ایران میں صدیوں پرانی کہاوت ہے کہ’’مرناہے توگیلان جائیے‘‘۔ایران کاصوبہ گیلان قدرتی حُسن اورسبزے کے حوالے سے شہرت رکھتاہے۔ مرنے کیلئےگیلان جانے کامشورہ اِس لیےدیاجاتاہےکہ پورے ایران میں رسم ہے کہ کسی گھر میں موت واقع ہوتو سوگوارخاندان محلے والوں کوہفتہ بھرکھلاتاپلاتارہتاہےجبکہ گیلان میں سوگوارخاندان کیلئےمحلے والے ایک ہفتے تک کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔
مرنے کیلئےگیلان جانے کامشورہ اِس وقت کچھ اورمفہوم رکھتاہے۔ایران میں کوروناکی وباسب سے زیادہ گیلان میں پھیلی ہوئی ہے۔یہ بھی عجیب ہی کہانی ہے۔خوبصورت نظاروں والے پُرفضامقامات کاحامل ہونے کی بدولت گیلان میں سیاحت کی صنعت بھی خوب پھلی پُھولی ہے۔بس یہی بات اُسے نقصان پہنچاگئی۔ایران میں جب کوروناوباپھیلی تومتعددصوبوں نے اسکول بندکردئیے۔ اسکول بندہونے پرہزاروں خاندانوں نے بچوں کے ساتھ چھٹیوں کامزالینے کیلئےگیلان کارخ کیا۔یوں گیلان میں کورونااِتنی تیزی سے پھیلاکہ سنبھالنامشکل ہوگیا۔گیلان کے گورنراورمنتخب نمائندوں کوٹی وی پرآکرعوام سے التماس کرناپڑی کہ وہ گیلان کارخ نہ کریں۔حکومت سے بھی استدعاکی گئی ہے کہ لوگوں کوگیلان جانے سے روکیں مگرتہران حکومت نے اب تک اس استدعاکو خاطرخواہ اہمیت دینےسےگریزکیاہے۔
لوگوں کویہ دیکھ کربہت حیرت ہوئی کہ25فروری کو،جب ایران میں کوروناکوقومی سطح کابحران قراردئیے ہوئے دوہفتے ہو چکے تھے،صدرحسن روحانی نے گیلان کے تفریحی مقامات تک پہنچانے والے ہائی وے لنک کے پہلے مرحلےکاافتتاح کیا۔ اس لنک کی مددسے گیلان کے تفریحی مقامات تک 180 کلومیٹرکافاصلہ ایک چوتھائی رہ جاتاہے۔ہائی وے لنک کے افتتاح کے بعدلوگوں نےبڑی تعدادمیں گیلان کارخ کرناشروع کردیا۔یہ گیلان کے باشندوں کیلئےانتہائی پریشان کن امرتھا۔ وہ کورونا سے بچنے کیلئےلوگوں سے نہ آنے کی اپیل کررہےتھےاورلوگ آئے چلے جارہے تھے۔ایسے میں اللہ نےاُن کی یوں سُنی کہ مٹی کا ایک بڑا تودہ گراجس نے ہائی وے بندکردی۔
گیلان کی صورتِ حال سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ ایران میں کوروناکے حوالے سے دوبہت بڑی خرابیاں سامنے آئی ہیں۔ ایک طرف تویہ ثابت ہواکہ ایران کی بیوروکریسی کسی شدید قسم کی میڈیکل ایمرجنسی سے نمٹنےکی بھرپورمطلوبہ صلاحیت نہیں رکھتی اوردوسری طرف یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ حکومت اورعوام کے درمیان اعتمادکاغیرمعمولی فقدان ہےاوریہ کہ سرکاری میڈیا پربھی اعتمادخاصاگھٹ گیاہے۔
ایران کی بدنصیبی یہ ہے کہ کورناوبا انتہائی مشکل گھڑی میں آئی ہے۔مئی2018ءمیں ٹرمپ نے ایران پرجوپابندیاں عائد کیں اُن سے معیشت کوشدید نقصان پہنچا۔زرمبادلہ کے ذخائرمیں اچھی خاصی کمی واقع ہوگئی جس کے نتیجے میں صحتِ عامہ کیلئے کوروناکی شکل میں اٹھ کھڑے ہونے والے بحران سے نمٹنے کی صلاحیت بھی شدیدمتاثرہوئی۔
1979ءکےانقلاب کےبعدقائم ہونے والی ایرانی حکومت نے پہلی بارآئی ایم ایف سے5/ارب ڈالرکاپیکیج مانگاہے۔ایران کو مطلوب پانچ ارب ڈالر دینے یانہ دینے سے متعلق حتمی فیصلہ آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرکوکرناہے۔اگرامریکی محکمہ خزانہ نے کوئی الجھن پیدانہ کی توایران کی قیادت پانچ ارب ڈالرکی مددسے عوام کی مشکلات کم کرنے میں کسی حدتک کامیابی حاصل کرے گی۔2012ء میں ایران کی تیل کی برآمدات120/ارب ڈالر تھیں ۔رواں سال تیل کی برآمدات10/ارب ڈالرتک ہیں۔ایسے میں 5/ارب ڈالرایران کیلئےخاصی اہمیت رکھتے ہیں۔
ایرانیوں کی مشکلات پہلے ہی کیاکم تھیں کہ اب کورونابھی میدان میں ہے۔امریکاکی عائد کی ہوئی پابندیوں نے2018ءتک عام ایرانی کی قوتِ خرید 20فیصدکی حدتک گھٹادی تھی۔صحتِ عامہ کےبحران نے ایرانیوں کی مشکلات میں غیرمعمولی حد تک اضافہ کردیا۔2000ء کے عشرے میں جب تیل کی مندی میں بلندی آئی تب ایران نے صورتِ حال سے بھرپورفائدہ اٹھایا۔متوسط طبقہ تیزی سے ابھرا۔2012ء تک ایران میں متوسط طبقہ آبادی کا60فیصدتھا۔2018ءمیں یہ طبقہ آبادی کے53فیصدتک گھٹ گیااوراب یہ 50فیصد سے کم ہوچکاہے۔
ایران میں سرکاری ملازمین کیلئےبھی مشکلات کم نہیں رہیں۔ کم وبیش30لاکھ گھرانے سرکاری ملازمت میں ہیں۔ان کی تنخواہ میں سال رواں کی آمدتک 15فیصد کمی واقع ہوچکی تھی اورآئندہ برس سرکاری ملازمین کی مجموعی یافت میں مزید کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہورہاہے جب مہنگائی کاگراف نیچے لاناممکن نہیں ہوپارہااورایران میں بھی اشیائے ضرورت کی قیمتیں30فیصد تک بڑھنے کاامکان ہے۔سرکاری تنخواہوں کے بل میں22 فیصد اضافے کی تجویزدی گئی ہے جبکہ افراطِ زرکی شرح اِس سے زائدہے۔
ایران کوبیروزگاری کابھی سامناہے۔ بیروزگاری پرقابوپانے کے سلسلے میں حسن روحانی پرغیرمعمولی دباؤہے۔اُن پردباؤ مزید بڑھ سکتاہے کیونکہ کورونا کی پیداکردہ صورتِ حال مزیدبگڑنے سے ایران کے بیروزگاروں میں30سے40لاکھ کااضافہ ہوگا۔ 2011ء میں اُس وقت کے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کیش ٹرانسفرپروگرام(بیروزگاروں کیلئےنقدی) شروع کیاتھا۔ حسن روحانی نے اس پروگرام پرسخت نکتہ چینی کی تھی۔اب حسن روحانی نے بھی کیش ٹرانسفرپروگرام کی طرف جانےکا فیصلہ کیاہے۔بیشتر ایرانیوں کواسی ماہ سے نقدامدادملے گی۔
ایرانی حکومت نے6برس کے دوران افراطِ زرکی شرح میں اضافے پرقابوپانے میں ناکام رہی ہےجس کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے ملنے والی امداد کی حقیقی قدر ایک تہائی رہ گئی۔ گزشتہ نومبرمیں ایرانیوں نے گیس کے نرخوں میں اضافے کے خلاف ملک گیراحتجاج کیا۔روحانی نے کیش ٹرانسفرکی رقم دگنی کردی ۔ 2011 ءمیں کیش ٹرانسفرسے ملنے والی رقم عام ایرانی کی اوسط آمدنی کا26فیصد تھی۔اب یہ صرف8فیصدرہ گئی ہے۔غریب ترین20 فیصدایرانیوں کیلئےکیش ٹرانسفراب بھی اوسط آمدنی کے24 فیصدکے مساوی ہے۔ایرانی حکومت نے آمدنی کاکوئی بھی ذریعہ نہ رکھنے والے کم وبیش30لاکھ ایرانی گھرانوں کیلئےصرف ایک بارنقدامدادکااعلان کیاہے۔یہ لوگ آبادی کے20فیصد کے برابرہیں۔مزید40لاکھ گھرانوں میں سے ہر ایک کو کم شرحِ سود پر40لاکھ ریال (1200ڈالر) کے قرضے دیے جارہے ہیں۔یہ قرضے اُن گھرانوں کیلئےہیں جو صحتِ عامہ کے بحران کے باعث آمدنی کے ذرائع سے محروم ہوچکے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ایرانی حکومت بے روزگارگھرانوں کواس قدرامدادکس طوردے سکے گی۔ایران میں بجٹ خسارہ ہمیشہ رہاہے۔ اس وقت امریکانے پابندیاں بھی عائدکررکھی ہیں اورعالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بھی بہت گری ہوئی ہیں۔ایسے میں ایرانی بجٹ کے خسارے میں اضافہ بالکل سامنے کی بات ہے۔امکان ظاہرکیاجارہاہے کہ سرکاری بونڈزکی فروخت سے بھی کام لیاجائے گا۔اچھے وقتوں میں بھی ایرانیوں کی اکثریت اپنی بچت سونے، اسٹاکس اورزرمبادلہ کی شکل میں محفوظ رکھناپسند کرتی ہے۔ سرکاری بونڈزکوتب بھی ترجیح نہیں دی جاتی۔اب جبکہ معیشت شدیدبحرانی کیفیت سے گزررہی ہے،سرکاری بونڈزپربھروسا کرنے والے ایرانی خال خال ہی ہوں گے۔ایرانی اسٹاک مارکیٹ اب بھی خاصی مستحکم ہے۔ایسے میں بیشترایرانی اپنی بچت کے ذریعے اسٹاک مارکیٹ میں کوئی خطرہ مول لیناتوپسند کریں گے مگرحکومت کے جاری کردہ بونڈزپربھروسانہیں کریں گے۔اگر عوام سرکاری بونڈزمیں دلچسپی نہ لیں توسرکاری ملکیت والے تجارتی بینکوں کوآگے بڑھناپڑتاہے۔جب وہ میدان میں آتے ہیں تب اُن کے زر مبادلہ کے ذخائر مرکزی بینک کے سسٹم میں آنے سے کرنسی نوٹوں کی تعدادبڑھتی ہے اوریوں افراطِ زر(مہنگائی) میں اضافہ ہوتاہے۔
اپنی حکومت پرایرانیوں کااعتمادگرتارہاہےتاہم چندماہ قبل ایران میں یوکرین کے مسافرطیارے کی تباہی کے بعدتویہ معاملہ بہت ہی بگڑگیا۔پہلے توایرانی حکومت نے ذمہ داری قبول کرنے سے صاف انکارکیامگرپھرتسلیم کیاکہ یوکرین کاطیارہ غلطی سے داغے جانے والے میزائل کانشانہ بنا۔اس کے ایک ماہ بعدایرانی حکومت نے قُم سے کوروناکی وباکے پھوٹنے کی تردیدکی مگرجب دو افراداس وبا کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترے تب حکومت نے وباکاوجود تسلیم کیا۔اس سے عوام کا اعتماداپنی حکومت پرمزیدکم ہوگیا۔
امریکانے جن پابندیوں کوزیادہ سے زیادہ دباؤقراردیاہے،اس کے خلاف ایران نے خاصی کامیابی سےغیرمعمولی مزاحمت کی ہے۔ مارکیٹ کی قوت پر بھروساکرتے ہوئے اورایرانی کرنسی کی قدرمیں کمی کی مزاحمت نہ کرکے ایرانی حکومت نے ملک میں پیداوارکوبڑھایاہے تاکہ درآمدات پرانحصارکم سے کم ہوجائے۔اس کانتیجہ یہ برآمدہواہے کہ آمدنی چاہے کم ہوتی گئی ہے تاہم جب سے امریکانے نئی اورزیادہ سخت پابندیاں عائدکی ہیں تب سے ایران میں بے روزگاری کاگراف قابلِ تعریف حدتک نیچے لانے میں مدد ملی ہے۔اگرتیل سے ہٹ کرہونے والی آمدنی کاجائزہ لیں تواندازہ ہوتاہے کہ کوروناکے ہاتھوں پیداہونے والی بحرانی کیفیت سے قبل ایران کی معیشت خاصی مستحکم تھی۔ایران میں حکومتی نظام کی تبدیلی کی باتیں کرنے والوں نے سیاست اورمعیشت کا دھڑن تختہ ہوجانے اورحکومت کے تبدیل ہوجانے کی پیش گوئی کی تھی۔یہ پیش گوئی اب تک حقیقت کی منزل سے بہت دور دکھائی دیتی ہے۔
کوروناکے بطن سے اب تک کوئی بھی اچھی علامت ظاہرنہیں ہوئی اوریہ بیماری ایرانی حکومت کی جمع کی ہوئی طاقت کے حوالے سے بھی اب تکunresponsive ثابت ہوئی ہے۔عام حالات میں یہ ہوتاکہ حکومت اپنے حامیوں کے بڑے اجتماعات
کا اہتمام کرتی،مظاہرے کراتی اورحکومت کی تبدیلی کے خواہش مندوں کے ارمانوں پرپانی پھیرتی۔دوسری طرف فوج بھی طاقت کے غیرمعمولی مظاہرے سے بتاتی کہ حکومت کی تبدیلی کاخواب دیکھنے والوں کیلئےخوش ہونے کی زیادہ گنجائش نہیں۔اس کے بجائے اب حکومت کوچاہیے کہ لوگوں کوگھروں میں رہنے کی تحریک دے۔نظریاتی وابستگی اورکمٹمنٹ رکھنے والے وفادار کارکنوں کے بجائے اب حکومت کوچاہیے کہ پروفیشنلزکومتحرک کرے۔ایران میں صحتِ عامہ کاشعبہ غیر معمولی کارکردگی کا حامل رہاہے۔ہیلتھ پروفیشنلزنے مثالی مہارت کامظاہرہ کرتے ہوئے بہت سے بڑے مسائل کوحل کیاہے ۔تیس سال پہلے ایران کے ہیلتھ پروفیشنلزنے دیہی علاقوں میں زچہ وبچہ کی ہلاکت کی شرح نیچے لانے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔اس کے نتیجے میں ایران میں اوسط عمرقابلِ شک حدتک بڑھی تھی۔تب کے ہیلتھ پروفیشنلزنے جونسل تیارکی تھی وہ آج کوروناکی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئےمیدان میں ہے۔کوروناکے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اورمکمل فتح کی پیش گوئی بھی نہیں کی جا سکتی تاہم اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ ایران میں نئی نسل کے ہیلتھ پروفیشنلزنے بہت مشکل حالات میں بھی کوروناکے خلاف جنگ بہت محنت اوربے جگری سے لڑی ہے اورعوام کوعلاج کی تمام سہولتیں فراہم کرنے کی مثالی کوشش کی ہے۔
جب کوروناکے خلاف جنگ ختم ہوگی تب ایک سوال اٹھ کھڑاہوگا…یہ کہ جن ہیلتھ پروفیشنلزاوراُن کے ساتھیوں نے کورونا کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے،وہ ملک کی سماجی، سیاسی اورمعاشی زندگی میں فعال کرداراداکرنے کی راہ پا سکیں گے۔ نومنتخب پارلیمنٹ پرمتصرف رجعت پسند (جو2021 ء میں صدارتی انتخاب کی کامیابی کے بھی منتظرہیں)اس سوال کوکسی طور نظراندازنہیں کرسکتے۔اب یہ بات رازنہیں رہی کہ ایرانی انتخابات میں ایران کے متوسط طبقے کیلئےریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے پروفیشنلزنے ایک ایسے ایران کوحقیقت کاروپ دینے کیلئےووٹ دیاہےجورجعت پسندوں کے ذہنوں میں بسے ہوئے ایران سے بہت مختلف ہے۔
ایران میں صحت اوردوسرے تمام اہم شعبوں کے پروفیشنلزچاہتے ہیں کہ ان کی مہارت اور پیشہ ورانہ اقدارکااحترام کیاجائے تاکہ اُنہیں معاشرے میں حقیقی جائزمقام مل سکے۔کوروناسے نمٹنے کے سلسلے میں عالمی ادارۂ صحت سے ایرانی ہیلتھ پروفیشنلزکا رابطہ ناگزیرہے اوراس صورت میں ایران کوعالمی سطح پرابھرنے کابھی موقع ملے گا۔ایران میں رجعت پسند اقتدارپراپنی گرفت مستحکم کرنے میں مصروف ہیں مگرساتھ ہی ساتھ انہیں سوچناہوگاکہ پروفیشنلز کے طبقے کوکس حدتک کھپایااور compensate کیاجاسکتاہے۔جن نوجوان انقلابیوں نے1980ءکےعشرے میں عراق کے خلاف جنگ لڑی تھی اوربعدکے عشروں میں پورے خطے میں رونماہونے والی خرابیوں سے ملک کوبچانے میں کلیدی کرداراداکیاتھا،وہ نمایاں شناخت چاہتے ہیں اوراُنہیں بہت حدتک اقتدارمیں کھپایابھی جاچکاہے۔کیاوہ قوم کومکمل اوریقینی موت سے بچانے سے متعلق ہیلتھ پروفیشنلزکی خدمات کااعتراف کریں گے اورانہیں سیاسی ومعاشی زندگی میں اُن کاجائزمقام دیں گے؟