیاگیااورسرک کے بیچوں بیچ ایک پڑی ایک نوجوان کی لاش اوربرآمدہونے والے ہتھیارکی تصویرسوشل میڈیاپروائرل کردی گئی۔اس کے ایک گھنٹے کے بعد ایک اوربیان میں بتایاگیاکہ شوپیاں کایہ مجاہدایک”سوفٹ” گاڑی میں دیگرتین نوجوانوں کے ساتھ علاقے سے گزررہاتھا ۔انہوں نے ایک فوجی گاڑی پرفائرکھولا اورفوج کی جوابی کاروائی میں یہ چاروں نوجوان مارے گئے ۔اگلے دن علی الصبح ایک اورگاڑی سے جب ایک اورنوجوان کی لاش برآمدہوئی توکہاگیاکہ فوج کی تلاشی پارٹی کی جانب دوتیز گاڑیاں آرہی تھیں۔ جب انہیں رکنے کااشارہ کیاگیاتودونوں گاڑیوں میں موجودافرادنے فوج پرفائرنگ کی۔فوج کی جوابی کاروائی میں چھ جوان مارے گئے ۔ایک سادہ لوح اور معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان ہی سمجھ سکتاہے کہ کس طرح یہ متضادبیاناتخودہی اپنے اندرچھپے صریحاًجھوٹ کی عکاسی کررہے ہیں۔ نہائت آسانی سے ہربات سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس قتل عام سے متعلق سفاک بھارتی فوج کابیان صریح دروغ گوئی پرمبنی ہے اوربغیرکسی جوازکئی معصوم اوربے گناہ نوجوانوں کوموت کی نیندسلادیاگیاہے۔
پوچھاجاسکتاہے کہ اے ہندودہشتگردفوج!جب خودتمہاراچیف اوردہلی کی تمہاری حکومت کشمیرمیں مسلمانوں کی نسل کشی پرتمہیں شاباش دے رہی ہے ،تمہیں ترقیاں دی جارہی ہیں، ”بہادری”کے مظاہرے کرنے پرتمہیں”اسٹار”مل رہے ہیں۔چندماہ تمہارے ایک ظالم میجرگوگوئی کو ترقی سے نوازاجاتاہے جبکہ میجرآدتیہ نے گزشتہ ماہ فروری میں شوپیاں ہی کے ضلع میں پانچ کشمیری نوجوان بیدردی سے شہیدکردیئے گئے اورپھر جب ان کے خلاف تمہاری سپریم کورٹ میں کیس کی پہلے روز سماعت تھی توکشمیریوں کے اس قتل عام پراس پہلی سماعت پرتمہاری سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ ”نہ خنجرپرکوئی خون نہ دامن پر چھینٹ ہے”قاتل میجرآدتیہ کواس قتل عام سے بری قراردیاتوپھربھی تم جھوٹ بول رہے ہو؟
اس بارشوپیاں میں چھ افرادکوخون میں نہلادیاگیا۔سرکاری اداروں کادعویٰ ہے کہ مارے جانے والے چارافراداورگرائڈاورجنگجواوردوعسکریت پسندتھے۔فوجی اہلکاروں نے انہیں ناکے پرروکنے کی کوشش کی توانہوں نے فائرنگ کردی۔مقامی لوگ سرکاروالاقبارکے اس دعویٰ کوجھوٹ اوراپنے گناہوں پرپردہ ڈالنے کی ایک کوشش قراردیتے ہیں ۔شہیدہونے والوں کے کواحقین کاکہناہے کہ وہ کسی زیرزمین سرگرمیوں میں ملوث تھے اورنہ ہی ان کاکسی عسکری تنظیم سے کوئی تعلق تھا۔بتایاجاتاہے کہ ایک نوجوان ناگپوریونیورسٹی میں زیرتعلیم تھا اورچھٹیاں گزارنے اپنے گاؤں آیاہواتھا۔ساراگاؤں اس کی بے گناہی کیلئے گواہی دے رہاتھاکہ کسی نے آج تک اس کوکسی بھی ایسی تنظیم کے بارے میں گفتگوتک کرتے نہیں دیکھا اورنہ ہی اپنی تعلیم کے علاوہ اس کاکوئی اورمشغلہ تھا۔
ہزاروں لوگ کرفیوکے باوجودشہداء کوخراجِ تحسین پیش کرنے اورانہیں آخری آرام گاہ تک رخصت کرنے پہنچے۔پوراکشمیرایک بارپھرسراپاسوگ وماتم بناہواہے۔ مظاہروں،جلسوں اورجلوسوں کے ذریعے سے شہری اپنااحتجاج ریکارڈکرارہے ہیں۔الجزیرہ اورسوشل میڈیاکے ذریعے سے سامنے آنے والی خبروں اورتصاویرنے پاکستان میں تہلکہ مچادیا۔لگتاہے کہ موسم بہارکاآغازکشمیریوں کیلئے بھاری پڑگیا،گزشتہ سال بڑی حدتک امن رہا، لوگوں نے سکھ کاسانس لیااورمعمول کی زندگی لوٹ رہی تھی لیکن شوپیاں کے سانحے سے قیاس کیا جا سکتاہے کہ بھارتی فورسزاوران کی حکومت کا موڈمہم جوئی کاہے اوریہ سال خون آشام ثابت ہوسکتاہے۔مودی نے گزشتہ برس یوم آزادی کے تقریب میں کہاتھاکہ کشمیرکامسئلہ گولی یاگالی سے نہیں بلکہ گلے لگانے سے حل ہوگالیکن جس بیدردی سے کشمیریوں کوتشددکانشانہ بنایاجارہاہے وہ خطرناک عزائم کی غمازی کرتاہے۔کشمیریوں کوباورکرایاجارہاہے کہ آزادی کی مانگ کی انہیں بہت بھاری قیمت چکاناپڑے گی۔بھارتی وزراء اور فوجی سربراہ کے اشتعال انگیزبیانات کشمیرمیں تعینات فورسزکوہلاشیری دیتے ہیں۔
ادھرکشمیرمیں بھارتی کٹھ پتلی سرکارمحبوبہ مفتی بھارتی متعصب مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے آزادی پسند قائدین وکارکنان کی ایک بڑی تعداد کوگھروں میں نظربنداور جیلوں میںٹھونس کر انتقام کی بدترین مثال قائم کردی ہے۔تنظیم کے لیڈر امیرِ حمزہ شاہ گزشتہ 3برسوں سے مسلسل جیل میں بند ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان پر لگائے گئے تمام تر فرضی الزامات کے تحت جرم بے گناہی کی سزا کاٹنے کے باوجود ان کی رہائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے اورکل امرگڑھ تھانے میں حبس بے جا میں ہیں۔ ان کے اہل خانہ کو ان کی رہائی میں ٹال مٹول کیا جارہا ہے۔ ادھر منظور احمد کلوبھی گزشتہ 2برسوں سے جیل میں بند ہیں۔ اس دوران گزشتہ ماہ ان کے بزرگ اور عمر رسیدہ والد بھی دنیائے فانی سے رخصت کر گئے۔ ان کو ان کی آخری رسومات میں بھی شرکت کی اجازت نہیں دی گئی، حالانکہ ان کا”پی ایس اے”کالعدم قرار دیا جاچکا تھا جبکہ محمدیوسف لون،میر حفیظ اللہ،رئیس احمد میر، محمد یوسف فلاحی، سلمان یوسف، عبدالغنی بٹ، عبدالسبحان وانی، شیخ محمد رمضان، شکیل احمد یتو، محمد امین آہنگر، مفتی عبدالاحد، فاروق احمدبٹ،محمد شعبان خان، عبدالحمید پرے، غلام حسن شاہ، نذیر احمد مانتو، حاکم الرحمان، عبدالرشید، بشیر احمد صالح، محمد اشرف ملک، غلام محمدتانترے ، عبدالواحد میر، اعجاز احمد بہرو، آصف گل، فیاض احمد کمہار،وسیم احمد فراش، عبدالرشید، توصیف خان، ہلال احمد پال کو بھی گزشتہ کئی برسوں سے پابند سلاسل کیا گیا ہے، حالانکہ جن فرضی الزامات کے تحت ان قائدین و کارکنان کو گرفتار کیا گیا تھا ان تمام کیسوں سے وہ عدالتوں سے بری قرار دئے گئے ہیں۔ اس کے بعد ان قائدین وکارکنان کو جیلوں میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا لیکن اس کے باوجودمحبوبہ سرکاراس قدرخوفزدہ ہے کہ ان بے گناہوں کو جیل سے رہاکرنے کیلئے آمادہ نہیں بلکہ تحریک حریت کے قائدین وکارکنان کو مختلف فرضی کیسوں میں پھنسا کر جیلوں میں بند کرنے کی ظالمانہ پالیسی پرعمل پیراہے جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ تحریک حریت کے غلام قادر بٹ کپواڑہ جو کہ سینٹرل جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے کو وادی سے باہر جیل منتقل کردیاہے ۔
ادھر26سال قبل23مارچ1992کو سرحدی حفاظتی فورس کی166ویں بٹالین نے بمنہ میں چھاپہ مارکر قابض سیکورٹی فورسزنے سرینگرشہر کے خانقاہ معلی سے تعلق رکھنے والے اخوان المسلین کے ایک کمانڈر محمد صدیق صوفی کو اپنے ایک ساتھی جاوید احمد شالہ کے ہمراہ حراست میں لیا اورآج تک ان کاکوئی نام ونشان باقی نہیں جہاں سے ان کاپتہ چل سکے۔اس چھاپے میں ماس مومنٹ کی سربراہ فریدہ بہن جی کے والد محمد یوسف بیگ ،شوہر،برادر اور ایک بیٹے کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس دوران محمد یوسف بیگ کی لاش3دن بعد برآمد ہوئی جبکہ باقی گرفتار شدگان کو قریب ایک ماہ کے بعد رہا کیا گیا،مگر محمد صدیق صوفی اور جاوید احمد شالہ بدستور حراست میں ہی رہے۔ فورسز نے محمد صدیق صوفی کو کبھی رہا نہیں کیا اور نہ یہ بتایا کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ محمد صدیق صوفی کی حراستی گمشدگی کے بعد اہل خانہ نے دو مرتبہ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا،تاہم فورسز نے جواب دینے کی کوئی زحمت گوارہ نہیں کی اور عدالت انصاف دینے کی بجائے ابھی تک خاموش ہے۔
گزشتہ ماہ فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے کہاکہ پاکستان کاایٹم بم ایک دھوکہ اورسراب ہے،ہمیں جب بھی سرحدپارکرنے کاحکم ملاتوہم تاخیرنہیں کریں گے۔قبل ازیں وہ کہہ چکے ہیں کہ بھارتی فوج طاقت کامظاہرہ کرنے سے کبھی نہیں ہچکچائے گی ۔جواب میں وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا: بھارت اگرہماراعزم آزماناچاہتاہے توہم حاضرہیں۔یہ محض کھوکھلی دہمکیاں ہی نہیں ہیں بلکہ بھارت کی حکمران جماعت میں ایسے عناصرغلبہ پاچکے ہیں جوتنازع کشمیر طاقت کے ذریعے حل کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔وہ نہروکی عقل پربھی ماتم کرتے ہیں کہ انہوں نے تقسیم ہندکے بعدپورے جموں وکشمیرپرقبضہ کیوں نہیں کیا ۔وہ نہروکے اس عمل پربھی اپناسرپیٹ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ میں جاکرفاش سفارتی غلطی کی جس کاخمیازہ بھارت آج تک بھگت رہاہے۔تاریخ سے ناواقف ان اندھے متعصب ہندوؤں کویہ علم نہیں کہ اگرنہرواقوام متحدہ میں جاکربڑی طاقتوں کے سامنے جنگ بندی کی دہائی نہ دیتا توآج بھارت نہ صرف کشمیرسے محروم ہوتابلکہ کئی ٹکڑوں میں بٹ چکاہوتا۔دراصل اقوام متحدہ میں اس وقت پاکستان کے قادیانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے ایک سازش کے تحت کشمیرکے مسئلے پر جنگ بندی قبول کرکے پاکستان کی کمرمیں خنجرگھونپاکیونکہ وہ اپنے برطانوی مربی آقاؤں کے اشارے پرعمل کررہے تھے۔
بھارت کی داخلی سیاست میں بھی پاکستان مخالف کارڈبھارت جنتاپارٹی کیلئے خاصاکارآمدثابت ہوا۔گجرات کے الیکشن میں پاکستان کے خلاف جم کر تقریریں کی گئیں ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ کانگرس کے لیڈرراہول گاندھی بھارت کی سیکولرجماعتوں اوراقلیتوں کواپنے گرداکٹھاکرنے کی بجائے قدامت پسندہندوؤں کواپنی طرف راغب کرنے کیلئے مندروں میں گھنٹیاںبجارہے ہیں۔آجکل قدامت پسندوں کے دل جیتنے کیلئے کانگرس اوربی جے پی میں مقابلہ جاری ہے۔سنیئرتجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ حکمران جماعت اپنے وعدوں کے مطابق عام لوگوں کی سدھارنہیں لاسکی۔معاشی حالات میں قابل ذکربہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔گجرات کے ریاستی الیکشن میں لوگوں نے بی جے پی کوغیر متوقع طورپربہت کم ووٹ دیئے۔گزشتہ عام الیکشن میں بی جے پی کے حق میں جولہراٹھی تھی اورعام لوگ جومودی کونجات دہندہ اورمسیحاسمجھتے تھے وہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کاکہناہے کہ مودی کوبھارتی عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے کوئی بڑاحربہ استعمال کرناپڑے گاتاکہ اگلے عام الیکشن میں ایک بارپھرمنتخب ہوسکیں۔ایودھیامیں رام مندر کی اگرعدالت نے اجازت عطاکردی توپھرالیکشن مہم چمک جائے گی بصورتِ دیگرپاکستان کے خلاف کنٹرول لائن پر سرجیکل اسٹرائیک کی جاسکتی ہے۔
کنٹرول لائن پرجوحالات ہیں وہ پاکستان کامیڈیاٹھیک طرح سے نہیں دیکھ رہا۔غالباًحکومت کاخیال ہے کہ کہ اس طرح دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے یاپھر پاکستان کے اندرسرگرم انتہاء پسندگروہ اس کافائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ان کے کیمپ دوبارہ آبادہوسکتے ہیں اورچندہ مہم میں جان پڑسکتی ہے ۔اب تک ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں،سینکڑوں میل کے علاقے میں نظام زندگی معطل ہے۔ماضی میں دونوں ملکوں کی فورسزایک دوسرے کونشانہ بناتی تھیں لیکن اس بارآزادکشمیرکے عام شہریوں ،ان کے مکانات اوراسکولوں کوہدف بنایاجارہاہے۔تعلیمی ادارے کب سے بند ہوچکے،بیشمارشہری ذخمی ہیں۔کئی شہری سرکاری اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔باوثوق ذرائع کے مطابق بھارت نے کنٹرول لائن پرٹینک پہنچادیئے ہیں۔دونوں ممالک واضح طورپرحالت جنگ میں ہیں۔کشمیرکی صورتحال کہیں زیادہ گھمبیرہے اوروہاں ایک شوپیاں کے بعددوسراسانحہ منتظرہے۔ درپیش حالات حکومت،تمام اداروں اورسیاسی جماعتوں کی سنجیدہ اورفوری توجہ کے متقاضی ہیں۔اوّلین ضرورت باہمی اتحادہے جس کی طرف شاذ ہی کسی کی توجہ دکھائی دیتی ہے۔