Important Announcement

ضروری اعلان

:Share

اسلام آبادکے زیروپوائنٹ سے دائیں طرف مشہورسرسبزپہاڑی”شکرپڑیاں”دوحوالوں سے بہت مشہورہے۔بیشترغیرملکی معزز مہمانوں کے ہاتھوں لگے پودے ہیں اوردوسرایہ کہ شام ڈھلنے کے بعداسلام آبادکی روشنیوں کانظارہ کرنے والوں کی خاصی تعداد موجودہوتی ہے۔اس پہاڑی پرایک بہت بڑی قومی یادگارہے جہاں پاکستان کی تاریخ،فنون اور ثقافت کے حوالے سے ایک بہت بڑا میوزیم بھی ہے جس میں بیش قیمت نوادرات رکھے ہوئے ہیں۔ فنکاروں کوفن کامظاہرہ کرنے کیلئے تھیٹر بھی ہیں۔میں جب بھی اس یاد گار کے سامنے سے گزراتومجھے پچاس کی دہائی کاسوویت یونین ضروریادآیا جس پراپنے زمانے کاشقی القلب آمر سٹالن حکم ران تھا۔آپ روس کے کسی بھی چھوٹے شہر میں چلے جائیں آپ کووہاں کسی نمایاں مقام پرایک بلندوبالا عمارت ضرورملے گی جس کامصرف شہرکی ثقافتی زندگی کے رنگوں کواکٹھاکرنااورفنکاروں کو فن کامظاہرہ کرنے کیلئے جگہ مہیاکرناہے۔

کلاب ایک چھوٹاساشہرہے جوافغانستان کی سرحدکے قریب واقع ہے۔اسی شہرسے امریکی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تھیں اوریہی شہرروسی فوجوں کا افغانستان میں آمدکا راستہ تھا۔سیدعلی ہمدانی کے مسکن کے کنارے آباد اس شہرمیں لوگوں کونلوں کے اندرپینے کاپانی آج بھی میسرنہیں لیکن اس شہرکاکلچرل سینٹر دنیاکے کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ثقافتی مرکز سے کم درجے کانہیں ہے۔ گاؤں میں ریڑھیوں پربرتن لادے چشمے سے پانی بھرتی بچیاں،دھول اڑتی کچی سڑکوں پرمویشی ہانکتی عورتیں اورسردی پرخشک لکڑیوں کے گٹھڑااٹھائے گھرلوٹتے کسان آپ کوغربت وافلاس کا مناظرضرورنظرآئیں گے لیکن اگران دیہات کے قریب کوئی پراناقلعہ یاآثارقدیمہ کاکوئی ٹیلہ موجودہے تواس کے ساتھ ایک عالیشان سائٹ میوزیم ضرورتعمیرہے، اور حیرت تواس بات کی ہے کہ پچھلی چار دہائیوں کی شدیدجنگ کے باوجودیہ عمارتیں محفوط ہیں۔

غربت،عسرت،بدحالی،بھوک اورافلاس کی موجودگی میں بہترین ثقافتی مراکزکی تعمیرمجھے اسلام آبادکے علاوہ سٹالن کے روس میں ملتی ہے۔شخصیت کامطالعہ کریں توانسان کے اندر چھپے اس غرور،اناپرستی،مخلوق خداکے دکھوں سے بے اعتنائی سب کچھ مل جائے گالیکن ان ساری کریہہ خصلتوں کو چھپانے اورلوگوں کے دکھوں کاتمسخراڑانے کیلئے آرٹ، ثقافت،فن اوربالآخرخواتین کاسہارالیاجاتاہے۔سٹالن کی زندگی کی عیش وعشرت کی تفصیلات حیران کن ہیں۔اپنے تعیش کیلئے جہاں اس نے خفیہ ایجنسی کے سربراہ”لاورنئی سبریا ” کواوربہت سی ذمہ داریاں سونپی تھیں وہاں کے جی بی کے اس اہم ترین فردکے ذمے یہ کام بھی تھاکہ سٹالن کے مزاج کے مطابق روس کی گلیوں میں میسرلڑکیوں کوڈھونڈ کراس کے حضورپیش کیاجائے۔اس کوآج بھی روس میں افراد کولاپتہ کرنے کابانی تصورکیاجاتا ہے۔

ان لاپتہ افرادکی تعداد اسی لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ان لوگوں کواحتجاج کرنے،ذاتی اختلاف رکھنے یاذراسی گفتگوکرنے کے جرم میں اٹھالیاجاتااور پھران سے آرکٹک اور سائبیریا میں قائم کیمپوں میں لے جاکرجبری مشقت لی جاتی۔کسی شخص سے ناراضگی ہوتی تواسے گولی سے اڑادینے کاحکم صادر کردیاجاتالیکن اسے موت تک پہنچنے سے پہلے ایک اور مشقت کرناہوتی تھی اوروہ یہ کہ اسے اپنے ہاتھوں سے اپنی قبرکھودناپڑتی۔آج تک کوئی بھی سائبیریاگیاہوامشقتی واپس نہیں لوٹا۔سٹالن روس کاواحدحکمران تھا جس کے زمانے میں روس شدید قحط سالی کاشکار ہوالیکن جب ملک میں لاکھوں لوگ بھوک کاشکار تھے تو اس وقت سٹالن نے اپنے ملک کاغلہ باہر دنیاکوبرآمد کرکے بڑی تعدادمیں زرمبادلہ کمایالیکن اس زرمبادلہ سے ایک روبل بھی لوگوں کاپیٹ بھرنے کیلئے خرچ نہیں کیا۔

سٹالن جیسے آمریت پسندلوگوں کی ایک اورخصلت یہ ہوتی ہے کہ وہ انصاف کواپنے گھرکی لونڈی تصورکرتے ہیں۔جوجج اس کی مرضی کے خلاف فیصلے کرتے ہیں انہیں عبرتناک انجام سے دوچارہوناپڑتا۔ججوں کومجبوراورمقہوربناکررکھ دیاگیا۔کوئی اس کے ظلم جبراور زیادتی کے خلاف درخواست لے کرعدالت کے دروازے تک نہیں جاسکتاتھا۔ایسے میں لوگ اس کی ہیبت سے خوفزدہ ہوکر صرف رات کی تنہائی میں آنسوبہاتے۔اس کی زندگی کے بارے میں وہ مشہورلطیفہ تاریخ کاحصہ ہے کہ جب خروشچیف ایک جلسے میں اس کے مظالم بتارہاتھاتوایک شخص نے سوال کیاکہ تم اس وقت کہاں تھے ؟وہ ایک دم گرجا:کون ہے یہ بدتمیز؟کوئی نہ بولا،کئی بارپکارنے کے بعدجب کوئی جواب نہ آیاتواس نے کہا”میں اس وقت وہاں تھاجہاں اب تم ہو”۔

لیکن ان خاموش ظلم سہتے عوام کے بھی آنسو ہوتے ہیں،ان کی بھی فریادیں ہوتی ہیں جواللہ کے حضوربہت تیزی کے ساتھ جا پہنچتی ہیں۔ایسے میں جب وہ اپنے ظلم کے عروج پرتھا تواللہ نے اس پراپناغضب نازل کیا۔وہ انشقاق ذہنی ”شیزوفرینیا”کاشکارہو گیا۔اسے اپنے ڈاکٹروں تک پربھی اعتمادنہ رہااور وہ انہیں مارنے کودوڑتا۔اسے رسیوں سے باندھ کر ہسپتال میں رکھاجاتا۔اس کی ذہنی حالت ایسی ہوگئی کہ اسے چاروں جانب قاتل نظرآتے جواسے مارنے کودوڑرہے ہیں اورپھروہ اسی حالت میں اذیتوں کے ساتھ موت کی آغوش میں چلاگیا۔یہ نہ توکوئی الف لیلی کی کہانی ہے اورنہ ہی فلمی داستان بلکہ ایک ایسے کلئے کااظہارکرتی ہے کہ جب مظلوم عوام کسی ظالم سے نجات کی طاقت نہ رکھیں لیکن خواہش آنسوبن کرنکلنے لگیں توپھرعبرتناک موت اس پرمسلط کردی جاتی ہے۔

آخرمیں ایک اعلان مقصودہے کہ 9مئی کوہمارے بزرگ ”خلوص ”گھرمیں موجود”خودغرضی”کے ساتھ ان بن ہوجانے پرناراض ہو کرکہیں چلے گئے ہیں۔بڑھاپے کی وجہ سے کافی کمزورہیں۔ان کے بارے میں گمان ہے کہ خودغرض اقتدارکے جنگل نے انہیں نگل لیاہے۔ان کاچھوٹالاڈلابھائی ”اخوت ” اوربہن ”حب الوطنی”سخت پریشان ہیں۔ان کے دوست” محبت اورمہربانی ”بھی ان کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ان کی عدم موجودگی میں ان کے دشمن ”شرپسند”نے ”تعصب ورہوس کے” ساتھ مل کرتباہی مچارکھی ہے۔ان کی جڑواں بہن ”شرافت”کاان کے فراق کی وجہ سے انتقال ہوچکاہے۔ شرافت کے غم میں”حیا” بھی چل بسی ہے۔ان کے بڑے بھائی ”انصاف”ان کی جدائی اورمحبت میں روروکراندھے ہوچکے ہیں۔ان کے والدمحترم ”معاشر ہ”کوسخت فکرلاحق ہے۔ان کی والدہ”انسانیت” شدیدبیمارہے۔آخری باراپنے جگرگوشہ ”خلوص”کودیکھناچاہتی ہے۔جس کوملے وہ اسے انسانوں کے پاس پہنچادے ورنہ انسانیت دم توڑدے گی۔اگروہ خودبھی پڑھیں توبرائے کرم واپس آجائیں،انہیں نہ صرف کچھ نہیں کہاجائے گابلکہ ان کی دل سے قدرکی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں