Humiliated And Disgraced?

ذلیل ورسواکیوں ہوگئے؟

:Share

اکثردیکھنے میں آیاہےکہ ہربڑی گاڑی کاباوردی شوفرہروقت گاڑی کی نگہداشت میں مصروف رہتاہے،صفائی ستھرائی کرتاہوا ہروقت متحرک،مجال ہے کہ مٹی کاایک ذرہ بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوسکے!کسی شیڈکے نیچے یاچھاؤں میں ایک طرف یاکسی پورچ میں،وقفے وقفے سے اسے دیکھتابھالتااور کبھی کبھی تھوڑی سی بھی غیرضروری گردکوصاف کرتارہتاہے ۔اتنے میں بڑادروازہ کھلتاہے، ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔چپڑاسی بریف کیس اورصبح کی اخباروں کابنڈل ہاتھ میں لئے باہرآتاہے اور اگرکوئی ضروری فائل ہوتووہ بھی سا تھ ہوتی ہے۔ ڈرائیورکے پیچھے والی سیٹ کادروازہ کھول کروہاں یہ سامان انتہا ئی سلیقے کے سا تھ رکھ دیاجاتاہے۔پھرڈرائیورکے سا تھ والی سیٹ کوزورلگاکرممکن حدتک آگے کردیاجاتاہے تاکہ پچھلی سیٹ کے سامنے کافی جگہ آرام سے ٹانگیں پھیلانے کیلئے میسرآجائے۔گرمی کاموسم ہوتوصاحب کے آنے سے پہلے ہی گاڑی کا ائر کنڈیشنزچلا دیاجاتاہے تاکہ دفتراورگاڑی کے درمیان کاچندگزکے فا صلے کی حدت فوری طورپرکافورہوجائے حالانکہ گاڑی چوکس حالت میں ممکن حد تک دروازے کے قریب لاکرکھڑی کردی جاتی ہے۔

صاحب بہادرایک شان بے نیازی سے برآمد ہوتے ہیں۔اردگردموجودلوگ ایکدم ساکت وجامدہوجاتے ہیں۔گفتگوکرنے والاگفتگو بھول جاتاہے،بے ترتیب یونیفارم والاٹوپی سیدھی کرلیتاہے اورسگریٹ پیتاہواشخص سگر یٹ پھینک دیتاہے یاپھرکہیں چھپادیتاہے ۔پچھلادروازہ جوڈرائیورسے دوسری سمت والاہے اسے کھول کرکوئی شخص کھڑاہوتاہے۔صاحب بہادرتشریف رکھتے ہیں۔تمام لوگوں کے ہا تھ فوری طورپرسلام کرنے کیلئے ماتھے کی طرف بڑے ادب کے ساتھ اٹھتے ہیں۔اشاروں کامنتظرگاڑی کوخراماں نکالتاہوامنظرسے جب تک غائب نہیں ہوجاتایہ تمام خادمین وہاں سے ہلنے کی جرأت نہیں کرتے۔صاحب بہادر کا پورا رستہ اخباروں کی ورق گردانی،موبائل فون پرماتحتوں کو احکام صادر کرنے میں گزر جاتاہے،اچانک فون کی گھنٹی پر چہرے پرلجاجت اور مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ بیگم کی فرمائش پوراکرنے کے وعدے وعیدشروع ہوجاتے ہیں۔اگرپھربھی وقت بچ جائے توفائل کی روگردانی شروع کردی جاتی ہے۔اس پورے سفر میں ڈرائیورکی حیثیت ایک پرزے سے زیادہ نہیں ہوتی۔وہ بھی کمپنی کی طرف سے سٹیرنگ،گئیریا سیٹ بیلٹ کی طرح وہاں فکس ہوتاہے جسے صرف احکامات سننے اوراس پرعمل کرناہے۔وہاں روک دو، ادھرلے چلو،میراانتظارکرو،میں واپس آرہا ہوں ۔مجھے دوتین گھنٹے لگیں گے اورریموٹ کنٹرول کی طرح ڈرائیوراپنی سیٹ سے فوری چھلانگ لگا کرباہرنکل کردروازہ کھولتاہے اورروبوٹ کی طرح جھکے سرکوہلاکریاپھرمنہ سے سعادت مندی اورتابعداری کے رٹے رٹائے الفاظ نکالتارہتاہے۔

یہ مناظرآپ کوہراس دفتریاادارے کے باہرملے گاجہاں کوئی ایک صاحب اختیارتشریف رکھتاہے۔کسی سرکاری یاغیرسرکاری کا کوئی امتیازنہیں۔ وزیر کادفتر یاسیکرٹری کا،جرنیل کاہیڈکوارٹریاعدلیہ کی عمارت،کسی پرائیویٹ کمپنی کے دفاترہوں یابینک کی شاندارعمارت،سب جگہ صاحبان طاقت اوروالیان حیثیت و بااختیارکیلئے ایک ہی سیٹ مخصوص ہے۔ان کی گا ڑی کہیں پہنچے لوگ وہی دروازہ کھولنے کیلئے لپکتے ہیں۔

سالہاسال سے نہ تبدیل ہونے والے یہ مناظرکبھی کبھارشدت سے محاسبہ کرتے ہوئے آپ سے یہ سوال ضرورپوچھتے ہیں کہ آخریہ کون سی ایسی مخلوق ہے، ان کوہم پریہ برتری کیوں اورکیسے حاصل ہوگئی ہے،یہ تمام مناظردیکھ کراندرکاسویاہوا ضمیر بسااوقات ایک انگڑائی لیکربیدارہونے کی کوشش کرتا ہے اورجھٹ سے سوال داغ دیتاہے یہ سب لوگ ڈرائیورکی سا تھ والی سیٹ پرکیوں نہیں بیٹھتے؟کیاوہ آرام دہ نہیں؟کیاوہاں ائرکنڈیشنڈکی ہواصحیح نہیں پہنچتی؟کیاوہاں سے را ستہ ،ارد گردکی عمارتیں یا لوگ ٹھیک سے نظرنہیں آتے؟لیکن اگران سب سوالوں کاجواب نفی میں ملتاہے،سامنے والی سیٹ زیادہ آرام دہ اورزیادہ ٹھنڈی بھی ہے،باہرکا منظربھی صحیح نظرآتاہے توپھریہ سیٹ خالی کیوں رہتی ہے یاپھراس پرسٹاف آفیسریاپی اے کوکیوں بٹھایاجاتا ہے؟

دراصل یہ کہانی اس نفرت کی ہے،یہ داستان اس تکبرکی ہے جس میں ڈرائیورکی حیثیت ایک انسان سے کم ہوکربادشاہوں کے رتھ اورمہاراجوں کی بڑی بڑی سواریاں چلانے والوں کی ہواکرتی تھی۔یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ایک اعلیٰ مرتبہ اورمقام رکھنے والی شخصیت ڈرائیورکے برابرمیں آکربیٹھ جائے اور دیکھنے والے ان دونوں کے درمیان تمیزتک نہ کرسکیں کہ کون افسرہے اورکون معمولی حیثیت کاڈرائیور۔ایک زمانہ ان متکبرافسران اوروزرأ،جرنیل اوراعلیٰ عہدیداروں پرایساآیاکہ ان کوچھوٹی سی سوزوکی پرسفرکرناپڑا۔جس کی پچھلی سیٹ انتہائی بے آرام اورکم جگہ والی تھی لیکن تکبراپناراستہ خودبناتا ہے اوراس طریقہ کو رائج کرنے والوں کوبے شمارصلوا تیں سنانے کے بعدآقااورمالک کی تمیزکوبرقراررکھنے کے نئے نئے طریقے دریافت کئے گئے۔اگلی سیٹوں کومکمل طورپرفولڈکیاجانے لگااورمعاملہ یہی تک موقوف نہیں رہابلکہ گھرسے دفترکاچندمیلوں کاسفرہیلی کاپٹر پرشروع کردیاگیااورقومی خزانے کے اربوں روپے کے مصارف اس بیجاعیاشی کی نذرہوتے رہے۔

یہ رویہ ان ساری قوموں پرگزراہے جنہوں نے انسانوں کوغلام اورمحکوم بنانے کے ڈھنگ ایجادکئے تھے۔امریکامیں”جم کرو” کے قوانین کے تحت بسوں تک میں کالوں کی سیٹیں گوروں کی سیٹوں سے نہ صرف الگ ساخت کی ہوتی تھیں بلکہ آگے ہوتیں اوراگرکوئی کالااگلی سیٹ پربیٹھ جاتاتواسے گولی سے اڑادیا جاتا اوراگرکوئی گوراپچھلی سیٹ پربیٹھ جاتاتواسے نیچ اورکمترجیسی گالیاں اورطعنے مارمارکراس سے ناتاتوڑلیاجاتا۔لندن کے بازاروں میں آج بھی کالے رنگ کی ٹیکسیوں کارواج ہے جس میں ڈرائیورکی سیٹ اورسواریوں کے درمیان ایک شیشے کی دیوارہے جس کی کھڑکی صرف سواری کھول سکتی ہے تاکہ ڈرائیور کی حیثیت،مرتبہ اور اس سے بات کرنے کاتعین بھی وہی کرے جو پچھلی سیٹ پر بیٹھاہے۔صدیوں تک فراعین، شہنشاہوں،آمروں، ڈکٹیٹروں اوران کے چھوٹے چھوٹے کار پردازوں کی سواریاں بھی ایسی تھیں کہ ان کاعام لوگوں سے کوئی تعلق نہ رہے۔دھول اڑاتی یہ سواریاں جہاں عوام الناس کامذاق اڑاتی تھیں وہاں ان سواریوں پرسفرکرنے والے بھی انسانوں کے درمیان تمیز،فرق اور آقاوغلام کے قا نون میں بٹے ہوئے تھے۔

تکبر،غروراورگھنٹوں ساتھ چلنے،آرام پہنچانے والے شخص سے کراہت دوری کے اس ماحول میں پتہ نہیں کیوں مجھے اپنا ماضی یادآجاتاہے۔اسلاف کے وہ معیارآنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔روم کے بادشاہوں کی طر ح رہن سہن اورلباس پہننے والوں عیسائیوں کے بیت المقدس پرجب پھٹے پرانے کپڑے پہننے والے مسلمانوں نے فتح حاصل کی توشہرحوالے کرنے کیلئے خلیفہ وقت عمرابن الخطاب کاانتظارتھا۔ایک گھوڑاجس کے سم گھس کربیکارہوچکے تھے۔رک رک کرقدم رکھتاتھا۔اس کے ساتھ خلیفہ وقت اورفا تح ایران و شام عمرابن الخطاب اور غلام موجود۔طے پایا کہ آدھا راستہ غلام سواری کرے گا اور آدھا راستہ خلیفہ وقت۔بیت المقدس قریب آیاتوباری غلام کی آگئی اورپھرتاریخ نے انسانی احترام کاایک عجیب وغریب منظردیکھا۔غلام گھوڑے پر اورخلیفہ وقت باگ تھامے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔شاہی کروفراورلباس پہنے رومی عیسائی بے سا ختہ صرف ایک فقرہ بول سکے کہ ایساہی شخص عزت کامستحق ہے اورایسے ہی شخص کوفتح نصیب ہواکرتی ہے۔اس تاریخی فقرے کے بعدبھی اگرکوئی مجھ سے سوال کرتاہے کہ ہم دنیا میں ذلیل اوررسوا کیوں ہیں،بے آسراکیوں ہیں تومجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی۔

چلتے چلتے یہ بھی سنتے جائیں کہ ہمارے ہاں معاملہ برسہابرس سے اب بہت ہی سنگین ہوچکاہے۔صاحب بہادرکی سواری گزرنے سے پہلے کئی گھنٹے ہرقسم کی ٹریفک روک دی جاتی ہے کئی مریض ایمبولنس میں ہی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں پھراس کے بعدگاڑیوں کاایک لامتناہی سلسلہ اوروہ بھی بلٹ پروف اورہزاروں ا فراد کی نگرانی میں قافلہ اپنی منزل تک بحفاظت پہنچاکرسکھ کاسانس لیاجاتاہے۔

ایک لونڈی محل کی صفائی ستھرائی پرمامورتھی۔ایک دن بادشاہ کی خوابگاہ میں اس کی ڈیوٹی تھی۔بادشاہ کی مسہری دیکھ کر اس کی آنکھیں چندھیاگئی۔اس نے ایسااپنے تصورمیں بھی نہ دیکھاتھا۔سب کی آنکھ بچاکراس نے مسہری کے نرم وگدازکوجب چھوأتواس کی خواہش لیٹنے کیلئے مچل گئی۔اس نے سوچاکوئی دیکھ بھی نہیں رہاکیوں نہ چندلمحوں کیلئے اس پرلیٹ کراپنی خواہش پوری کرلوں۔ایسے نرم وگدازبسترپرلیٹتے ہی اس بے چاری کی آنکھ لگ گئی۔بد قسمتی سے بادشاہ کاوہاں سے گزرہواتو ایک معمولی لونڈی کواپنے بسترپردیکھ کرآگ بگولہ ہوگیا۔فوری طورپراس کوزندہ جلانے کاحکم دے دیا۔ایک بہت بڑے الاؤ کے سا منے جب اس کولایاگیاتوبادشاہ نے روایت کے مطابق اس کی آخری خواہش پوچھی۔اس لو نڈی نے اس مجمع کی طرف دیکھ کرکہاکہ مجھے اس بادشاہ سے توکچھ نہیں کہنالیکن اے لوگو!میں تویہ سوچ رہی ہوں کہ ا س مسہری پرچندلمحے کی نیندکی اگر اتنی بڑی سزاہے کہ مجھے زندہ اس آگ کے الاؤمیں جلانے کی سزاملی ہے توان لوگوں کاکیا حشرہوگاجوساری عمرایسے نرم و گرم گدازبسترمیں گہری نیندکے مزے لیتے ہیں؟

اس سوزودردمیں ڈوبی ہوئی آوازنے اس بادشاہ کے ہوش اڑادیئے۔اس نے فوری طورپراس لونڈی کوآزادکردیا۔تخت وتاج اوربادشا ہت چھوڑکراللہ سے لو لگائی ۔ساری عمرغریبوں اورمسکینوں کی خدمت میں گزاردی اورآج دنیااس کوبڑے احترام کے ساتھ شیخ ابراہیم ادہم کے نام سے یادکرتی ہے۔ کیاآج کے حکمران اورہماری سیاسی اشرافیہ کیلئے اس میں کوئی سبق پنہاں ہے؟؟؟اب تو بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ہم دنیامیں ذلیل اوررسواکیوں ہیں،بے آسراکیوں ہیں !مجھے بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے کی حاجت اس لئے پیش آئی ہے کہ گزشتہ روزانتہائی مقدس مقام مسجدنبوی کے صحن میں ماہِ رمضان المبارک میں ایک ایسا دلخراش واقعہ پیش آیاہے جس کی وجہ سے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔

ساری زمین اللہ کی بنائی ہوئی ہے اورسارے شہراللہ کے ہیں لیکن زمین کے کچھ ٹکڑوں اورکرہ ارض کی کچھ آبادیوں کوخودخالق کائنات نے غیرمعمولی تقدس عطا فرمایا۔مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ یہ دونوں ایسے پاک مقامات ہیں جن کی عظمت پرساری عظمتیں نثارہیں یہ دونوں کرہ ارض کے مقدس ترین شہرہیں جن کی قرآن مجید میں قسم کھائی گئی ہے۔مکہ مکرمہ میں اگراللہ کا گھرہے تومدینہ منورہ میں رسول اللہﷺکی مسجد نبوی ہے۔ایک کواگرخلیل اللہ نے آبادکیاتھا تو دوسرے کو حبیب اللہﷺنے آباد کیا۔مکہ مکرمہ اگر نبی پاکﷺکا مولدہ ے تو مدینہ منورہ آپ کامسکن ہے،مکہ مکرمہ میں اگررسول اللہﷺکے آباؤ اجداد مدفون ہیں تومدینہ منورہ میں خودرسول اللہﷺمدفون ہیں۔مکہ مکرمہ اگرمظہرجلال ہے تو مدینہ منورہ مظہرجمال ہے۔

اگرحرم کعبہ کودیکھناعبادت ہے تو روضہ رسولﷺکی زیارت باعث سکینت ہے،اگرصحن کعبہ میں ایک نمازکاثواب ایک لاکھ نما زکے برابرہے تو مسجدنبوی ﷺمیں ایک نمازپچاس ہزارنمازوں کے برابرہے۔اگر مکہ میں جنت المعلیٰ ہے تومدینہ شریف میں جنت البقیع ہے،مکہ میں حطیم ہے تو مدینہ میں ریاض الجنۃ ہے،اگریہاں جلال خداوندی ہے تووہاں جمال مصطفوی ہے،مکہ مکرمہ میں اگربدن طواف کرتے ہیں تومدینہ منورہ میں روح محو طواف ہوتی ہے،اگرمکہ مکرمہ کے حق میں خلیل اللہ نے دعافرمائی تومدینہ منورہ کیلئے حبیب رب العالمین رسول اللہ ﷺنے اللہ سے مانگاتھا،الغرض یہ دونوں شہرعظمتوں کے مینارہیں۔ خداوندقدوس نے ان دونوں شہروں کوحرم قراردیا۔ یہاں کاہرذرہ لائق احترام ہے،یہاں ہروقت فرشتوں کانزول اوربرکتوں کاصدورہوتاہے،ان دوپاک شہروں میں ادنیٰ بے احترامی بھی سنگین جرم ہے۔

قتل وغارت گری تشددودہشت پسندی ہرجگہ مذموم ہے،زمین کے کسی بھی خطے میں اگرکوئی دہشت پھیلاتاہے تووہ انسانیت کا مجرم اوربدترین شخص ہے لیکن اسی تشدداوردہشتگردی کامظاہرہ اگرحرم مکہ یاحرم مدینہ میں کیاجائے تواس کی قباحت اور سنگینی دوچندہوجاتی ہے۔29/اپریل کومدینہ منورہ کی مقدس سرزمین پرمسجدنبوی کے صحن میں جس بدمزگی،بیہودہ نعروں پر مبنی شوروغل کابدترین مظاہرہ کیا،اس کودیکھتے ہوئے تمام اہل ایمان کے قلوب بری طرح مجروح ہوگئے ہیں کہ اب ہم نے اپنے گھرکی گندی اورغلیظ سیاست کواجاگرکرنے کیلئےایسے مقدس مقام کااحترام بھی ملحوظ خاطرنہ رکھا۔یہ ایک ایسی جرأت ہے جس پرسارے عالم کے مسلمان تلملااٹھے ہیں،ان ظالموں نے یہ بھی نہیں سوچاکہ انہوں نے ایسی سرزمین پریہ غل غپاڑہ کیاجہاں آقادوجہاںﷺاستراحت فرما رہے ہیں۔

یہ حرکت وہی شخص کرسکتاہے جس کادل خوف خداسے عاری ہواورجواپنی سیاست کوچمکانے کیلئے یہ تک بھول گئے کہ یہاں اونچی آوازمیں بولنے سے زندگی بھرکے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ایسے شخص کااسلام توکیاانسانیت سے بھی دورکاتعلق نہیں ہوسکتا،جن ملعونوں نے یہ حرکت کی،وہ اللہ اورسول کی پھٹکار کے مستحق بن گئے ہیں۔حدیث میں حضرت سائب ابن خلاد انصاری ؓ نے مروی ہے کہ رسول اللہﷺکافرمان ہے کہ جواہل مدینہ کوخوفزدہ کرے گا،اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہے۔ایک روایت کے مطابق ایسے شخص کا کوئی بھی عمل بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں ہوگا خواہ فرض ہو یا نفل۔اس مقدس شہرکی عظمت وبزرگی ہی کی وجہ سے نبی کریمﷺنے لوگوں کواس شہرکے رہنے والوں کی تعظیم وتکریم کی یہ وصیت فرمائی تھی کہ میری امت کے لوگوں کوچاہئے کہ وہ میرے ہمسایہ یعنی اہل مدینہ کے احترام کوہمیشہ ملحوظ رکھے اوران کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔یاد رکھو جوشخص ان کے احترام اوران کی حرمت کوملحوظ رکھے گا،میں قیامت کے دن اس کاگواہ اورشفاعت کرنے والاہوں گااورجوشخص اہل مدینہ کی حرمت کوملحوظ نہیں رکھے گااسے طینۃ الخبال کاسیال پلایا جائے گا۔واضح رہے کہ طینۃ الخبال دوزخ کے ایک حوض کانام ہے جو دوزخیوں کی پیپ اورلہوہوتاہے۔

اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کودلسوزی کے ساتھ یہ مشورہ دیناچاہتاہوں کہ فوری طورپراپنے کارکنوں کی تربیت کیلئے پہلے اپنے زبان وبیان کی اصلاح کریں اور اپنے گردوپیش سے ان مشیران سے فوری خلاصی کابندوبست کریں جنہوں نے اس روزِ بدتک آپ کوپہنچایاہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں