دنیامیں سب سے مہذب اورمتمدن ہونے کے سب سے قدیمی دعویداراورمغربی ملک برطانیہ میں ان دنوں تحمل،برداشت، رواداری اورمساوات کے خلاف ایک دہشتگردانہ مہم بروئے کارہے۔تین اپریل کادن برطانیہ میں مسلم کوسزا دینے کیلئے مقررکیاگیاتھا لیکن اللہ کاشکرہے کہ اس دن خوف اوردہمکیوں کے باوجودایسا کوئی سانحہ سامنے نہیں آیاالبتہ ایک خوف کی کیفیت بہرحال محسوس کی گئی۔یہ درحقیقت جرم ضعیفی کی سزاہے۔ اس کیلئے برطانیہ کے اندر اورباہرہرجگہ مسلم انتہاء پسندوں کوتیارکرنے کیلئے ترغیبات دینے کیلئے ایک خط جاری کیاگیاتاکہ ایک دوسرے سے بڑھ کرمسلمانوں کوٹارگٹ کریں۔یہ دھمکی آمیزخط سوشل میڈیاکے علاوہ ٹی وی چینل پربھی وائرل ہوا جس میں اس متعصبانہ اقدام پرناپسند یدگی کا اظہارتوکیاگیالیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کاخوفزدہ ہوناایک قدرتی امرتھا۔
مسلمانوں کی جان ومال ہی نہیں،عزتوں،دینی مراکزحتیٰ کہ مساجداورخانہ کعبہ کوٹارگٹ کرنے اور بم سے اڑا نے کے پوائنٹس مقررکیے گئے ہیں۔ کھلے عام ہی نہیں بلکہ فعال اورحساس برطانوی اداروں،تحقیققاتی محکمے اورمتحرک برطانوی پولیس کی ناک کے عین نیچے یہ پوائنٹس اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ جوکوئی بھی مسلمان خاتون کے سرسے اسکارف یادوپٹہ نوچے گا۔اسے اس کے بدلے مہم کے منتظمین کی طرف سے ۲۵پوانٹس،کسی مسلمان کے منہ پرتیزاب یاایساہی کوئی خطرناک ایسڈپھینکنے پر۵۰پوائنٹس طے کئے گئے ہیں۔کسی بھی مسلمان کوقتل کرنے کے۵۰۰ پوائنٹس جبکہ مسجدکوبم سے اڑانے کیلئے ایک ہزارپوائنٹس ملیں گے۔بدبختی،نفرت،انتہاء پسندی اوردہشتگردی کی یہ مہم یہیں رک نہیں گئی بلکہ بعض دعوؤں کے مطابق اسے اورآگے بڑھاتے ہوئے خانہ کعبہ کوبھی (معاذاللہ)اڑانے کیلئے پندرہ سوپوائنٹس رکھے گئے ہیں۔گویادہشتگردانہ سوچ کی بنیادپرشروع کی گئی اس برطانوی شہریوں کی مہم کادائرہ بین الاقوامی نوعیت کاہے اور برطانیہ سے باہربھی نفرت،تشدداور دہشتگردی کی مہم کو برطانیہ کے اندر ہی سے منظم کیاجائے گا۔
دہشت انگیزمہم کی وجہ سے برطانیہ میں رہنے والے لاکھوں مسلمانوں اوران کے اہل خانہ کیلئے ہی نہیں بلکہ ان کے درجنوں مسلم ممالک میں موجود والدین ،رشتہ دار،اوربیوی بچے بھی ایک کرب اوراذیت سے دوچارہیں کہ برطانیہ جس میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نفرت میں پچھلے دو برسوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔سب مسلمان نہ صرف لندن اوربرطانیہ کے دوسرے شہروں کواپنے لیے اب خطرناک ہوتاہوادیکھ رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقوام کی برطانوی عوام میں متحرک تنگ نظرعوامل سے خوفزدہ ہیں۔یورپی یونین سے برطانیہ سے نکلنے کیلئے کرائے گئے ریفرنڈم کے بعددوسرے ممالک اوراقوام کے شہریوں کوبرطانیہ ایک بڑے عالمی،تجارتی،سیاسی وسفارتی مرکزکے طورپر نہیں بلکہ تعصب اورنفرت کی ایک تنگ گلی میں تبدیل ہوتامحسوس ہورہاہے۔یقیناًاس کااظہارخودبرطانیہ نے اپنے آپ کویورپی یونین سے الگ کرنے کے فیصلے سے پہلے کیا ہے ۔
ظاہرہے جب برطانیہ اوراس کے شہری یورپی یونین کے رکن ممالک کی اپنے ہاں آمدورفت سے تنگ ہیں اوران کی طرف سے ہونے والی امیگریشن کواپنے لیے سخت خطرناک خیال کرتے ہیں۔ یورپی دنیا سے ہٹ کردوسرے ممالک کوبالعموم اوراسلامی ممالک کوبطورخاص ناپسندیدہ اور نفرت کاہدف کیوں نہیں بنائیں گے۔اسی پس منظرمیں برطانیہ میں بڑھتی ہوئی نفرت کی فصل کی پیمائش اس سروے سی کی جاسکتی ہے کہ جس میں بتایاگیاہے کہ پچھلے سال برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں۶۵٪ااضافہ ہوا جبکہ برطانوی پارلیمنٹ میں ارکان پارلیمنٹ کی تقریریں بتاتی ہیں کہ رواں سال کے پہلے مہینے میں مسلم دشمنی میں یہ اضافہ ۴۰٪کوچھو چکا ہے۔مسلمان بیٹیوں اورخواتین کے سروں سے دوپٹے چھیننے کے تکلیف دہ واقعات ،راہ چلتے مسلمانوں پرگاڑیاں چڑھادینے کے بے رحمانہ شعوری حادثات ،مسلمانوں کی مساجدپرحملے کی اوسط بڑھ رہی ہیں لیکن ستم بالاستم یہ ہے کہ ایسے واقعات کے جارح کرداروں کوآج تک دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کیاگیاجیساکہ مسلمان پردوردرازکاشبہ بھی ہوجائے تونہ صرف اسے فوری طورپراٹھالیاجاتاہے بلکہ اسے دہشتگردیادہشتگردوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کی کسی نہ کسی اصطلاح کی زدمیں لیتے ہوئے سخت ترین مراحل سے گزاراجاتاہے۔
یہ سارانفرتی کھیل اس کے باوجودہے کہ برطانیہ میں لاکھوں مسلمان جن میں عرب دنیاکے امیرو کبیراورسرمایہ داراورفضول خرچی کی حدودسے بھی آگے پاؤنڈزپھینکنے والے،پاکستان کے بہترین دماغ اورتنومندنوجوان ، بنگلہ دیش اوردوسرے ایشیائی ممالک کے محنت کش سبھی برطانیہ میں لاکھوں کی تعدادمیں موجودہوتے ہوئے برطانوی ترقی کیلئے صبح وشام ایک کئے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود برطانیہ سے ان کیلئے محض نفرت نہیں بلکہ نفرت پرمبنی دہشتگردانہ مہم جاری ہے۔ستم یہ ہے کہ برطانوی ادارے اسے اہمیت دینے کوبھی تیارںہیں۔برطانیہ کے دہشتگردی کے خلاف قائم ادارے نارتھ ایسٹ کاؤنٹرٹیرزازم یونٹ نے ماہ مارچ سے اب تک اس کھاتے میں جو کچھ ظاہرکیاہے وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اس نے ان برطانوی جنگجوؤں سے متاثرہ افراد یعنی مسلمانوں کومشورہ دیاہے کہ وہ مقامی پولیس سے رجوع کریں۔
گویادہشتگردی کے خلاف قائم ادارے کیلئے کسی مسلمان کے چہرے پرتیزاب پھینکنا،مسلمان بچیوں کے سروں سے اسکارف اتارنے اورنوچنے،مسلمان کوقتل کرنے،مسجدکوبم سے اڑانے کی ترغیب دینادہشتگردانہ عمل نہیں ہے۔کیااس برطانوی بے حسی اورچشم پوشی کاصاف مطلب ہے کہ 3اپریل یاپھراس کے بعدبھی مسلمان اپنے آپ کویک وتنہاسمجھتے ہوئے اذیت سے دوچاررہیں اور اس نئی دہشتگردانہ مہم چلانے والوں کوبہر حال کھلی چھٹی ہے۔مزیداربات یہ ہے کہ پاکستان جو کئی برسوں سے دہشتگردی کاشکارہے اور اس کے ہاں جودہشتگردی ہوتی ہے ،اس کی نہ صرف بدنامی اس کے حصے میں آتی ہے بلکہ دہشتگردی کاطعنہ بھی اسے ہی دیاجاتاہے لیکن برطانیہ ایسے مہذب،متمدن،انسانی حقوق کے حامی اوردہشتگردی کے سوکالڈمخالف ملک کیلئے اس دہشت گردانہ مہم سے کوئی بدنامی کاپہلونکلتاہے،نہ اس سے برطانیہ میں کسی دہشتگردی کے ٹھکانے کا شوراٹھتاہے ”تم قتل کروکہ کرامات کروہو؟
اس دہشتگردانہ مہم کے سلسلے میں لندن،بریڈفورڈ،کارڈف اورشیفیلڈوغیرہ بطورخاص اس مہم کے مراکزہیں۔مہم کاہدف خالصتاً مسلمان ہیں۔مہم رواں ماہ کے پہلے ہفتے کے اواخر میں اس وقت سامنے آئی جب برطانوی دہشتگردوں نے اس کی باضابطہ لانچنگ کی،بلاشبہ اس سے پہلے اس دہشت گردانہ مہم کی تیاری کیلئے منصوبہ بندی کی گئی۔اس کیلئے برطانوی اور غیر برطانوی انتہاء پسندوں اوردہشتگردوں کی نیٹ ورکنگ کی گئی، برطانیہ کے اندراور باہرتک اس کے اثرات پھیلانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہوں گی۔ردِّ عمل میں اٹھنے والی آوازوں کودبانے اوران کے بارے میں پروپیگنڈے کے اہداف طے کئے گئے ہوں گے لیکن مجال ہے کہ برطانیہ کی حکومت کی طرف سے کسی بے چینی،اضطراب اورپریشانی کا ایسا اظہار سامنے آیاہو جتناپاکستان کے دور افتادہ اورغیرمعروف سے علاقے میں کسی نامناسب واقعے پرفوری طورپربرطانوی حکومت اور اس کے میڈیاکی طرف سے سامنے لایا جاتاہے ،اورتواوربی بی سی جسے ہمہ وقت اس طرح کے ایشوزکی پاکستان کے حوالے سے تلاش رہتی ہے وہ ایک ابلاغی ادارے سے کہیں بڑھ کرایک فریق کے طور پر اپنا کردار خود تخلیق کرکے کھڑاہوجاتاہے۔اس کے وابستگان میں سے کئی کے جذبات امڈامڈپڑتے ہیں،جیسے ادھر کسی نے بٹن دبایا اورادھرروبوٹ بولنے لگے،لکھنے لگے حتیٰ کے چلنے لگے لیکن ماہ مارچ کے پہلے ہفتے سے لیکراب تک بی بی سی اردواوراس کے چلتے پرزوں کااس سے اہم اورحساس معاملے پرکتنا فوکس ہے وہ اس کی سائٹ سے صاف معلوم کیا جا سکتاہے۔حد یہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کیلئے مسلم دنیا میں باؤلی ہوکرگھومنے والی این جی اوزعالمی ادارے بھی خاموش تماشائی ہیں۔
خواتین کے حقوق کیلئے عجیب وغریب نعرے دینے کیلئے کوشاں انجمنوں میں بھی کسی کوشرم نہیں آئی کہ اس جانب بھی متوجہ ہوکہ برطانیہ میں مسلم خواتین کے اسکارف اتارنے کوایک مہم کے طورپرچلانے والے کون سے انسانی حقوق کی پاسداری کررہے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کی تیزاب چہروں کی سوداگرخاتون شرمین چنائے کی حس تیزاب بھی برطانیہ میں جاری اس تیزابی مہم کے خلاف نہیں پھڑکی ہے۔اس سے خوب اندازہ کیاجا سکتاہے کہ پاکستان اورمسلم دنیاکے خلاف واویلے کے مواقع تلاش کرتی رہنے والی این جی اوزاور ان کی کرتادھرتاسوداگرخواتین کامقصد انسانی حقوق یاخواتین کاتحفظ ہرگزنہیں ہے۔یہی حال بی بی سی کاہے کہ آزادیٔ رائے کاساراملبہ پاکستان اورمسلم لیگ معاشروں پرہی گرتا ہے ۔یہ آزادی شرمناک بھی ہے اورخوفناک بھی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیااس پرصرف نوحہ گری کرنے والے نوحہ گری ہی کرتے رہیں گے یا برطانیہ میں موجودلاکھوں پاکستانیوں اوردوسرے مسلمانوں کے کوئی والی وارثوں میں ان کی حکومتیں یاریاستیں بھی شامل ہیں،جوبرطانیہ بہادرسے بات کرتیں،اسے متوجہ کرتیں کہ یہ کون سی آزادی اورکون سی جمہوریت ہے ؟کیاوجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دہشتگردی کی اس مہم کوایک مہینہ گزرنے کوہے لیکن ابھی تک برطانیہ میں کوئی ان مہم جودہشتگردوں کا سہولت کارپکڑاجاسکا،نہ کوئی فنڈنگ کرنے والاقابوکیاجاسکا،نہ کوئی ماسٹرمائنڈکی گن سن ہو سکی ۔حدتویہ ہے کہ برطانوی محکمہ ڈاک بھی دہشتگردی کی اس مہم میں چپ چاپ استعمال ہورہا ہے۔سی سی ٹی وی کیمرے بھی برطانیہ کے شہروں میں ہزاروں کی تعدادمیں موجودہیں مگرکسی کیمرے کی آنکھ یہ دیکھ نہیں پارہی کہ یہ خط حوالے کرنے والے کون ہیں،یاان خطوط کولوگوں کے گھروں اورپارلیمنٹ تک جگہ جگہ ڈلیورکرنے میں کون ملوث ہے؟ کیایہ برطانیہ ہے یاکوئی پسماندہ امریکی ملک،جہاں سب چلتاہے؟اگرتین اپریل کویاآئندہ کوئی سانحہ رونماہوجاتاہے توکیا برطانوی پولیس خدانخواستہ اس نقصان کی تلافی کرپائے گی؟
اس لئے ووٹ کے تحفظ کانعرہ لگانے والی ہماری حکومت کوبھی اس جانب فوری توجہ دیناہوگی کہ برطانیہ میں کثیرتعدادپاکستانیوں کی بستی ہے جواب بھی پاکستان کوچلانے کیلئے ایک خاصا زرمبادلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔کیاان پاکستانیوں کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پاکستان کی نہیں ہے جبکہ مغربی ممالک تواپنے ایک شہری کیلئے زمین وآسمان کوایک کردیتے ہیں بلکہ بلیک واٹرکا بدنام زمانہ ریمنڈڈیوس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح اس نے دن دیہاڑے ہمارے تین پاکستانیوں کوگولی مارکرقتل کردیا اور وہ نہ صرف آن شان سے وہ واپس چلاگیابلکہ افغانستان میں بیٹھ کربرسوں پاکستان کے خلاف دہشتگردوں کی اعانت کرتارہا ۔یہ عقدہ بھی کھلاکہ خودزرداری حکومت نے ملکی خزانے سے مقتولین کودس کروڑ روپے اداکئے جس کاانکشاف بعدازاں امریکی سفیرنے اپنے بیان میں کیا۔اب ایک مرتبہ پھراسلام آبادمیں ایک امریکی کرنل جوشراب کے نشے میں دھت تھا، سرعام ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک نوجوان پاکستانی کوکچل کرموت کے گھاٹ اتاردیااوردوسراشدیدزخمی ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاہے۔ وہ بغیر کسی قانونی تحقیق کے واپس سفارت خانہ میں چلاگیااورسننے میں یہ آرہاہے کہ اسے کسی نہ کسی بہانے پاکستان سے نکال دیا جائے گا ۔کیاامریکایاکسی بھی مغربی ممالک میں ایساممکن ہے؟
اگربرطانوی تحقیقاتی وانٹیلی جنس ادارے اورکاؤنٹرٹیررازم سے متعلق ادارے اپنے شہریوں کے سامنے بے بس ہوگئے ہیں توپاکستان کوکم ازکم اس معاملے میں اپنی خدمات کی پیشکش کرنی چاہئے تاکہ لاکھوں مسلمان مردوخواتین ،بچے اوربچیاں جاری رہنے والی اذیت سے نجات حاصل کرسکیں۔ برطانیہ کویہ بھی باورکرانے کی ضرورت ہے کہ اس سے دو طرفہ تعلقات ہی نہیں خود برطانیہ اوراس کے عالمی حیثیت کے حامل شہروں بشمول لندن، برمنگھم،مانچسٹر،بریڈفورڈکی شہرت کوبھی بٹہ نہ لگے۔برطانیہ میں دنیابھرسے آنے والی دولت کی ریل پیل بھی متاثر ہوگی اور خودبرطانیہ کاعالمی سطح پرکردارمتاثرہوگا۔یہ ایساملک جس کے ہاں نفرت ،نسل پرستی اور دہشت گردی کومنظم مہم کی صورت میں پھیلایاجائے اوروہ ملک اپنی تمامترمہارتوں کے باوجودبے بس دکھائی دے تواس کاصاف مطلب ہے کہ اس ملک کی ترجیحات دہشتگردی روکنانہیں بلکہ موجود جاری عمل سے تومجرمین کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ لہنداضروری ہے کہ برطانیہ کسادبازاری کے بڑھتے ہوئے طوفان کے برطانیہ پہنچنے سے پہلے ہی اپنی معیشت کو اپنے ہی ملک سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کے ہاتھوں برباد نہ ہونے دے۔اگرخدانخواستہ یہ دہشتگردکسی ایسی کاروائی میں کامیاب ہوجاتے ہیں تواس کاصاف مطلب یہ ہوگاکہ یہ دہشتگردحکومت پرحاوی ہوگئے ہیں اوریہ برطانیہ کے امیج کویکسرخراب کرنے کاباعث بنے گا۔
آخرکیاوجہ ہے ایک ایساخط شہرشہرگلی گلی پہنچ رہاہے جس میں صرف مسلمانوں کوہراساں کرنے کیلئے ایک مکمل خوفناک پروگرام درج ہے جس میں مسلم خواتین کے سروں سے سکارف نوچنے،مسلمانوں پرتیزاب پھینکنے،مساجدکوبموں سے اڑانے کی ترغیب دی جارہی ہے لیکن برطانیہ کے عام لوگوں اورکچھ مثبت سوچ رکھنے والی جماعتوں کے مظاہروں کے سوابے حسی ہے،بے بسی ہے۔حدیہ ہے کہ اسی خط پرایک کونے پرخنجرکی تصویربھی دی گئی ہے۔اس ساری مہم کواگربرطانوی اداروں اورذرائع ابلاغ سے محض کسی فردکے دماغی خلل سے تعبیرکرنے کی کوشش کی گئی تواس کے اثرات خودبرطانیہ کیلئے اچھے نہیں ہوں گے کہ مسلمان خواہ برطانیہ میں ہی ہوں،ان کی حمیت وغیرت کوچیلنج کرنے والے کونکیل ڈالنا ضروری ہوگیاہے۔اتنی بڑی تعدادمیں موجودایک طبقہ کواذیت اوردہشتگردی کانشانہ بنانابرطانیہ کے مجموعی امن وامان کیلئے بھی اچھانہ رہے گا۔ خون توپھر خون ہے ٹپکے گاتوجم جائے گا۔