Sample Kaaba

عشق وفدائیت کی منزلیں

:Share

اللہ اکبر….وہ کون ساگھرہے آپ کی نگاہیں جس کی دیوار وں کی بلائیں لیکر پلٹی ہیں جہاں آپ کاجسم بھی طواف میں تھا اورآپ کا دل بھی ……دنیا کے بت کدوں میں کل بھی وہ پہلا گھرتھا خدا کا اورآج بھی ۔ دو چار صدیوں کی بات نہیں بلکہ دنیا کا سب سے پہلا عبادت خانہ! بنی آدم میں کسی کے حافظے میں اس وقت کی یادیں محفوظ ہیں……..!
اس طویل عرصے میں بے حساب مندرتعمیرہوئے لا تعداد گرجے آباد ہوئے، کیسے کیسے انقلابات سے یہ زمین آشنا ہوئی کیسی کیسی بلندیاں پستیاں ہوئیں، کون کون سی تہذیبیں ابھر یں اور مٹیں ….چاہے مصر وبابل ہوں یا روم و ایران لیکن عرب کے ریگستانوں میں چٹانوں اور پہاڑوں کے وسط میں سیاہ غلاف میں لپٹی یہ عمارت جس کو رب نے ”اپنا گھر ” کہا اس کو زمانے کاکو ئی طوفان،کوئی انقلاب،کوئی زلزلہ اپنی جگہ سے نہ ہلا سکا…….. ابرہہ اس کومٹانے اٹھاوہ خود مٹ گیا۔
اللہ کاخاص کرم ہے ان نفوس پرجن کورب العزت اپنے گھرکی زیارت کی توفیق مرحمت فرمادیں ۔ اس سفرحجاز میں باربارعملی طواف ِ شوق کی تکمیل کہاں ممکن ہے،آپ کی نظروں نے اس گھر کاطواف ابھی مکمل نہیں ہوپاتاکہ روح کی ضدکہ یہیں حیات تمام ہوجائے….!ہرتکلف وتصنع سے مبرایہ سیاہ چوکورگھر….آپ کی نگاہ جب پڑتی ہے توجم کررہ جاتی ہے اورروح ایسی سرشارہوتی ہے کہ عجزوانکساری سے سجدہ ریزہوجاتی ہے!!اوراس موقع پرموسیٰ کلیم اللہ یادآتے چلے جاتے ہیں جب اس کے گھرکی تجلی پرہوش وحواس قائم رکھنا مشکل ہے تواس گھر کے رب کی تجلی نے کیاکیا ہلچل بپاکرتی ہوگی!جب گھرکی برق پاشیوں کا ہ عالم ہے کہ جودیکھتاہے وہ کچھ اور دیکھنابھول جاتاہے اورہمیشہ کیلئےیہی نظروں میں سماجاتاہے توگھروالے کے دیدارکی تاب انسانی بصارت بھلا کہاں لاسکتی ہے!
درمصحف روئے او نظر کن
خسر و،غزل وکتاب تا کے
”اس کے چہرے کی زیبائی کو دیکھواے خسرو،شعروکتاب میں کب تک مشغول رہو گے ”
رب کعبہ کایکتاگھرنظروں کے سامنے تجلیاں بکھیررہاتھا جسے پہلی مرتبہ کسی انجینئر،کسی ماہر تعمیرات نے نہیں بنایا،نہ لاکھوں روپے کاسامان ِ تعمیراس پرلگا،نہ جدید مشینری استعمال ہوئی !!! اللہ کے گھرکامعمار…….؟؟ ہاں وہ معماربھی لمحہ لمحہ ہمارے تصورمیں آرہاہے جواپنے سرپر بھاری بھاری پتھراٹھاکرلارہاتھا،جس کے ہاتھ چونے،مٹی اورگارے سے بھرے ہوئے تھے۔عرب کی چلچلا تی ہوئی دوپہروں میں ریگستان کی آگ بھرساتی دھوپ کی پرواکیے بغیر روپے پیسے کی مزدوری سے بے نیازوہ مزدور…..جوگویااپنے پورے وجودکواس گھرکی تعمیرمیں لگارہے تھے اورگھرکامالک بڑے چاؤسے بڑے پیارسے ذکرکرتاہے ان ”مزدوروں”کا”جب ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علہ السلام اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے:
ہاں! اس گھر کی زیارت کرتے ہوئے جب چشم تصورمیں نظریں اس پر ٹھہرجاتی ہیں تولگتاہے کہ جوہاتھ اب تعمیربیت اللہ میں مشغول ہیں،پتھر پر پتھر رکھ رہے ہیں ہا تھوں میں چونا اور گارا ہے اور چشم ِ اشکبار اشکوں سے لبریز ….. کہ دل کا سوزوگد ا ززبان پر آ جا تا ہے کہ ”……… رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاۖإِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے بے شک تو سب کچھ سننے اور جا ننے والا ہے”۔البقر ہ۱۲۷
تویہ ہے دوستوں کی شان ……عشق کی منزلوں سے آگے کی منزلیں ……فدائیت کی منزلیں ……کہ سب کچھ لگا کر بھی دھڑ کا یہی لگا ہوا ہے کہ مٹنا قبول بھی ہو گا کہ نہیں …..؟؟؟
اگرایسا گھرنہیں دنیامیں تواس گھرکے سے مزدورکب دیکھے ہیں دنیا نے!دنیا کے کسی مزدورنے وہ مزدوری مانگی جو بیت اللہ کے مزدوروں نے مانگی تھی اور مزدوری کی طلب تودیکھئے ، تنہا اپنی ذات کے لیے نہیں ہم بھی شریک تھے اس اجرت کی طلب میں کہ”اے ہمارے رب ! ہم دونوں کو اپنا فرمانبرداربنااورہماری اولادسے ایک امت اپنی فرمانبرداربنااورہمیں ہمارے حج کے اعمال بتا او ہم پررحمت سے تو جہ فرمااورتوبے شک رحمت سے توجہ کرنے والاہے” (البقر ہ ۱۲۸)
گھربنانے والے کوجومزدوری ملی وہ مزدورجانے یامالک…..لیکن اس اجرت میں مجھے اورآپ کو جوحصہ ملا اوراس گھر کی زیارت کرنے والوں کو، طواف کرنے والوں کو، سفرکرنےوالوں کو ، اس گھرسے محبت کرنے والوں کو،اس کی تعظیم کرنے والوں کو…..کیا کچھ نہیں ملا کیاکچھ نہیں مل جا تا، برکتوں اورعزتوں کے اس گھرسے۔ ہرایک یہی خزانے لے کرپلٹتاہے اور……ساتھ آپ کا دل بھی توانہی خزانوں سے مالامال ہے ۔ ایک شکرسپاس ہے آپ کے پاس بھی اس وقت کہ آپ کا نفس پاک ہو کر اپنی خودی (انا) کومٹا کراپنے رب کی معرفت کی منزلوں میں سرگرداں ہے۔ رب کا گھر ہے یہ !!! مقام تفریح تونہیں ؟ یہ آگرہ کے تاج محل یافرانس کے ایفل ٹاورکانظارہ تو نہیں تھا ……. یہ گھروندے جوسیرتماشے اوردل کے بہلاوے کیلئےصدیوں سے موجودہیں لیکن وہاں آنے والے لا کھوں لوگ نہ عقیدت مند ہوتے ہیں نہ انہیں چومتے ہیں نہ آنکھوں سے لگاتے ہیں نہ والہانہ طواف کرتے ہیں نہ سجدے کرتے ہیں نہ روتے اورگڑگڑا تے ہیں نہ جھکتے اورگرتے ہیں نہ عشق وفدائیت سے سر شارپکارتے رہتے ہیں کہ ”لبیک اللھم لبیک ”آگیاہوں مولا، میں آگیا میرے رب میں حاضرہوگیا،تونے بلایاتھا میں کیوں نہ آتا؟میں آگیاسب کچھ چھوڑکرآگیا،درویشوں اوردرماندہ فقیر کے روپ میں تیرے درپہ آیا ہوں ،دنیا کی لذتوں کو ٹھو کر مار کر آیا ہوں ۔ لاکھوں لوگ….ایک ہی وقت میں ایک ہی لے ہے ایک ہی دھن جس کاسوداسرمیں سمایا ہے،دیوانہ وارطواف کرتے ہیں اور ہم بھی احرام کایونیفارم پہنے اس سلطانِ عالم کی فوج کاحصہ تھے اورجب نما زوں کے اوقات میں بھی اورصبح کے تڑکے میں بھی جب ہربلندی اورہرپستی پرلبیک کی آوازیں گونجتی تھیں تومیں اورآپ بھی ایک نشے میں سرشارہوجا تے ہیں،ایک کیفیت میں جذب ہوجاتے ہیں اورایک مرتبہ پھرچشم تصورمیں ہمیں اس خاک پرکبھی اس محبوب علیہ اسلام کے قدموں کے نشان نظرآتے ہوں گے جوکبھی آگ میں کوداتوکبھی عزیزازجان نورنظرکے حلقوم پرچھری پھیردی کہ آسمانوں پر ملائکہ بھی ششدررہ گئے اوریک زبان ہوکرپکاراٹھے کہ واقعی اس نے خلیل اللہ ہونے کاحق اداکر دیااورپسراطاعت کی معراج کوجاپہنچااور……اور……..یہ کیاکہ وقت ہمیں چودہ صدیاں پیچھے لے گیا یکدم ہمارا شعور اسی خاک پراس عظیم ہستی ۖ پر قربان،اوریوں طواف کرتے کرتے ہماری وار فتگی میں یکبارگی اضافہ ہوتاچلاجاتاہے کہ یکایک یہ شعرحجاب بن کرنظروں کے سامنے آگیا کہ
چو بطرف کعبہ رفتم بحرم اہم ندا اند
تو بردن درچہ کردی کہ درون خانہ آئی
جب میں کعبہ کے طواف کیلئےگیاتومجھے حرم میں داخل نہ ہونے دیاگیا کہاگیاکہ تو نے حرم سے باہرتونا فرمانی کی اب بیت اللہ کس منہ سے آیاہے؟
تب ہماری سانسیں تھم تھم جاتی ہیں،گردشِ ایام کے جائزے پراورتوبتہ النصوح کامفہوم آپ پر آشکارہوجاتاہے۔ دوران سعی آپ کو اس خاکِ پاک پرسیدہ ہاجرہ صدیقہ کے قدموں کے نشان بھی نظرآناشروع ہوجاتے ہیں جونبی کی ماں اور نبی کی بیوی ہونے کے شرف سے مشرف تھیں اوربرسہا برس سے قافلے اس عظیم خاتون کے قدموں کے نشانوں پر دوڑ رہے ہیں کیسا شرف ایک عورت کو دیا ہے اس دین نے کہ رب ذوالجلال نے اپنے محبوب ۖکوبھی بی بی ہاجرہ کی سنت کی پیروی کرنے کاحکم دیا،کیامنظرہوگاجب رسول خدابھی اس مخصوص مقامات پراماّں ہاجرہ پر تفاخرکرتے ہوئے تیز تیزبھاگ رہے ہوں گے ! یقیناحضرت ام المومنین حضرت عائشہ بھی بی بی حاجرہ کی سنت کی ادائیگی کے مناظراورعظیم عورت کے عظیم کردارپراپنے رب سے مناجات میں رازونیازکرتی ہوں گی،جگرگوشہ رسولۖ سیدہ فاطمہ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کاہاتھ تھامے رب کے حضورسرجھکائے اماں حاجرہ کے نقوشِ پائے کی نسبت پرتیزتیزچل رہی ہوں گی ۔ یقینا یہ سب کارہائے عظیم کتابوںمیں ہم درجنوں مرتبہ اکثر پڑھتے ہیں لیکن آج اپنی چشم تر سے ان کاجی بھرکرنظارہ کرتے ہوئے اپنے مقدرپررشک کرتے ہوئے اپنے خالق کے سامنے کئی مرتبہ جبیں سرنگوں ہوجاتی ہے۔
کعبہ سے غم ِجدائی کاعظیم بوجھ گریہ وزاری کرکے ہلکاکرنے کاوقت بڑاہی مشکل اورآزمائش کا ہوتاہے۔طواف وداع کرتے ہوئے دل ملول ومغموم اور رنج وحزن میں غرق ہوجاتاہے،کیوں نہ ہو اب کچھ ہی دیرمیں کعبہ مشرفہ سے وداع جولیناتھی۔ جوں جوں گھڑی کی سوئیاں آگے جارہی ہوتی ہیں ،مکہ کی روح پروراورایمان افروزتجلیات رودادِ ماضی بن جائیں گی اوردل ان اندیشوں اور وسوسوں سے لبریزہوجاتاہے کہ عمربھرتمناؤں میں بسنے والے مرکزہدایت اورقبلہ دل کی ساری دلنوازیاں، جلوتیں اوردلربائیاں اب صرف یادوں،خوابوں اورخیالوں کی جنت بننے والی ہیں ۔ بہر کیف فرقت ِ یارکے غم میں آنکھیں نم،جذبات متلاطم ،روح الحاح وزاری میں رقصاں،لب آہ و فغان میں لرزاں دیکھ کرروح کودلاسہ دیا،بے شک وداع کی یہ دل فگار گھڑیاں اللہ کے چہیتوں پر شاق گزرنی چا ہیے،انہیں کوچہ جانان سے جدائی کاغم ماہی بے آب کی مانند تڑپاناچاہیے،ان کی ہچکیاں بندھنی چاہیے، انہیں سینہ کوبیاں کرنی چاہئے،کیاپتہ اب کبھی یہاں دوبارہ سربسجدہ ہونے کا شرف ملے گا،کیامعلوم اللہ اپنے گھرکا طواف کرنے کاکوئی نیا بلاوا بھیجے گا،کون سی ضمانت ہے کہ کعبتہ اللہ،حجراسود،رکن یمانی،ملتزم، درِکعبہ،مقامِ ابراہیم،زمزم،صفاومروہ اورمقدساتِ مکہ کے دیدارکاقرعہ فال ہمارے نام دوبارہ نکلے گابھی ۔ یہ خیال آتے ہی یہاں پل پل غنیمت لگتاہے، لمحے صدیوں میں بدل جاتے ہیں اورایک مرتبہ پھرربّ ِ کعبہ سے مانگنے،آہ وزاری کے ساتھ حاجت روائی ،گناہوں سے بخشش اورعفو ودرگزر،والدین اوردوسرے مرحومین کیلئے گڑاگراکرمغفرت کی دعائیں،اپنوں اورغیروں کی بھلائی کیلئے دعائے خیر،طبیبِ ازلی سے ہرمریض کیلئے اورہر مرض سے شفایابی،قرضوں کی ادائیگی کیلئے غیبی مدد، بے روزگاری کی ذِلت سے نجات ،عذابِ جہنم سے خلاصی ،جنت کے انعامات وعطا،بیٹیوں کے موزوں بر، مناسب جوڑطلب اوران کے بہتر نصیب، فتنہ ہائے زمانہ میں ایمان وامان کی عافیت، مسجداقصیٰ کی فریاد،غزہ اورمقبوضہ کشمیر کے شہداء کی مناجات، ملت کی آبرومندی کی بھیک،پوری انسانیت کی بھلائی،باربارحرمین کی زیارت سے حصولِ فیوضات وبرکات کی اشک باردعاؤں کی درخواستیں اورالتجائیں پیش کرتے ہوئے ساراجسم کپکپارہاہوتاہے۔
دنیا وآخرت میں بہترمعا ملے کیلئے اپنی تردامنی پرندامت کے اشک بہاکروحدہ ولاشریک سے سر گوشی کرنے کاوقت آن پہنچتاہے:اے ربِ ارض و سماء!کعبہ مطہرہ تمہاراگھرانہ،تیرے خلیل کا نذرانہ،تیرے حبیب ۖ کیلئے وجہ قرار،یہ تمہاری شانِ کریمی کہ تمام اہل ایمان بیت اللہ کے وارثین بنادئے ہیں،میں حقیروناکارہ،خطاونسیاں، گناہ وبرائی کامجموعہ لیکن ہوں توتیراہی بندہ،میری توبہ قبول کرلے،اب سے میرے ایمان وکردارکوایسا لعل وگوہر بنادے کہ بیت اللہ کے ورثاءمیں میرابھی نام جڑجائے،میں عمربھرکعبے کی طرف رخ کرکے جیوں،اسی کی جانب رخ کرکے مروں۔ اےرحیم ورحمن اللہ!اپنے اس گھرکومیرے قلب وجگر کے نہاں خانے میں ایسے بسادے کہ کبھی اس سے جدائی کاکھٹکا لگے نہ دوری مسافت کی دیوار حائل رہے،میرے اعمال سے ہمیشہ غلافِ کعبہ کی زینتیں اورملتزم وسنگ ِاسود کی عظمتیں جھلکیں۔آمین یارب العالمین!
لگتاتھاکہ کعبہ شریف کے گردجسم نہیں روح بھی چکر لگا رہی تھی،اللہ سے پیاراس قدرامڈرہاتھا کہ ساحلوں اورکناروں کے بند ٹوٹ رہے تھے۔ طواف سے فارغ ہوئے توملتزم کے سامنے اللہ کے حضوردست بدعاہوگیا،حجراسودکوآنکھوں آنکھوں میں چوما،یادآیا کہ رسولِ کائناتۖ نے جنت کے اس پتھر کوبوسہ دیتے ہوئے حضرت عمرسے فرمایاتھاکہ یہ جگہ آنسوبہانے کیلئے ہے۔ یہاں جو بھی اپنی نافرمانیوں اور روگردانیوں پہ بلک بلک کر روئے ، اس کے گناہوں کے داغ دھبے یکسر دھل جائیں گے۔حجراسودسے گزرکررکن یمانی کی زیارت سے حریم قلب آسودہ کیا،حطیم سے تھوڑاسالپٹ گئے، میزابِ رحمت پرنظریں مرکوزکیں،غلافِ کعبہ کی کشش وجاذبیت میں کھوگئے۔ دعاومناجات سے فارغ ہوئے تو زمزم کے جام ِ شریں سے روح کی پیاس بجھائی ۔ یہ پانی اللہ کا عطیہ اور حضرت ذبیح اللہ کا صدقہ ہے ، اس کے گھونٹ گھونٹ میں پینے والے کیلئے علم ِنافع، رزق ِ واسع اور شفائے امراض کی ضمانت پنہاں ہے۔
اذانِ مغرب ہوئی تو دل میں ہوک سی اٹھی کہ یہ کعبہ مشرفہ میں فی الوقت آخری نماز ہے ، بس کچھ ہی پل بچے ہیں، کچھ گنی چنی سانسیں اس خلد بریں میں لینا باقی ہیں ۔ بیت اللہ کا صحن ِمبارک جہاں سعید روح انسانوں کے اژدھام سے ہمہ وقت بھرا رہتا ہے ، وہاں اللہ کے ستر ہزار فرشتوں کا ہمیشہ ہجوم اکھٹا ہوتا ہے۔ خود ہی سوچئے برکت ورحمت کے اس منبع و مرکز اورسرکار دوعالم ۖ کے مولدومسکن سے جب مفارقت کا لمحہ قریب آجائے تو دل کا کیاحال ہوگا ۔ بہر حال نماز مغرب کے فرض سے فارغ ہوتے ہی ہم نے طواف ِ وداع کا فریضہ انجام دیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ ساتوں ا شواط میں تھوڑا ہی وقت صرف ہواکیونکہ کعبہ کے بالکل قریب ہی یہ سعادت پائی ۔ خوش قسمتی سے سنتیں ادا کر نے کیلئے مقام ِابراہیم سے بہت کم فاصلے پر مصلی ملا ، سنتیں اداکیں، دعا کیلئے ہاتھ اٹھے ضرور مگر یکایک روح کی زبان گنگ ہوگئی کہ کعبے سے رخصتی پر افسردہ خاطر تھا، جگر نوحہ کناں تھا مگر مدینہ منورہ روانہ ہونے کی مسرت سے شادی مرگ ہونے کا اندیشہ بھی بڑھ رہاتھا ۔ ان کیفیات کی رومیں بہہ کر اللہ سے کس منہ سے کہتا کہ الٰہی! اِدھرکاقیام بڑھادے یاجلدازجلدگنبدِ خضراپہنچا دے۔بے شک اللہ رحمن ورحیم کاہم پر یہ خاص لطف وکرم تھا کہ اس ذاتِ اقدس ۖ کے بقعہ نور،پناہ گاہِ مہاجرین اورشہرانصارکی خوشبوں سے مشام ِ جان معطرومسحورہونے کازریں موقع ہمیں نصیب ہوا۔ خیر کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت اور پھر رخصت لینے کی گھڑی پر بصدجان ودل اللہ سے لبوں پردعا مچلنے لگتی ہے: بارالہا! مجھے اور میرے اہل وعیال کواپنے گھر اور اپنے محبوبِ کبریاۖ کے شہرشریں میں باربارولگاتاربلانا۔ دعاؤں کو وردِلب کر تے ہوئے اورنیک خواہشات اورتمناؤں کا نخلستان دل میں سجاتے ہوئے کعبہ شریف پر حسرت بھری نگاہیں مکرر،سہ کررڈالیں اوربوجھل قدموں سے مطاف چھوڑدیا،کئی بارپلٹ کردیکھا توایسے لگاجیسے کعبہ مہربان رخصت کرتے ہوئے کہہ رہاتھا:میری حیات بخش تجلیات وانوارات ایمانِ قوی ،اعمالِ صالح ، خوفِ خدا، جوابدہی آخرت کی نہ ختم ہونے والی عظیم پونجی ہیں، جو بھی اس پونجی سے توحید وسنت کے بازار سے زندگی کاسودا سلف لائے،وہی لاریب زائرالحرمین کہلانے کے لائق ہے،دنیاکی بھلائی اور آخرت کے عزوشرف کابھی وہی حق دار ہے۔
کتاب ِ ہستی کے سرورق پر جونام احمدۖ رقم نہ ہوتا
تونقش ِہستی ابھر نہ سکتا، وجودِ لوح وقلم نہ ہوتا
اب دل وجاں اورروح تک ایک عجیب سی خوشی سے سرشاراوربے چین ہے کہ آنکھیں بندکرکے کھولوں تو سامنے گنبدِ خضراہو،جس کیلئے آقائے نامدارۖکے شہر کی طرف رخصت سفرشروع کیاتواچانک میرے آقاۖکے فرامین یادآگئے کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے جس شخص کومدینہ میں موت آسکتی ہو،اسے چاہیے کہ وہ یہ سعادت حاصل کر ے، چونکہ یہاں مر نے والوں کی گواہی میں دوں گا۔(سنن ابن ماجہ)
بہشت ِمدینہ کی عظمت وسطوت ناپنے کا کوئی پیمانہ ہی نہیں مگر اس مقدس شہر کی برتری و بالا دستی کا ایک اہم اشارہ یہ بھی ہے کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق دعاکیاکرتے:اے اللہ !مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا کراوراپنے رسول کے شہرمیں موت عطاکر(صحیح بخاری)
اس پرشوق سفرکا پنچھی دل کی کتاب لئے بیٹھایہ سوچنے لگاکہ یہ دعامانگنے والی ہستی تاریخ اسلام کی ماتھے کاجھومرتھی،وہ جن کی آراءاور مشوروں کی بارگاہ ِ الہیہ میں اتنی پذیرائی ہوتی کہ وحی بن کر اللہ کے رسول پرنازل کی جاتی،وہ فارو ق اعظم رضی ا للہ تعالی عنہ جس کی تعریفوں میں دوست تودوست دشمن بھی رطب اللسان ہیں۔ یہ خاص دعامانگ کراس فنافی الرسول شخصیت نے ہمیں جینے میں ہی نہیں بلکہ مرنے میں بھی ہمسائیگی رسول اختیارکر نے کی آرزو سکھادی ۔ آپ بالمعنی فرماتے ہیں اپنے نصیبے سے جو بہشت مدینہ میں داعی اجل کولبیک کہے، سمجھو اس کابیڑہ پارہوگیا۔ امیرالمومنین کی یہ دعااللہ کی بارگاہ میں یک بارقبول ہوگئی!
حبِّ نبیۖ کے نادر نمونے ہمیں صحابہ کی پاک زندگیوں میں کہاں نہیں ملتے ؟ ایک برگزیدہ صحابی حضرت ثوبان رضی ا للہ تعالی عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ اکثر بیمار رہنے لگے، طبیعت کی ناسازی روزبروز بڑھتی چلی گئی۔ صحابہ کبار بیمار پرسی کر تے تو یہ اپنے دل کا حال ان قدسی صفات پر بھی ظاہر نہ کر تے، شکریہ کر کے بات ٹال دیتے۔ آخر پیغمبر دوجہاں ۖ نے پوچھا تو صاف صاف عرض کی: یارسول اللہ ۖ!ایک خیال دل میں آتے ہی طبیعت خراب ہوجاتی ہے ۔ سروردو عالم ۖنے پوچھا:کیاخیال آتاہے؟عرض کی: اے اللہ کے رسول ۖ! اب زندگی میں جب تک آپۖ کا دیدار نہ ہوچین نہیں آتا۔ سوچتا ہوں مرنے کے بعد کیاہوگا؟اگراللہ نے اپنے فضل عنایت سے مجھے جنت عطابھی کی تب بھی معلوم نہیں آپ ۖ کہاں ہوں گے اورمیں آپ ۖ کے روئے نازنین کی زیارت کئے بغیرجنت میں کیوںکرتسکین وطمانیت پاؤں گا؟ معلوم ہی نہیں وہاں آپ ۖ کے چہرہ انورکادیدارکرنے کیلئے مجھے کیاکیا پاپڑبیلنے پڑیں گے۔ حضور پرنورۖ نے فرمایا:ثوبان!تم جس سے محبت کرتے ہو اسی کے ساتھ رہوگے۔ پھرآپ ۖ نے قرآن کریم کی وہ آیت تلاوت فرمائی جواسی موقع پر عرش ِمعلی سے نازل ہوئی: جو اللہ اور اس کے رسولۖ کی اطاعت کر تے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہی رہیں گے جنہیں اللہ تعالی نے نعمتوں سے نواز اہوگا ۔
یہ تو صحابہ کبار کے عشق رسول ۖکے احوال وکوائف تھے۔ اولیائے کاملین نے کامل اتباعِ سنت کر کے اپنے بیدادعشقِ رسول ۖکی لاج رکھی۔ حضرت بایزید بسطامی نے ایک مرتبہ بڑے اشتیاق سے خر بوزہ منگوایا لیکن اس خیال سے کہ پہلے یہ معلوم کرناچاہیے کہ آپ ۖ خربوزہ کیسے تناول فرما تے تھے، پتہ چلا کہ رحمت عالم ۖ نے کبھی خربوزہ تناول فرمایا ہی نہیں۔ بایزید بسطامی نے خربوزہ کھانے سے ہی انکارکردیا۔
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون ِ جگر ہونے تک
جونہی گنبدِخضراپر پہلی نظرپڑی تویقینادل کوتھامنابہت ہی مشکل ہوگیاکہ محسن انسانیت ۖکے درپرحاضری ،اپنی قسمت پررشک آنے لگاکہ ایسی عظیم الشان شخصیت جس پرخوداللہ اوراس کے ملائکہ کثرت سے درودپڑھتے ہیں اوراہل ایمان کوبھی حکم دیاگیاکہ وہ بھی کثرت سے درود پڑھتےرہاکریں۔ایسی فخرکائنات ہستی جس کے بارے میں غیرمسلم بھی کچھ اس طرح رطب اللسان ہیں:
٭مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضورۖ کوسب سے پہلے شمار پررکھاہے۔مصنف ایک عیسائی ہوکربھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمدۖپورے
نسل انسانی میں سیدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔
٭تھامس کارلائیل نے۱۸۴۰ء کے مشہوردروس میں کہا کہ میں محمد(ۖ)سے محبت کرتاہوں اوریقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونموداورریاکا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہ اخلاص پیش کرتے ہیں ۔
٭ فرانس کاشہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے محمد دراصل سروراعظم تھے،۱۵سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیرتعدادنے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملادی گئیں،یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا ۔
٭ جارج برناڈشا لکھتا ہے: موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد (ۖ)اس دنیا کے رہنما بنیں ۔
٭گاندھی لکھتاہے کہ بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کوسچائی کاراستہ دکھایااوربرابری کی تعلیم دی،میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنامجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا ۔
٭ جرمنی کامشہورادیب شاعراورڈرامہ نگارگوئٹے حضور (ۖ)کا مداح اورعاشق تھا،اپنی تخلیق دیوانِ مغربی میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد (ۖ)کا اظہارکیاہے اوران کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاورکئے ہیں ۔
٭ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب تاریخِ ترکی میں انسانی عظمت کے لئے جومعیارقائم کیااس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے: اگر انسانی عظمت کوناپنے کیلئےتین شرائط اہم ہیں جن میں (۱)مقصد کی بلندی،(۲) وسائل کی کمی(۳)حیرت انگیرنتائج،تواس معیارپرجدید تاریخ کی کون سی شخصیت محمدۖ سے ہمسری کا دعوی کرسکتی ہے ۔
٭فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے: فلسفی،مبلغ،پیغمبر،قانون ساز،سپہ سالار،ذہنو ں کافاتح ، دانائی کے عقائد برپاکرنے والا،بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا،بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا….وہ محمد ۖہیں ….جہاں تک انسانی عظمت کے معیارکا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پرپورااترنے والا محمدۖ سے بھی کوئی برترہوسکتا ہے؟
٭ ڈاکٹرشیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اورلاثانیت کااقرارکرتے ہوئے لکھتے ہیں محمدۖ گزشتہ اورموجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اورافضل تھے اورآئندہ ان کامثال پیدا ہونامحال اور قطعا ًغیر ممکن ہے۔
مدینہ کے شمال میں واقع پہاڑجبل احد کے پاس اس مقام پرحاضری دینے کی جب سعادت ملی تو ساراتاریخی جنگی منظرآنکھوں کے سامنے آگیاجہاں عاشقان رسول ۖاپنے آقا کے گردگھیراڈالے پروانوں کی طرح آنے والے تیروں،بھالوں اورزہرآلودتلواروں کے واراپنے سینوں پرروک رہے ہیں کہ میرے آقاکے دندان مبارک اس قدرزخمی ہوگئے کہ منہ مبارک خون سے بھرگیااورایک روایت کے مطابق سیدناجبریل علیہ السلام نے اس خونِ مبارک کوزمین پر گرنے سے پہلے اپنے پروں میں محفوظ کرلیاکہ اگریہ خون زمین پرگرجاتا تویہ زمین مارے ندامت کے بانجھ ہوجاتی۔ آج اسی میدان میں کے سامنے کھڑاہوں جہاں نبی کریم ۖ کے پیارے چچاحضرت حمزہ دفن ہیں۔ حضرت حمزہ جنگ احد میں۷۰دیگر صحابہ کے ہمراہ شہید ہوگئے تھےاور کفارنے ان کی لاش کی بے حرمتی کی تھی۔ رسول کریمۖ کو اپنے اس ہم عمر چچا سے بڑی محبت تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے شہیدلاشے کودیکھ کرفرطِ غم سے آپ پھوٹ پھوٹ کررودیئے اورجب تک اس دنیامیں قیام فرمایاآپ ۖ ہر بدھ کوشہدئے احدکے مزار پرجاکرفاتحہ کہتے تھے!
زائرالحرمیناگراپنے دل وجاں اورروح کی طرف متوجہ ہوں تواس سفر حجاز کا ایک پیام ضرور سنائی دیتا ہے وہ اک پیام جومسجد حرام نے بھی رخصت ہوتے ہوئے دیاتھا اورمسجد نبوی ۖسےبھی وہی صدا موصول ہورہی ہے جوعرفات کے میدا ن میں بھی آرہی تھی اور منیٰ کی قربان گاہ میں بھی،جوزم زم کے قطروں نے بھی ہم سے سر گوشی میں کی ہے اور خاکِ حرم کے ذروں نے بھی آپ کے قدموں سے لپٹ کرکی ہے او وہ صدا تھی، بس ایک صدا،کیسی صداکہ ”کونوانصاراللہ ”جب دنیا ظلم سے بھرگئی توکیا تم اپنے حصے کا کام کرنے نہ اٹھوگے!راستہ بھی موجود ہے اوراس کی دی ہوئی ٹانگیں بھی موجود ہیں اوراس راستے پرچلنے کاقرض بھی موجود ہے ۔مالک نے جوزمین حوالے کی، مزارع نے اس پرہل نہ چلایااورزمین زہرآلود جھاڑیوں اور
کانٹوں سے بھرگئی۔سفر حجاز نے یہی توکہاہے آپ سے کہ جیسے یہاں کے ہرچپے پراللہ کی بڑائی اوراس کا ذکرہے اللہ کی ساری کائنات یونہی اس کی بڑائی چاہتی ہے۔ معرکہ بدراورواقعہ کربلا آج بھی بپا ہے۔ ہم نے کبھی سوچاکہ مملکت خدادادپاکستان ۲۷رمضان کی مبارک ساعتوں میں کیوں معرضِ وجودمیں لایاگیا،ایسی رات جوہزارمہینوں سے بہتراورافضل ہے؟ہم نے اس کے حصول کیلئے بیش بہاجانوں کانذرانہ پیش کیا، صدی کی سب سے بڑی انسانی ہجرت میں لاکھوں خاندان ایک دوسرے سے بچھڑ گئے اوراپنوں کے فراق میں قبروں کارزق بن گئے۔ہم نے اپنے رب سے یہ وعدہ کیاتھا کہ ہم اس ارضِ وطن میں قرآن کی حاکمیت قائم کریں گے۔پچھلی سات دہائیوں سے ایفائے عہدکی تکمیل کرنے سے قاصر ہیں۔اب پاکستان میں دوبارہ سیاسی اکھاڑہ سج گیاہے لیکن کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے منشورمیں نہ توقرآن کی حاکمیت کے نفاذ کاذکرکیاہے اورنہ ہی بدقسمتی سے مجبور مقہورکشمیرکاکہیں تذکرہ ہے۔لیلتہ القدرکابرملاسوال ہے کہ ہمارے اندر کتنا عزم ہے اس دین کے نفاذکی سختیاں جھیلنے کا۔۔۔۔
سفر حجاز کی یادیں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ آج ربّ کعبہ کے بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کرخالقِ کائنات کی غلامی میں واپس لانے کیلئے اپنا کردارکب اداکروگے؟
کچھ بھی تو نہیں رہے گا،کچھ بھی تونہیں بس نام رہے گا اللہ کا!

اپنا تبصرہ بھیجیں