I stand on the walls of broken breath

میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پہ کھڑاہوں

:Share

دنیابھرمیں مسلم ریاستوں کایہ المیہ ہے کہ یہاں کے حکمران اپنی عوام کوغلام اورخوداپنے اقتدارکیلئے استعمارکے غلام ہوتے ہیں۔اپنے چہروں پرایسے مضبوط نقاب پہنے ہوتے ہیں کہ جو بھی اس کوہٹانے کی کوشش کرتاہے،اسے ہٹادیاجاتاہے۔تاریخ میں اس کی درجنوں مثالیں موجودہیں۔عالم عرب میں مردآہن کہلانے والے جمال عبدالناصرکے بارے میں منظرعام آنے والی برطانوی مصنف جیمزبارکی کتاب’’دی لارڈزآف ڈیزرٹ‘‘میں انکشاف کیاگیاہے کہ مصرمیں1952ءکافوجی انقلاب امریکاکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اُکسانے اوراس کے عملی تعاون سے برپاہواتھا۔فوجی انقلاب کے ترجمان ریڈیواسٹیشن وائس آف عرب کاقیام بھی سی آئی اے کی مددسے ممکن ہوااورلیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر نےاپنے ساتھیوں کی ملی بھگت سےشاہ فاروق کاتختہ الٹ دیا۔ کتاب کے مصنف جیمزبارنے اپنی کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مصرمیں اس فوجی انقلاب کی وجہ امریکااور برطانیہ کے درمیان مشرق وسطیٰ میں اپنااپنااثرورسوخ بڑھانے کی کشمکش تھا۔برطانیہ مصری بادشاہ شاہ فاروق کی حمایت کر رہاتھاجبکہ سی آئی اے اپنے مجوزہ پروگرام کی تکمیل میں اسے رکاوٹ سمجھتے تھے۔

اس انقلاب کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مصری فوج کے اندر1948ءمیں اسرائیل کے ہاتھوں غیرمتوقع شکست کی وجہ سے بہت بے چینی تھی اورمصری عوام بھی اپنی اس شکست پراس قدرجذباتی تھے کہ انہوں نے اس فوجی انقلاب کونہ صرف قبول کرلیابلکہ ناصرکواپنا ہیرومانتے ہوئے دیوانگی کی حدتک اس کے ہرعمل کی نہ صرف تائیدکی بلکہ اس کے تمام ناجائز اقدامات کوبسروچشم قبول بھی کرلیا۔سی آئی اے کواپنے دوررس پروگرام کے مطابق آئندہ اس خطے میں اسرائیل جیسے ناسورکے ذریعےاپنااثرورسوخ قائم رکھنامقصودتھاجس میں امریکاآج تک تمام عرب ممالک پراپنی اجارہ داری رکھنے میں کامیاب نظرآتاہے،اس لئےکرنل ناصراوراس کے ساتھیوں کی مددکرکے شاہ فاروق کاتختہ الٹنے میں تاخیرنہیں کی۔

برطانوی مصنف جیمزبارنے برطانوی دفترخارجہ کی دستاویزات اوردیگر تاریخی دستاویزات کی مدد سے اپنی کتاب میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں برطانیہ اورامریکاکے درمیان مسابقت اور تعاون پربڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے یہ ثابت کیاہے کہ فوجی کاروائی سے دودن قبل کرنل ناصرنے برطانیہ اورامریکاکوفوج کی طرف سے ٹیک اوورکرنے کے منصوبے کے بارے میں باقاعدہ اعتماد میں لیاتھا۔اگرچہ انقلاب کی تمام ترمنصوبہ بندی جمال عبدالناصرنے سی آئی اےکی مددسے مکمل کی تھی جس میں طے کیاگیاکہ جنرل نجیب عہدے کے لحاظ سے سب سے سنئیر،فوج میں اچھی شہرت،اپنے تجربے اورپروفیشنل کی بناء پر بہت مقبول ہیں،ان کوعارضی طورپر انقلاب کا سربراہ بنادیاگیاکیونکہ عبدالناصرکےفوج میں جونیئررینک افسرہونے کی وجہ سے فوج میں بغاوت ہونے کابھی خدشہ تھا۔پہلے سے طے شدہ سازش کے تحت کچھ ہی عرصے بعدجنرل نجیب کوہٹاکرکرنل ناصر نے1956ءمیں باقاعدہ مصر کے صدرکاعہدہ سنبھال لیا۔

اپنے مجوزہ منصوبہ بندی کے تحت سی آئی اے نےاس خطے میں جمال عبدالناصرکوہیروبنانے کیلئے ایک اورچال چلی اوراسی سال(1956ء)جب جمال عبدالناصر نے نہرسوئزکو قومی ملکیت میں لینے کااعلان کیاتوبرطانیہ اورفرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کرنہرپرقبضہ کرنے کیلئےمصر سے جنگ شروع کردی لیکن اس وقت کے امریکی صدرآئزن ہاورنے فرانس، برطانیہ اوراسرائیل کوبزورطاقت کی دہمکی دیتے ہوئے پیچھے ہٹنے پرمجبورکردیا۔اس پسپائی پربرطانیہ کوفوجی، سیاسی اورسفارتی محاذپرانتہائی خفت کاسامناکرناپڑااوراس واقعہ کے بعدمشرق وسطیٰ میں اس کا اثرورسوخ کم ہوتاچلا گیااورپوراخطہ امریکی حلقہ اثرمیں آگیا۔ اس سارے ڈرامے میں امریکاکی آشیربادپراسرائیل نے بڑی مکاری کے ساتھ برطانیہ اورفرانس کاساتھ دینے کامحض کردار ادا کیا جبکہ امریکاکے پیش نظرتومشرقی وسطیٰ پراپنا تسلط قائم کرنے کی بنیادی وجہ اس علاقے میں اسرائیل کی حفاظت اورمشرقی وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک رسائی اوراجارہ داری تھی جس میں وہ آج تک کامیاب نظرآتاہے۔

امریکی مددسے اسرائیل کو فوجی لحاظ سے تمام عربوں کے مقابلے میں اتناطاقتوربنادیاگیاکہ1967ء کی جنگ میں مصر،شام اور اردن تین ممالک کی مشترکہ افواج کوچھ دنوں کے اندراسرائیلی فوج نے شکست دے کربیت المقدس،غزہ اورباقی ماندہ فلسطین، اردن کے مغربی کنارے،گولان کی پہاڑیوں اورمصر کے جزیرہ نماسینائی پرقبضہ کرلیا۔نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعدبھی اسرائیل کاان علاقوں پر(سوائے مصر کے جزیرہ نماسینائی) قبضہ برقرارہے۔

فوج کے ذریعے حکومتوں کوگرانے اورتبدیل کرنے کی سی آئی اے کی یہ سرگرمیاں صرف مصرتک محدودنہیں رہیں۔مصرمیں فوج کے ذریعے حکومت کاتختہ الٹنے کاجوسلسلہ 1952ءمیں شروع ہواتھا،وہ1953ءمیں ایران میں ڈاکٹرمحمد مصدق کی حکومت کوختم کرکے آگے بڑھایاگیااوراس کے دس سال بعد صدام حسین نےعراقی بادشاہت کو بعث پارٹی کے ذریعے فوجی انقلاب برپا کرکے اقتدارپرقبضہ کرلیا۔2003ء میں صدام کو اقتدار سے ہٹانے کیلئےامریکااوربرطانیہ نے عراق پربراہ راست حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ان واقعات کے بعدمیری نظرپاک وہند کے مابین ہونے والی محدود جنگ کارگل پر جاکررک جاتی ہے کہ کیاکارگل کی جیتی ہوئی جنگ کوشکست میں تبدیل کرکےمشرف کواقتدارمیں لانےاوربعدازاں نائن الیون واقعے میں مشرف کی امریکاکی غیرمشروط حمائت کی بناءپراس خطے میں امریکاکے تسلط کودوام دینے کی کوئی سازش تونہیں تھی؟

اسی تناظرمیں مجھے جنرل(ر)باجوہ کی پاکستانی صحافیوں سے وہ ملاقات بھی یادآرہی ہے جس نے پاکستانی پریس کے ذریعے قوم کے سامنے باجوہ کاایک نیاچہرہ متعارف کروایا جس میں انہوں نے صحافیوں کواپنے احساسِ شکست کے ساتھ بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے پرمحض اس لئےقائل کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس اب لڑنے کے وہ وسائل میسرنہیں اورہمارے ٹینک اوردیگرجنگی اسلحہ بھی ان کے مقابلے میں کافی پراناہوچکاہے۔ٹی وی پراس پروگرام کے نشرہوتے ہی مودی کے حمائت یافتہ پریس نے پورے ملک میں مودی کی تعریف میں زمین وآسمان کے جہاں قلابے ملاناشروع کردیئے اوربھارت میں گھی کےچراغ جلانے شروع کردیئے وہاں پاکستانی پریس اورقوم نے بیک آوازباجوہ کے محاسبہ کی بات شروع کردی اور اس معاملے پرباجوہ کے کورٹ مارشل کابھی مطالبہ شروع کردیا۔

امرواقعہ یہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم اورفوج کے سپہ سالارنے پہلی مرتبہ ایک ساتھ امریکاکادورہ کیاتواس موقع پرپینٹاگون میں قمرباجوہ کو21توپوں کی سلامی دی گئی جوایک غیرمعمولی واقعہ ہے کیونکہ پینٹاگون نے اس سے قبل یہ اعزازاپنے سب سے زیادہ وفادارجنرل مشرف کونہیں بخشاتوقمرباجوہ کی امریکابہادرکیلئےایسی کیاخدمات تھیں جس کیلئے ان کواس اعزازسے نوازا گیا۔اس موقع پردونوں ملکوں کے قومی ترانے بھی بجائے گئے۔امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے جنرل قمرجاویدباجوہ کااستقبال کیا اوربعدازاں آرمی چیف قمرباجوہ نے پینٹاگون میں امریکی فوجی قیادت سے ملاقات کی۔

آرمی چیف سے امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف مارک ملی نے بھی ملاقات کی۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی فوجی ہیروز کوخراج عقیدت پیش کیا۔ یقیناًعراق،لیبیااورافغانستان میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے امریکی فوجی ہی ان کے نزدیک ان کے ہیروتھے۔اسی دورہ امریکامیں وائٹ ہاؤس میں جب عمران اورٹرمپ ایک دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے تواچانک ٹرمپ نے مسئلہ کشمیرپراپنی ثالثی کاعندیہ دیاتھا جس کے جواب میں عمران نے یہ بھی کہاایبٹ آبادمیں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن آئی ایس آئی کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پرہواتھاتوسوال یہ پیدا ہوتاہے کہ شکیل آفریدی کس جرم کی سزاکاٹ رہاہے۔

دراصل ماجرایہ ہے کہ کشمیرمیں سیزفائریعنی جنگ بندی کے اعلان کے بعدمودی نے پاکستان کادورہ کرناتھا۔جب اس وقت کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کواس بات کاعلم ہواتوانہوں نے فوری طورپرعمران خان سے ملاقات کرکے ان کوآگاہ کیاکہ جنرل باجوہ اورآئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمیداس بارے میں بھارتی قومی سلامتی کےمشیراجیت دوول سے بات چیت کر رہے ہیں توعمران خان نے بجائے جنرل قمرباجوہ کوانہوں نے جنرل فیض حمیدکووزارتِ خارجہ کوّآن بورڈ”لینے کامشورہ دیا جس کے بعدباجوہ نے وزارت جارجہ میں ایک بریفنگ کا اہتمام کیاجس میں انہوں نےکہاکہ ہماراجنگی سازوسامان بہت پراناہو چکاہے اورہم بھارت کے ساتھ جنگ نہیں لڑسکتے جبکہ ملکی صحافیوں کے مطابق جنرل باجوہ اس سے پہلے ایسی بریفنگ 25ملکی صحافیوں کودے چکےتھے کہ پاکستان کی جنگی صلاحیت بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔انہی دنوں ایک سینئر صحافی نے اپنے انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیاجنرل قمرجاوید باجوہ اورعمران خان کوکشمیرمیں مودی کے 5 اگست 2019 کے اقدامات کامبینہ طورپرپہلے سے علم تھااوروہ پارلیمان کواعتماد میں لیے بغیربھارت کے ساتھ تعلقات بہتربنانا چاہ رہے تھے۔

یوں توپاکستانی عوام جس قدرکشمیری بھائیوں سے اپنی یگانگت،محبت اورقربانی میں اپنی ایک مثال ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی مقتدراشرافیہ نے اسی قدرکشمیر کے ساتھ دھوکہ اور بے وفائی کاعملی ثبوت دیا بالخصوص اس بے وفائی کادور تومشرف کے زمانے سے ہی شروع ہوگیاتھاجب کشمیرکی سودے بازی شروع ہوگئی اورکشمیرکے اصل وارث جناب سیدعلی گیلانی کونظراندازکرکے ان کے خلاف توہین آمیزپروپیگنڈہ شروع کرکے کشمیر کے ایک دوسرے گروپ کوآشیرباددیکران سے پینگیں بڑھابنشروع کردی گئیں لیکن وقت نے باآخراس تمام ساازشی ٹولے کوقصرمذلت میں دھکیل دیااور کشمیرکے ہیروسیدعلی گیمالی آج بھی لوگوں کے دلوں پرراج کررہے ہیں۔لیکن یہ معاملہ ختم نہیں ہوابلکہ اس کہانی کے دوایسے کرداربھی ہیں جنہوں نے اپنے پیشروؤں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے اپنے اپنے اقتدارکوطویل اورمضبوط کرنے کیلئے ایک دوسرے کواستعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کوبہت چالاک سمجھتے رہے اوربالآخرخودہی لڑپڑے اوراس کے نتیجے میں آج ارضِ وطن مصائب اور مشکلات سے کراہ رہاہے اوریہ دوکردارعمران خان اورقمرباجوہ ہیں۔

باجوہ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنے آئینی حدوداورحلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2017ءمیں ملکی سیاست میں براہِ راست مداخلت شروع کردی تھی۔ایک طرف انہوں نے نوازشریف کے جانشین وزیراعظم خاقان عباسی کوقابوکرکے فاٹاکوخیبرپختونخوامیں ضم کرایادوسری طرف حکومت کے علم میں لائے بغیربھارت کے ساتھ بیک چینل کھول لیا۔شاہدخاقان عباسی کی کمزوری سے جنرل باجوہ کے حوصلے بلندہوگئے۔باجوہ اوران کے ساتھیوں نے یہ فیصلہ کرلیاکہ اب ملک میں ایساحکومتی سیٹ اپ لایاجائے جوان کی مرضی کے تابع ہوتوان کی نظراپنے ساتھیوں کے مشورے کے بعدعمران خان پرجاٹھہری کہ اس نئے چہرے کی آمدسے سابقہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کوبھی قابومیں لایاجاسکتاہے۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جنرل باجوہ نے2018ءمیں عمران کو کیسے وزیر اعظم بنوایا؟2018ءکے الیکشن میں دھاندلی اورمیڈیاکی زباں بندی کی ساری قوم عینی شاہدہے۔

عمران خان کووزیراعظم بنانے کے بعداب اگلے قدم کے طورپروہ پنجاب اورخیبرپختونخوامیں اپنی مرضی کے وزرائےاعلیٰ لانا چاہتے تھے لیکن عمران نے باجوہ کو پنجاب اورخیبر پختونخوا کے معاملات سے دوررکھنے کیلئے انہیں بھارت کے ساتھ بیک چینل مذاکرات جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔اس بیک چینل کے تحت نومبر2018ء میں کرتارپورراہداری کاسنگِ بنیاد رکھ دیا گیااورریکارڈبرق رفتاری کے ساتھ اس کومکمل کرکے پاکستان کاخواب دیکھنے والے علامہ اقبال کے یوم پیدائش9نومبر2019ء کوعمران کے ہاتھوں کرتارپورراہداری کاافتتاح کردیا گیا جس کاعمران حکومت نے بھرپور فائدہ اٹھایااورپاکستانی اورکشمیری عوام کی پریشانیوں کوپسِ پشت ڈالتے ہوئے اس نئی سازش کاحصہ بنتے چلے گئے۔

فروری 2019ءمیں مقبوضہ کشمیرکے علاقے پلوامہ میں ایک خودکش حملے کے بعدبھارت نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ پر فضائی حملہ کردیا۔پاکستان ایئر فورس نےبھارت کے فضائی حملے ناکام بناتے ہوئےجہاں بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈرابھینندن کو گرفتارکرلیاوہاں اگلے دودنوں میں اس کابھرپور جواب دیتے ہوئے بھارت کواس کی اوقات بھی یاددلادی لیکن اچانک ڈرامائی طورپرامریکی صدرٹرمپ کی مداخلت پرعمران خان نے پارلیمنٹ میں بھارتی پائلٹ کورہاکرنے کے اعلان پرسب کوششدرکرکے رکھ دیا۔سوال یہ تھاکہ اگرپاکستانی پائلٹ ہندوستان کے قبضے میں ہوتاتوکیامودی سرکار بھی اس قدرعجلت میں یہ قدم اٹھاتی؟

اس دوران جون 2019ءمیں آئی ایس آئی کے سربراہ سید عاصم منیرکواچانک تبدیل کردیاگیاکیونکہ انہوں نے خاتون اول بشریٰ بی بی کی زیرقیادت درجنوں کرپشن کی مصدقہ فائل عمران خان کو پیش کردی جس پرعمران خان نے بجائے اس کرپشن کی تحقیقات کرنے کے عاصم منیرکوفوری تبدیل کرنے کیلئے باجوہ کی مددمانگ لی جبکہ باجوہ اس وقت ایک غیرملکی دورے سے واپس اپنے جہازمیں تھے اورانہوں نے ملک پہنچتے ہی اس کافوری نوٹس لینے کاوعدہ کیالیکن اس کے باوجودعمران خان اپنے اس کام کی تکمیل کیلئے ائیرپورٹ پہنچ گئے۔جنرل عاصم منیرکی جگی فیض حمیدکولایاگیاکیونکہ عاصم منیر اپنے سپہ سالارباجوہ کے بیک ڈورچینل کیلئے بھی نامناسب تھے لیکن باجوہ نے یہ قدم اٹھاکرعمران کامزیداعتمادحاصل کرلیا۔

انہی دنوں ایک بریفنگ میں انکشاف ہواکہ بھارت کے ساتھ کوئی بڑابریک تھروہونے والاہے جس پرمجھ سمیت کئی کالم نگاروں نے مودی کی جاری مکاریوں سے خبردارکرتے ہوئے کشمیرپر”سیاسی سرنڈر”سے نہ صرف خبردارکیابلکہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنربرائے انسانی حقوق کی طرف سے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم کےخلاف ایک تفصیلی رپورٹ کواقوام عالم کے بھرپورنوٹس میں لانے کابہترین موقع استعمال کرنے کامشورہ بھی دیالیکن مودی سرکارنے5/اگست2019ءکونہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کوپسِ پشت ڈال دیابلکہ خودبھارتی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مارشل لاء نافذکرکے مقبوضہ کشمیرکوبھارت کاحصہ ڈکلئیرکردیابلکہ ان دنوں یہ خبربھی بڑی گرم رہی کہ امریکانے کشمیر کے سودے میں باقاعدہ طورپرملک کی دوبڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کوبھی اعتمادمیں لیا اوریہی وجہ ہے کہ ملک میں جماعت اسلامی کے سراج الحق کے سوا سب سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مجرمانہ خاموشی اختیارکررکھی تھی۔کشمیرپراس فیصلے بعد مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی نے عمران کے ساتھ مل کر باجوہ کے عہدے میں تین سال کی توسیع بھی کردی، جس کے بعدباجوہ کانشانہ حریت کانفرنس کے رہنماسیدعلی شاہ گیلانی تھے۔پاکستان میں ان کے نمائندے عبداللہ گیلانی کےساتھ جوسلوک ہوا وہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن قصہ مختصریہ کہ علی گیلانی صاحب حریت کانفرنس سے علیحدہ ہوگئے۔

دراصل1954سے سقوطِ ڈھاکہ تک پاکستان کے امریکا کی طرف جھکاؤنے جوخطیرنقصانات پہنچائے ہیں وہ بھی تاریخ کاایک سیاہ باب ہے لیکن بدقسمتی سے ان سارے سوراخوں میں ایسے سانپ موجودتھے جو ملکی خزانے کے دودھ پل کرجوان ہوئے تھے اورانہی کی مددسے ملکی حرمت کوباربارڈس کر قوم کوادھ مویاکردیا۔جب 5/اگست 2019کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو غیر قانونی طورپر دہلی میں ضم کیاتویہ وہ وقت تھاجب ہمیں مقبوضہ کشمیرکو فاشسٹ اورنسل پرست بھارت کے ظالمانہ چنگل سے آزاد کرانے کیلئےہر ممکن کوشش کرنی چاہئے تھی۔ رگ کٹ جانے کے بعد کسی اور چیز سے فرق نہیں پڑتا۔ کم از کم ہمیں مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے کچھ دوسرے شورش زدہ علاقوں میں خفیہ کارروائیاں تیز کر دینی چاہیے تھیں لیکن سابق رہنماؤں کی طرح عمران خان اور جنرل باجوہ نے کشمیر کے تنازع سے متعلق اپنے پیشروؤں کی معذرت خواہانہ اور دفاعی پالیسی کو جاری رکھا،اوریہ بھی حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق مودی کے پلان کاجنرل باجوہ اورعمران خان کوعلم تھا۔دونوں کودورہ امریکا کے موقع پر اس سے آگاہ کردیاگیاتھااوران سے کہاگیاتھاکہ وہ لوگوں کو کنٹرول کریں۔ جنرل باجوہ کوجواسی سال نومبرمیں ریٹائرہورہے تھے۔پینٹاگون کی طرف سے اکیس توپوں کی سلامی،اس بات کا واضح اشارہ تھاکہ انہوں نے رضامندی دی تھی جس پرفیصلہ کیاگیاکہ انہیں تین سال کی توسیع دی جائے گی۔

دراصل جولائی2019ءعمران خان اورجنرل باجوہ کے دورہ واشنگٹن کے دوران ٹرمپ اورپینٹاگون کوایک خاموش انڈراسٹینڈنگ دی گئی تھی جبکہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کامقصدآزاد کشمیر اورگلگت بلتستان کی حفاظت کی ضمانت دیناتھا۔یہ سب سے زیادہ افسوسناک ہے کہ ہمارے نام نہادرہنماؤں نے سسکی بھرے بغیربھارت کومقبوضہ کشمیرپرقبضہ کرنے کی اجازت دی۔سفاک بھارت کوسب سے بڑی فوجی چھاؤنی اورکھلی جیل میں بندکشمیریوں کی نسل کشی اورعصمت دری کرنے کی اجازت مل گئی۔ مودی کوکشمیرکی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کاکھلا لائسنس دے دیاگیا۔غیرمسلموں کوزمینیں خریدنے اورمسلمان کشمیری لڑکیوں سے شادی کرنے کی اجازت دےدی گئی ہے۔اب غیرملکی کاروباری ٹائیکونزکے ساتھ جی ٹوئنٹی کوبھی وادی کشمیر میں سرمایہ کاری،کاروباری سلطنتیں اورریزورٹس بنانے کی اجازت دےدی گئی ہے۔

پاک بھارت لائن آف کنٹرول پرسیزفائرکااعلان کردیاگیا۔جب یومِ پاکستان23مارچ2021ءکومودی نے عمران خان کے نام خط لکھا تودفترخارجہ اسلام آبادکے کان کھڑے ہوگئے۔امریکامیں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کے ذریعہ یہ خبرنکلی کے دبئی میں فیض حمیداوراجیت ڈوول کے درمیان خفیہ بات چیت بہت آگے جاچکی ہے جس کے نتیجے میں یہ خط موصول ہواہے ۔اس خط کے موصول ہونے کے کے ایک دن بعدجنرل باجوہ نےعمران کوبتایاکہ مودی9/اپریل2021ءکوپاکستان آئیں گے۔مودی پہلے توبلوچستان کے پہاڑی علاقے لسبیلہ میں دریائے ہنگول کے کنارے ہنگلاج ماتاکے مندرجائیں گے اوروہاں ہندوؤں کے سالانہ میلے میں شرکت کریں گے پھراسلام آبادآئیں گے اورعمران کے ساتھ ملاقات میں پاک بھارت تجارت اورکرکٹ میچوں کی بحالی کااعلان کریں گے۔عمران کوبتایاگیاکہ ہنگلاج ماتاکے مندرکوبلوچستان میں بی بی نانی کی زیارت بھی کہاجاتا ہے اورکرتارپورراہداری کی طرزپر راجھستان اوربلوچستان کے درمیان ہنگلاج راہداری بھی کھولی جاسکتی ہے۔عمران نے جب مسئلہ کشمیرکے مستقبل کے بارے میں پوچھاتوفیض حمیدنے کہاکہ20سال تک مسئلہ کشمیر جوں کاتوں رہے گااور20سال کے بعدکوئی حل تلاش کریں گے۔

اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے خان کو خبردار کیا کہ ہم پاکستان پارلیمینٹ میں اس کا کیا جواب دیں گے؟ ہم نے الیکشن بھی لڑنے ہیں ہم پر کشمیرفروشی کا الزام لگ جائے گا۔ جولائی 2021ء میں آزاد کشمیر میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔ خدشہ تھا کہ اگر اپریل میں مودی نے پاکستان کا دورہ کیا تو جولائی میں تحریک انصاف کا آزاد کشمیر سے صفایا ہو جائے گا۔ اس دوران اقتصادی رابطہ کمیٹی بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کا فیصلہ کر چکی تھی لیکن شاہ محمود قریشی نے نہ صرف بھارت کے ساتھ بیک ڈور چینل مذاکرات سے لاعلمی ظاہر کر دی بلکہ وفاقی کابینہ نے بھارت کے ساتھ تجارت کی بھی مخالفت کر دی۔ جس کے ردعمل میں باجوہ نے شدید غصے میں عمران سے شکائت کرتے ہوئے کہا کہ “ہم نے اب تک جو کچھ بھی کیا، آپ سے پوچھ کر پلان کے مطابق کیا ” جواب میں خان نے کہا “فکر مت کریں، ذرا آہستہ چلیں اور اپوزیشن کو فوری طور پر گرفتار کرکے جیل میں ڈالیں تاکہ ہمارے اس پلان کے خلاف کوئی رد عمل سامنے نہ آ سکے”۔ گویا عقدہ یہ کھلا کہ اس سازش میں اکیلا جنرل باجوہ شامل نہیں بلکہ عمران خان ڈبل گیم کر رہا تھا۔

ادھر عمران خان کی ہدائت پرقریشی نے باجوہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے دفترِ خارجہ آنے کی دعوت دی اور اس ملاقات میں ان پر واضح کیا گیا کہ جب تک بھارت 5 اگست 2019ء کے اقدامات واپس نہیں لیتا تو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو پاکستان کی شکست سمجھا جائے گا لیکن دوسری طرف ستمبر2021ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سیشن میں کشمیر پر اپنا روایتی مؤقف دہرا کر قوم کے سامنے سیاسی مقبولیت کو بحال کرنے کا داؤ کھیلا۔ یقیناً عمران خان کی مرضی کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ شاہ محمود قریشی اپنے طور پر ایسی تقریر کرتا لیکن دوسری طرف اس تقریر نے نہ صرف باجوہ کو مایوس کر دیا بلکہ جب امریکی آقا نے وعدہ شکنی کانوٹس لیا تو انہیں یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ یہ “نورا کشتی” آزاد کشمیر میں انتخابات جیتنے کیلئے ہے اور پاکستان میں اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کیلئے ضروری تھا۔جس کے بعد باجوہ بیک ڈورچینل کے ذریعے بھارت کو یقین دلاتے رہے کہ اپریل میں بریک تھرو ہو جائے گا۔

مارچ2022ءمیں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتمادآئی توعمران باجوہ کوایک اورایکسٹینشن کے ساتھ ساتھ ان کی تمام باتیں ماننے کیلئے تیارہوگیا۔ باجوہ اپنے ہی لائے ہوئے وزیر اعظم کوہٹانانہیں چاہتاتھا،صرف جھٹکادیناچاہتاتھالیکن جھٹکاذرا شدیدہوگیا۔خان نے بھی جوابی جھٹکے دینے شروع کر دیئے اورلڑائی دونوں کے قابوسے باہرہوگئی اوران دونوں کی اقتدارکی مجرمانہ ہوس نے ملک کوتباہی کے دھانے پرلاکھڑاکردیا۔اس لڑائی میں سب سے براسبق تویہ ہے کہ کس طرح سی آئی اے نے اپنے مقاصدکی تکمیل کیلئے یہ جال پھیلایااوران دونوں افرادسمیت دیگرسیاسی جماعتوں کواپنے دامِ فریب میں پھانس رکھا ہے۔

یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ عمران خان نے اپنے پونے چارسالہ دورمیں سابق حکومت پرالزام تراشی اورسیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے پرتوجہ مرکوز رکھی۔معیشت کوبہتربنانے یااہم اصلاحات کرنے یامنقسم قوم کواکٹھاکرنے یاکشمیریوں کے دکھ کوکم کرنے پربہت کم دھیان دیاگیا۔تب ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی ایک پیج پرتھی۔امریکاکوخوش کرنے کیلئےسی پیک کو منجمد کرنا ایک مجرمانہ فعل تھا اور پاکستان کے سب سے قابل اعتماددوست چین کوپریشان کرنے کی قیمت چکانی پڑی۔

2018ءکے الیکشن میں دھاندلی نے ایک ایساگنداکھیل شروع کیاجس کے نتیجے میں ابھی تک سیاست میں گندگی پھیلی ہوئی ہے ۔فوج کوہمیشہ سیاست سے دوررہناچاہئےاورسیاستدانوں کوتمام اہم فیصلے پارلیمینٹ میں کرنے چاہئیں۔اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی بلوغت سے کام لیتے ہوئے اپنے درمیان کے اختلافات کوذاتیات سے بلندہوکرملکی مفاد کیلئے بہترفیصلے کرنے میں ایک دوسرے کے معاون بنیں وگرنہ بیرونی ملکوں کواس کاذمہ دارٹھہراکرملکی مسائل سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی۔

وقت گزرتے دیرنہیں لگتی،بالآخرآج کے مضبوط کردارجب آئندہ کاماضی ٹھہریں گے توانہیں یہ بات یادرکھناہوگی کہ کہیں کل کلاں ان کوکسی تہوار میں صفائی پیش نہ کرنی پڑجائے جس طرح اپنے وقت کے انتہائی طاقتورباجوہ کو ایک ہاتھ بزرگ صحافی مجیب الرحمان شامی کے کندھے پراوردوسرے ہاتھ میں قرآن تھامے اپنی ماں کی قبرکی قسم اٹھانی پڑگئی کہ اس نے نہ تونواز شریف کوملک سے باہربھیجااورنہ ہی عمران کواقتدارسے محروم کرنے میں کوئی کرداراداکیا۔

تاریخ پرنگاہ ڈالیں تواس طرح حکومتوں کوگرانے اورتختہ الٹنے کاجو سلسلہ1952ءمیں مصر سے شروع ہواتھا،وہ آج بھی مسلمان ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے لیکن میرے رب کااپناپروگرام ہے کہ اس صدی میں سب سے بڑی جارحیت کے باوجود افغانستان میں ایک بڑی رسوائی کاداغ اس کامقدربن گیالیکن سب سے زیادہ تلخ حقیقت یہ کہ جن طالع آزماؤں نے اقتدارمیں آنے کیلئےسی آئی اے کے منصوبے پرعمل کیا،اسی نے ان کوشکست سے دوچاراوران کے ممالک کوتباہ کرکے اقتدارسے الگ کیا۔ناصر،صدام اورمشرف،اب عمران کے ساتھ باجوہ کوبھی شامل کرلیں،ممکن ہے کل کلاں موجودہ حکمران بھی اسی قطارکا حصہ ہوں جن کوتاریخ ایک عبرتناک مثال کے طوریادرکھے گی کہ انہوں نے بھی عمران اورباجوہ سمیت کشمیرفروخت کرنے میں انتہائی خاموشی سے درپردہ حصہ لیا۔
اے خاک وطن اب تو وفاؤں کا صلہ دے
میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پہ کھڑا ہوں

اپنا تبصرہ بھیجیں