IMF Trap And Government Hippocrates

آئی ایم ایف کاشکنجہ اورحکومتی بقراط

:Share

پہلے بڑے بحرانوں کی آہٹ محسوس ہوتی تھی،اس کاراستہ روکنے کیلئے تگ ودوکی جاتی تھی لیکن اب توبڑے بڑے بحران خودہی آدھمکتے ہیں تب ہم سر تھام کروردشروع کردیتے ہیں کہ یہ ہوکیاگیاہے۔کچھ ایساہی آج کل ہماری معیشت کے ساتھ ہورہاہے۔پہلے ہمارے وزیرخزانہ اوردیگرمعانین عالمی ادارے آئی ایم ایف کی منت سماجت کیلئے امریکامیں موجودتھے لیکن حسبِ معمول عالمی ساہوکاراپنے غلاموں کواپنے چنگل سے بآسانی نکلنے کے تمام راستے مسدودکرکے اپنی شرائط منوانے کیلئے ان کی خودمختاری کوبالآخراپنے شکنجے میں کس لیتی ہیں۔آئی ایم ایف کے سامنے ہتھیارپھینکنے کے بعدمعاشی جنگ جیتنے کے دعوے بے معنی ہیں۔ بالکل ان پھلجڑیوں اورپٹاخوں کی مانندجو نئے سال کے آغازپرآسمان کولمحاتی روشنی دیتے ہوئے اس کھوکھلے تصورکوجنم دیتے ہیں کہ جیسے آنے والا سال جانے والے سال کی نحوستوں سے پاک ہوگا۔

کہنے کوتوہماراطویل ومسلسل بات چیت کے نتیجے کی صورت میں قرض دینے والے اس ادارے کے ساتھ معاہدہ طے پایا۔ہرسال اس ادارے کابورڈہماری کارکردگی کوپرکھتاہے اورپھرقرضے کی اگلی قسط جاری کرنے یانہ جاری کرنے کافیصلہ کیاجاتاہے۔ریاست و حکومت کے تمام سربراہان اس بات چیت میں بالواسطہ یابلاواسطہ شریک رہے ہیں۔عمران خان کی قیادت اوران کی ہدایات کی روشی میں آئی ایم ایف کے ساتھ لین دین کررہی ہے چونکہ معیشت قومی سلامتی سے جڑی ہے لہذافوجی سربراہ کی جانب سے رائے شامل ہے۔فریقین کوبھی معلوم ہوگا کہ انہوں نے کس وقت کیاکرناہے۔

آئی ایم ایف کی حدتک تومعلومات واضح ہیں کہ پاکستان کی کارکردگی کوکب،کیسے اورکن بنیادوں پرپرکھناہے۔ان کے اجلاسوں کا شیڈول ان کی ویب سائٹ پر مل جاتاہے۔ان کے نمائندگان اگرکچھ نہ بھی بولیں اورلب سی لیں توبھی آئی ایم ایف کاپاکستان جیسے ملکوں سے رابطہ جس فارمولے کے تحت بنایاجاتاہے، اس پرتحقیقاتی موادکی کوئی کمی نہیں ہے۔ذراسی زحمت کرلیں توانٹرنیٹ ہی آپ کوبتا دے گاکہ آئی ایم ایف پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ کیاکرتاہے ۔ ہماری طرف بہرحال ایک چکرادینے والی چشم کشا اورتضادات سے بھری پالیسی کےعلاوہ کچھ نظرنہیں آتا۔ہم ہرروزایک نیاپینترہ بدلتے ہیں لیکن نتیجہ آخر میں وہی نکلتاہے جوآئی ایم ایف کومقصودہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے متعلق سرکاری بیانات کوپڑھیں توآپ کوتضادات کی بھرمارنظرآتی ہے۔ اگریاد ہو تو اقتدارسنبھالنے سے قبل عمران خان کابیانیہ یہ تھا:

“آئی ایم ایف کے پاس جاناخودکشی کرنے کے مترادف ہے،آئی ایم ایف پاکستان کےمعاشی مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس طرح کے قرضے لینے سے نہ عزت بچتی ہے اورنہ خودمختاری۔” اس کے بعدایک اوربیانیہ سامنے آیا”آئی ایم ایف کے پاس جانا ایک وقتی ضرورت ہے جواس وجہ سے پیش آ رہی ہے کہ ماضی میں بدعنوان حکومتوں نے معیشت کوتباہی کے دہانے پرلاکھڑاکیا لیکن اگرآئی ایم ایف نے ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی توان کوچائے پلاکرخداحافظ کہہ دیں گے۔”پھرایک اورتبدیلی آئی اوربیانیہ یہ بنا۔ ’آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانے کیلئےضروری ہے کہ ہمارے پاس ایسی ٹیم موجود ہو جو پاکستان کیلئےبہترین ڈیل حاصل کرسکے، ہمیں کچھ فیصلے جلدی کرنے ہیں لیکن آپ تسلی رکھیں کوئی ایسے اقدامات نہیں لیے جائیں گے جن سے عوام پربوجھ پڑے،اس دوران پاکستان دوسرے ذرائع سے بھی رابطہ کررہاہے تاکہ آئی ایم ایف ہماری مجبوری نہ بن جائے۔”پھر مخلتف وزرا ، مشیران اورسٹیٹ بینک جیسے اداروں کے سربراہان تبدیل کرنے کے بعدیہ بتایاگیا۔”آئی ایم ایف کے مطالبات بہت کڑے ہیں ہمیں بہرحال کچھ ایڈجسٹمنٹس کرنی پڑیں گی جن کاکچھ اثرعوام پرپڑے گالیکن یہ سب کچھ جلدہی ایک ایسی معاشی قوت میں تبدیل ہوگاجوپاکستان کی قسمت بدل دے گا۔
اس کے بعدبیانیہ نہیں صرف بیانات سامنے آرہے ہیں،جن کوپڑھ کرپتہ چلاکہ وہ آئی ایم ایف جس کوجوتے کی نوک پررکھناتھاہماری گردن پرسوارہے،وہ عوام جن کوبین الاقوامی افسرشاہی اوران کے نمائندگان کے غیرحقیقی مگرلوہے جیسے سخت نظریات کی ضرب سے بچاناتھا،اس ادارے کے ساتھ بات چیت کے پہلے اورواحدشکارہیں۔

وہ تمام شرائط جوہم نے نہیں ماننی تھیں،مان لی گئیں اورآخرمیں آئی ایم ایف کی جدیدتاریخ کاسخت ترین شرائط سے بھراہواپروگرام لاگو کردیاگیا۔کمال امریہ ہے کہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے ہم نے قوم کوچھوٹی چھوٹی قسطوں میں آئی ایم ایف کی شرائط سے آگاہی دی اور وہ بھی اس وجہ سے کہ اس کے بغیرکوئی اورچارہ نہ بچاتھاکیونکہ خودآئی ایم ایف نے بتادیاکہ سرکاری سورماؤں نے کن شرائط پر قرضہ لیاہے گویامعلومات دیناایک مجبوری تھی۔اس وقت آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت پرمکمل طورپرحاوی ہے۔حکومتوں کے قرضے لینے کی حدسے لے کرعوام سے بل وصول کرنے تک کے عمل میں اس کی ڈکٹیشن شامل ہے۔

یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا،خوب واویلاکیاگیا،نفع ونقصان،خوشحالی اورخسارہ کے تمام پہلوؤں پرخوب بحث ہوئی لیکن ڈھاک کے تین پات،دھڑلے سے قومی اسمبلی سے سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے نام پرعالمی شطرنج پربچھی ہوئی بساط کوماہرین نے اپنے قابومیں کرلیاہے اورگورنرسٹیٹ بینک جواس سے پہلے عالمی مالیاتی ادارے کے ملازم ہونے کی حیثیت سے پہلے ہی دوملکوں کی معیشت کابڑے شاندارطریقے سے بیڑاہ غرق کرنے کااعزازحاصل ہے،اب پاکستان میں ان کے راستے کے سارے کانٹے صاف کر دیئے گئے ہیں تاکہ وہ عالمی ساہوکاروں کی مرضی سے ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان کومعاشی طورپروہاں لا کھڑا کرے جہاں عالمی ساہوکاروں کوایٹمی طاقت سے محروم کرنے کیلئے سودہ بازی کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے(خاکم بدہن)۔

اس بل کے پاس ہوتے ہی دھیرے دھیرے،خاصی خاموشی کے ساتھ ڈیجیٹل یاکمپیوٹرزاورموبائل فون سسٹم سے جُڑاہوانظام معیشت کے حوالے سے چلن میں آچکاہے۔اس حوالے سے خاصی بحث وتمحیص بھی جاری ہے تاہم اس نکتے پرکم ہی بات ہورہی ہے کہ یہ سب کچھ ہماری معیشت کوکس طوربدل رہاہ ے اور یہ کہ یہ تبدیلی ہرشخص کے مفادمیں ہے بھی یانہیں۔تکنیکی(ٹیکنالوجیکل)پیش رفت نے کاروبارکے مختلف شعبوں میں درمیانے ایجنٹس یابچولیوں (مڈل مین)کیلئےشدید خطرات پیدا کردیے ہیں۔

گزشتہ دنوں متعددبڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لاکھوں تقسیم کاروں اورسیلنگ ایجنٹس کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیاتھاکہ عام جنرل اسٹورتیزی سے بڑے کاروباری خاندانوں کے تھوک اورخوردہ دونوں ہی طرح کے کاروباروں سے جڑرہے ہیں۔اس کے نتیجے میں مڈل مین کے ہاتھوں ہونے والی فروخت میں20سے25فیصدتک کمی واقع ہوئی ہے۔ ملک بھرمیں ایسے افرادکی تعدادپانچ لاکھ سے زائدہے جوشہروں اوردیہی علاقوں میں دکانوں پرجاکرآرڈرلیتے اورمال فراہم کرتے ہیں۔اب تکنیکی ترقی کی بدولت دکان دارکمپنی سے مال براہِ راست مانگ سکتے ہیں۔اب دکاندارایپس کے ذریعے مال کاآرڈردیتے ہیں اورکمپنی بعض اوقات24گھنٹے سے قبل ڈلیوری کردیتی ہے۔اس صورت میں دکان داروں کوجہاں مال سستا ملتاہے وہاں کچھ ادھار کی سہولت بھی فراہم کردی جاتی ہے علاوہ ازیں تھوک فروش کومڈل مین کی تنخواہوں اور دیگر مدوں میں خرچ نہیں کرناپڑتا۔اس چلن سے مڈل مین کادھندا چوپٹ ہوگیاہے۔ سیدھی سی بات ہے،چھوٹا دکانداریاکوئی اورشخص مال وہیں سے خریدے گاجہاں سے اُسے سستاملے گا۔

حالات کی روش دیکھ کراندازہ ہوتاہے کہ مڈل مین اُسی وقت میدان میں رہ سکتے ہیں جب وہ بھی چھوٹے دکانداروں کومال سستادیں۔ ایسابہت مشکل ہے کیونکہ صنعت کاربالعموم بڑی کمپنیوں کوبڑے پیمانے پرمال دیتے ہیں۔یہ کمپنیاں مل کراجارہ داری بھی قائم کر لیتی ہیں۔عام مڈل مین کیلئےاُن سے مسابقت ممکن نہیں۔عام مڈل مین کے پاس اتناسرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ بڑے پیمانے پرمال لے کر آگے سستادے اوراگرچند ایک مڈل مین مل کرکوئی ادارہ قائم کربھی لیں توبازارمیں اتارچڑھاؤکی ایک چھوٹی سی لہربھی اُن کاسب کچھ بہاکرلے جاسکتی ہے۔تکنیکی معاملات میں بڑی کمپنیاں اچھی خاصی سرمایہ کاری کرسکتی ہیں ۔ چھوٹے کاروباری افرادیعنی مڈل مین ایساکرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔وہ کم ازکم تکنیک کے میدان میں توبالکل مقابلہ نہیں کرسکتے۔اس نقطۂ نظرسے دیکھیے تومعیشت میں بہت بڑی تبدیلی رونماہورہی ہے کیونکہ مڈل مین کاکردارختم ہوتاجارہا ہے ۔

اصل مصیبت یہ ہے کہ تکنیکی ترقی کے نتیجے میں جوتبدیلیاں رونماہوتی ہیں انہیں کسی قانون کے ذریعے روکانہیں جاسکتا۔کوئی ایساقانون نہیں بنایاجاسکتاکہ دکان دارتھوک فروش سے مال براہِ راست لینے کی بجائے مڈل مین سے خریدیں۔اس معاملے میں انہیں پابندنہیں کیاجاسکتا۔بازارتولاگت،مال کی ترسیل، طلب اورمنافع کے کھیل سے چلتاہے۔مڈل مین یاتومال سستادیں یامال کے ساتھ کچھ اضافی دیں تب تودکانداراورعام لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں۔ بصورتِ دیگرلاگت اورقیمتِ فروخت کے کھیل میں جوجیتے گاسارے گاہک اُسی کی طرف جائیں گے۔بڑے کاروباری ادارے اس کھیل میں کُھل کرجیت رہے ہیں۔

قیمت کاتعلق اس بات سے ہے کہ اُس میں کون سافریق کون سی قدرجوڑرہاہے۔مثلاًاخباردفترمیں تیارہوتاہے،پریس میں طبع ہوکرکئی بچولیوں کی وساطت سے قارئین کے گھرتک پہنچتاہے۔قارئین اخبار کی جوقیمت اداکرتے ہیں اُس میں سے ان بچولیوں کوحصہ ملتا ہے۔اگرمڈل مین نکال دیے جائیں تواخبارکی قیمت کم ہوجائے گی۔اب تواخبارکوانٹرنیٹ کی مددسے کمپیوٹریاموبائل فون پرپڑھنے والوں کوزیادہ قیمت نہیں چُکاناپڑتی کیونکہ مڈل مین ہوتاہی نہیں لیکن اب اخبارکی ترسیل کرنے والوں نے اخباروالوں کواس بات پرآمادہ کرلیاہے کہ انٹرنیٹ پراخبارکوچندگھنتوں کے بعداپ ڈیٹ کیاجائے تاکہ ان کاصبح کے وقت ترسیل کا کاروبارچلتارہے۔اس نیٹ کی بدولت جہاں اخبارکی اشاعت میں کافی حدتک کمی واقع ہوگئی ہے وہاں انٹرنیٹ نے ان اخبارات کوقاری کے گھروں تک پہنچادیاہے۔اسی وجہ سے انٹرنیٹ کی وجہ سے موبائل فونز،لیپ ٹاپ،کمپیوٹرزکی سیل میں اضافہ ہوگیاہے۔

اس تکنیکی ترقی سے مڈل مین کادھنداہی چوپٹ نہیں ہورہابلکہ اوربھی کئی خطرات اُبھررہے ہیں۔سرمایہ کاروں کیلئےان خطرات کو سمجھنالازم ہے۔کچھ کچھ تووہ سمجھ ہی رہے ہیں۔تکنیکی ترقی(یعنی ٹیکنالوجیکل پیش رفت)سے وابستہ کمپنیوں کے شیئربھی اب مارکیٹ میں ہیں۔اشیائے خوردونوش اورروزمرہ استعمال کی دیگراشیاکی خریدوفروخت سے جُڑی ہوئی کمپنیوں کوزیادہ قبول کیاجا رہاہے۔ان میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کی جارہی ہے۔بیشترسرمایہ کاروں کوایسالگتا ہے کہ تکنیکی معاملات سے جُڑی ہوئی کمپنیوں میں سرمایہ کاری ہی بہترین حکمتِ عملی ہے کیونکہ ایسی صورت میں منافع کی شرح بڑھتی ہی جائے گی۔ کسی بھی
کمپنی کی منافع کمانے کی صلاحیت کے حوالے سے بہت کچھ دیکھناپڑتاہے۔سرمایہ کاروں کوتکنیکی کمپنیوں کے شیئرز میں بھرپوردلچسپی لینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ ایساکرنے سے کہیں اُن کاسرمایہ خطرے میں تونہیں پڑجائے گا۔کوئی بھی کمپنی اُس وقت تک ہی پُرکشش رہ سکتی ہے جب تک وہ زیادہ منافع کماتی ہے ۔اگرمنافع کمانے کی صلاحیت کمزورپڑجائے توسرمایہ کار اُس سے منہ موڑناشروع کرتے ہیں۔یہ بالکل فطری معاملہ ہے۔یہی سبب ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں آئے دن شدیدنوعیت کااُتارچڑھاؤ دکھائی دیتاہے۔تکنیکی کمپنیوں کابھی یہی معاملہ ہے۔

تکنیکی ترقی اپنے آپ میں بہت کچھ ہے مگرسب کچھ نہیں ہے۔اگرآج کوئی کمپنی تکنیکی اعتبارسے بہت اچھی ہے تواس کایہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ منافع کما کردیتی رہے گی۔بعض تکنیکی اداروں کے شیئرغیر معمولی قیمت کے ہوتے ہیں مگرجب گراوٹ آتی ہے توکوئی اُنہیں بچانے والانہیں ہوتا۔اس وقت سرمایہ کارتیزی سے تکنیکی کمپنیوں کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ یہ سب کچھ بظاہر بہت اچھادکھائی دے رہاہے مگربہت خطرناک بھی ہے۔تکنیک کی دنیامیں بہت کچھ بہت تیزی سے بدلتاہے۔یہی سبب ہے کہ بہت سے بڑے تکنیکی ادارے تیزی سے ابھرتے ہیں اورپھراُتنی ہی تیزی سے لاپتاسے ہوجاتے ہیں۔تحقیق وترقی کے شعبے میں کام اِتنازیادہ اوراِتنی تیزی سے ہورہاہے کہ بہت کوشش کرنے پربھی کسی تکنیکی کمپنی کیلئےوقت کے ساتھ چلناانتہائی دشوارہوتاہے۔کسی بھی ٹیکنالوجی کوآگے بڑھنے کیلئےبروئے کارلایاجاسکتاہے مگریہ لازم نہیں کہ ہرٹیکنالوجی ہمیں کچھ نہ کچھ دے کرہی جائے گی۔ کبھی کبھی ٹیکنالوجی بہت کچھ لے بھی لیتی ہے۔

سرمایہ کاروں کواب بہت سنبھل کرچلناہوگا۔جوکاروباری ادارے ٹیکنالوجی کاسہارالے کربیچ کے لوگوں کونکال رہے ہیں وہ ایک بہت بڑابحران پیداکررہی ہیں۔اس بحران سے بطریقِ احسن نمٹنے کیلئےسوچنالازم ہے۔ہرشعبے کے بچولیوں کوسوچناہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے معیشتی ڈھانچے میں وہ کس طورجی سکیں گے،کام جاری رکھ پائیں گے یانہیں۔پیداکاراورحتمی صارف کے درمیان سے سبھی لوگوں کے نکل جانے کی صورت میں معیشت کیلئےنئی الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں۔عام دکانداریاخوردہ فروش کومال سستاملے یہ اچھی بات ہے مگردیکھنایہ ہے کہ اس کا فائدہ حتمی صارف کوبھی مل پاتاہے یانہیں۔اگر نہیں توپھریہ ساری مشقّت کسی کام کی نہیں ۔بچولیوں کامنافع ختم کرکے اگرخوردہ فروش اپنامنافع بڑھالے گاتو نقصان میں صرف حتمی صارف رہے گا۔معیشت کوبہتر بنانے والے ذہنوں کواس حوالے سے بھی سوچناہوگا۔

تاہم اب یہ ثابت ہوگیاہے کہ نام نہادمنی بجٹ مکمل طورپرآئی ایم ایف کے مطالبے پربنایاگیااوراس کوپاس کروانااورپھراس کی رپورٹ آئی ایم ایف کے سامنے رکھناوہ ذمہ داری ہے جوحکومت نے خودقبول کی ہے اورقومی اسمبلی سے آئی ایم ایف کی شرائط پرمبنی منی بجٹ منظورکرانے کے بعداس پرعمل درآمد بھی شروع ہوچکاہے۔پہلی مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے باقی خوردونوش کی اشیاء کہ بے قابومہنگائی کوایک مرتبہ پھرپاکستانی عوام کاسانس بندکرنے کالائسنس مہیاکردیاگیاہے۔اس تمام تماشے کے بعداس پرعملدرآمدبھی شروع ہوگیا ہے۔منی بجٹ کے ساتھ خواہ مخواہ کی ہاکی کھیل کرنہ تواس سے جان چھڑائی جاسکتی ہے اورنہ ہی آئی ایم ایف کوغچہ دیاجاسکتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں