اکرم کی کہانی بہت دلچسپ تھی۔اکرم اوراشرف دوبھائی تھے،ان کے والدنے مرتے ہوئے اپناواحد مکان دونوں میں تقسیم کر دیا۔اکرم کے حصے نچلی منزل اوراشرف بالائی حصے کامالک بن گیا۔مکان کے درمیان سٹورقسم کاایک کمرہ تھا،امام دین جو ان دونوں کاوالدتھا،نے آخری سانسیں اس کمرے میں لیں۔والدکی بیماری کے دوران اکرم نے اپنے والدکی بہت خدمت کی، لہندا والدنے انتقال سے پہلے وہ کمرہ اکرم کودے دیا۔اکرم ابھی اس کمرے میں سامان رکھنے کاسوچ رہاتھاکہ ایک دن اشرف نیچے اترااورکمرہ پر قابض ہوگیا۔اکرم نے اسے لاکھ سمجھایا،ترلے منتیں کیں،یار احباب سے کہلوایا،پنچائت بلوائی اورثالث بٹھائے لیکن اشرف نے قبضہ چھوڑنے سے انکارکردیا۔
ان دنوں ساری برادری اشرف کولعن طعن کرتی تھی لیکن اشرف کے پروں پرپانی نہیں پڑتاتھا۔اکرم ہرملنے والےکواشرف کی بدمعاشی اورزیادتی کے بارے میں بتاتااورآخرمیں بڑی عاجزی کےساتھ درخواست کرتاکہ”اس بدمعاش کواس زیادتی سے روکیں اوراسے سمجھائیں۔“ملنے ملانے والے اشرف کے خلاف فوراًقراردادِمذمت پیش کردیتے۔یہ سلسلہ برسوں تک جاری رہا یہاں تک کہ ان دونوں کی اولادیں جوان ہوگئیں۔اکرم کاایک بیٹاذرا”اتھرا“تھا،وہ ایک روزاٹھااوراس نے نیچے سے چچاکی بجلی،پانی اورگیس بندکردی۔اشرف بہت چلایا،اس نے بہت شورمچایالیکن لڑکے نے کنکشن کھولنے سےانکارکردیا۔معاملہ پنچائت میں گیا،پنچائتی بیٹھے تولڑکے نے مطالبہ کیا”چچاپنچائت کے پرانے فیصلے مان لیں،ہماراکمرہ واپس کردیں،میں کنکشن کھول دوں گا۔
اشرف اس مطالبےکودہرانے پربڑے غصے میں پنچائت سے اٹھ کرواپس آگیالیکن جس گھرمیں پانی بجلی اورگیس نہ ہواس کا مالک کتنی دیرتک ناراض رہ سکتاہے۔اشرف کی ضدنے تیسرے دن ہی دم توڑدیا۔وہ اکرم کے پاس آیا،اپنے رویے پرمعافی مانگی اورکمرے کی چابی اس کے قدموں میں رکھ دی۔اس شام اکرم کا”اتھرا“بیٹاباپ کی پائنتی بیٹھاباپ کے گھٹنے دباکر بولا ”اباضدی اورقابض لوگ منت کومانتے ہیں اورنہ ہی مطالبوں کو،یہ لوگ جوتوں کی اولادہوتے ہیں،انہیں صرف جوتے کی زبان ہی سمجھ میں آتی ہے۔اکرم کے اس اتھرے بیٹے کانام آصف ہے اوربچپن میں میرانہ صرف کلاس فیلوبلکہ میراگہرا دوست بھی تھا۔حالات نے برسوں پہلےمجھے لندن لا بٹھایا۔پچھلے کئی مہینوں سے سوچ رہاہوں کہ درخواست کروں کہ بھائی ذراچنددنوں کیلئے اسلام آبادکاایک چکرضرورلگاؤ،انہیں اپنی کہانی سناکرکہو، اسلامی جوہری طاقت کے ظل سبحانیوں! قراردادیں اورمطالبے بااخلاق اورمہذب لوگوں کیلئے ہواکرتے ہیں،قابضین کیلئے نہیں،ضدکامقابلہ ضد اور قبضے کامقابلہ قبضہ ہوتاہے کیونکہ ظالم صرف ظلم کی زبان سمجھتاہے۔
کشمیریوں سے یکجہتی کادن مناتے ہوئے وزیراعظم نےخودآزادکشمیر کی اسمبلی میں جاکربڑے طمطراق اندازمیں خودکو کشمیر کا سفیرقراردیتے ہوئے اپنے ارشادات سے قوم کوایک دفعہ پھرمخمصے میں ڈال دیا،اسمبلی نے ایک مذمتی قراردادبھی پاس کردی کہ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیرکافیصلہ کرے۔جب یہ قراردادپاس ہورہی تھی آصف کواس وقت وہاں ہوناچاہئے تھاتاکہ وہ ان حکمرانوں کوقبضہ چھڑانے کاطریقہ بتا سکتااوراگریہ ممکن نہ ہوتاتوکم ازکم وہ اسمبلی کے باہرکھڑے ہوکرقہقہے ہی لگادیتا۔
اسلامی ممالک کی تنظیم اوآئی سی نے آخری مرتبہ ملائشیاپتراجایامیں18/اکتوبر2003ءکوکشمیرپربھارت کے خلاف مذمتی قراردادپاس کی تھی جس میں اوآئی سی نے بھارت سے پرزورمطالبہ کیاکہ بھارت اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیرکا فیصلہ کرے،اس وقت بھی نجانے آصف کہاں تھا کہ وہ عالمِ اسلام کے57بادشاہوں،امیروں اورصدروں کو قبضہ چھڑانے کاطریقہ بتاسکتالیکن سفاک دشمنوں کاقبضہ تودن بدن بڑھتاہی جارہاہے اورعالمِ اسلام غلامی کے قعرِمذلت میں تیزی کے ساتھ گرتا جارہاہے۔
کشمیر کا مسئلہ1947ءمیں پیداہواتھا،عربوں سے بھارت کے تعلقات50ءاور60ءکی دہائی میں قائم ہوئے تھے،اوآئی سی نے 1969ءمیں جنم لیاتھااور1969ءہی سے کشمیراوآئی سی کے ایجنڈے پرچلاآرہاہے۔اجتماعی سطح پرمذمت کی اس نےکوئی پرواہ نہیں کی کیونکہ بھارت جانتاہے عالمِ اسلام کشمیراورفلسطین کے مسئلے پرسنجیدہ نہیں۔یہ محض خالی خولی نعرے اور زبانی کلامی مطالبے ہیں۔بھارت کے یہ خیالات سوفیصد درست ہیں، خود سوچئے جوبھارت سعودی عرب،امارات اورکویت سے16/ارب ڈالر کاتیل خریدتاہو، جوبھارت22/ارب ڈالر کی مصنوعات،سبزیاں اور اناج فروخت کرتاہواور جس بھارت میں 165/ارب ڈالرکی صرف چارعرب ممالک نے سرمایہ کاری کررکھی ہو،73لاکھ شہری عرب ریاستوں میں کام کررہے ہوں اوریہ لوگ ہرسال اربوں ڈالرکازرِمبادلہ کماتے ہوں،اس بھارت کوکشمیرپرعالمِ اسلام کی سنجیدگی جاننے کیلئے کتنی دیرلگے گی؟
کیادنیانہیں جانتی پوراعالمِ اسلام تورہاایک طرف صرف عرب ممالک بھارت کوتیل کی سپلائی بندکردیں،بھارتی مصنوعات شدید مالیاتی،تجارتی اور سفارتی دیوالیہ کاشکارہوجائے گا،چندہی دنوں میں گھٹنے ٹیک دے گالیکن کیاکیجئے اب عالمِ عرب بھارت کے خلاف مذمتی قراردادیں پاس کرنے کی بجائے”موسٹ فیورٹ” قوم بھی قراردے چکاہے۔پہلےعرب کشمیریوں کے حمائت میں نعرے اوربیانات جاری کرتےتھےاورساتھ ہی بھارتی ٹینکوں کوتیل بھی فراہم کرتےتھے۔ہر کانفرنس،ہراجلاس اور ہرریفرنس میں مظلوم کشمیریوں کیلئےآنسو بھی بہاتے تھےاورساتھ ہی بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے بھی کرتےتھے،اسی لئےہرمذمتی قرارداد کے بعدنہ صرف بھارت قہقہے لگاتاتھابلکہ پورایورپ اورامریکابھی بغلیں بجاتے تھے لیکن اب تومعاملہ بالکل ان کی عین مرضی ومنشاء کے مطابق چل رہاہے۔
یہ دنیاکامسلمہ اصول ہے،مطالبہ کمزورکرتے ہیں یامنافق،اورپوراعالمِ اسلام اس وقت دونوں علتوں کاشکارہے اوریہ بھی اس دنیا کااصول ہے جو شخص قوتِ بازوسے اپناحق وصول نہیں کرسکتااسے وہ حق مطالبوں،قراردادوں اورمیمورنڈمزسے نہیں ملاکرتا ۔اسلامی ممالک کمزوری اورسفارتی منافقت کاشکارہیں۔لہنداکشمیرہویافلسطین ہرآنے والادن ہمیں ہمارے حق سے دور لے جارہاہے۔ہرپھیلتی شام اوروسیع ہوتی رات ہمیں ہمارے استحقاق سے محروم کررہی ہے۔امریکااورمغربی ممالک اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پوراعالمِ اسلام بھارت کاکچھ نہیں بگاڑسکاتووہ پھرکیوں اپنے مالی مفادات کوقربان کریں۔آخر کبھی نہ کبھی تواس منافقت کوخیربادکہناپڑے گالیکن کب؟
کاش،توحیلہ جاروب کے پرنوچ سکے
کاش،توسوچ سکے،سوچ سکے