Homeland, Shroud and Burial

وطن،کفن اوردفن

:Share

ایوان اقتدارمیں سستانے والوں کویہ خبرہوکہ سیاست ٹھہرے ہوئے پانی کانہیں بلکہ اس کی روانی کانام ہے۔اپنی عقل وفراست کے ساتھ اس کے بندمضبوط بنانے کی ضرورت ہے ورنہ اس روانی کوبندکرنے میں کسی قسم کی مروت کامظاہرہ نہیں کیاجاتا۔اوپر کی سطح پرتبدیلیاں ہی تبدیلیاں اور نیچے؟کیااب بھی وہی ہم اوروہی غم ہوں گے۔چہرے بدلنے سے کبھی مقدر نہیں بدلتے۔تبدیلی کا عمل جب تک نچلی سطح تک نہیں جائے گا،عوام کے احساسات وجذبات اسی طرح سلگتے رہیں گے۔مہنگائی،لوڈشیڈنگ اورآئے دن ایک دوسرے پرکرپشن، بدانتظامی اوردیگرالزامات کے ذکرپرانہیں ڈرائیں اوردوڑائیں نہ،وہ توپہلے ہی بہت ڈرے ہوئے اور تھکے ہوئے ہیں۔حالات وواقعات نے انہیں اس قدرٹچی بنادیاہے کہ سوئی کی آواز بھی انہیں کسی دھماکے سے کم نہیں لگتی۔

اس کیلئے موجودہ سرکارکوعوام کیلئے اللہ سے”کاروبار”کرناہوگاپھرکہیں جاکران کابازارچلے گا۔ان کی مسکراہٹ سے کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہوجائیں ۔ مسکراتے ہوئے چہروں کے دل بہت اداس ہوتے ہیں،ان کے توخواب بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ ہررات کوشب برات سمجھنے والوں کو یادوں کی بارات کا کیاپتہ،انہیں اس کاپہلے سے اندازہ ہوجائے تووہ آنکھ بندکرنے سے ہی توبہ کرلیں۔بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں مگران کے ضمیرسورہے ہوتے ہیں۔ایسابھی ہوتاہے کہ آنکھیں ہمیشہ کیلئے بندہوجاتی ہیں مگران کی تعبیر جاگتی رہتی ہے۔بہت سے خواتین وحضرات کو آنکھوں کی”چہل قدمی”’کابڑاشوق ہوتا ہے، انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتاکہ آنکھیں بھٹک جائیں یاکہیں اٹک جائیں۔اسی شوق چشم میں وہ بہت سے روگ بھی لگا جاتے ہیں۔دوسروں کے گھروں میں”نظراندازی”کرنے والوں کواپنی چادروچاردیواری کے اندربھی دیکھناچاہئے کہ اس تاک جھانک سے دل پرکیا گزرتی ہے۔من کاویسے بھی دھن سے کیارشتہ ہے،اسی لئے کہتے ہیں کہ دل نہ بھریں،یہ بھرگیاتوبہت سے سیلاب جسم کوڈبودیں گے۔سیاست میں یہی سیلاب سونامی بن جاتے ہیں ۔

پیارے پاکستان میں بہت سے سیاستدان اقتدارکے بغیرنہیں رہ سکتے اوراسلام آبادان کے بغیرنہیں رہ سکتا۔ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کا سب سے بڑاہاتھ ہے۔ارض وطن کی معاشی بدحالی اورسیاسی انتشارکافائدہ اٹھاتے ہوئی بیرونی دباؤکی وجہ سے استعمارسے جلددوستی کی بیماری اب وباکی شکل اختیارکرگئی ہے۔جب تک ان اقتدارکے بھوکوں کاعلاج نہیں ہوگا،اس کیلئے چاہے جتنے مرضی الفاظ جمع کرلیں،”کاغذکورا”ہی رہے گا۔لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ محبت صرف ایک بارہوتی ہے اوراس کے بعد سمجھوتے ہی چلتے ہیں،جب تک جان ہے،جہان داری تونبھانی ہی پڑے گی،جس میں ہار جیت چلتی رہتی ہے۔ جیتنے والوں کویہ بات یادرکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہاررہی ہے اورآپ مخالفین کوقابوکرنے کی تعریفیں سن کرنہال ہورہے ہیں۔رمضان الکریم کے مہینے میں بھی بھوک کے ہاتھوں دلبرداشتہ ماں اپنے معصوم بچوں سمیت خودکوٹرین سے کٹواکرہمارے سسٹم کوکاٹ کررکھ دے وہاں ان زندہ مردم خورگدھوں کاحساب کون لے گا؟

یہ ذہن نشیں رہے کہ وردی والے چوکیدارنہیں بلکہ یہ میرے اورآپ کی طرح اس ملک کے بیٹے اورمالک ہیں۔ان کوتنخواہ یہ ملک جوہم سب کاباپ ہے،دیتاہے،کوئی فصلی نسلی سیاستدان نہیں۔ہم اپنے گھروں میں سکون کی نیندسورہے ہوتے ہیں تویہ ہماری سلامتی کویقینی بنانے اورہمارے کل پر اپناآج قربان کررہے ہوتے ہیں۔شمالی وزیرستان کےعلاقے میرعلی میں لیفٹیننٹ کرنل کاشف اور پانچ بہنوں کااکلوتانوجوان بھائی،کیپٹن احمدبدر سمیت سات جوان شہیدہوگئے۔سوال یہ ہے کہ ہم کتنی دیراوراپنے جوان لاشے اٹھائیں گے اوران کی کھلے عام تضحیک برداشت کریں گے؟؟

جس آئی ایس آئی کاکوئی ایجنٹ آج تک پکڑانہیں گیا۔جس آئی ایس آئی نے سویت یونین کے بارہ ٹکڑے کرکے دریائے آموکے اس پارپھینک دیا۔ جس آئی ایس آئی کے متعلق بھارتی سابق آرمی چیف بپن راوت اعتراف کرچکاکہ وزیراعظم،آرمی چیف،سکریٹری دفاع ٹاپ سکریٹ میٹنگ سے فارغ ہوکرباہرآتے،تب تک اندرکی باتیں سرحد پارپہنچ چکی تھیں۔جس آئی ایس آئی سے متعلق پینٹاگون کے ترجمان کرنل ڈیوڈ لیپن نے کہاکہ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان میں ہمیں مارنے والا بہت چالاک اورشاطرہے۔

جس آئی ایس آئی نے را،موساد،سی آئی اے وغیرہ کے کئی مشترکہ مشن ناکام کرڈالے،جس آئی ایس آئی نے افغانستان میں”رامااوررا”کی حفاظت میں بیٹھے اسلم اچھو،تاجومری،رحیم مری جیسے دہشت گردوں کودبوچ لیا۔جس آئی ایس آئی نے ایرانی سرکاری وردی میں ملبوس مشہوربلوچ دہشت گردوں کوواصل جہنم کردیا۔جس آئی ایس آئی نے نیپال کھٹمنڈوسے لیکربھوپال، چندی گڑھ،جے پور،بنگلور، پونہ،چنائی سے شارجہ دبئی تک بھارتی خفیہ ایجنسی کے جاسوسوں کودھول چٹائی۔جس آئی ایس آئی نے خفیہ ایجنسیوں کی تاریخ میں سب سے بڑے رینک کے آفیسرکرنل کلبھوشن یادیوکو دبوچنے سے لیکررویندرا کوشک،ونود سانھی،گربخش رام،رام راج،سربجیت سنگھ تک درجنوں خطرناک جاسوسوں کو دبوچ لیا۔حیرت ہے وہ آئی ایس آئی حامدمیرکو گولیاں مارتی ہے اورنشانہ خطاجاتاہے اورحامدمیربچ جاتاہے۔

مجھے سابقہ آرمی چیف سے بھلے درجنوں شدیدترین اختلافات ہیں لیکن اسی باجوہ نے اسلام آبادمیں صحافیوں سے خصوصی ملاقات میں ایک سوال کے جواب میں حامدمیر کومخاطب کرکے سوال کیاکہ “آپ کوجس پرشک ہے،آپ اس کے خلاف ایف آئی آرکیوں درج نہیں کرواتے،ظہیرالاسلام پر شک ہے تووہ اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں،ان کے خلاف رپورٹ کیوں نہیں کرتے۔حامدمیرتم یہ کیوں نہیں بتاتے کہ تم پرقاتلانہ حملہ جس نے کروایاوہ بلوچستان کے اخترمینگل کے چھوٹے بھائی جاوید مینگل کابیٹانورالدین مینگل ہے۔”

نورالدین مینگل کوانڈیانے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کیلئےڈبلیوئن نیوزچینل کی طرف سے کووریج دی ہے کیونکہ یہ لوگ وہی زبان بولتے ہیں جوانڈیا کی زبان ہے اوروہی کام کرتے ہیں جو انڈیاان سے پیسہ دے کرکرواناچاہتاہے۔قوم کومعلوم ہوناچاہئے کہ اخترمینگل اتنے نفرت آمیزلہجہ میں تقاریر کیوں کرتاہے اوراس پراپیگنڈے کوبڑھانے کیلئے اپنے سیاسی عہدے کااستعمال کیوں کرتاہے۔اخترمینگل کبھی اس کے خلاف بھی بولاجنہوں نے سیکورٹی فورسزکے اہلِ کاروں اوربلوچ شہریوں کی جانیں لی ہیں،ہے ہمت؟نہیں،کبھی نہیں بولے گاکہ اس شخص کا مقصدآئین کانام لے لے کرانتشار پھیلانااوراپنے بیرونی آقاؤں کوخوش کرناہے۔محب وطن بلوچ سمجھ چکے ہیں کہ یہ پاکستان کے نام پردھبہ ہیں۔یہ ملکی سلامتی کے ذمہ داراداروں پر قومی اسمبلی میں منہ کھولتے ہیں اورپھرآزادی نہ ہونے کارونابھی روتے ہیں۔آزادی اس سے بڑھ کرکیاہوگی کہ اس سب کے باوجودیہ سب کھلے پھر رہے ہیں ۔

دوسری طرف اخترمینگل کابھتیجا لشکربلوچستان کے نام سے کی جانے والی کارروائیوں میں سکیورٹی فورسزکے جوانوں اور معصوم بچوں کی جان لے رہا ہے ۔آخرحامدمیرکس کے اشارے پران کواپنے پروگرامزمیں بلاکرسیکورٹی اداروں پرکھلے عام تنقید کرواتاہے۔کیاآئی ایس آئی اس قدر بے خبرہے اور اس قدرناتجربہ کارہے کہ اس کے بندے صحیح طریقے سے ٹارگٹ کوشوٹ بھی نہیں کرسکتے۔یہ کیسی آئی ایس آئی ہے جواسدطورنامی ٹوٹل ایک تھپڑکی اوقات کے بندے کے گھرمیں گھس کرصرف کہنی میں کہنی مارکر بھاگ جاتی ہے۔وہ آئی ایس آئی شہبازگل، مبشر زیدی،گل بخاری، وقاص گورائیہ کومارناچاہتی تھی لیکن یہ لوگ آئی ایس آئی کوسوتاچھوڑکرامریکاویورپ بھاگ گئے۔
اس ملک کی سرحدکوکوئی چھونہیں سکتا
جس ملک کی سرحدکی نگہبان ہیں آنکھیں

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے جس کاخمیازہ پوراملک اورقوم بھگت رہی ہے کہ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اپنے من پسندفرد کوقوم کامسیحا اوراقتدار میں لانے کیلئے ہزاروں افرادکو سوشل میڈیامیں تربیت دیکرپروپیگنڈہ کامکروہ جال بچھایاگیا،جس کیلئےتمام ملکی وسائل اوراداروں کوبلاججھک اپنی اس ناجائزپالیسی کی حمائت کیلئے جھونک دیاگیااوراس وقت اس بات کومکمل نظر انداز کردیاگیاکہ کل کلاں یہی زہرمیں ڈوباہواخنجرانہی کی پشت میں گھونپنے کاکرداراداکرسکتاہے۔ یقیناًاس گھناؤنی سازش کے ذمہ داروں کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی شدیدضرورت ہے۔آج یہی افرادجن کے منہ کو دشمنوں کے راتب کانشہ لگ چکاہے،وہی ملک اوربیرونِ ملک میں بیٹھے یہاں کی نوجوان نسل کوبربادکرنے پرتلے ہوئے ہیں اورملک کے سب سے اہم ادارے کے خلاف زہراگلنااب ایک فیشن اختیارکرچکاہے۔

کیا آپ نہیں سمجھتے کہ جب عدلیہ اپنی آئینی ذمہ داری یعنی انصاف سے پہلوتہی فرماکرسیاست میں دخل اندازی کرسکتی ہے تو فوج جس کاکام ہی ملکی سلامتی ہے کس طرح سے اندرونی اوربیرونی ملک دشمن عناصرسے لا تعلق رہ سکتی ہے؟جب اسرائیل،بھارت اورامریکاکی خفیہ ایجنسیزپاکستان کے سیاستدانوں کوخریدسکتی ہیں،الیکشن میں پیسہ لگاسکتی ہیں،توپھرآئی ایس آئی کا کیاکردارہوناچاہئے؟جس دن پاکستان کے سیاستدان،پاکستان سے غداری ترک کردیں گے،رااورسی آئی اے کی مددسے الیکشن میں دھاندلی بندکردیں گے،تسلی رکھیں،اس دن سے فوج اورآئی ایس آئی بھی سیاست میں ان کی راہ روکنابند کردے گی۔تب تک کیلئے اپنے منہ بندرکھیں۔

جن کوآئی ایس آئی کی سیاست میں دخل دینے پراعتراض ہے،وہ پہلے ان سیاستدانوں کوپٹہ ڈالیں کہ جو”موساد،را,اورسی آئی اے کے کہنے پرملک و قوم سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔میموگیٹ،زرداری،نوازشریف،الطاف حسین،اسفندیار،اچکزئی اورسب سے بڑھ کر9مئی جیسی بدترین سازش کے مرتکبین کے راءاورسی آئی اے سے رابطے حلال ہیں کیا۔۔۔؟؟؟اب ایک طرف آئی ایم ایف ملک میں مذاکرات کیلئے پہنچاہواہے لیکن اس سے قبل ہی ان اداروں بشمول یورپی یونین کوخطوط لکھنے کی جرات تویہودو ہنود کونہیں ہوئی بلکہ وہ توخوش ہیں کہ ان کاکام یہاں ایک جماعت کررہی ہے۔

اچھی طرح سمجھ لیں کہ آئی ایس آئی”مارخور“ہےیعنی آستین کے سانپوں کوڈھونڈڈھونڈکرپکڑنااورہلاک کرنا،اس کی ڈیوٹی ہے، چاہے یہ سانپ ٹی ٹی پی کے ہوں،ایم کیوایم میں،یاپھردوسری جماعتوں میں یامیڈیامیں۔1971ءمیں راءمکمل طورپرپاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کوخریدچکی تھی ۔ شیخ مجیب الرحمن کی غداری اگرتلہ سازش کیس میں سالوں پہلے پکڑی جاچکی تھی۔ جب غداروں کوپھانسیاں دینے کے بجائے الیکشن میں جتوایاجائے، تو پھر”سقوط ڈھاکہ“ہی ہوتے ہیں۔

امریکامیں الیکشن سی آئی اے کی مرضی کے بغیرنہیں جیتاجاسکتا،روس میں کے جی بی حکومت بنواتی ہے،برطانیہ میں ایم آئی فائیواورایم آئی سکس کی طاقت کاکس کونہیں پتا،انڈیامیں راکی مرضی کے بغیرکوئی سیاستدان بیان تک نہیں دے سکتالیکن اگرایسا آئی ایس آئی کرے توسب منہ پھاڑکرگالیاں دیتے ہیں۔آخرکیوں؟فرق یہ کہ ان ممالک میں اتنی اجازت نہیں کے فوج اورایجنسیزپر تنقیدکرسکیں،جیل بھیج دیاجاتاہے،سکینڈل بنادیاجاتاہے، کیریئرختم کروادیاجاتاہے،ایکسیڈنٹ میں مروادیاجاتاہے لیکن یہ سہولت بھی ہماری فوج اورآئی ایس آئی نے دی ہوئی ہے ہمارے ملک میں سب کوکہ جی بھرکرتنقیدکرو،گالیاں دودفاعی اداروں کو۔

امریکامیں حال ہی میں ریٹائرسی آئی اے ڈائریکٹرکوامریکاکاسیکرٹری آف اسٹیٹ بنایاگیاہے،اسرائیلی فوج کے کافی لوگ سیاست میں ہیں،گورنمنٹ میں،کہیں پرشورسناکے ایساکیوں؟یہ قائدہ بہت اچھی طرح سمجھ لیں۔فوج اورآئی ایس آئی صرف اس وقت سیاست اورالیکشن میں دخل نہیں دیں گے کہ جب تک غیرملکی دشمن خفیہ ایجنسیاں بھی دخل نہ دیں۔جب سیاستدان غدارہوں، تومحب وطن ”مارخور“کومجبوراًسیاسی بساط میں بھی دشمنوں کوشکست دینی پڑتی ہے۔یادرکھیں ہم سب پاکستانی،پاکستان آرمی ہیں،ہم سب آئی ایس آئی ہیں۔

پاکستان میں دہشتگردی، کبھی فرقہ وارانہ دہشتگردی کی زیادہ ترکارروائیوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)اوربلوچ علیحدگی پسند ملوث ہیں ۔ان سب کے پیچھے ایک ہی ہاتھ ہے اوروہ ہے ٹرائیکا(امریکا،اسرائیل اوربھارت)۔دوسری جانب پینٹا گون خوداعتراف کرچکاہے کہ امریکانےافغان فوج کومجموعی طورپر4لاکھ27ہزار300جنگی ہتھیارفراہم کئے، اورامریکی فوج کے انخلاکے وقت مزید3لاکھ ہتھیارافغانستان میں ہی باقی رہ گئے۔ سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشتگرپاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں یہی اسلحہ استعمال کررہی ہے جس کے ثبوت ایک پھر سامنے آرہے ہیں۔

اب بھی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے 5سے6ہزاردہشتگردسرگرم ہیں جن کوبھارت فنڈنگ کررہاہے۔ان کی فیملیزکوکاؤنٹ کیاجائے تویہ تعداد 70ہزار ہے۔ان سب کی کفالت افغانستان میں نئی وجودمیں آنے والی عبوری طالبان حکومت نہیں کرسکتی۔اتنے زیادہ اخراجات ٹرائیکاپاکستان میں دہشتگردی کیلئے اٹھاتاہے جس کی تصدیق گزشتہ دنوں کالعدم بلوچ نیشنل آرمی کے ایک علیحدگی پسند لیڈرسرفرازبنگلزئی نے ہتھیارڈالتے ہوئےقومی میڈیاکے سامنے اعتراف کیاکہ بھارت علیحدگی پسندوں کوفنڈنگ کرتاہے۔

پاکستان کی طرف سے کئی مرتبہ بھارت کے پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہونے کے ثبوت اقوام متحدہ اورامریکا سمیت دنیا کے بڑے بڑے فورمز پررکھے گئے مگرکہیں سے بھی سنجیدہ اورٹھوس نوٹس نہیں لیاگیا۔کیااقوام عالم یہ سوچ رہی ہیں کہ پاکستان بھارت کواسی کی زبان میں جواب دے؟ دہشتگردجہاں سے بھی آتے ہیں ان کے پیچھے جوبھی ہے ان دہشتگردوں کو پاکستان کے اندرموجودسہولت کاروں کی خدمات بھی میسررہتی ہیں۔ان سہولت کاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے تودہشتگردی میں کمی آسکتی ہے۔دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔ماضی میں نیشنل ایکشن پلان بنایاگیاتھا۔اس پربھی اس کی روح کے مطابق عمل اورجدید تقاضوں کے تحت اس میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔

ایک کہاوت ہے کہ جہازبندرگاه میں زیاده محفوظ رہتے ہیں مگرجہازاس لئے نہیں بنائے گئے کہ وه بندرگاه میں کهڑے رہیں۔انسان اگراپنے ٹھکانے پربیٹھارہے،وہ نہ سفرکرے،نہ کوئی کام شروع کرے،نہ کسی سے معاملہ کرے،توایساآدمی بظاہرمحفوظ اورپرسکون ہی ہوگامگرانسان کوپیداکرنے والے نے اس لئے پیدانہیں کیاہے کہ وه پرسکون طورپر ایک جگہ رہے اورپھروہ قبر میں چلا جائے۔انسان کو اس لئے پیداکیاگیاہے کہ وه کام کرے،وه دنیا میں ایک زندگی کی تعمیرکرے،اس مقصد کیلئےاس کو دنیا کے ہنگاموں میں داخل ہوناپڑے گا۔وه ہارنے اورجیتنے کے تجربات اٹهائے گا۔اس کوکبهی نقصان ہوگا اورکبهی فائده۔اس قسم کے واقعات کاپیش آنا عین فطری ہے،اورایسے واقعات وحوادث کااندیشہ ہونے کے باوجودانسان کیلئےیہ مطلوب ہےکہ وه زندگی کے سمندرمیں داخل ہواوراپنی جدوجہدمیں کمی نہ کرے۔

مزیدیہ کہ پرسکوں زندگی کوئی مطلوب زندگی نہیں کیونکہ جوآدمی مستقل طورپرسکون کی حالت میں ہواس کاارتقاءرک جائے گا۔ ایسے آدمی کے امکانات بیدارنہیں ہوں گے۔ایسے آدمی کی فطرت میں چھپےہوئے خزانے باہرآنے کاموقع نہ پاسکیں گے ۔اس کے برعکس ایک آدمی جب زندگی کے طوفان میں داخل ہوتاہے تواس کی چھپی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں۔وه معمولی انسان سے اوپراٹھ کرغیرمعمولی انسان بن جاتاہے۔پہلے اگروه چهوٹاسابیج تهاتواب وه ایک عظیم الشان درخت بن جاتاہے۔زندگی جدوجہدکانام ہے،زندگی یہ ہے کہ آدمی مقابلہ کرکے آگے بڑھے۔زندگی وہ ہے جو جوسیلاب بن جائے نہ کہ وه جوساحل پرٹھہری رہے۔

یادرکھیں کہ شیراورشارک دونوں پیشہ ورشکاری ہیں لیکن شیرسمندرمیں شکارنہیں کرسکتااورشارک خشکی پرشکارنہیں کرسکتی ۔شیرکو سمندرمیں شکار نہ کرپانے کی وجہ سے ناکارہ نہیں کہاجاسکتا اور شارک کوجنگل میں شکارنہ کرپانےکی وجہ سے ناکارہ نہیں کہا جاسکتا۔دونوں کی اپنی اپنی حدودہیں جہاں وہ بہترین ہیں۔اگرگلاب کی خوشبوٹماٹرسے اچھی ہے تواس کایہ مطلب نہیں کہ اسے کھاناتیارکرنے میں بھی استعمال کیاجاسکتاہے۔ایک کا موازنہ دوسرے کے ساتھ نہ کریں۔آپ کی اپنی ایک طاقت ہے اسے تلاش کریں اوراس کے مطابق خودکوتیارکریں۔کبھی خودکو حقارت کی نظرسے نہ دیکھیں بلکہ ہمیشہ خودسے اچھی اُمیدیں وابستہ رکھیں۔

یادرکھیں ٹوٹاہوارنگین قلم بھی رنگ بھرنے کے قابل ہوتاہے۔اپنے اختتام تک پہنچنے سے پہلے خودکوبہترکاموں کے استعمال میں لے آئیں۔وقت کابدترین استعمال اسے خودکا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے میں ضائع کرناہے۔مویشی گھاس کھانے سے موٹے تازے ہوجاتے ہیں جبکہ یہی گھاس اگردرندے کھانے لگ جائیں تووہ اس کی وجہ سے مرسکتے ہیں۔کبھی بھی اپناموازنہ دوسروں کے ساتھ نہ کریں اپنی دوڑاپنی رفتارسے مکمل کریں۔ جو طریقہ کسی اورکی کامیابی کی وجہ بنا،ضروری نہیں کہ آپ کیلئے بھی سازگارہو۔کریم ورحیم رب کے عطاء کردہ تحفوں نعمتوں اورصلاحیتوں پرنظررکھیں اوراُن تحفوں سے حسدکرنے سے بازرہیں جو اللہ نے دوسروں کودیے ہیں۔

صاحب علم ہمیشہ اپنے طورطریقوں اورعادت واطوارسے پہچاناجاتاہے۔جس طرح سورج کبھی یہ اعلان نہیں کرتاکہ وہ آسمان پر آچکاہے اسی طرح ایک صاحبِ علم اورحقیقت کاادراک کرنے والاکبھی شوراوربےتکے پن سے اپنی شناخت نہیں چاہتابلکہ اس کی گفتگواورعمل اس کی شخصیت اورعلم کی پہچان بن جاتے ہیں۔نیک بونے کی احساس کمتری کایہ عالم ہے کہ وہ ہمیشہ خود کوبڑا کرکے پیش کرتاہے لیکن پست قامتی جسمانی ہوتوکوئی عیب نہیں لیکن عقلی ہوتوکبھی بھی روانہیں رکھی جاتی۔اس لیے وہ گدھا جوخودکواونچی آوازکی بناپرشیر سمجھناشروع کردے توعین وقت پرخاموش شیرکودیکھ کراس کی سٹی گم ہوجاتی ہے۔

یقیناًمارنے والے سے بچانے والازیادہ طاقتورہے لیکن اسی عظیم یعنی رب کریم نے ہی اس عظیم مملکت خدادادکو معجزاتی طاقتوں سے نوازاہے جس کی حفاظت کرنے والوں کورب نے اس ڈیوٹی پرمامورکررکھاہے ۔
وطن کی پاسبانی جان وایماں سے بھی افضل ہے
میں اپنے ملک کی خاطرکفن بھی ساتھ رکھتاہوں

اپنا تبصرہ بھیجیں