گورپیاکوئی ہور!

:Share

ایک مرتبہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک مدینہ طیبہ پہنچے اورچندروزقیام کیااورلوگوں سے دریافت کیامدینہ میں اب کوئی ایسا آدمی موجودہے جس نے کسی صحابی کی صحبت پائی ہو۔لوگوں نے بتایا:ابوازحامؒ ایسے شخص ہیں۔سلیمان نے اپناآدمی بھیج کر ان کوبلایا۔جب وہ تشریف لائے توسلیمان نے کہا”اے ابوازحامؒ یہ کیابے مروتی اوربے وفائی ہے؟“ابوازحامؒ نے پوچھا کہ” آپ نے میری کیابے مروتی اوربے وفائی دیکھی ہے؟“خلیفہ نے کہاکہ مدینے کے سب مشہورلوگ مجھ سے ملنے آئے،آپ نہیں آئے؟

ابوازحامؒ نے کہا:”امیرالمومنین میں آپ کواللہ کی پناہ میں دیتاہوں اس سے کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں جوواقعہ کے خلاف ہے ،آج سے پہلے نہ آپ مجھ سے واقف تھے اورنہ میں نے آپ کوکبھی دیکھاتھا،ایسے حالات میں خودملاقات کیلئے آنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا،بے وفائی کیسی؟“خلیفہ سلیمان نے جواب سن کرابن ِشہاب زہری اورحاضرینِ مجلس کی طرف دیکھا توامام زہریؒ نے فرمایاکہ ابوازحامؒ نے صحیح فرمایاآپ نے غلطی کی۔اس کے بعدخلیفہ نے روئے سخن بدل کرکچھ سوالات شروع کردیئے اورکہاکہ اے ابوازحازمؒ!یہ کیابات ہے کہ ہم موت سے گھبراتے ہیں؟انہوں نے جواب دیاوجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی آخرت کوویران اوردنیاکوآبادکرلیاہے،اس لئے آبادی سے ویرانے کی طرف جاناپسندنہیں کرتے۔خلیفہ نے تسلیم کیااور پوچھا:کل اللہ کے سامنے حاضری کیسے ہوگی؟ابوازحامؒ نے فرمایا:نیک عمل کرنے والاتواللہ کے سامنے اس طرح جائے گا جیسے کوئی مسافرسفرسے واپس اپنے گھروالوں کے پاس جاتاہے اوربرے عمل کرنے والا اس طرح پیش ہوگاجیسے کوئی بھاگا ہواغلام پکڑ کرآقاکے سامنے حاضر کیاجائے۔خلیفہ یہ سن کرروپڑااورکہنے لگاکہ کاش ہمیں معلوم ہوتاکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کیاصورت تجویزکررکھی ہے؟ابوازحامؒ نے فرمایاکہ اپنے اعمال کواللہ کی کتاب پرپیش کروتوپتہ لگ جائے گا۔

خلیفہ نے دریافت کیاکہ قرآن کی کس آیت سے پتہ لگے گا؟فرمایااس آیت سے”دوزخ میں جانے والے اورجنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے،جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔“خلیفہ نے کہاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت توبڑی ہے،وہ بدکاروں پربھی حاوی ہے۔ابوازحامؒ نے فرمایا”قرآن میں آیاہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک عمل کرنے والوں سے قریب ہے۔“خلیفہ سلیمان نے پوچھا،اے ابوازحامؒ!اللہ کے بندوں میں زیادہ عزت والاکون ہے،فرمایا”وہ لوگ جومروت اورعقلِ سلیم رکھنے والے ہیں“پھرپوچھا،کونساعمل افضل ہے توفرمایاکہ ”فرائض اورواجبات کی ادائیگی حرام چیزوں سے بچنے کے ساتھ “ پھردریافت کیاکہ کون سی دعازیادہ قابلِ قبول ہے۔“توفرمایا کہ”جس شخص پراحسان کیاگیاہو،اس کی دعااپنے محسن کے حق میں قبولیت رکھتی ہے“پھردریافت کیاکہ صدقہ کون سا افضل ہے؟توفرمایاکہ مصیبت زدہ سائل کیلئے باوجوداپنے افلاس کے جوکچھ ہوسکے اس طرح خرچ کرناکہ نہ اس سے پہلےاحسان جتائے اورنہ ٹال مٹول کرکے ایذاپہنچائے۔

خلیفہ نے پھردریافت کیا،کلام کون ساافضل ہے؟ابوازحامؒ نے فرمایا کہ”جس شخص سے تم کوخوف ہویاجس سے تمہاری کوئی حاجت ہواور امید وابستہ ہو،اس کے سامنے بغیرکسی رورعائت کے حق بات کہہ دینا۔پھردریافت کیاکہ کون سامسلمان زیادہ ہوشیارہے؟فرمایاوہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے تحت کام کیاہواوردوسروں کوبھی اس کی دعوت دی ہو۔ پھرپوچھامسلمانوں میں کون ساشخص احمق ہے؟فرمایاوہ آدمی جواپنے کسی بھائی کی اس کے ظلم میں امدادکرے جس کا حاصل یہ ہوگاکہ اس نے دوسرے کی دنیادرست کرنے کیلئےاپنادین بیچ دیا۔خلیفہ سلیمان نے کہاکہ صحیح فرمایا۔اس کے بعد خلیفہ نے اورواضح الفاظ میں دریافت کیاکہ ہمارے بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟ابوازحامؒ نے فرمایاکہ مجھے اس سوال سے معاف رکھیں توبہترہے۔خلیفہ نے کہا،نہیں،آپ ضرورکوئی نصیحت کاکلمہ کہیں۔ابوازحامؒ نے فرمایا:

اے امیرالمومنین!تمہارے آباؤ اجدادنے بزورشمشیرلوگوں پرتسلط حاصل کیااور زبردستی ان کی مرضی کے خلاف ان پر حکومت کی اوربہت سے لوگوں کوقتل کیااوریہ سب کچھ کرنے کے بعددنیاسے رخصت ہوگئے۔کاش!آپ کومعلوم ہوتاکہ وہ اب مرنے کے بعد کیاکہتے ہیں اوران کوکیا کہا جاتاہے!

حاشیہ نشینوں میں سے ایک شخص نے بادشاہ کے مزاج کے خلاف ابوازحامؒ کی اس صاف گوئی کوسن کرکہاکہ ابوازحامؒ!تم نے یہ بہت بری بات کہی ہے۔ابوازحامؒ نے فرمایاکہ تم غلط کہتے ہو،بری بات نہیں کہی بلکہ وہ بات کہی ہےجس کاہمیں حکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علماءسے اس کاعہدلیاہے کہ حق بات لوگوں کوبتائیں گے چھپائیں گے نہیں۔خلیفہ سلیمان نے پھر سوال کیاکہ اچھااب ہمارے درست ہونے کاکیاطریقہ ہے؟

فرمایا،تکبرچھوڑو،مروت اختیارکرواورحقوق والوں کوان کے حقوق انصاف کے ساتھ تقسیم کرو۔خلیفہ نے کہاابوازحامؒ کیاہو سکتاہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں۔فرمایا!اللہ کی پناہ!خلیفہ نے پوچھایہ کیوں؟فرمایاکہ اس لئے کہ مجھے خطرہ یہ ہے کہ میں تمہارے مال ودولت اورعزت وجاہ کی طرف کچھ مائل ہوجاؤں جس کے نتیجے میں مجھے عذاب بھگتناپڑے۔ خلیفہ سلیمان نے کہاکہ اچھاآپ کی کوئی حاجت ہوتوبتلایئے کہ ہم اس کوپورا کریں۔فرمایا:ہاں!ایک حاجت ہے کہ جہنم سے نجات دلادواور جنت میں داخل کردو۔خلیفہ نے کہایہ تومیرے اختیارمیں نہیں۔فرمایاکہ پھرمجھے آپ سے اورکوئی حاجت مطلوب نہیں۔ آخرمیں خلیفہ نے کہاکہ اچھامیرے لئے دعاکیجئے توابوازحامؒ نے یہ دعاکی یا اللہ!اگرسلیمان آپ کاپسندیدہ ہے تواس کیلئے دنیاوآخرت کی بہتری کاکام کرناآسان فرما!

خلیفہ نے التجاکی کہ مجھے کچھ وصیت فرمادیں۔ارشادفرمایا:مختصریہ ہے کہ اپنے رب کی عظمت وجلال اس درجہ میں رکھو کہ وہ تمہیں اس مقام پرنہ دیکھے جس سے منع کیاہے اوراس مقام سے غیرحاضرنہ پائے جس کی طرف آنے کاحکم دیا ہے۔خلیفہ نے اس مجلس سے فارغ ہونے کے بعدسو دینار بطورہدیہ کے ابوازحام کے پاس بھیجے۔ابوازحام نے ایک خط کے ساتھ ان کوواپس کردیا۔خط میں لکھاتھاکہ اگریہ سودینارمیرے کلمات کامعاوضہ ہیں تومیرے نزدیک خون اورخنزیرکاگوشت اس سے بہتر ہے اوراگراس لئے بھیجے ہیں کہ بیت المال میں میراحق ہے تومجھ جیسے ہزاروں علمااوردین کی خدمت کرنے والے ہیں، اگرآپ نے سب کواتناہی دیاہے تومیں بھی لے سکتاہوں،ورنہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے نورالحق قادری کومذہبی امورکاوفاقی وزیرمقررکررکھاہے اوران کی وساطت سے اس ملک کے کئی علماومشائخ کوطلب فرما کرشرفِ ملاقات کااعزازبھی بخشتے ہیں لیکن کیانورالحق قادری حکمرانوں کواس طرح مخاطب کر سکتے ہیں جس طرح ابوازحام تابعی نے خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کوکیا!یہ مقام لمحہ فکریہ ہے۔کیاطارق جمیل آج میڈیاپر یاکسی نجی ملاقات میں حکمرانوں اوران تمام طاقتورافرادکواس بات کی تلقین کرسکتے ہیں کہ پیغمبراسلام اوران کے اصحابہ کانامِ گرامی کس طرح لیاجاتاہے،حساس مذہبی عہدوں پرمنظورِ نظر افرادکی بجائے اہل افرادکی تعیناتی کا حق ایک امانت ہے جس کادین ودنیامیں کڑاحساب لیاجائے گا۔اسلامی ملک کے قاضی اورحکمرانوں کے تعلقات کیسے ہوتے ہیں اوران کے احکام اور فیصلوں کی تعمیل کس طرح کی جاتی ہے!

ان دنوں بابراعوان جنہوں نے جنرل ضیاءسے لیکرزرداری تک کواپنی وفاداری کے نشے میں مبتلارکھااوراب عمران خان کادم بھرتے ہیں،موصوف درسِ قرآن کااہتمام بھی کرتے تھے۔کیاوہ بھی آخرت کی جوابدہی فراموش کرچکے کہ قرآن تو بڑی صراحت کے ساتھ مطالبہ کرتاہے”لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ“تم وہ بات کیوں کہتے ہوجس پرتم خودعمل نہیں کرتے۔کیااسلامی تاریخ یا کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسی کوئی ادنیٰ سی بھی مثال موجودہے جہاں ایک طرف دینی تعلیمات کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ اس طرح راتوں رات سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کارواج ہو۔ مجھے یادہے کہ موصوف نے ایک عوامی اجتماع میں ایک صوفی کا قول بھی دہرایاکہ” بلھیاگورپیاکوئی ہور“۔نجانے مجھے کیوں یقین ہوچلاہے کہ اب گور کے ساتھ کوئی دھوکہ نہ ہوپائے گا۔قبراپنی اپنی،اعمال اپنے اپنے!
یہی شیخِ حرم ہے جوچراکربیچ کھاتاہے
گلیمِ بوذرودلقِ اویس وچادرزَہرا

اپنا تبصرہ بھیجیں