خیالوں کی جنت یاجہنم

:Share

جنوری کے اواخر میں سوئس شہرڈیووس میں دی ورلڈ اکنامک فورم کےسالانہ اجلاس بین الاقوامی سیاسی و کاروباری قائدین، ماہرینِ معاشیات اوردیگر ہائی پروفائل شخصیات ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوئے،جہاں وہ دنیاکودرپیش مسائل پرغوروفکراورتبادلۂ خیالات کیا۔اپنے بااثرسی ای او “کلازشوئیب”کے وژن کے تحت کام کرنے والا دی ورلڈ اکنامک فورم نئے گریٹ ری سیٹ کیلئے مرکزی قوتِ متحرکہ ہے یعنی یہ کہ ہم کس طور جئیں گے،کس طورکام کریں گے اورکس طورمعاشرتی تفاعل وتعلقات کے حامل ہوں گے۔”دی گریٹ ری سیٹ”کامقصد ایک ایسے عالمی ماحول کومعرضِ وجودمیں لاناہے،جس میں شخصی آزادیوں پرغیرمعمولی حد تک قدغن لگائی جائے،دواسازی اورہائی ٹیک کے ادارے زیادہ سے زیادہ پروان چڑھیں،آن لائن ادائیگی کاکلچرپنپتا جائے ۔بگ ڈیٹا اداروں(یاہو،گوگل،امیزون وغیرہ)اورخوردہ فروشی کے عالمگیراداروں کیلئے بھی پنپنے کی زیادہ سے زیادہ گنجائش رکھی جائے گی۔

کوروناکی روک تھام کے نام پرلگائے جانے والے لاک ڈاؤن اوردیگرپابندیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاکرایک ایسی دنیا معرضِ وجود میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے،جسے چوتھے صنعتی انقلاب کانام دیاجارہاہے۔پرانے معاشی نظام کے بیشتر اداروں کودیوالیہ قراردے کرختم کردیاجائے گایا پھرانہیں کسی نہ کسی طوربڑے اداروں میں ضم کرکے اجارہ داریاں قائم کی جائیں گی۔اس کابنیادی مقصد کوروناوائرس سے پہلے کی معیشت کو بہت حدتک ختم کرناہے۔دنیابھرمیں معیشتوں کی تشکیلِ نوکی جارہی ہے،جس میں بیشترکام مصنوعی ذہانت کی بنیادپرکام کرنے والی مشینیں انجام دیاکریں گی۔

وی ورلڈ اکنامک فورم نے پیش گوئی کی ہے کہ2030ءتک لوگوں کی ملکیت میں کچھ بھی نہ ہوگامگراس کے باوجودوہ خوش ہوں گے۔اس حوالے سے جاری کی جانے والی ایک ویڈیومیں دکھایاگیاہے کہ ایک گھرمیں ڈرون کے ذریعے کوئی پارسل اتاراجارہا ہے جویقیناًروبوٹ نے پیک کیاہوگا ۔ویڈیو کے مطابق جوکچھ بھیجاگیاہے اس کی تیاری،پیکیجنگ اورڈلیوری میں کسی انسان کاکوئی عمل دخل نہیں اوریہ کہ یہ پیکیج وائرس اور بیکٹیریافری ہے ۔گویا 2030ء میں بھی لوگوں کوزیادہ سے زیادہ خوفزدہ رکھنے کیلئے وائرس سے بچاؤ کابیانیہ استعمال کیاجارہاہوگا۔

لاک ڈاؤن اوردیگرپابندیوں کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں کی بساط تولپٹ جائے گی۔اس کے نتیجے میں غیرمعمولی،بلکہ تباہ کن نوعیت کی بے روزگاری پیداہوگی۔ہوسکتاہے کہ دنیابھرمیں لوگوں سے کہاجائے کہ وہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں اپنے تمام اثاثے ریاستی مشینری کے حوالے کردیں اوراس کے عوض انہیں بنیادی تنخواہ اداکرنے کی یقین دہانی کرادی جائے گی،یعنی اتنا دیاجاتارہے گاکہ وہ جسم وجاں کارشتہ برقراررکھنے میں کامیاب ہوسکیں۔اس بڑی تبدیلی کیلئے خصوصی مالیاتی ادارے قائم کیے جاسکتے ہیں۔دی ورلڈاکنامک فورم کہتاہے کہ لوگوں کوجس چیز کی ضرورت ہواکرے گی انہیں کرائے پرمل جائے گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنی ملکیت میں کچھ بھی رکھنے کی ضرورت نہیں اوریہ سب کچھ ’’پائیدارصَرف‘‘اورسیارے یعنی زمین کو بچانے کے نام پرہوگا۔چندبااثرشخصیات پرمشتمل اشرافیہ پوری دنیاکے وسائل پرقابض ومتصرف ہوگی۔اس وقت دنیابھرمیں کروڑوں افرادکو ضرورت سے زیادہ سمجھ لیاگیاہے اوران سے روزگارچھیناجارہاہے۔ہماری تمام تجارتی اورمالیاتی ڈیلنگز آن لائن ہوں گی یعنی اچھی طرح مانیٹرکیاجائے گاکہ ہم کیا حاصل کررہے ہیں اورکیاخرچ یاصرف کررہے ہیں۔

جوکچھ انفرادی سطح پرہوگاوہی کچھ اجتماعی یاملکی سطح پربھی ہوگا۔لاک ڈاؤن اوردیگرپابندیوں کے باعث جوممالک شدید معاشی مشکلات سے دوچارہو کرمعاشی توازن کھوبیٹھیں گے اُن کی’’مدد‘‘کی جائے گی۔ یہ مدد اس شرط پرہوگی کہ نیولبرل اصلاحات نافذ کی جائیں گی،سرکاری شعبے کی خدمات کادائرہ چھوٹاکردیاجائے گا۔

20/اپریل کووال اسٹریٹ جرنل نے ایک خبرشائع کی،جس کے مطابق آئی ایم ایف اورعالمی بینک سے درجنوں پس ماندہ اورترقی پذیرممالک نے فوری امداد کی اپیل کی ہے اوربیل آؤٹ پیکیج مانگے ہیں۔جوکچھ مانگاجارہاہے اس کی مجموعی مالیت1200/ارب ڈالرسے زیادہ ہے۔امداددینے کے عوض بل گیٹس اور ِسی حیثیت کی دیگرشخصیات اوراداروں کوکمزور ممالک کی قومی پالیسیوں پرمزیدتصرف حاصل ہوجائے گااوروہ کھل کراپنی بات منواسکیں گے۔

ایک بڑاسوال یہ ہے کہ انفرادی اورسماجی شناخت کاکیابنے گا۔کیاانسان کے پورے وجودکومالِ تجارت میں تبدیل کرنے کے عمل میں انفرادی اورسماجی شناخت کو یکسر مٹادیا جائے گا؟ جو انتہائی مالدار افراد اور ادارے”دی گریٹ ری سیٹ”کے ایجنڈے پرعمل کررہے ہیں اُن کادعویٰ ہے کہ وہ فطری ماحول کے ساتھ ساتھ انسانوں کوبھی مکمل طورپرکنٹرول کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے وہ ماحول کوبدلنے کی خاطرجیوانجینئرنگ سے کام لے سکتے ہیں۔مثلاًزرعی زمین کی ساخت تبدیل کرنے کاعمل یاپھرفطرت کی طرف سے عطاکی جانے والی بہت سی اشیالیب میں تیارکی جا سکتی ہیں۔

عالمی اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ تاریخ کے سفرکوختم کرکے وقت کاپہیہ الٹاگھماسکتی ہے،یعنی یہ کہ دنیاکواپنی مرضی کے مطابق چلایاجا سکتاہے،انسانوں کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالاجاسکتاہے۔ایک ہوتی ہے خیالوں کی جنت اورایک ہوتا ہے خیالوں کاجہنم۔عالمی اشرافیہ اس دنیاکوایسے مقام تک پہنچانا چاہتی ہے جہاں اِسے دیکھنے کے تصورسے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔دنیاکواس مقام تک پہنچانے کیلئے ہزاروں سال کے ثقافتی ورثے اورروایات کوبیک جنبشِ قلم ختم کرناہوگا۔ان روایات میں سے بیشتر کاتعلق اشیائے خوردونوش سے ہے اوریہ کہ ہم فطرت سے اپناتعلق کس طوراستواررکھتے ہیں ۔ہم ہزاروں سال سے جن اقدار وروایات کی پاس داری کرتے آئے ہیں ان کاتعلق اصلاًاس بات سے ہے کہ ہمارا فطرت سے تعلق کس نوعیت کاہے۔ اگر فطرت کو زندگی سے نکال دیاجائے توکچھ بھی باقی نہیں رہتا۔بہت سے تہواروں اورمذہی رسوم کاتعلق فطرت سے بہت گہراہے۔سب کچھ زمین اور ماحول سے جُڑاہواہے۔ہم یہ سب کچھ کسی طورنظراندازنہیں کرسکتے۔بہت کچھ ہے جس کاتعلق سورج اورچاندسے ہے اوردوسرابہت کچھ ہے جو موسموں سے منسلک ہے۔یہ سب کچھ ہمارے ہماری کہنہ وپختہ روایات کاحصہ ہے۔

پروفیسررابرٹ ڈبلیونکولزکہتے ہیں کہ انسان اورماحول کے تعلق کوسمجھنے کیلئے بھارت کودیکھیے۔وہاں بیشتربنیادی اقدار ماحول سے جڑی ہوئی ہیں۔سبھی کچھ موسم کے مطابق ہے اوریہ سب کچھ محض دیہی ماحول کاحصہ نہیں بلکہ شہری ماحول بھی بھی لازمی جُزہے۔کیمیکلزکی بنیادپر قائم صنعتی اداروں نے خودکوخداکانمائندہ قراردینے سے بھی گریزنہیں کیا۔1950ءکے عشرے میں یونین کاربائڈ نے اپنے بروشراورپوسٹرزکے ذریعے یہ تاثرقائم کرنے کی کوشش کی کہ وہ ادارہ نہیں بلکہ خداکاہاتھ ہے،جودنیاکے مسائل حل کرنے آیاہے۔ایک پوسٹرمیں ہاتھ دکھائی دیاجس میں ایگروکیمیکلز کی مصنوعات ہیں ۔گویایہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ زراعت کے قدرتی طریقے فرسودہ وناکارہ ہیں۔

جولوگ دنیاکوبدلنے کیلئے بے تاب ہیں اوراپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالناچاہتے ہیں اُن کے ارادوں کے بارے میں لکھنے والوں کی کمی کبھی نہیں رہی۔ پروفیسر گلین اسٹون نے اپنے مقالے’’نیوہسٹریزآف دی گرین ریوولیوشن‘‘میں لکھاہے کہ بڑے صنعتی اداروں نے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ کیمیائی موادپرمبنی کھاداوردیگراشیاسے زمین کی پیداواری صلاحیت کئی گنا بڑھائی جاسکے گی اورکم رقبے میں غیرمعمولی پیداوارحاصل ہواکرے گی۔یہ دعوے مجموعی طورپربے بنیادثابت ہوئے۔زمین کی پیداواری صلاحیت غیرمعمولی حدتک بڑھاناتوممکن نہ ہوسکا،ہاں کیمیائی کھاداورکیڑے مارادویات کے مستقل اسپرے کے نتیجے میں ماحول،معاشرتی اورمعیشت کوطویل المیعادپرنقصان ضرورپہنچا۔

یہی وجہ ہے مودی سرکارنے ملکی اورغیرملکی سرمایہ دارں کی پالیسیوں کوقانونی شکل دینے کیلئے اپنے ملک کے کسانوں کو جس سبزانقلاب کی نویدسنائی،اس کی حقیقت افشاءہونے پرملک بھرکے کسانوں نے تین مہینوں سے دہلی کاگھیراؤکررکھاہے۔ دراصل مودی سرکارکی طرف سے نافذ کردہ قوانین کے مطابق کسان صرف سرمایہ دارکی مرضی کے مطباق اسی فصل کوکاشت کرے گاجس کااسے حکم ہوگاکیونکہ کسان کوحکومت کی بجائے یہی سرمایہ دار قرض مہیاکریں گےاورکسان کی شب وروزمحنت کے بعدسرمایہ داراپنی مرضی کی قیمت پران کی فصل کے دام لگائے گا گویاکسان کومکمل طورپرسرمایہ دارکی غلامی میں دے دیا گیاہے گویامودی سرکارنے زرعی سائنس کی خوبیوں کے نام پراپنے ہی ملک کے کروڑوں کسانوں کوگروی رکھ دیاہے۔

اسی حوالے سے وندناشِواکی کتاب’’دی وایولنس آف دی گرین ریوولیوشن‘‘سے بہت کچھ سمجھااورسیکھاجاسکتاہے۔ حیاتاتی ٹیکنالوجی کے نام پرکسانوں کوسبزانقلاب کی نویدسناکرشیشے میں اتارنے کی کوشش کی جائے گی جس میں ان کواس ٹیکنالوجی کے استعمال سے زمین سے زائد آمدن کاجھانسہ دیاجائے گاجویقیناً موجودہ مقدارسے زائدفصل توحاصل کی جائے گی لیکن اس کادیرپازمین کی زرخیزی پرجوتباہ کن نقصانات ہوں گے،ان سے کسانوں کوآگاہ نہیں کیاجارہاکیونکہ سرمایہ داراپنے زیادہ نفع کیلئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ونداشوانے اپنی کتاب میں خبردار کیاہے کہ کسانوں کے موجودہ ماحولیاتی نظام میں ان کی برسوں کی دانشمندی کواگرحیاتیاتی ٹیکنالوجی میں تبددیل کرنے کی کوشش کی تویہ پنجاب کو پھاڑنے کے شدید معاشرتی اور سیاسی تنازعات میں بھی اہم کرداراداکرے گا۔نئے قوانین کے نفاذکی آڑمیں جدیدسائنس کے ذریعے حاصل کردہ مراعات یافتہ طبقہ دراصل کم تعلیم یافتہ کسانوں کی نفسیاتی پوزیشن سے فائدہ حاصل کرنے پرتلے ہوئے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی مسائل اس ملک کی زراعت کوتباہ کردے گااورکروڑوں کسانوں کوشدیدمعاشی مشکلات کی بناء پرراست اقدام کی طرف مائل کرے گاجس سے نمٹنانہ صرف مشکل ہوجائے گابلکہ ملکی سلامتی کیلئے ناقابل برداشت ہوجائے گا۔اس کیلئے ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے مستقل زرعی پالیسی کاازسرنوجائزہ لیاجائے اورکسانوں کی موجودہ مشکلات میں ان کوخصوصی ریلیف دیاجائے۔

اوربھاسکرساوے نےاپنے’’اوپن لیٹرٹوانڈین آفیشلز‘‘میں بروقت خبردارکرتے ہوئے متنبہ کیاہے کہ کسانوں کے بارے میں قومی کمیشن کے مطابق ہندوستان میں زراعت کی دس ہزارسالہ پرانی تاریخ ہے لیکن پچھلی پانچ دہائیوں سے زرعی سائنسدانوں نےقدرتی طورپراگائی جانے والی فصلوں میں اضافے کیلئے جوتحقیقات کی ہیں،اورجن مصنوعی ذرائع کے استعمال سے جس سبز انقلاب کی طرف کسان کومائل کیاجارہاہے،اس سے غیر معمولی فصلوں کے تنوع کادیرپانقصان تباہی کاایساراستہ ہوگاجس سے زرخیززمینوں کاصحرابننے کاعمل تیزی سے شروع ہونے کاامکان بڑھ جائے گا۔یادرہے کہ ہم یہ مصنوعی سبزانقلاب کاراستہ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی بناء پرقبول ہونے پرراغب توہوجائیں گے لیکن یہ کسی طورپربھی دیرپا فائدے کاسبب نہ بن سکے گا۔مہاراشٹر،آندھراپردیش،ودھاربھااوردیگرشہروں میں کسانوں کی بڑھتی ہوئی خودکشیوں نے بارہا ہماری توجہ ہماری ان غلط پالیسیوں کی طرف دلائی ہے جن کوہم سرمایہ داروں کے خوف سے تبدیل کرنے سے قاصرہیں لیکن ان کسانوں کے مطالبات سے چشم پوشی ملک میں سبزانقلاب کی بجائے کسی خونی انقلاب کی طرف بگٹٹ بھاگتی نظرآرہی ہے بالخصوص پنجاب کاوہ کسان جونہ صرف سارے ملک بلکہ خطے کے دیگرممالک کوبھی خوراک سپلائی کرنے کی خوبصورت روایت کولیکرچل رہاتھا،اب یہاں کسان خوداپنے مسائل میں الجھ کراپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پرمجبورہوگئے ہیں اوریہ راستہ نہ صرف اس ملک بلکہ خطے میں قحط کوجنم دے گا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق دنیابھرمیں زرعی شعبے کوہتھیانے کی کوشش کی جارہی ہے۔بھارت جیسے ممالک کوزیادہ مشکل حالات کاسامنا کرناپڑے گا کیونکہ آبادی بہت زیادہ ہونے کے باعث وہ بڑے عالمی کیمیائی اداروں کی طرف سے بڑھائے جانے والے دباؤکاسامنا مشکل ہی سے کر پائے گا۔بھارت اوردیگرترقی پذیرممالک کے کروڑوں کسانوں کوپریشانی کاسامناکرنا پڑے گاکیونکہ وہ اب تک اس حالت میں نہیں کہ اپنے تمام فیصلے خود کرسکیں۔ قرضے لے کرفصلیں اگانے والے کسان خراب موسمی حالات کے باعث فصلیں تلف ہونے سے قرضوں تلے دبے رہتے ہیں۔بھارت میں یہ مسئلہ بہت سنگین ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے زرعی صنعتی ادارے کھاداور بیج کے معاملے میں اجارہ داری قائم کرناچاہتے ہیں۔

جینیاتی تبدیلی والے بیج متعارف کراکے یہ ادارے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فوائدیقینی بناناچاہتے ہیں۔وہ وقت زیادہ دورنہیں جب مجبورکسان اپنی زمینیں گروی رکھ کربیج، کھاداورکیڑے ماردوائیں حاصل کرپائیں گے۔اوریوں پس ماندہ وترقی پذیرممالک کے زرعی شعبے سرمایہ داروں کی نذر ہو جائیں گے۔وہ بھارت جہاں پہلے سے دودرجن علیحدگی کی تحریکیں سرگرم ہیں، ان حالات میں مودی سرکارسرمایہ داروں کوخوش کرنے کیلئے جن کسان کش پالیسیوں کونافذکرنے پرتلاہواہے،یقیناًاس کاانجام بھارت کوٹکڑے کرنے کے سوااورکچھ نہیں ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں