History Never Accepts Excuses

تاریخ کبھی عذرقبول نہیں کرتی

:Share

کسی ملک یاقوم کی خود مختاری کامعاملہ بھی فردکی عزت کی طرح ہوتاہے۔انسان خوداپنی عزت نہ کرے تودوسرے بھی اس کی عزت نہیں کرتے۔خود تکریمی کا جذبہ چھپتانہیں ہے، یہی معاملہ خودمختاری کاہے کہ کوئی ملک یاقوم خودکوجتناخودمختارسمجھتی ہے دوسرے بھی اسے اتناخودمختارگردانتے ہیں اور اسی اعتبارسے اس کی خودمختاری کااحترام کرتے ہیں۔خود مختاری کوئی ایسا خزانہ نہیں جسے زمین میں گہرادفن کیاجا تاہو۔کوئی ملک خودمختارہوتوسب کوپتہ چل جاتاہے،نہ ہوتویہ بات بھی رازنہیں رہتی۔ہمارے سیاسی وعسکری رہنماجب بھی امریکاکادورہ کرتے ہیں تووائٹ ہاؤس سے پہلابیان یہ داغاجاتاہے کہ وہ پاکستان کی خود مختاری کابڑا احترام کرتاہے لیکن امریکاوطن عزیزکی خودمختاری کاجتنااحترام کرتاہے وہ ظاہر ہے،مگراس میں امریکاکاکیا قصور !ہمیں اپنی خودمختاری جتنی عزیزہے امریکاکوبھی وہ اتنی عزیزمحسوس ہوتی ہے بلکہ اب آئے دن پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی بھی اس بات کاکھلاثبوت ہے کہ ہماری خودمختاری کاکون کس قدرپامال کرنے پرتلا بیٹھاہے۔ہم درجنوں مرتبہ پورے شواہدکے ساتھ دنیاکی تمام طاقتورملکوں اوراقوام متحدہ کوبھارت کی دہشتگردی کے شواہدفراہم کرچکے لیکن نتیجہ خاک!آخرایسا کیوں ہے؟

تا ریخ کودیکھاجائے توملک وقوم کی عزت توبڑی چیزہے،صرف ایک فردکے دفاع کیلئے بڑی بڑی جنگیں ہوئی ہیں۔قدیم یونان میں عورت کی حیثیت کچھ بھی نہیں تھی،مگرہیلن آف ٹرائے اغواء ہوئی تواس کی بازیابی کیلئے ایک ہزاربحری جہازوں کابیڑہ بھیجاگیااوراس کی واپسی کیلئے اتنی بڑی جنگ ہوئی جویونان کی پوری تاریخ پرچھاگئی،یہاں تک ان کی اسطوری تاریخ کاحصہ بن گئی۔ایک عورت اوراتنابڑاتاریخی واقعہ ہندوؤں کی تاریخ میں بھی ایک ایساہی واقعہ ملتا ہے۔یہاں عورت کاکرداربہت بڑااوربہت مختلف ہے لیکن ہے صرف ایک عورت ہی کاکردار۔کم لوگ جانتے ہیں کہ ہندوں کی اسطوری تاریخ میں رام اورراون کی جنگ صرف خیراورشرکی جنگ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پس منظرمیں رام کی شریک حیات سیتاکے اغواء کی واردات بھی ہے۔راون جو ان کابادشاہ تھا،جنگل سے رام کی بیوی سیتاکواغواکرکے لنکالے گیا۔رام نے بالآخرسیتاکی بازیابی کیلئے لنکاپردھاوابول دیااوراس کے نتیجے میں رام اورراون کے درمیان وہ گھمسان کی جنگ ہوئی جوہندوؤں کی تا ریخ میں مہابھارت کے بعددوسرے جنگ گنی جاتی ہے۔اس جنگ میں رام کوفتح ہوئی، راون ماراگیا اورسیتاکوبازیاب کروالیاگیا۔اسی جنگ سے اردوزبان کوکئی خوبصورت ضرب الامثال محاورے اور فقرے ملے،جن میں ایک یہ ہے”گھرکابھیدی لنکا ڈھائے” مگر یہ ایک اورہی قصہ ہے ۔ یہاں اصل بات یہ ہے کہ ایک عورت کی بے تکریمی ایک بہت بڑی تاریخ سازجنگ کاجوازبن گئی۔کہنے وا لے کہہ سکتے ہیں کہ یہ”ہندوتاریخ کاہے لیکن سوال یہ ہے کہ جنگ ایک عورت کی وجہ سے اوراس کے دفاع کیلئے ہوئی۔

بہت سے قو م پرست سندھ میں محمدبن قاسم کی آمدکوراجہ داہرکے ہاتھوں چندمسلم خواتین کے اغواسے متعلق نہیں سمجھتے،وہ سمجھتے ہیں کہ یوسف بن حجاج حملے کی تیاری کئے ہوئے تھا، چندمسلم خواتین کے اغواکے واقعے نے محض ایک جوازفراہم کردیا۔توکیارام نے بھی لنکاپرحملے کی تیاری کررکھی تھی اورسیتاکااغوامحض ایک بہانہ اورجوازتھا؟؟دیکھاجائے تو مسلمانوں کا تویہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان مظلوم بھائیوں کی ہرحال میں مددکریں۔ اسلام امت مسلمہ اورمسلم برادری کوہرجگہ خود تکریمی کے درجہ کمال پردیکھناچاہتاہے ۔ اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اگرافرادکی خودتکریمی کایہ عالم ہے توملک وقوم کی خودتکریمی ،خودمختاری کاکیاعالم ہوگا!پاکستان توویسے بھی کلمہ کی بنیادپرمعرض وجودمیں آیااوراس کو دارالاسلام کانام دیاگیا،صرف پا کستان نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی خودمختاری نوحہ کناں ہیں۔
اپنی نسل اوراپنی نوع کے تحفظ کاشعورانسانوں میں کیاحیوانوں اوردرختوں تک میں پایاجاتاہے۔بیماری کے جراثیم درختوں پر حملہ آورہوتے ہیں تودرخت اپنی طرزکے پیغامات ہوا کے جھونکوں کے سپردکرتے ہیں تاکہ ان سے فاصلے پرموجوددرخت ان بیماری کی آمدسے قبل وصول کرکے اپنی تمام مدافعتی قوتوں کوبیداراورمتحرک کرلیں۔یہ نباتات کاوہ دفاعی نظام ہے جوا للہ تعالی نے ان کوودیعت کررکھاہے۔درختوں کا”ملک”ان کااپناوجودہے۔حیوانات کاملک ان کاجغرافیہ ہوتاہے، ان کی نوع ہوتی ہے،اوران کی حریف قوتیں ان کی طاقت کے بقدران کی خودمختاری کااحترام کرتی ہیں۔

آخرامریکا،اس کے اتحادیوں یہودوہنودنے کیاسمجھ لیاہے!کیاہم حیوانات اورنباتات سے بھی نچلے درجے کی کوئی مخلوق ہیں؟کیا ہماری کوئی تکریم نہیں؟ کیاہماراکوئی ملک نہیں؟ کیااس کی حدودکے کوئی معنی نہیں؟کیاہماری کوئی خودمختاری نہیں؟کافراور مشرک اگرعورت کیلئے جنگیں لڑسکتے ہیں توکیاہم اپنے مادروطن کابھی دفاع نہ کریں گے؟ہم جواشرف المخلوقا ت ہیں،ہم جو مسلمان ہیں۔ہمیں توہمارے رب نے توقرآن میں یہ حکم دیاہے کہ:
”اورتم لوگ،جہاں تک تمہارابس چلے،زیادہ سے زیادہ طاقت اورتیاربندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کیلئے مہیارکھو ۔تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اوران دوسرے اعداکوخوفزدہ کردوجنہیں تم نہیں جانتے مگراللہ جانتاہے۔اللہ کی راہ میں جوکچھ تم خرچ کروگے اس کاپورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گااورتمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔

وہ مسلمان جسے اس کادین ہتھیاربنانے اورگھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتاہے،اس کے ماننے والے آج مغلوب کیوں ہیں؟ان کی خودمختاری ایک مذاق کیوں بن گئی ہے؟جب ٹرمپ نے سعودی عرب کوجتلایاکہ امریکی تحفظ کے بغیرتمہاری حکومت دوہفتے بھی نہیں چل سکتی،ان ہی دنوں سعودیہ میں ایک اونٹ کو16ملین ریال کاسونے کاہارپہنایاگیاتھا۔ مجھے مسلمان حکمران معتصم باللہ کاعبرتناک منظریادآگیاجب اسے آہنی زنجیروں اوربیڑیوں میں جکڑکر چنگیزخان کے پوتے ہلاکوخان کے سامنے کھڑاکیاگیا…….کھانے کاوقت آیاتوہلاکو خان نے خودسادہ برتن میں کھاناکھایااورخلیفہ کہ سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے جواہرات رکھ دیئے۔پھرمعتصم سے کہا”کھاؤ،پیٹ بھرکرکھاؤ،جوسوناچاندی تم نے اکٹھا کررکھاتھا،اسے آج کھاؤ…. . …..

بغدادکاتاج داربیچارگی وبےبسی کی تصویربناکھڑاتھا……..بولا”میں سوناکیسے کھاؤں؟”……ہلاکونے فوراکہا:پھرتم نے یہ سونااورچاندی کیوں جمع کیا؟وہ مسلمان جسے اس کادین ہتھیاربنانے اورگھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتاتھا،کچھ جواب نہ دے سکا۔ہلاکو خان نے نظریں گھما کرمحل کی جالیوں اورمضبوط دروازے دیکھے اورسوال کیا:تم نے ان جالیوں کوپگھلاکرآہنی تیراورکیوں نہیں بنائے؟تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کورقم کیوں نہ دی کہ وہ جانبازی اوردلیری سے میری افواج کامقابلہ کرتے؟”

خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا،”اللہ کی یہی مرضی تھی”۔ ہلاکو نے کڑک دارلہجے میں کہا:”پھرجوتمہارے ساتھ ہونے والاہے وہ بھی خداہی کی مرضی ہوگی”۔ہلاکو خان نے معتصم بااللہ کومخصوص لبادے میں لپیٹ کرگھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندڈالااورچشم فلک نے دیکھاکہ اس نے بغداد کوقبرستان بنا ڈالا …….. دریائے دجلہ کے دوپاٹوں کارنگ تبدیل ہوگیا، ایک مسلم خون کی وجہ سے سرخ اوردوسرابغدادکی علم وفنون سے مزین کتب کی سیاہی سے سیاہ ہوگیا۔ہلاکونے کہا”آج میں نے بغدادکوصفحہ ہستی سے مٹاڈالاہے اوراب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والابغدادنہیں بناسکتی……..اورکئی صدیوں تک ہلاکوکی بازگشت بطورعبرت تاریخ کے دریچوں میں گونجتی رہی اورمسلمان ہی نہیں دنیابھی اس نادرعلوم سے محروم ہو گئی تاوقتیکہ ایک دوسراہلاکو ہزاروں میل دورقصرسفید سے اپنے اتحادیوں سمیت اپنی خون آشام پیاس بجھانے کیلئے آن ٹپکااورایک ایسے بہانے سے حملہ آورہواجس کی بعدازاں اسے معافی بھی مانگنی پڑی لیکن افسوس اورصدمہ تواس بات کاہے کہ اس نے نہ صرف بغدادکوتباہ کرنے کاکئی گنازیادہ معاوضہ بھی مسلم ممالک سے وصول کیابلکہ آج انہی ممالک میں اپنے اڈے قائم کرکے ان سے بلین ڈالرسالانہ خراج بھی وصول کررہاہے لیکن کسی میں بھی اتنی بھی جرأت نہیں کہ ان ظالموں کا گریبان پکڑسکے کہ اس نے عراق کی خودمختاری کو کیوں روند ڈالا،تم نے خوفناک بموں سے لاکھوں عراقیوں کے کیوں چیتھڑے تک اڑا دیئے،عراق کی صدیوں سے محفوط سولائزیشن کوکیوں نابودکردیا ؟؟ ؟ اس میں قصورکس کا ہے ؟ہمارے مسلمان عیاش حکمرانوں کی ساری دولت امریکاکے بینکوں میں پڑی ہے اوروہ آج انہی ممالک کی خودمختاری سے کھیل رہا ہے تاریخ توفتوحات گنتی ہے۔محلات، لباس ،ہیرے جواہرات اورانواع واقسام کے لذیذکھانے نہیں؟

گولڈہ مائرکواسرائیلی آئرن لیڈی کے نام سے جانتے ہیں کیونکہ 1973 میں عربوں کوشرمناک شکست دینے میں اس کی دفاعی پالیسیوں کابڑاہاتھ ہے۔ کسی نے اسرائیلی وزیر اعظم سے اس فتح کی وجہ پوچھی تواس نے ایساچونکادینے والاجواب دیاجوہم مسلمانوں کیلئے نہ صرف شرمندگی کاباعث ہے بلکہ آج بھی اس سے سبق حاصل کرکے مسلمان اپناکھویا ہوامقام حاصل کرسکتے ہیں۔گولڈہ مائرکاجواب یہ تھاکہ میں نے امریکی اسلحہ کی خریداری کااستدلال اپنے دشمنوں(مسلمانوں) کے نبی محمد ﷺ سے سیکھا۔ میں نے جب ان کی سوانح عمری پڑھی تومجھے پتہ چلاکہ ان کاجب وصال ہواتوان کے گھرمیں اتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کیلئے تیل خریداجاسکے لہنداان کی اہلیہ(حضرت عائشہ )نے ان کی زرہ بکتررہن رکھ کرتیل خریدالیکن اس وقت محمد ﷺ کے حجرے کی دیوارپر9تلواریں لٹک رہی تھیں۔میں نے سوچاکہ دنیامیں کتنے ممالک ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزوراقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گے لیکن مسلمان آدھی دنیاکے فاتح بن گئے۔لہندامیں نے فیصلہ کرلیاکہ اگر مجھے اورمیری قوم کوبرسوں بھوکارہناپڑے،پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں رہناپڑے توبھی اسلحہ خریدیں گے،خودکومضبوظ ثابت کرکے فاتح کااعزازپائیں گے۔آج ہم اگرامت مسلمہ کی حالتِ زار دیکھیں تو ہمیں نظرآئے گاکہ مسلمانوں کے وسائل سے حاصل آمدنی ہی مسلمانوں کے قتل عام میں استعمال ہورہی ہے۔

رسول اکرم ﷺ کے گھر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا مگر دیوار پر تلواریں ضرور لٹکی ہوئی ہوتی تھیں۔حضرت عائشہ سے روایت ہے: فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حال میں وفات پائی کہ آپ کی زرہ30صاع جوکے بدلے ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی۔ (بخاری)

ذرا تصور کریں………. جب یورپ کے چپے چپے پر تجربہ گاہیں اورتحقیقاتی مراکزقائم ہورہے تھے تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارالے کراپنی محبوبہ کی یادمیں تاج محل تعمیرکروا رہاتھااوراسی دوران برطانیہ کابادشاہ اپنی ملکہ کے دوران ڈلیوری فوت ہو جانے پرریسرچ کیلئے کنگ ایڈورڈمیڈیکل سکول کی بنیاد رکھ رہا تھا۔جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے تب یہاں تان سین جیسے گوئیے نت نئے راگ ایجادکررہے تھے اورنوخیز خوبصورت وپرکشش رقاصائیں شاہی درباروں کی زینت وشان بنی ہوئی تھیں……..جب انگریزوں،فرانسیسیوں اورپرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیرکے دروازوں پردستک دے رہے تھے تب ہمارے ارباب اختیار شراب وکباب اورچنگ ورباب سے مدہوش پڑے تھے۔

پاکستان آج پہلی اسلامی ایٹمی قوت توبن گیاہے لیکن اس وقت خطرناک معاشی اورسیاسی بحران میں مبتلاہے۔ایک اطلاع کے مطابق صرف یواے ای میں پاکستانی دوسوبلین ڈالر سے زائدکی مالیت کی عمارات کے مالک ہیں۔امریکا،کینیڈاا،یورپ اوربرطانیہ میں کرپشن کی دولت کاتوشمارتک نہیں کیاجاسکتالیکن عزت ایک کوڑی کی نہیں۔یہ مقام عبرت نہیں تواورکیاہے۔پھرکس منہ سے ہم خودمختاری ،عزت ووقارکے حصول کی بات کرتے ہیں؟تاریخ کواس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یاخالی؟ شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یانہیں؟درباروں میں خوشامدیوں ، مراثیوں، طبلہ نوازوں ، طوائفوں،وظیفہ خوارشاعروں اورجی حضوریوں کاجھرمٹ ہے یانہیں؟ تاریخ کوصرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہیاورتاریخ کبھی عذرقبول نہیں کرتی۔یادرکھیں جن کوآج بھی دولت سے لگاؤاور طاغوت کی غلامی کاچسکا ہے ان کا حال خلیفہ معتصم باللہ سے کم نہیں ہو گا۔
دل گیاتھاتویہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویرکہاں تک دیکھوں

اپنا تبصرہ بھیجیں