جب جدید بھارت کی تاریخ لکھی جائے گی تواس میں یہ ضرورشامل ہوگاکہ ہندوبھارت کے سامراجی مقاصدوادیٔ کشمیرمیں خاکسترہوگئے۔ افغانستان کواگر”سلطنتوں کاقبرستان”کہاجاتاہے توغلط نہیں۔19برس بیت گئے مگرامریکااب بھی وہاں اپنی طویل ترین جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیرمیں جنگ لڑتے بھارت کو70برس بیت چکے ہیں۔ اس جنگ کو 9لاکھ بھارتی فوجی لڑتے چلے آرہے ہیں، جس کامطلب یہ ہے کہ سویت یونین یاامریکی نیٹوفورسزنے افغانستان میں اگر اب تک سب سے بھاری فوج تعینات کی ہے تو وادی کشمیرمیں اس سے7گنازیادہ فوجی اہلکارتعینات ہیں۔
کشمیرجنگ کاخاتمہ صرف اس وقت ہی ہوگا،جب نئی دہلی کویہ بات سمجھ آجائے گی کہ بھارتی کشمیریوں کے بلندحوصلے توڑنہیں سکتے اوراس جنگ سے وہ بھارتی ریاست کوہی سنگین نقصان پہنچارہے ہیں۔یہ مستقبل اب قریب ترنظرآرہاہے کیونکہ کشمیرپربھارتی قبضے کی غیرقانونی حیثیت کوبڑے پیمانے پرتسلیم کیاجارہاہے۔سلامتی کونسل اوراقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے ایک بارپھراقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی توثیق کی ہے،جوکشمیرمیں غیرجانبدارانہ استصوابِ رائے شماری کامطالبہ کرتی ہیں۔بھارتی مؤقف ان قراردادوں کے عین منافی ہے۔
بھارتی آئین کی شق370سے ان شرائط کو قانونی حیثیت دینے کاتقاضاکیاگیاتھاجن پرکشمیرکےمہاراجہ نے وادی کاالحاق کرنا چاہا۔اس شق کے خاتمے سے بھارت نے اپناوہ قانونی جوازبھی گنوادیاہے جس کے بَل بُوتے پروہ جموں وکشمیرپراپنے قبضے کو جائزقراردیتا تھا۔اب خودبھارت کے اپنے قانونی پیمانوں کے مطابق کشمیرپرقبضہ غاصبانہ اوربلاجوازہے۔
دوسری بات،مودی حکومت نے اس تنازع کے پُرامن اورمذاکراتی حل کے تمام دروازے بندکیے ہوئے ہیں۔ مودی حکومت نے نہ صرف پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات سے انکارکردیاہے بلکہ تیسرے فریق کی ثالثی بھی قبول کرنے سے انکارکردیا ہے۔ 5؍ اگست کو اپنے یکطرفہ اقدامات کے بعدبھارت کاکہناتھاکہ اب بھارت کے پاس پاکستان سے بات کرنے کیلئےصرف ایک ہی موضوع رہ گیاہےیعنی،آزادکشمیربھارت کولوٹایاجائے۔
اس کےعلاوہ بھارتی حکومت کشمیریوں سے بھی مذاکرات کرنے سے متعلق کچھ نہیں سوچ رہی۔ کشمیریوں پربراہِ راست دہلی سے حکمرانی کی جائے گی۔بھارت نے واضح طورپرفوجی حل کاانتخاب کیاہے۔کشمیری مسلمانوں کواپنے وجودکے خطرے کا سامناہے۔ہندوسامراجوں کی جانب سے انہیں اپنے ہی وطن میں اقلیت میں بدلے جانے پروہ بھرپورطریقے سے مخالفت کریں گے اوراب ان کے پاس اپنی جدوجہدآزادی کوتیزکرنے کے سواکوئی اورچارہ نہیں ہے۔
کشمیر کی آبادیاتی ساخت تبدیل کرکے خودساختہ”آخری حل”تھوپنے کے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے فاشسٹ پلان کے نتیجے میں انسانی حقوق اورانسانیت پسندقوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہوں گی جبکہ اس سے مقبوضہ کشمیرمیں نسل کشی کی راہ بھی ہموارہوسکتی ہے۔”ہندوؤں کے ہٹلر”کی جانب سے قتلِ عام اورنسل کشی کیے جانے سے بھارت عالمی اچھوت بن جائے گا،بھارت کاسماجی ڈھانچا تارتارہوجائے گااوراس کی کشمیرپرجکڑبھی کمزورپڑجائے گی۔
تیسری بات بھارت کاتکبراوردشمی،ہندتوانسل پرستی اورکشمیری عوام پرڈھائے جانے والے ظلم جیسے عناصرنے پاکستان کو ایک خوفزدہ دوست سے کشمیری جدوجہدِآزادی کے ایک بہادرساتھی میں تبدیل کردیاہے۔کشمیرایک بارپھرپاکستان کیلئےاہم ترین مسئلہ قراردیاجانے لگاہے۔بی جے پی کے اقدامات نے پاکستان کے اندراس امیدکویکسر طورپرماندکردیاہے کہ مذاکرات کے ذریعے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پرلائے جاسکتے ہیں اورمسئلہ کشمیرکاحل نکالا جا سکتاہے۔بھارت کی حالیہ یلغاراورکشمیری تحریک کے خلاف ممکنہ کریک ڈاؤن سے پاکستانی حکومت پرکشمیری جدوجہدِآزادی کی حمایت کرنے کیلئےمقامی دباؤاب پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گااوراس قسم کی مددہرطرح سے جائزہوگی۔
سلامتی کونسل کی قرارداد47(1948ء) اوراس کے بعدکی دیگرقراردادوں میں مجوزہ غیرجانبدارانہ استصوابِ رائے شماری کے اصول سے جموں وکشمیرکے عوام کے حق خودارادیت کی قانونی حیثیت ظاہرہوتی ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اپنی قرارداد2649(1970ء)اوردیگرکئی قراردادوں کے ذریعے بارہاکلونیل اوربیرونی غلبے کی زد میں رہنے والے لوگوں کی جدوجہد کی جائزحیثیت کی توثیق کرچکی ہے۔قراردادوں کے مطابق”انہیں خودارادیت کاحقدارتسلیم کیاجاتاہے”اور”اس حق کے تحفظ کیلئےمسلح جدوجہدسمیت ہردستیاب وسائل کوبروئے کارلایاجاسکتاہےعلاوہ ازیں،یہ قراردادیں ایسے لوگوں کے”حق خود ارادیت کے اپنے جائزاستعمال”کی خاطر ہرقسم کی اخلاقی اورمادی مددکامطالبہ اوراسے حاصل”کرنے کے حق کوبھی تسلیم کرتی ہے۔
چاہے پاکستان کشمیرکی جدوجہدِ آزادی میں مددکرتاہویانہ کرتاہولیکن بھارت ہرصورت پاکستان پر”سرحدپاردہشتگردی” کا الزام لگائے گااورطاقت کے استعمال سے ڈرائے گایاپھرفضائی حملوں یافوجی چڑھائیوں کی کوششیں کرے گا۔دنیااس بات سے آگاہ ہے کہ پاک بھارت تنازع ایک تباہ کن جنگ میں بدل سکتاہے اورصورتحال ایٹمی ہتھیاروں کی نہج تک پہنچ سکتی ہے۔ اس خطرے کو ٹالنے کیلئےسلامتی کونسل کے اراکین،دیگرریاستیں اورعالمی ادارے ایسے تمام اقدامات اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں گےجن سے صورتحال کومزیدبگڑنے سے روکاجاسکے۔
اقوام متحدہ اوردنیاکی اہم طاقتیں بھارت کواپنافیصلہ واپس لینے اورپاکستان وکشمیری عوام کے ساتھ کامیاب امن عمل کیلئے آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کریں گی لیکن مودی اقتدارکے نشے میں چُورہے۔وہ اوران کے حلقے آرایس ایس(امیت شاہ، اجیت ڈوول ودیگر)کواس بات پریقین ہوچلاہے کہ کشمیریوں کااستحصال اورپاکستان کی جانب جارحیت ہی بھارت کے اندر کامیابی کا نسخہ ہے۔ممکن ہے کہ یہ لوگ اشتعال انگیزی سے بازآنے اورمذاکرات کی میزپرآنے کے مطالبات کوٹھکرادیں گے جس کے بعدعالمی برادری کی توجہ شاید”آسان”راستہ لینے کی جانب یعنی پاکستان کوکشمیری جدوجہدِآزادی میں مددسے بازرکھنے اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارت کی مسلط کردہ”حقیقتوں”کوتسلیم کرنے پردباؤڈالنے پرمبذول ہوجائے۔ تاہم، پاکستان کی گزشتہ حکومتوں کے برعکس موجودہ پاکستانی قیادت اس قسم کے دباؤکے آگے شکست نہیں مانے گی۔
اسلام آبادمیں اس خیال کوتقویت مل رہی ہے کہ بی جے پی کی جابرانہ حکمت عملی کاالٹاانہیں ہی نقصان اٹھاناہوگاکیونکہ مقامی کشمیریوں کی بغاوت میں ایک بارپھرجان آچکی ہے کہ جسے زیرکرنا بہت ہی کٹھن ثابت ہوگا۔اگربھارت دھمکیوں تک محدود رہتاہے یاپھرطاقت کااستعمال کرتاہے توپاکستان میں یہ تازہ دم اعتمادموجودہے کہ یہ دہلی کواگرضرورت پڑی توقابلِ اعتماد ایٹمی مزاحمت سے بھی،بے اثربناسکتاہے۔
بھارت کاایک عرصے سے جاری کشمیرپرقبضہ ممکن ہے کہ جلدافغان جنگ جیسی دلدل میں بدل جائے گاجوبھارت کی مسلح افواج کااعتمادتوڑکررکھ دے گا،سیاسی تقسیم جنم دے گی اورمعیشت کوڈبودے گی۔ ماضی کی کلونیل طاقتوں کی ہی طرح بھارت پُرعزم عوامی بغاوت کے خلاف اپنی کمزور ہوتی جنگ بالآخرہارجائے گا۔اس شکست میں10سے20برس لگ سکتے ہیں لیکن مشہورہندوکش کے پہاڑوں جیسے سخت عوام بالآخرہندوبھارت کے سامراجی سپنوں کونیست ونابودکردیں گے۔