Many Suns Sank In Me

سیروفی الارض

:Share

“اے شارٹ ہسٹری آف نیرلی ایوری تھنگ”کے مصنف بل برائسن نے سپرنووا،رابرٹ ایوانزاورکائنات کے آغازمیں جاری ہونے والی ریڈیائی لہروں اوراس حوالے سے سائنسدانوں کی تحقیق اوردریافت کے ایسے حقائق ہمارے سامنے رکھے ہیں کہ اللہ کی کبریائی اورعلم کااعتراف کئے بغیرچارہ کارنہیں۔ امریکامیں ایک درگاہ ہے جہاں کچھ برگزیدہ لوگ ساراسال اللہ کے آگے جھولی پھیلائے کھڑے رہتے ہیں۔دن ہویارات،یہ وقت کی پرواکرتے ہیں اورنہ اپنے آرام کی،ان کاتمام وقت اپنے رب سے علم کی طلب میں گزرتا ہے۔ان لوگوں کی تپسیامیں ایسی شدت ہے کہ اللہ انہیں مایوس نہیں کرتااوران کی جھولی علم کے موتیوں سے بھرتا رہتاہے۔یہ برگزیدہ بندے بھی اللہ کادیاہواعلم اپنے آپ تک محدودنہیں رکھتے اورکوشش کرتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ یہ علم بانٹاجائے،سوجس کی جتنی توفیق ہوتی ہے اپنے دامن میں موتی بھرکرلے جاتاہے۔

یہ درگاہ امریکی ریاست ہیوسٹن میں واقع ہے اوراس کانام”ناسا”ہے۔یہاں جولوگ کام کرتے ہیں انہیں رب نے کتناعلم عطاکیاہے اس کا اندازہ یوں لگایاجا سکتاہے کہ18فروری2021کوان برگزیدہ بندوں کی بھیجی ہوئی خلائی مشین چھ کروڑکلومیٹرکاسفرطےکرکے مریخ کی سطح پراترگئی۔زمین سے مریخ کاکم سے کم فاصلہ پانچ کروڑچھیالیس لاکھ کلومیٹرہے مگریہ”کتابی”فاصلہ ہے کیونکہ حقیقت میں مریخ سے زمین کااتناکم فاصلہ آج تک ممکن نہیں ہوسکا۔کم سے کم فاصلہ 2003میں ریکارڈکیاگیاتھاجب مریخ اورزمین اپنے اپنے مدارمیں ایسی جگہ تھے جب ان کے درمیان پانچ کروڑساٹھ لاکھ کلومیٹرکی دوری تھی۔سو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناساکے جہاز نے تقریباً چھ کروڑ کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا مگر شاید یہ بات بھی مکمل طور پر درست نہ ہو کیونکہ مریخ اور زمین کے درمیان فاصلہ چالیس کروڑ کلو میٹر تک بھی چلا جاتا ہے جبکہ اوسطاً یہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے تقریباً بائیس کروڑ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہیں۔

یہ اس علم کی معمولی سی مثال ہے جس میں دو سیاروں کے درمیان فاصلہ ماپنابھی ایک پیچیدہ کام بن جاتاہے۔علم کے اسی قبیلے میں سٹیفن ہاکنگ بھی گزرے ہیں،14مارچ2018ءکوان کاانتقال ہواتھا،وفات سے پہلے انہوں نے اپنی کتاب میں پیش گوئی کی تھی کہ 2070تک انسان مریخ پراترنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ناساوالوں کی خلائی مشین تومریخ پراترگئی ہے،دیکھتے ہیں کہ اگلے48 برسوں میں ان بزرگ کی بات سچ ثابت ہوتی ہے یانہیں۔

اللہ کاایک ایساہی بندہ آسٹریلیامیں بھی رہتاہے،یہ ساری رات اپنے گھرمیں دوربین لگائے آسمان کوتکتارہتاہے،اس کاکام آسمانوں میں اپنے رب کےکرشمے تلاش کرناہے۔ان بزرگوارکانام رابرٹ ایوانزہے۔یہ حضرت خلاءمیں”سپر نووا”تلاش کرتے ہیں۔سپر نووااس ستارے کوکہتے ہیں جس میں انتہائی شدید دھماکوں کے نتیجے میں بے پناہ توانائی خارج ہوتی ہے،اتنی زیادہ کہ ہمارے کھربوں سورج مل کربھی شایدوہ توانائی پیدانہ کرسکیں۔اس عمل کے دوران سپرنووا اپنی کہکشاں کے باقی ستاروں کی مانندزیادہ چمکداررہتا ہے اورپھر”ختم”ہوجاتاہے۔ایساسپرنووااگرزمین سے پانچ سونوری سال کے فاصلے پربرپاہوجائے تو یہاں زندگی فناہوجائے۔ بقول ساقی فاروقی”کئی سورج مجھ میں ڈوب گئے میراسایہ کم کرنے کیلئے”۔

ایوانزکاکہناہے کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ کائنات اس قدروسیع ہے کہ ہمیں سپرنوواسے تباہی کاخطرہ نہیں کیونکہ یہ شدید دھماکہ ایک خاص قسم کے ستارے میں ہوتاہے جوہمارے سورج سے کم ازکم دس بیس گنابڑاہواورایساکوئی سورج ہمارے نظام شمسی میں نہیں۔اس قسم کاجوستارہ سب سے قریب ہے وہ پچاس ہزار نوری سال کے فاصلے پرہے۔سپرنووااربوں سال تک روشن رہتے ہیں مگرجب ان کا”آخری وقت قریب”آتاہے تووہ اچانک ہی معدوم ہوکرختم ہوجاتے ہیں، سب میں دھماکہ بھی نہیں ہوتا،اس کا منظریوں ہوتاہے جیسے ایک ٹمٹماتاہواچراغ۔ایک کہکشاں میں یہ واقعہ اوسطاًدوتین سوبرسوں میں ایک مرتبہ ہوتاہے۔ ایوانز کی دوربین پچاس ہزارسے ایک لاکھ تک کی کہکشاؤں کودیکھ سکتی ہے اس لیے اسی کی دہائی سے لے کر2003تک انہوں نے رب کایہ کرشمہ60سے زائدمرتبہ دیکھا۔کبھی کبھارتین سال میں بھی کوئی سپرنووانظرنہیں آیااورکبھی دوہفتوں میں تین مرتبہ یہ جلوہ دکھائی دے گیا۔رب کی باتیں رب ہی جانے!تم فرماؤ،کیااندھا اوردیکھنے والابرابرہوسکتے ہیں؟تو کیاتم غورنہیں کرتے؟الانعام:50

ایک صاحب کشف بزرگ یوکرائن میں بھی گزرے ہیں،نام تھاجارج گامو۔ایک مرتبہ آپ مراقبے میں تھے کہ یہ رازمنکشف ہواکہ اگر یہ کائنات بگ بینگ کے نتیجے میں وجودمیں آئی ہے تواس”واقعے”کی باقیات کے طورریڈیائی لہریں اب بھی کائنات میں موجودہوں گی اورچونکہ یہ کائنات بے حدوسیع ہے توزمین تک پہنچتے پہنچتے وہ لہریں اب تک مائیکروویوکی شکل میں آچکی ہوں گی۔ان لہروں کوپکڑنے کیلئےسائیں گامونے اینٹینے کی طرزپرایک آلے کاتصورپیش کیاجس کاکام ان مائیکروویوزکوریکارڈکرناتھا۔

اب ایک اتفاق دیکھیے۔1964میں دوامریکی صوفیوں نے،جوپیشے کے اعتبارسے سائنسدان تھے،نیوجرسی کے مقام پرایک بہت بڑا اینٹینالگایاجومواصلاتی مقاصد کیلئےتھا۔اس اینٹینے نے مسلسل ایک آوازریکارڈکی جس کی ان اللہ کے بندوں کوسمجھ نہیں آئی،انہوں نے اینٹینے کی ہرطرح سے جانچ کی،ہرپیچ کھول کردوبارہ کسا، سب پرزے نئے سرے سے جوڑکربھی دیکھے مگرآوازآنی بند نہ ہوئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سے محض پچاس کلومیٹرکے فاصلے پرپرنسٹن یونیورسٹی میں “سائیں بابوں”کی ایک علیحدہ ٹیم اس آوازکوریکارڈکرنے کی کوشش کررہی تھی جس سے نیوجرسی کے صوفیاپیچھاچھڑانے میں لگے تھے۔یہ کائنات کے”آغاز”کی آواز تھی،یہ وہ قدیم ترین روشنی تھی جواب مائیکروویوکی شکل میں ڈھل کران تک پہنچی تھی،ان صوفیاکومعلوم ہی نہ ہوسکاکہ اللہ نے انہیں کیاودیعت کردیاہے،وہ 90 ارب کھرب میل پرے کائنات کے کونے سے ابتدائی اورقدیم ترین فوٹون ریکار ڈ کررہے تھے۔مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صوفیوں اورسائیں بابوں کی ٹیموں کو پتا ہی نہیں تھا کہ روس کا ایک بزرگ1940 میں یہ پیشگوئی کر چکاہے کہ کائنات کے آغاز کی آواز اب بھی اس عالم میں موجود ہے۔1978 میں نیو جرسی کے صوفیوں کو اس کارنامے پر، جس میں ان کا کوئی کمال تھا اور نہ ادراک تھا کہ وہ کیا ریکارڈ کر رہے ہیں، فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔

من چلے کاسودا،اشفاق احمدکاشاہکارڈرامہ ہے۔اس میں ایک کردارکہتاہےکہ اب اللہ تک پہنچنے کاراستہ بدل گیاہے۔ اب طبیعات کو سمجھے بغیرمابعدالطبیعات سمجھ نہیں آسکتی۔مراقبہ اب لیبارٹری میں ہوتاہے۔اگرتمہاراسائیں اورصوفی بننے کاارادہ ہے تواب سائنس کے سمندر سے ادھرآناپڑے گا۔سائنس کے ٹیچر نہ بن جانا،سائنس کے سادھوبننا،سائیں میکس پلانک کی طرح،سائیں نیلزبوہرکی طرح، باباردرفورڈاورسائیں آئن سٹائن کی طرح،تم پرزمانے کاباطن روشن ہونے لگے گا۔افسوس کہ اشفاق احمدجیسی تواناآوازبھی نقارخانے میں طوطی ثابت ہوئی۔گوکہ آج ہم بابے اور سائیں پیداکررہے ہیں مگریہ وہ بابے نہیں جن کاذکراشفاق صاحب کرگئے تھے،یہ وہ بابے ہیں جوجہالت کاسپرنوواہیں،ایساسپرنوواجس کے معدوم ہونے کااگلے کئی برس تک کوئی امکان نہیں۔

ہمارے ہاں اس مادی دورمیں سب کچھ حاصل ہونے کے باوجودمزیدطلب کی لالچ نے زندگی دوبھرکررکھی ہے۔دولت حاصل کرنے کاشوق،محبت کوپانے کا جنون،طاقت کاسودہ،شہرت کی آرزواوران سب کوپانے کیلئے اقتدارکاشوق اوراس کیلئے ہرجائزوناجائزکی پرواہ کئے بغیراپنی ضدکوہرقیمت پرکامیاب دیکھنے کی جستجوکو اپنی منزل قراردیکراس کھائی میں چھلانگ لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے،گویا”انوکھالاڈلاکھیلن کومانگے پاکستان”۔اب اس خواہش یاسوال کودل سےنکالنے کیلئے ہر کوئی کوشاں ہے کہ اس ترقی پذیرملک میں جہاں مادہ پرستی مذہب بن گئی ہے،جہاں مقابلہ سخت ہے،جہاں قدم قدم پرانسان اپنی قدروں کوچھوڑے بغیرزندہ نہیں رہ سکتا،کیاوہاں اس معاشرے میں ان خواہشات کودباکریامنہ موڑکرآدمی نیک بن کررہ سکتاہے؟کیااب تقویٰ ممکن ہے؟تودل سے ایک ہوک اٹھتی ہے کہ چاہے آدمی جوکچھ بھی کرے،اس کے چاہنے کے باوجودنیک نہیں رہ سکتا۔وہ کوشش کے باوجودشرافت اختیارنہیں کرسکتا۔ آخراس کی وجہ کیاہے؟ہماری قدروں کی ٹوٹنے کی وجہ کیامادہ پرستی ہے؟آخرہمارادل ان وجوہات کوتسلیم کرنے سے کیوں انکاری ہے؟

اگردیانتداری سے اپنے دل میں جھانکنے کی فرصت ملے توہماراکریم رب ان اشکال کاحل واضح کردیتاہے کہ آج کے معاشرے میں اس ترقی افزاء مغربی تقلید کے عہدمیں وجہ مادہ پرستی نہیں ہے بلکہ خواہش کی شدت ہے۔انسان نے یہاں بھی ہمارے دیس میں بھی خواہش کوخدابنالیاہے۔پہچان اس کی یہ ہےکہ خواہش کو خدا بنانے والا کم نصیب امارہ کا غلام ہو جاتا ہے، وہ ترش رو، بدخواہ، بدزبان ہو جاتا ہے۔ممکن ہے کہ آپ اس کو کتابی حد تک تو درست مان لیں اور اپنی صفائی میں یہ دلیل دیں کہ اگرخواہشات پوری نہ ہوں تو انسان غصہ ورنہ ہو تو کیا ہو؟

آپ نے یہ بھی دیکھاہوگاکہ جن لوگوں کی زیادہ خواہشات پوری ہوجاتی ہیں،وہ زیادہ تندخوہوتے ہیں۔عموماًوہ لوگ جودل کے صحن میں اتری ہوئی خواہشوں کوروٹی کاٹکڑاڈال کرالگ ہوجاتے ہیں،وہ اورکسی مقام پرہوتے ہیں اوروہ صبرکامقام ہوتاہے اورصبر کامقام ہی ایک ایساگیٹ وے ہے جہاں پہنچ کرہرآدمی آزادہوجاتا ہے اورآزادی بڑی نعمت ہے۔یہ توآپ مانیں گے ہی،صبرمیں ایک خوبی ہے کہ وہ خواہش کے پٹے سے آزادکردیتاہے۔صبرآزادی عطاکرتاہے؟ صبرانسان میں غنااوربے فکری پیداکرتاہے لیکن صبر وہی لوگ اختیارکرسکتے ہیں جوآزادی سے محبت کرتے ہیں اورآزادزندگی بسرکرناچاہتے ہیں:

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں اپنے ناموں کے ساتھ دانشورلکھنے والے عمل کے لحاظ سے اتنے کورے ہیں کہ قوم کوبتائے ہوئے فارمولوں پرخود جنبش تک نہیں کرتے اوراس قوم سے توقع کرتے ہیں کہ جب یہ اپنی سواریوں سے نیچے اتریں تواس کادروازہ کھولنے کیلئے میزبان قطارمیں کھڑے ہوں اورنعروں کی گونج میں ان کوجلسہ گاہ یاتقریرکے جوہر دکھانے والے ہال کے اسٹیج پر پھولوں کے ہارپہناکربٹھائیں اورمیزبان تعارفی کلمات میں زمین آسمان کے قلابے ملادے ۔میں ایمانداری سے سمجھتاہوں کہ وہ علم جو کبھی نیت نہ بن سکا،وہ نیت جو ارادہ نہ بن سکی،وہ ارادہ جوعزم نہ بن سکا،اوروہ عزم جوکسب نہ بن سکا،وہ کسب جوعمل نہ بن سکا،وہ عمل جونتیجہ نہ لا سکا،وہ نتیجہ جومحاسبہ نہ کراسکا،وہ محاسبہ جوتوبہ نہ کراسکا،ایسے علم کے بارے میں تومیرارب ببانگ دہل تنبیہ فرماتا ہے:ان کی مثال گدھے کی سی ہے جن پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔ رب تعالیٰ کایہ فرمان بھی پڑھ لیں:
اورہم ضرورتمہیں خوف وخطر،فاقہ کشی،جان ومال کے نقصانات اورآمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلاکرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جولوگ صبر کریں اورجب کوئی مصیبت پڑے،توکہیں کہ”ہم اللہ ہی کے ہیں اوراللہ ہی کی طرف پلٹ کرجاناہے انہیں خوشخبری دے دو۔ان پران کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی،اس کی رحمت ان پرسایہ کرے گی اورایسے ہی لوگ راست روہیں۔

یادرکھیں کہ جولوگ”فریڈم لوورز”ہیں،صرف وہی صابرہوسکتے ہیں،بے صبرانسان اپنی ہرخواہش کے بے شمارزنجیروں میں بندھا ہواہوتاہے،اس کواپنی بیڑیوں کی جھنکارسنائی نہیں دیتی،وہ اسیرِہوس اپنی زنجیروں کے ساتھ ہی قبرمیں اترجاتاہے۔آزادی بڑی نعمت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کچھ خوش نصیب صبر کادامن تھام کے اس نعمت سے فیض یاب ہوجاتے ہیں اوربیشترآزادی کی برکتوں پرمضمون نویسی کرکے فوت ہوجاتے ہیں۔ہمارے رب نے بھی توتمام آزمائشوں پرصبرہی کوکامیابی سے تشبیہ دی ہے۔کیاتم یہ گمان کئے بیٹھے ہوکہ جنت میں چلے جاؤگے حالانکہ اب تک تم پروہ حالات نہیں آئے جوتم سے اگلے لوگوں پرآئے تھے انہیں بیماریاں اورمصیبتیں پہنچیں اوروہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اوران کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مددکب آئے گی؟سن رکھوکہ اللہ کی مددقریب ہی ہے۔ (البقرہ:214)

قرآن کریم کی اس آیت پراپنی بات کوختم کرتاہوں:اِن سے کہو،ذرازمین میں چل پھرکردیکھوجھٹلانے والوں کاکیاانجام ہواہے۔(انعام:11)

اپنا تبصرہ بھیجیں