ارضِ وطن میں شدیدخشک سالی سے پانی کابحران شدت اختیارکرگیاہے،سندھ چونکہ دریائی نظام کے آخری سرے پرہے اس لئے روائتی طورپرنہ صرف زراعت کیلئے پانی کی دستیابی بلکہ پینے کیلئے پانی کی قلت میں بھی اضافہ ہورہاہے ۔ربیع کی فصل کیلئے آبی قلت 40٪تک ہونے کے باعث بھارت کی آبی دہشتگردی کابھی بڑادخل ہے۔بھارت سندھ طاس معاہدے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکرجارحیت کررہاہے۔پاکستانی دریاؤں کارخ موڑنے کے کئی منصوبے پاور پراجیکٹس کی آڑمیں مکمل کرچکاہے اورکئی زیرتعمیرہیں جن میں کشن گنگاپاورفل بھی شامل ہے جس کیلئے دریائے نیلم کاپانی طویل سرنگ بناکردریائے جہلم میں ڈال دیاگیاہے اورپاکستان کونہ صرف اس کے پانی کے حصے سے محروم کیا جارہا ہے بلکہ مظفرآبادکے قریب بسنے والے نیلم جہلم پاورپراجیکٹ کوبھی غیرمؤثربنانے کی سازش کی گئی ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں پاکستان کی حکومتوں نے بھارت کی آبی دہشتگردی کاجارحانہ دفاع کرنے کی بجائے معذرت خواہانہ روّیہ اختیار کیااورجب عالمی فورم پردفاع شروع کیاگیاتوبہت ساپانی پلوں کے نیچے سے گزرچکاتھا۔حالات بہت تبدیل ہوچکے تھے،پاکستان دشمن عالمی طاقتوں کی آشیربادحاصل رہی،پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافے کیلئے نئے ڈیمزکی تعمیرپر گزشتہ نصف صدی سے شدیدمجرمانہ غفلت برتنے کافائدہ بھی بھارت کوہوا۔اب بھی ڈیمزکی تعمیر کے معاملے کوقومی مسئلے کے طورپراٹھانے اورقومی اتفاق رائے سے جنگی بنیادپربھاشااوردیامرڈیمزکی تعمیر پرتوجہ دینے کی بجائے سیاست بازی کی نذرکیاجارہاہے ۔سرپر کھڑے پانی کی قلت کے بحران سے لہلہاتے کھیتوں میں مٹی ریت اڑنے کاکم ہی احساس کیاجارہاہے جوقومی المیہ ہے۔
پاکستان کوسیراب کرنے والے دریائی نظام کامنبع تبت اورلداخ کے فلک بوس پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔مقبوضہ کشمیر،آزادکشمیر،پنجاب سے دریا پنجندکے مقام پرجمع ہوئے اور دیائے سندھ سے گلے مل کراپناوجودمٹادیتے ہیں اورپھرکھاروچھان اس کی آخری منزل ہے جہاں بحریۂ عرب اسے اپنی آغوش میں لے لیتاہے۔بھارت اوّل روزسے ہی دریائی پانی کوپاکستان کے خلاف جنگی ہتھیارکے طورپراستعمال کرتارہاہے،بھارت نے مجبوراً پاکستان کے قیام کوقبول توکرلیالیکن اس کے وجودکوکبھی عملی طورپرتسلیم نہیں کیا۔ابھی چند روز قبل ہی پاکستان نے یکطرفہ کوششیں کرکے بالآخر بھارت کی نیم رضامندی سے نہ صرف بھارت بلکہ دنیابھر کے سکھوں کی تحصیل شکرگڑھ میں واقع مقدس عبات گاہ کی زیارت کیلئے بغیرویزہ آمد کیلئے کرتارپور بارڈرکھولنے کا عملی افتتاح کیا۔اس سے جہاں دنیابھرکے سکھوں میں خوشی کی لہردوڑگئی ہے وہاں مکاربنئے نے تقریب کے روزبھی اشتعال انگیزی میں کوئی کمی نہیں کی۔چانکیہ مکارانہ ذہنیت کی بھارتی قیادت ہمیشہ پاکستان کے وجودکے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ڈوگرہ مہاراج اور انگریزسے ساز باز کرکے ریڈکلف ایواڑجیسے دھوکہ کے تحت بھارت نے گورداسپورپرقبضہ برقراررکھاجہاں قادیانیوں کامرکز قادیان بھی واقع ہے اور اسی واحدزمینی راستے سے پھرکشمیرپرغاصانہ قبضے کیلئے اپنی فوجیں اتاریں اورسوچی سمجھی سازش کے تحت کیاگیا۔ایک تو قادیانیوں کے ذریعے اسلام اورمسلمانوں میں نظریاتی طورپرنقب لگانے کے انگریز کے سازشی منصوبے کاتسلسل برقراررکھناتھا،دوسرے جموں و کشمیر سے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کارخ موڑکر نوزائدہ مملکت کوریگستان میں تبدیل کرنے اس کامقصد تھا پاکستان سے محبت رکھنے والے جموں وکشمیر، گلگت، اوربلتستان کے غیورعوام نے بھارت کی جارحیت کابروقت مقابلہ کرکے کشمیرکےایک حصے کوواگزارکرالیااوربھارت نے اس دن کے بعدآبی دہشتگردی شروع کررکھی ہے۔
پاکستان اوربھارت میں اثاثوں کی تقسیم کیلئے قائم ٹریبونل میں بھارت نے یہ بیان دیاکہ دونوں ملکوں کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کاکوئی تنازعہ نہیں ہے لیکن 31مارچ1948ء کوجیسے ہی ٹریبونل ختم ہوا،اگلے ہی روزیکم اپریل کوپاکستان کے تینوں دریاؤں کاپانی بندکردیاگیا کیونکہ دریائے روای،ستلج اوربیاس پرریگولیٹربھارتی پنجاب میں واقع ہے جس پر پاکستان میں شدیدہیجان برپاہوا۔وزیراعظم لیاقت علی نے اس پرشدیداحتجاج کیا اورپنڈت جواہرلال نہروسے فوری طورپر پانی کی بحالی کامطالبہ کیا جبکہ پاکستان نے عالمی سطح پر بھارت کی اس دہشتگردی پرآوازاٹھائی ۔یوں کئی ہفتوں تک پاکستانی پنجاب کاعلاقہ کلی طورپردریائی پانی سے محروم رہااورپھر وزیر خزانہ غلام محمدکی قیادت میں تین رکنی وفدبات چیت کیلئے بھارت گیاجس میں میاں ممتازدولتانہ اورسردارشوکت شامل تھے۔بات چیت کے نتیجے میں4مئی1948ء کوبھارت نے پاکستانی دریاؤں کاپانی بحال کر دیااور بھارت کے شروع کردہ اس تنازعے سے سندھ طاس معاہدے کی ابتدا ہوئی توورلڈبینک کی نگرانی میں بالآخر19ستمبر1960ء کوکراچی میں فیلڈ مارشل ایوب خان اورپنڈت جواہرلال نہرونے اس معاہدے پردستخط کئے۔
دریائے سندھ کامنبع تبت کے فلک بوس برفانی پہاڑی سلسلے میں جموں وکشمیرسے ہوتاہوا پاکستان میں داخل ہوتاہے۔دریائے جہلم دریائے چناب کا معاون ہے،جموں وکشمیرسے نکلتا ہے اورپاکستان میں آتاہے۔دریائے چناب ،دریائے سندھ کامعاون ہے اورجموں وکشمیرسے پاکستان میں آتاہے، دریائے بیاس دریائے ستلج کامعاون ہے جوبھارت سے نکل کرویس آتاہے۔دریائے ستلج دریائے سندھ کامعاون ہے جوتبت سے نکلتاہے اوربھارت سے ہوتاہوا پاکستان میں آتاہے۔ اس طرح دریائے کابل بھی دریائے سندھ کامعاون ہے جوافغانستان سے نکل کرپاکستان میں داخل ہوتاہے۔سندھ طاس معاہدے سے دریائے راوی،بیاس اورستلج مکمل طورپربھارت کے حوالے کردیئے گئے۔ٹریبونل میں تسلیم کیاتھاکہ پاکستان سے اس کادریائی پانی کی تقسیم کاکوئی تنازعہ نہیں لیکن چانکیہ ذہنیت جواہرلال نہروسمیت بھارتی قیادت نے مکاری سے کام لیااورپاکستان کی طرف سے دریاؤں کاپانی بندکردیا۔دنیامیں کئی ایسے دریاہیں جوکہ مختلف ملکوں سے بہتے ہیں اورانہیں سیراب کرتے ہیں،یہ دریائی پانی ان ملکوں میں بین الاقوامی اصولوں اور علاقائی حالات کے مطابق تقسیم ہے لیکن سندھ طاس معاہدہ اس لحاظ سے عالمی ناانصافی کاشاہکارہے کہ اس میں دریاؤں کوتقسیم کاحق دیاگیاہے۔ اس کانتیجہ ہے کہ بھارت نہائے مکاری کے ساتھ اپنے حق اوراختیارسے تجاوزکرتے ہوئے پاکستانی دریاؤں اوران معاون دریاؤں پرڈیم تعمیرکرتاچلاجا رہاہے اوران دریاؤں کامستقل بنیادوں پررخ موڑنے کیلئے سازشی منصوبوں پرتیزی سے عمل کررہاہے۔
بھارت نے پاکستان کوکبھی بھی ایک لمحے کی بھی رعائت نہیں دی ،تین جنگیں پاکستان پرمسلط کیں۔ملکی دہشتگردی کرکے مشرقی بازوعلیحدہ کردیا،سیاچین پرجارحیت کرکے قبضہ کیا، سرکریک کاتنازعہ کھڑاکیاہواہے۔،آئے روزپاکستان اورآزادکشمیرکی سرحدوں پرتوپوں سے گولہ باری کرکے بے گناہوں کاقتل جاری رکھے ہوئے ہے ۔مقبوضہ کشمیرمیں عورتوں، بچوں،بزرگوں اورجوانوں کاپچھلی سات دہائیوں سے قتل عام جاری ہے۔ سات لاکھ فوج نے ہرقسم کے جدیداسلحے سے دہشت،ظلم وبربریت کابازارگرم کیاہواہے۔بدترین اذیت خانوں میں حریت پسندسیاسی رہنماء اور کارکن،درندگی کانشانہ بنائے جارہے ہیں۔معصوم بچے بھی بھارتی درندوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں اوراس کے تسلسل میں بھارت نے پاکستان کے دریاؤں کے پانی کوکنٹرول کرنے کانظام وضع کرلیاہے اوروہ جب چاہے پاکستان کوسیلاب میں ڈبوسکتاہی اورپانی سے محروم کرکے بربادی لاسکتا ہے۔اس وقت پاکستان میں ربیع کاموسم ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اگرموسمی حالات ہی ایسے ہی رہے توماہرین کی رائے ہے کہ آئندہ 16سال تک ربیع کے موسم میں سندھ میں پانی میں پانی کی
قلت کاتناسب 43٪تک رہے گا۔سندھ کومعاہدہ آب کے تحت گزشتہ ہفتے تک 1482ملین ایکڑفٹ پانی ملناچاہئے تھامگر9.291ملین ایکڑفٹ ملا ہے اور31 مارچ تک 033.6ایم اے ایف پانی دستیاب رہے گا۔ستمبرکے پہلے ہفتے میں گدوبیراج پر2.60،سکھرپر31.40اورکوٹری پر5ہزارکیوسک پانی معاہدہ آب کے تحت دستیاب رہناچاہئے لیکن چندروزقبل اعدادوشمارکے مطابق گدوبیراج پر4255 کیوسک ڈاؤن اسٹریم پر3598کیوسک، سکھربیراج اسکریم پرپانی کابہاؤ30835اورڈاؤن اسکریم پر 5500 کیوسک تھا جبکہ کوٹری بیراج پربہاؤ 4796کیوسک تھااورڈاؤن اسٹریم پانی گزشتہ تین ماہ سے بندہے۔کوٹری بیراج صفائی اورمرمت کیلئے 25 دسمبرسے 10 جنوری تک پانی کی فراہمی بندرہے گی،نہروں میں پانی نہیں ہو گا جبکہ شہروں کیلئے بھی بندہوگا،سندھ میں چونکہ زیرزمین پانی 85٪سے زائدعلاقوں میں کڑواہے،اس لئے شہری ،دیہی آبادیوں،مال مویشی، چرند وپرندسب کاانحصاردریائی اورجھیلوں کے پانی پرہے۔
حیدرآبادکیلئے ابھی سے پانی کی قلت بڑھ رہی ہے اورشہری سخت پریشانی سے دوچارہیں۔پانی کتنا آلودہ ہے یہ الگ موضوع ہے۔کے بی فیڈربذریعہ کینجھر جیل ٹھٹھہ کراچی کوپانی فراہم کرتی ہے اس لئے کوٹری بیراج سے سپلائی اس نہرمیں بھی بندرہے گی۔اکرم واہ،اولڈپھلیلی ،نیوپھلیلی ،نہریں جوزیریں اضلاع ٹھٹھہ بدین،ٹنڈومحمدخان کوسیراب کرتی ہیں ،ان سے بھی پینے کاپانی دستیاب نہیں ہوگا۔کوٹری بیراج میں کھاورجھان تک توپانی چندہفتے یاچندماہ ہی کبھی جاتاہے اس لئے ماحولیات پرتباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ سمندر کو آگے روکنے کیلئے کھارے اوردریائے میٹھے پانی سے پیدا اورپروان چڑھنے والے مینگروزکے جنگلات بھی بہت محدودہوگئے ہیں۔ان کیلئے معیشت کیلئے پیداہونے والا سائمن پلامچھلی اوردیگر مچھلیاں بھی ناپیدہوگئیں ہیں۔سب سے بڑانقصان یہ ہواکہ سرکاری اعدادوشمارکے مطابق 20لاکھ ایکڑزرخیززمین سمندرہڑپ کرگیاہے۔ سمندرکو پیچھے دھکیلنے اورسمندرمیں بہاؤکے ساتھ ریت لیجانے کیلئے ڈاؤن اسکریم پر7سے 10 لاکھ ملین ایکڑپانی کاسالانہبہاؤ اشدضروری ہے جو دریائی نظام میں پانی کی شدیدقلت کے باعث ناپیدہے۔صرف سیلاب کے ایّام میں پانی اب سمندرمیں جاتاہیاوریہی پانی پاکستان کیلئے مسئلہ بناہوا ہے۔
سیلابی پانی کوروک کراستعمال کرنے کاہم نے کوئی انتظام نہیں کیا،بھارت اسے ہی دلیل کے طور پرہمارے خلاف استعمال کررہاہے کہ پاکستان دریائی پانی ضائع کررہاہے،اسے پانی کی ضرورت نہیں۔سب سے زیادہ سیاسی اورفنی طورپراب متنازعہ کالاباغ ڈیم کامنصوبہ1952ء میں فائلوں کی زینت بناتھا،1956ء میں اس کے قابل عمل ہونے کے حوالے سے تمام حقائق پرمشتمل رپورٹ تیار کی گئی جسے واپڈاکی مشیرفرم نے 1958ء میں پوری جانچ پڑتال کے بعدمکمل قابل عمل اورمفید ہونے کی منظوری دی تھی ،پھر 1964-65 ء میں مشاورتی فرم چارلس لی مین نے اس رپورٹ پر نظرثانی کی اوراس کی تصدیق کردی اورتجویزکیاکہ ڈیم کی سطح کوسمندرسے 925فٹ بلندرکھا جائے۔بہرحال سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں یہ ڈیم پس منظرمیں چلاگیا۔
واپڈاکی مختلف نوعیت کی حماقتوں اورمجرمانہ سیاسی مفادات اورسازشوں کی وجہ سے اب اسے قدرے متنازعہ منصوبہ بنادیاگیاہے اورپیپلزپارٹی کی حکومت نے تواس کی باقاعدہ تدفین کردی ہے اور آئندہ عشروں میں اس پرعملدرآمدکاکوئی امکان نہیں لیکن بھاشااوردیگرڈیمزجن پرپہلے سے قومی اتفاق رائے تھا،تین چارعشروں میں ان کی تعمیرپربھی فوجی اورسول حکومتوں نے توجہ نہیں دی اورکئی قسم کے بحران میں گھرے ہوئے ہیں۔بھاشا ڈیم تیزرفتاری سے تعمیرکرنے کیلئے قومی اتفاق رائے پیداکرنے کی بجائے اسے بھی متنازعہ بنایاجارہاہے جوقومی مفادکے نہ صرف خلاف بلکہ خطرناک ہے جبکہ بھارت اب تک درجنوں ڈیمز بناچکاہے اورمزیدتیزی سے بنارہاہے اورسندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیررہا ہے اورافغانستان کوفنی ومالی امدادفراہم کرنے کی پیشکش کرکے دریائے کابل سے پاکستان کی طرف بہنے والے دریائے کابل پرڈیم تعمیرکرکے پاکستان کاپانی بندکرکے خیبرپختون خواہ کے علاقوں کوبنجرکرنے کیلئے پاکستان کے خلاف ایک خطرناک سازش میں مصروف ہے۔پانی کے حوالے سے افغانستان کے ساتھ پاکستان کاکوئی ایسا سمجھوتہ نہیں ۔افغانستان سے دریائے کابل میں بہت ست برساتی ندی نالے بھی پاکستان کی طرف بہتے ہیں اوراس دریامیں شامل ہوتے ہیں اورکے پی کے اضلاع پشاور،نوشہرہ،چارسدہ میں زراعت کا انحصار اسی پرہے۔دریائے کابل پربھی 1960ء کی دہائی میں وارسک پاور پراجیکٹ لگایا گیاتھاجو343میگاواٹ بجلی پیداکرنے کی گنجائش رکھتاہے۔اس آبی ذخیرے سے کے پی کے کی پانی کی ایک چوتھائی ضرورت پوری ہوتی ہے۔بھارت افغانستان میں بیٹھ کرہماری سرحدوں کے اندرصرف دہشتگردہی نہیں بھیج رہابلکہ افغانستان سے آبی دہشتگردی کیلئے تمام اثرو رسوخ اوروسائل استعمال کررہاہے۔
دریائے سندھ طاس کے آبی نظام میں کبھی 190ملین ایکڑ فٹ پانی بہتاتھامگرسندھ طاس معاہدے اوربدلتے ہوئے موسمی حالات نے پورے آبی نظام کوتلپٹ کردیاہے۔اس کے نتیجے میں صوبوں میں پانی تقسیم کے جھگڑے شروع ہوئے خصوصاً1980ء کی دہائی سے سندھ اورپنجاب اکثراور کبھی کبھاربلوچستان آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔مارچ 1991ء میں پاکستان میں صوبوںکی پانی کی تقسیم کاپہلامعاہدہ طے پایاجووفاق اورصوبوں سب کی کامیابی تھی اوراب اس صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعدآئینی قانونی جمہوری لحاظ سے تسلیم شدہ معاہدہ ہے مگرجس طرح بھارتی جارحیت بڑھ رہی ہے اورقدرتی طورپرخشک سالی بڑھ رہی ہے۔دیہاتی نظام میں پانی کی قلت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے،اس معاہدے میں تقسیم114.35ملین ایکڑپانی جواصل میں104ملین ایکڑفٹ تھا،وہ بھی دستیاب نہیں اور صوبوں میں آپس میں شکایات بڑھ رہی ہیں ایسے میں قومی اتفاق کی جنگی بنیادوں پر نئے ڈیمزکی تعمیر، زراعت سمیت ہرطرح جدیدٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کے کفایت شعاری سے درست استعمال کوجہاں یقینی بنانے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔وہی بھارت کی آبی دہشتگردی کے خلاف بھی ملکی سطح پراوربین الاقوامی فورم پر بڑی تحریک شروع کی جانی چاہئے۔
بانی پاکستان نے جموں وکشمیرکوپاکستان کی شہ رگ ایسے ہی قرارنہیں دیاتھا،ان کی نیم فراست اوربصیرت کی ایک دنیامعترف تھی۔ذراسرسری نظر سے بھی دیکھاجائے توپاکستان پانی کے سلسلے میں خطہ جنت نظیرجموں وکشمیرکامحتاج ہے اورکشمیرکے بغیرپاکستان ادھوراہے۔ مقبوضہ کشمیر کے بہادر عوام دراصل پاکستان کی سلامتی،بقاء ترقی اورخوشحالی کی جنگ لڑرہے ہیں اورتاریخ سازقربانیاں دے رہے ہیں مگرہم اپنے ازلی دشمن بھارت کے ہاتھ میں اپنی شہ رگ ہوتے ہوئے بھی اپنے حال میں مست ہیں اوراسے چھڑانے کیلئے نمائشی اقدامات کےسواکچھ کرنے کوتیارنہیں بلکہ باہم دست وگریباں ہوکرپاکستان کی نظریاتی بنیادپرکلہاڑے چلاکرکشمیری عوام کی قربانیوں کامذاق اڑارہے ہیں۔نہرودورمیں آنے والے حکمرانوں کے وعدے،دعوے ،مفادات اپنی جگہ اسٹیبلشمنٹ کی ضروریات بھی متغیررہتی ہیں لیکن اب قومی سطح پربے حسی اپنے اپنے خول میں بندرہنے کا وقت نہیں رہایاشائدقدرت کاملہ کی طرف سے بھی دی گئی مہلت ختم ہورہی ہے۔اب وقت آگیاہے کہ بحیثیت قوم تمام قوتوں نے متحدہوکرپاکستان کی نظریاتی اساس کومضبوط کرنے،وفاق کی تمام اکائیوں کوبرابری کی سطح پراحترام اورحقوق دینے اورجموں وکشمیرکے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کرانے کیلئے بڑے پیمانے پرجدوجہدمنظم کرنے چاہئے۔
دریائے چناب پربھارت نے 1999ء میں بگلیہارڈیم کی تعمیرشروع کی تھی۔450میگاواٹ کاپاور پراجیکٹ لگانے کایہ منصوبہ تھا،اس پربروقت پاکستان نے علاقائی اورعالمی سطح پراٹھائی ،اس منصوبے میں ایسے گیٹ نصب کئے گئے کہ دریاکاپانی روکاجاسکے جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت صرف دریائی پانی کے بہاؤ پربجلی تیارکرنے کاپروجیکٹ لگاسکتاہے نہ پانی کارخ موڑسکتاہے اورنہ ہی ذخیرہ کرسکتاہے۔اس سے 7 سے 8 ہزار کیوسک پانی روزانہ کی پاکستان کوکمی کاسامناہوسکتاہے۔پاکستان نے تعمیراتی کام شروع ہونے سے دوسال بعدآوازنکالی اور پاکستان کے وفدنے 9/ اکتوبر2003ء میں انڈس کمیشن کے سربراہ جماعت علی شاہ کی قیادت میں مقبوضہ کشمیرمیں منصوبے کادورۂ کرکے ڈیزائن اوردروازے لگانے پر اعتراضات کئے۔اسرائیل کی مددسے بھارت نے منصوبے پرکام تیزکردیااورہماری فوجی حکومت امریکاکی کی خوشنودیٔ کیلئے ورلڈبینک فورم پراسے چیلنج کرنے سے گریزکرتی رہی۔سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 2-11میں واضح طورپرکہاگیاہے کہ بھارت اس بات کاپابندہوگاکہ وہ مغربی دریاؤں (سندھ،چناب اور جہلم)کاپانی(پاکستان کی طرف)پورے بہاؤسے بہنے دے اوران کے پانی بہاؤمیں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہ دیں ۔اس میں ان دریاؤں کے معاون ندی نالے دریاکے پاٹ کو ملانے والے تالاب جھیلیں(مام) کی اصطلاح کے ساتھ شامل کئے گئے ہیں،ان میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاسکتی۔ دریائے جہلم کاپانی ورناگ اورچناب کاپاٹ چندرااوربھاگاندیوں کے سنگم تک معاہدے میں تسلیم کیاگیاہے۔دریائے سندھ سے بھارت استعمال کیلئے 0.25ایم اے ایف اور بجلی پیدا کرنے کیلئے 0.15ایم اے ایف اورسیلاب کنٹرول کرنے کیلئے 0.75ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرسکتا ہے لیکن دریائے جہلم کے اصل پاٹ پراس کاکوئی حق نہیں بنتامگربھارت تینوں دریاؤں پرجارحیت کررہاہے اوربڑی نقب لگارہاہے۔
مگربگلیہارڈیم کے ذریعے بھارت نے دریائے چناب کا30ہزارکیوسک پانی چراکرجمع کیااوراس کے بعددریاکابہاؤ صرف 20ہزارکیوسک رہ گیا۔ دریائے جہلم مقبوضہ کشمیرسے نکلتاہے اوریہ دریائے چناب کامعاون ہے ،اس پرکشن گنگاپاورپراجیکٹ قائم کرکے بڑی تخریب کاری کی گئی ہے۔ آزادکشمیرسے بہنے والے دریائے نیلم کے پانی کارخ موڑکرسرنگ کے ذریعے اس پاورپلانٹ کے قریب دریائے جہلم میں ڈالاگیاہے ۔گزشتہ جون میں مودی نے کرفیوکے ماحول میں 330میگا واٹ کے ایس پاورپراجیکٹ کا افتتاح کیا تھا۔اس کی تعمیر2007ء میں شروعکی گئی تھی اوربھارت 67کے قریب ڈیم بنارہاہے جن میں تین درجن سے زائدمکمل ہوچکے ہیں اورباقی پرکام جاری ہے۔ بظاہرکشن گنگاکانام بھی ان آف دی ریوہائیڈرو الیکٹرک اسکیم میں دستاویزات میں رکھاگیاہے لیکن عملاً اس کامقصددریائے نیلم کارخ موڑناہے۔پاوراسٹیشن تودریائے جہلم پرلگایاگیاہے لیکن مظفر آباد آزادکشمیرکے دریائے نیلم کامقبوضہ کشمیرحدودسے رخ موڑدیاگیاہے۔اس کیلئے 24کلومیٹرلمبی سرنگ کھودی گئی ہے جوبانڈی پورپرسے تین کلو میٹرفاصلے پرواقع پاورپلانٹ تک لیجائی گئی ہے،یہاں سے وولرجھیل میں پانی ڈالاجاسکتاہے جہاں پہلے حریت پسندوں نے آبی ذخیرہ بنانے کی بھارتی کوشش ناکام بنادی تھی۔یہ جھیل بڑی سیاحتی مرکزہے اوربھارت اب بھی یہاں ڈیم بنانے کی کوشش کررہاہے۔بھارت مقبوضہ کشمیرکے عوام پرصرف کھلم کھلاجارحیت اورظلم وستم ہی نہیں کررہابلکہ ان کے معدنی وسائل کوبھی بڑے پیمانے پرلوٹ رہاہے۔مقبوضہ کشمیرسے بجلی تیار کرکے ملحقہ بھارتی پنجاب کے علاقوں میں ٹرنسمیشن پربھی بڑے پیمانے پرکام کررہاہے۔سرنگ کی حفاظت کیلئے وسیع پیمانے پرسیکورٹی انتظامات کر رکھے ہیں اورمقبوضہ کشمیرکوسات لاکھ فوج کی مددسے مکمل طورپرایک فوجی چھاؤنی یادنیاکی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کرچکاہے اورجنت نظیر کے باسیوں کیلئے زندگی کوکسی جہنم کے عذاب میں تبدیل کرچکاہے۔
ریکارڈسے پتہ چلتاہے کہ بھارت نے اس ڈیم پر2007ء میں کام شروع کیاتھا،اس سے پہلے 1994ء میں پاکستان کومنصوبے کی تعمیرسے آگاہ کیا تھا مگراس پورے عرصے میں ہماری حکومت کی مجرمانہ غفلت اورنالائقی کی بناء پراس معاملے کوسنجیدگی سے نہیں لیاگیااوراس انتہائی اہم اور ملکی زیست وحیات کے مسئلے پرٹھیک 16سال بعد2010ء میں عالمی ثالثی عدالت کے سامنے جب اعتراضات اٹھائے گئے تواس وقت تک تعمیراتی کام بھی بہت آگے بڑھ چکاتھااورعالمی حالات بھی بھارت کے حق میں ہوچکے تھے،اس لئے ورلڈبینک نے پاکستا ن کی اشک شوئی سے زیادہ کچھ نہیں کیا اوربھارت کوشہ دی جس کے بارے میں 1995ء میں ذاتی طورپرمقتدرحلقوں کواس اہم موضوع کے بارے میں تفصیلاًبتایاتھااورایک مرتبہ پھرباقاعدہ جون 2018ء میں اپنے دومضامین میں دہائی دے چکاہوں لیکن کسی نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔سمجھ میں نہیں آتاکہ ارضِ وطن کے ساتھ اس مجرمانہ فعل پر کس کے خلاف اورکہاں مقدمہ دائرکیاجائے؟
دریائے نیلم کوبھارتی کشن گنگادریاکہتے ہیں جووادیٔ نیلم سے ہوتاہوامظفرآبادکے قریب دومیل کے مقام پردریائے جہلم میں شامل ہوجاتاہے اور یوں یہ دریائے جہلم کامعاون بھی ہے۔بھارت نے اسکے قدرتی بہاؤ کارشتہ کاٹ کراپنی طرف موڑنے میں کامیاب ہوگیاہے اوریہ اب اپنے پورے قدرتی بہاؤ کے ساتھ وادیٔ نیلم میں نہیں بہے گااوروسیع علاقہ پانی سے محروم ہوجائے گا۔اب نیل کاپانی وولر جھیل میں ڈال کربارہ مولاکے مقام پراسے دریائے جہلم میں شامل کر دیاگیاہے۔وادیٔ نیلم کی آبادی کیلئے بھارت کی آبی دہشتگردی کے نتائج انتہائی خوفناک اوربھیانک ہوں گے۔ 250مربع میل پر پھیلی وادی اجڑجانے کاخطرہ منڈلارہاہے کیونکہ یہاں بارشیں بھی نہیں ہوتیں۔زراعت سمیت معیشت کاانحصاردریائے نیلم پرہی ہے ۔41 ہزارایکڑسے زائدرقبہ اس سے سیراب ہوتاآرہاہے ۔ماہرین کااندازہ ہے کہ دریائے جہلم میں آنے والے پانی میں 27٪کمی ہو جائے گی جوبڑے نقصان کا باعث ہوگی۔
پاکستان نے دریائے نیلم کے بہاؤ پر969میگاواٹ کانیلم جہلم پاورپراجیکٹ تعمیرکررہاہے جس کے 4یونٹ میں یہ مظفرآبادسے جنوب کی طرف 22 کلومیٹرپرواقع ہے۔یہاں دریائے نیلم ،دریائے جہلم میں گرتاہے،اس منصوبے پر2008 ء میں کام شروع ہواتھا۔منصوبہ گزشتہ سال مکمل ہوجاناچاہئے تھالیکن درمیان میں تاخیرکاشکارہورہاہے اوربھارت بھی اس کوناکام بنانے کی سازشیں کررہاہے ۔۔گزشتہ اپریل میں اس کا242میگا واٹ کاایک یونٹ مکمل ہواہے۔ماہرین کااندازہ بھارت کے دریائے نیلم کے پانی کارخ موڑکر بارہ مولاکے قریب دریائے جہلم میں ڈالنے کاجو اشتعال انگیزاورسندھ طاس معاہدے کی روح کے خلاف قدم اٹھایاہے اس سے پاکستان کی طرف دریائے نیلم کابہاؤکم ہونے سے نیلم جہلم پاور پراجیکٹ سے بجلی کی پیداواربھی 23٪سے زیادہ متاثرہوگی،یوں منصوبے کی افادیت کافی متاثرہوگی۔کہاجارہاہے کہ اس وقت قاتل انتہاء پسند مودی بھارت میں حکمران ہے اس لئے پاکستان کے خلاف انتہاء پسندانہ اندازاورجارحانہ اقدامات میں اضافہ ہوگیاہے۔
یہ غلط فہمی ہے کہ اندراگاندھی سیکولراورمعقول مزاج کانگرس خاندان کی چشم وچراغ تھی لیکن اس نے پاکستان کودولخت کرنے میں کلیدی کردارادا کیااورپھراعلان کیاکہ دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبودیاہے۔بھارت میں چانکیہ سیاست کاعلمبردارجو ھکمران بھی آئے گاوہ اسلام،مسلمان اور پاکستان دشمن میں پچھلے سے دوہاتھ آگے ہوگا۔اس لئے حکمران طبقات ،اسٹیبلشمنٹ،سب صاحب اختیاراورعوام کی نمائندگی کرنے والوں کو سمجھناچاہئے کہ پاکستان کے استحکام بقاء سلامتی اورترقی کا صرف اورصرف ایک ہی راستہ ہے کہ آئین پاکستان کی اصل روح نظریہ اسلام اور مکمل قرآن کی حاکمیت کے نظام کے مطاق مملکت کوچلایاجائے اورلبرل ازم،سیکولرازم اور ترقی پسندون کی بھول بھلیوں سے بچاجائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تواللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت سے محرومی قوم کامقدربن جائے گی اوراس کاتجربہ ہم پچھلی سات دہائیوں سے دیکھ بھی رہے ہیں۔ہم پہلے ہی چاروں طرف سے ایسے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں جوہمیں ہرلمحہ مٹادینے کی عملی سازشوں میں مصرووف ہیں لیکن قادرِ مطلق خالقِ کائنات ہی ہے جوبدترین حالات ،وعدہ خلافیوں اورہماری نافرمانیوں کے باوجودہمارے لئے سلامتی کاراستہ پیداکردیتاہے اوراس نے نہ صرف ہمیں جوہری طاقت بلکہ بہترین میزائل سسٹم کے ساتھ سرفروشانہ جذبے والی افواج کی نعمتوںسے نوازرکھاہے اورہرطرح کے مادی وسائل بھی وافرعطاکررکھے ہیں لیکن مسلسل ناشکری اور بغاوت سے ہم خوداپنی راہیں مسدودکرتے نظرآرہے ہیں۔
آخرمیں مجھے آج شدت سے علامہ عنائت اللہ خان المشرقی کا جیکب آبادمیں 4مارچ 1953 ء کا خطاب یادآرہاہے جس میں انہوں نے پاکستان کے دریاؤں کے رخ بدلنے کا فکر انگیز انتباہ کیاتھا کہ ”یاد رکھو!کشمیر آزاد نہ ہوا تو پانی کے قطرے قطرے کو ترس جا ؤگے۔کروڑوں انسان پانی کے ایک ایک گھونٹ اور روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہوں گے۔کشمیر کے پہاڑوں میں بڑی خاموشی سے پانچ دریاں کے رخ بدلے جا رہے ہیں اور مغربی پاکستان کو سیراب کرنے والے ان دریاؤں کا پانی جے پور، جودھ پور اورجیسلمیر جیسے صدیوں کے بنجر علاقوں کو آباد کرنے پر منتقل کیا جارہا ہے، میں نے اس سلسلے میں تعمیر ہونے والے ہیڈ ورکس کی پوری تفصیل منظر عام پر رکھ دی ہے۔میرا خیال تھا کہ یہ انکشاف پاکستان کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دے گا، میں یہ چیخ چیخ کرتھک گیا کہ آنکھیں کھولواور پاکستان کو موت سے بچا لو لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی الٹا میرے صور اسرافیل سے تنگ آکر مجھے میانوالی جیل خانے میں پہنچا دیاگیا۔ اگر مجھے جیل بھیجنے سے پاکستان کی جان بچ سکتی ہے، اگر میری نظر بندی سے بھارت کے منصوبے مٹی میں ملائے جا سکتے ہیں اگر میری قید سے یہ بھارتی سازش ناکام ہو سکتی ہے تویہ ڈیڑھ سال کیامیں عمر بھر جیل کی کوٹھڑی قبول کرنے کو خوشی سے تیار ہوں، لیکن حکومت کا یہ رد عمل تو صاف گواہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنی میٹھی نیند میں خلل گوارا کرنے کو تیار نہیں اوراس کی آنکھ اس دن کھلے گی جب سارا مغربی پاکستان ویران ہوچکا ہو گا۔ کروڑوں انسان پانی کے ایک ایک گھونٹ اور روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہوں گےلیکن یاد رکھو کہ اس دن جا گ اٹھنے سے اس قیامت کا ٹلنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لئے ابھی وقت ہے آنکھیں کھولو، دماغی عیاشی کے کھیل کو کچھ مدت کے لئے بھول جاؤاوراس موت سے بچنے کا چارہ کروجو دریاؤں کے رخ بدلنے سے پورے ملک میں جھومتی ہوئی بہاروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ تم پانی کے ایک ایک قطرے کوترس جاؤگے،تمہارے لہلہاتے ہوئے کھیت بنجر زمینوں میں تبدیل ہو جائیں گے اور اس وقت تمہاری یہ علمی اور سیاسی بحثیں کچھ کام نہ دیں گی!
نہ سمجھوگے تومٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ گی داستانوں میں