Humble Request | To International Monetry Fund

“منت ترلا”

:Share

پاکستانی معیشت اس وقت ایک مشکل وقت سے گزررہی ہے اورسیلاب کی تاریخی تباہ کاریوں نے مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیاہے-جس دن سے یہ ملک معرض وجودمیں آیاہے،ہماری نااہل اشرافیہ کی چیرہ دستیوں اورلوٹ کھسوٹ نےہماری معاشی مشکلات میں ظالمانہ اندازسے اضافہ کیاہے کہ اب قدرت بھی موسمی تبدیلیوں سے ہمیں توبہ کی دعوت دیتی ہے لیکن ہم نے بھی قسم کھارکھی ہے کہ اس ملک کے حصول کیلئے اپنے رب سے جس قدر وعدے کئے تھے،اس کی وعدہ شکنی میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھیں گے۔مخلوط حکومت کے اندرونی خلفشار اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں اوردوست ممالک کی بےرخی معیشت کو سنبھلنے کا موقع نہیں دے رہی۔بڑھتاہوا بین الاقوامی افراط زر،عالمی امن کوروس یوکرین جنگ سے خطرات اوراس کے نتیجے میں اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں ناقابل یقین اضافہ،پاکستان کوتمام ممالک کی طرح بری طرح متاثرکر رکھا ہے۔پاکستان میں قیامت خیزسیلاب نے اس صورت حال کو مزیدگمبھیر بنادیاہے۔آئی ایم ایف کے تمام مطالبات،جن کی وجہ سے ہم تاریخی مہنگائی کاسامناکررہے ہیں،ماننے کے باوجود معاشی بحران میں بہتری نظر نہیں آرہی۔

وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کی مالی پالیسیاں پرہرطرف سے تنقید کے تیربرس رہے تھے۔ان کی معاشی سمت پرحکومت کے اندر بھی شدید بےچینی تھی اور ان کے اقدامات پر سختت نقید بھی ہورہی تھی جس کی وجہ سے اس وقت حکومتی جماعتوں کو عوام کے پاس جاکراپنی معاشی پالیسیوں کادفاع کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔اس عوامی غم وغصے کے پیش نظراورمطلوبہ معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پہلے وزیرخزانہ کی تبدیل ہونے کی افواہیں شروع ہوئیں اورپھراسحاق ڈارکا نزول ہوگیاجس نے آتے ہی عوام کیلئے پٹرول کے ریٹ میں کمی کرکے ساتھ ہی یہ اعلان کردیاکہ اب ڈالرکی مشکیں کس دی جائیں گی اوراس کے بڑھنے کے سارے راستے مسدودکردیئے جائیں گے اورساتھ ہی قوم کویہ مژدہ بھی سنایاکہ میں ایم ایف آئی کے زور بازوکوخوب سمجھتاہوں،اس لئے ان کے ساتھ ڈیل کرنابھی کوئی ایسامشکل نہیں ۔

مفتاح اسماعیل ایک قابل اورپڑھے لکھے ماہراقتصادیات ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہت کامیاب صنعت کاربھی ہیں۔وہ معیشت کی بہتری کیلئے اپنے تئیں لگاتارمحنت کرتے رہے مگران کے اقدامات سے ظاہرہوتاہے کہ وہ ان مسائل کوصرف کتابوں میں موجودمعاشی اصولوں پرچلتے ہوئے حل کرنے کی تگ ودوکرتے رہےاوران کیلئے ان اقدامات کاعام عوام پربوجھ پڑناایک مجبوری بن گیاتھا۔عوام کومدد دینے کیلئے بہت سے ممکنہ اقدامات ہوسکتے تھے مگر یاتوآئی ایم ایف کے دباؤکی وجہ سے یاعوام کی مشکلات کی پروا کیے بغیرانہیں اپنامعاشی راستہ درست دکھائی دیتاتھا۔

چونکہ وہ خودصنعت کارہیں توان کااپنے ساتھی صنعت کاروں کے ساتھ بھی ہمدردانہ رویہ ہے اوروہ انہیں ٹیکسوں کی ادائیگی یا ملک میں اپنے وسائل کی سرمایہ کاری کرنے کیلئے قائل کرنے میں بظاہرمکمل ناکام رہے ہیں۔وہ انہیں اپنے بیرون ملک موجود سرمایہ کوبھی پاکستان واپس لانے کی کوششوں میں ناکام رہے کیونکہ یہ ان کے ساتھی صنعت کارہیں اس لئےوہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈارکی طرح ان سے سختی سے نمٹنے سے اجتناب کرتے رہےکیونکہ وزارت کے بعدتوان کاحلقہ احباب یہی صنعت کار ہوں گے۔ایک کتابی ماہراقتصادیات کی طرح وہ مارکیٹ میں جارحانہ مداخلت کے بھی خلاف رہے جس کی وجہ سے ڈالرمسلسل اوپرگیا۔ان کی نیت پرشک تونہیں کیاجاسکتامگرانہیں ڈالرکی اس اڑان سے عوام کی بڑھتی ہوئی مشکلات اورحکومت کیلئے اس کی سیاسی قیمت کاشایداندازہ ہی نہیں رہاکیونکہ وہ ایک ٹیکنوکریٹ ہیں توشاید انہیں حکومت کی سیاسی مشکلات سے غرض ہی نہیں۔

وزارت خزانہ کے پاس کرنسی کی قدرکومستحکم کرنے کیلئے بہت سارے راستے میسرہوتے ہیں مگر مفتاح اسمعیل نے بطور وزیرخزانہ روپے کومارکیٹ کی طاقتوں کے مکمل رحم و کرم پرچھوڑدیاتھا۔یہ شاید ایک اچھی کتابی پالیسی توہوسکتی ہے مگر پاکستان جیسی کمزور معیشت کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔روپے کی قدرکومضبوط کرنے کیلئے معتدل مداخلت ضروری ہے اورشاید اسی وجہ سے اب سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کودوبارہ اس منصب پرمقررکیاگیاہے جن کے خیال میں روپے کو مضبوط کرنے میں کم اقتصادی نقصان ہوتاہے مگراس کومارکیٹ کی قوتوں کے مکمل رحم و کرم پرچھوڑنے سے بڑامعاشی نقصان وجود میں آتا ہے جونہ صرف ملک کی معاشی بنیادوں پراثراندازہوتاہے بلکہ عام عوام کوغربت کی لکیر کے اورقریب لے آتاہے۔

بہت سارے ماہرین اقتصادیات سمجھتے ہیں کہ معتدل حکومتی مداخلت سے روپے کواستحکام اوراعتمادمل سکتاتھا۔وہ یہ مانتے ہیں کہ ہمارے پاس مارکیٹ میں مداخلت کیلئےزرمبادلہ کے مناسب ذخائرموجودنہیں ہیں مگروہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے باوجود سمجھ داری سے محدودمداخلت کے ذریعے اس برق رفتار گراوٹ کو روکاجاسکتاتھا۔محدودحکومتی مداخلت سے مارکیٹ کویہ پیغام جاناتھاکہ حکومت روپے کی قدرکوبرقراررکھنے میں سنجیدہ ہے۔مداخلت نہ کرنے کی پالیسی نے یہ واضح پیغام دیاکہ حکومت روپے کی مددکوآگے نہیں آئے گی جس نے روپے کی قدرمیں معاشی وجوہات کی وجہ سے کمی آنے کے علاوہ اس میں اعتماد کے فقدان کوبھی ہوادی۔

وزیرخزانہ مفتاح اسمعیل کی پالیسیوں کے جونتائج آنے تھے،وہ اب سب کے سامنے ہیں اوراس صورت حال کامزید جاری رہنا ہماری معیشت کی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہوگیاتھا۔اس وقت مارکیٹ میں اعتماد کی واپسی ضروری ہے اوردرآمدات پرتقریباً مکمل پابندی نہ صرف ہماری صنعتوں کونقصان پہنچارہی ہے بلکہ مجموعی ترقی کی شرح کوبھی نقصان پہنچ رہاہے۔اپٹمانے توباقاعدہ اپنی صنعتوں کوبندکرنے کاعلان کردیاہےجس سے بے روزگاری میں مزیداضافہ ہوگاجوموجودہ سیاسی عدم استحکام میں مزیداضافے کاباعث بنے گا۔تاہم مفتاح اسمعیل کی اسحاق ڈارسے تبدیلی سے مارکیٹ کو واضح پیغام ملاہے جس کی بناء پرجہاں روپے کی قدرمیں فوری طورپربہتری اورمعاشی اشاریوں میں مثبت تبدیلی سےمارکیٹ میں اعتمادلوٹ رہاہے۔جب اسحاق ڈار 2013 میں وزیر خزانہ بنے تھے تواس وقت بھی معیشت زوال پذیرتھی،روپے کی قدرمیں تیزی سے کمی آرہی تھی مگران کے اقدامات کے بعدنہ صرف مارکیٹ میں اعتماد واپس آیا بلکہ روپیہ بھی مستحکم ہوا۔ کاروبارمیں بھی یقین کی فضالوٹ آئی اورمعیشت شدید سیاسی مشکلات بشمول2014دھرنا، ڈان لیک اورپاناماپیپرزکے باوجود2017تک پراعتمادطریقے سے آگے بڑھی۔

مگراب حالات پہلے سے بہت مختلف اورخطرناک حدتک ابتری کاشکارہیں۔آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت یکم اکتوبرتک فی لٹر پٹرول پرپچاس روپے تک لیوی کوبڑھاناطے ہواتھاجبکہ اب تک32روپے تک اضافہ ہوچکاہے اورمزیداس ماہ میں 18روپے فی لٹربڑھانے کاٹرگٹ تھا جس پرمفتاح اسمعیل نے میڈیامیں پٹرول کی قیمت کم کرنے پراسحاق ڈار پر تنقید کرتے ہوئے کہاایک مرتبہ آئی ایم ایف کے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے پرمعاشی دباؤکے بڑھنے کے خدشے کا اظہارکیاجس پر اسحاق ڈارنے انہیں خاموش رہنے کامشورہ دیتے ہوئے یہ ذمہ داری خودقبول کرتے ہوئے عوام پرمزیدبوجھ ڈالنے سے انکار کردیااورلیوی بڑھانے کی بجائے پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی ہے۔یادرہے کہ ستمبرمیں آئِ ایم ایف کی جانب سے 30 روپے فی لٹر بڑھانے تھے جبکہ مفتاح اسمعیل نے عوام پر37روپےپچاس پیسے لیوی بڑھادی،مفتاح اسماعیل کے اس عمل نے ملک میں مہنگائی کاہیجان اس قدر بڑھادیا جوبعدازاں ان کی رخصتی پرمہرثبت کرگیا۔

ایک اطلاع کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے دورہ امریکا میں آئی ایم ایف کے حکام سے ملاقات میں پاکستان کے حالیہ سیلاب کی وجہ سے جاری معاہدے کی کچھ شرائط سے جہاں استثناء کامطالبہ کیا وہاں پونے چار ارب ڈالر کا بقیہ قرضہ جو کچھ شرائط پوری کرنے میں ملنا تھا، اس کی فوری ادائیگی کرنے کی درخواست کی تاکہ پاکستان حالیہ سیلاب سے نمٹنے کیلئے عوام کی آبادکاری کاسلسلہ جاری رکھ جاسکےاورآئی ایم ایف کی ایم ڈی نے اسے فوری طورپربورڈ کی میٹنگ میں لانے کاوعدہ کیا شائداسی لئے نئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بھی آئی ایم ایف سے باقاعدہ بات کرنے کی بجائےحالیہ اقدامات اٹھائے ہیں تاکہ اگلے تین ماہ تک آئی ایم ایف کی منظوری مل جانے پراورانہیں مزید تین ماہ کیلئے رعائت مل جائے کہ وہ ملک کی معاشی حالات کو بہترکرنے کیلئے اقدامات کرکے ہی قرض کی واپسی کی یقین دہانی کرواسکیں۔

دراصل اس مالیاتی سال میں855/ارب روپے جمع کرنے کیلئے پٹرولیم مصنوعات پرلیوی بڑھاناتھی۔معاہدے کے تحت یکم اکتوبر تک پٹرولیم مصنوعات پر 35فیصدلیوی بڑھاناتھی۔دراصل پی ڈی ایم نے مہنگائی مکاؤکے نعرے کے ساتھ عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک لاکرعمران خان کی حکومت کوختم کرکے خوداقتدارسنبھالاتھامگرعمران خان کے دوراقتدارکی مہنگائی کوکم کرنے کی بجائے مزیدمہنگائی نے عوام کاجینادوبھرکردیاہے اوربجلی وگیس کے بلوں نے عوام کی برداشت کی رہی سہی کسرنکال کران کی کمرتوڑکررکھ دی ہے۔

موجودہ حکومت کے ابتدائی تین مہینوں کے دوران ملک میں مہنگائی بڑھنے کی اہم وجہ پاکستانی روپے کی قدرمیں شدیدکمی اور عالمی منڈیوں میں غذائی اجناس اور دیگرمصنوعات میں قیمتوں میں گراں قدراضافہ بھی یقیناًایک وجہ ہے لیکن بروقت معاشی فیصلوں میں تاخیراوراپوزیشن کی طرف سے آئے روزجلسے جلوس اور ہنگامے بھی پیش پیش رہے۔خاص طورپرمفتاح اسمعیل اور اسحاق ڈارکی آئے دن معاشی پالیسیوں پرکھل کراختلاف اورتضادات کو بھی میڈیانے کافی ہوادی۔ مفتاح اسمعیل کایہ بھی کہناہے کہ وہ پہلے دن سے ہی پارٹی میں جاری پالیسی میں اسحاق ڈارکی واپسی کی خبریں سن کراپنے عہدے کوخطرے میں سمجھتے رہے اس لئے انہیں پورے اعتمادکے ساتھ کام ہی نہیں کرنے دیاگیا۔دراصل پاکستان میں ہرحکومت نے عوام کے ووٹ بینک کوراضی رکھنے کیلئے مستقل پالیسیاں وضع کرنے کی بجائے روزانہ کی بنیادپر”کم ٹپاؤ”کاسلسلہ جاری رکھااورکل کی پیشگی خبررکھنے کیلئے حقائق سے منہ موڑتے رہے۔

کچھ یاسہی فیصلہ پاکستان کی سابقہ حکومت پی ٹی آئی نے عدم اعتمادکی تحریک کوناکام بنانے کیلئے یاپھرآئندہ کی حکومت کی راہ میں کانٹے بچھانے کیلئےفروری میں آئی ایم ایف کواعتمادمیں لئے بغیراپنے ہی دورکے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لیوی کی شرح صفرکرکے پٹرول اورڈیزل10روپے فی لٹر سستاکردیاتھا اوربجلی کے نرخ میں 5روپے فی یونٹ کی کمی کردی تھی اوران قیمتوں کوچارماہ کیلئے منجمدکرنے کااعلان بھی کردیاتھا۔اب یوں لگ رہاہے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی اسی پالیسی پر چلتی دکھائی دے رہی ہے۔

ہمارے معاشی ارسطوہمیشہ سے سانپ کے نکل جانے کے بعدلکیرکوپیٹنے کے عادی ہیں۔روس کے یوکرین پرحملے کے بعد پاکستان کے پاس انتہائی سنہری موقع تھاکہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ بیٹھ کربہترین ڈیل حاصل کرسکتاتھالیکن اس کیلئے سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی بلکہ قوم کوبیوقوف بنانے کیلئے کئی مہینے اس پروپیگنڈہ سے اپناسیاسی قدبڑھانے کی کوشش کی گئی کہ ہم روس سے سستاتیل،گیس اورگندم خریدنے جارہے ہیں جبکہ روس کے دورے سے قبل یابعد میں ایساکوئی ذکر ہی نہیں ہوا۔دراصل حکومتوں کے درمیان ہمیشہ سے ملکی سربراہ ملاقاتوں میں تحریری طورپرایجنڈہ ہوتاہے اور اس ایجنڈے پر بات چیت کے دوران باقاعدہ”منٹس”لکھے جاتے ہیں اوراس کے بعد”ایم اویو”پردستخط کرکے ملکوں کے مابین تجارتی معاہدوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے جبکہ پاک روس دورے کے درمیان وزارت خارجہ کے ہاں کوئی ایساریکارڈسرے سےموجودہی نہیں جہاں اس پروپیگنڈہ کی تصدیق ہوتی ہو۔ہم روس سے توکوئی معاہدہ کرنہ سکے بلکہ اس پروپیگنڈہ سے دیگرعالمی قوتوں اوریورپی یونین سے اپنے تجارتی وسیاسی تعلقات بگاڑبیٹھے جس کاخمیازہ ڈوبتی معاشی صورتحال کومزیدابترکرکے دیوالیہ کاراستہ کھول لیاجس کیلئے اب ہم مارے مارے پھررہے ہیں۔

سابق وزیرخزانہ کے مقابلے میں اسحاق ڈارصنعت کاروں سے مفادات کاٹکراؤنہ ہونے کی وجہ سے بہترطریقے سے گفت وشنید کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ خودصنعت کارنہیں اس لئےیہ آسانی سے امیدکی جاسکتی ہے کہ وہ معیشت کوآگے بڑھانے کیلئےاوراس میں اعتمادواپس لانے کیلئےسرمایہ کاروں سے بہترطریقے سے معاملات طے کرسکیں گے۔وہ روپے کی قیمت مستحکم کرنے کیلئےمارکیٹ میں مداخلت پربھی یقین رکھتے ہیں اورتوقع کی جاسکتی ہے کہ یقیناً ایسے اقدام اٹھائیں گے جس سے روپے کی قدرمیں استحکام آئے گااوریہ بات بھی درست ہے کہ اسحاق ڈارنے2013ءسے لیکر2016ء تک آئی ایم ایف کے بہت سے مطالبات ماننے سے انکارکرردیاتھالیکن یہ بھی یادرہے کہ اس وقت واشنگٹن سے تعلقات قدرے بہترتھے جس سے اسحاق ڈار نے فائدہ اٹھایا ۔لیکن کیااب بھی حالات ویسے ہیں یاواشنگٹن کاایک مرتبہ پھر”منت ترلا”جاری ہے۔اس بات کوذہن نشین رکھیں کہ امریکا بہادر نے کبھی بھی اپنے مفادات کودوستی کیلئے قربان نہیں کیابلکہ دوست کوقربان کرنے کی اس کی پرانی تاریخ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں