اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔ (یہ) گنتی کے چنددن (ہیں)پس اگرتم میں سے کوئی بیمارہویاسفرپرہوتودوسرے دنوں(کے روزوں)سے گنتی پوری کرلے،اورجنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو‘‘۔
روزہ دین اسلام کاتیسرااہم رکن ہے۔عربی زبان میں’’صوم‘‘کہتے ہیں اورصوم کے لغوی معنی’’روک لینے‘‘کے ہیں۔جبکہ شرعی اصطلاح میں عبادت کی نیت سے بوقت طلوع فجرتاغروب آفتاب اپنے آپ کوکھانے پینے اورنفسانی خواہشات سے بازرکھنے کانام روزہ ہے۔قرآن حکیم کی بہت سی آیات میں روزے کی اہمیت اورفرضیت کاحکم ملتاہے۔رمضان المکرم کی آمدپرمسلمانوں کاخوش ہونابرحق ہے،کیونکہ یہ تمام بھلائیوں کولے کرآتاہے۔اس کادن روزہ،اس کی رات قیام اوراس کے شب وروزنیکیوں اوربھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کیلئے ہیں۔یہ بخشش کاموسم ہے۔اس میں نیکیوں کے اجروثواب میں اضافہ ہوتاہے۔لہٰذااس کی نعمتوں، عطیوں اورمہربانیوں سے مسرورہوناہرمسلمان کاحق ہے۔نبی اکرم ﷺنے فرمایاہے:’’تمہارے زمانے کے ایام میں تمھارے رب کے تمہارے لیے عطیات ہواکرتے ہیں،لہٰذاان عطیات کوحاصل کرنے میں لگے رہو‘‘۔
یہ نزولِ قرآن کامہینہ ہے۔اس ماہِ مقدس میں ایک ایسی رات ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے۔اس ماہ میں نفل کی ادائیگی فرض کی مانند ہے اوراس میں فرض اداکرناغیررمضان میں70فرضوں کی ادائیگی کی طرح ہے۔اس ماہ کی ان ہی برکات کی خاطررسول کریم ﷺرجب ہی سے اس کے استقبال کی تیاری شروع فرماتے تھے۔
رمضان نفس وروح کی راحت کامہینہ اوردل کی خوشی کازمانہ ہے۔اس میں ایمان کے مظاہرہرطرف نظرآتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت ہوتی ہے،خودغرضی نہیں بلکہ ایثارہوتاہے۔اس میں سختی وتشددنہیں بلکہ کرم ومہربانی ہوتی ہے۔اس ماہِ مبارک میں مسلمان کوخواہ کوئی کتنا ہی برانگیختہ کر دے یااسے کوئی کتناہی غصہ دلائے،یااگرخدانخواستہ اسے کوئی گالی بکے یااس پرکوئی الزام تراشے،ان تمام صورتوں میں مسلمان بس یہ کہتاہے کہ:’’میں روزے سے ہوں‘‘۔ ظاہرہے کہ مسلمان اپنے منہ سے کوئی ایسالفظ نہیں نکالتاجوبے معنی ہو،جونفس کی گہرائیوں میں ثبت نہ ہو،جواس کے ایمان کی ترجمانی نہ کرتاہو،جس سے شیاطین جِنّ وانس پر اسے فتح وکامیابی نہ ملتی ہو۔مسلمان’’میں روزے سے ہوں ‘‘ کے الفاظ دہراتاہے تواس کاظاہروباطن ہم آہنگ ہوتاہے۔وہ ایک اخلاقی اسلامی شخصیت کامظہرِکامل بن کریہ الفاظ اداکرتاہے۔
رسالت مآب ﷺفرماتے ہیں: ’’جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے توشیطانوں کوجکڑدیاجاتاہے،سرکش جنوں کوپابندِسلاسل کردیاجاتا ہے،دوزخ کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں اوراس کاکوئی دروازہ کھلانہیں رہنے دیاجاتا۔بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اوراس کاکوئی دروازہبندنہیں رہنے دیاجاتا۔حق تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والاپکارکرکہتاہے:اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ!اوراے شرکے طلب گارپیچھے ہٹ!‘‘۔اس ندائے ربانی پرلبیک کہنے کیلئے کیامسلمان نیکی کی چاہت میں آگے نہ بڑھے گا؟ ضروربڑھے گا۔
اپنے خالق کی معرفت حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ آپ اس ماہِ مبارک میں نازل ہونے والی کتاب کی تلاوت کیجیے اوراس میں خوب تدبر کیجیے۔آپ غورکیجیے توآپ کی سماعت سے مخاطب ہوکر کوئی سورہ انفطارکی آیت نمبر8 میں کہہ رہا ہوگا: ’’اورجس صورت میں چاہا تجھ کوجوڑکرتیارکیا‘‘۔ اللہ نے انسان کوپیداکیا،پھراس کی نوک پلک سنواری،اسے پیداکیااور اسے راہ نمائی دی۔
دورانِ تلاوت ہی کوئی آپ سے ماورہ انشقاق کی آیت نمبر6میں مخاطب ہوکرآپ کوایک زندۂ جاوید حقیقت سے آگاہ کررہاہوگا:’’اے انسان،تو کشاں کشاں اپنے ربّ کی طرف چلاجارہاہے اوراْس سے ملنے والاہے‘‘لہٰذا، توبہ کیلئے جلدی کیجیے ، اپنے ربّ کی طرف رجوع کیجیے تاکہ آپ تروتازہ چہرے کے ساتھ اس سے ملاقات کرسکیں۔ آپ جلدی قدم بڑھایئے اوراس کے جودوسخا،کرم ولطف اورمغفرت واحسان کے عطیات کوسمیٹ لیجیے۔
آپ اپنے حواس خمسہ پرغورکیجیے،اپنی پیدائش کے بارے میں تدبرکیجیے،اپنی ذات کے بارے میں سوچئے۔غور کریں توآپ کومعلوم ہوگاکہ آپ کے جسم کے ہرجزکوخالقِ ارض وسما نے بہترین ساخت میں پیداکیاہے۔پھراس نے ہرعضوکوجوکام کرناہے اس سے ہم آہنگ کیاہے۔دیکھیے آنکھیں، زبان،ہونٹ اورجسم کے مختلف اعضااورنظام اپنے اپنے افعال کے ساتھ کیسی مطابقت رکھتے ہیں۔وہ کون سی ہستی ہے جس نے انہیں اس کام کو کرنے کی ہدایت کی ہے؟کوئی عضوسننے کیلئے ہے،کوئی دیکھنے کیلئے ہے،کوئی چکھنے اورکوئی چھونے کیلئے ہے،کوئی ہضم کرنے کیلئے ہے۔انسان اگراپنے تمام اعضاکو اپنے خالق کی مرضی کے مطابق استعمال کرے تووہ جنت کاحق دارٹھہرتاہے۔
اگراس ماہِ مبارک میں اترنے والی کتاب نہ اتری ہوتی تویقیناًانسان بھٹکتارہتااوراپنے آپ پرغوروفکرسے محروم رہتا۔انسان کوکون بتاتا کہ وہ اپنی پیدائش میں،اپنے حواس میں اوراپنے جسم کے مختلف نظاموں میں ایک معجزہ ہے،قدرت کاشاہکارہے۔اس کاجسم اوراس کے تمام اعضااس کائنات کے ساتھ کس قدرہم آہنگ ہیں جس میں وہ رہ رہاہے۔اگریہ ہم آہنگی سلب کرلی جائے توانسان اورکائنات کے مابین رابطہ واتصال ختم ہوجائے۔ ایسی صورت میں انسان کسی آرزوکوپوراکرنے یاکسی چیزکودیکھنے یاکسی معاملے میں غوروفکر کرنے سے قاصر رہ جائے۔
بلاشبہ اللہ ہی خالق ہے،قادرہے،کائنات کااورانسان کاپیدافرمانے والاہے۔اوروہ اپنی نشانیوں کی طرف متوجہ کررہاہے’’اور خود تمہارے اپنے وجود میں بہت سی نشانیاں ہیں، کیا تم کو سوجھتا نہیں‘‘۔(الذٰریٰت:21)اپنی مزیدنشانیوں سے آگاہ کررہاہے’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قِسم سے بھی اْنھی کے مانند۔ اُن کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمہیں اِس لیے بتائی جارہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے‘‘(الطلاق :12)
روزے کی حالت میں ان تمام امورپرغوروفکرسے آپ عبادت کے سا تھ ساتھ ایمان کی لذت سے بھی آشناہوں گے۔آپ کی عبادت محض رسم نہیں رہے گی۔آپ اپنے رب کوپہچانیے،اپنے آپ پرغورکیجیے،اس کائنات کودیکھیے جس نے آپ کوچاروں طرف سے گھیررکھا ہے۔آپ اپنے اورکائنات کے مابین موازنہ کیجیے،اورقرآن کی(النّٰزٰعت :27۔33)کے الفاظ میں اپنے آپ سے دریافت کیجیے:’’کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہےیاآسمان کی؟ اللہ نے اْس کوبنایا،اس کی چَھت خوب اونچی اٹھائی پھراْس کاتوازن قائم کیا،اور اْس کی رات ڈھانکی اوراْس کادن نکالا۔اس کے بعداس نے زمین کو بچھایا،اْس کے اندرسے اس کاپانی اورچارہ نکالا،اورپہاڑاس میں گاڑدیے سامانِ زیست کے طورپرتمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کیلئے‘‘۔سورہ محمدکی آیت24پربھی غورفرمائیں۔ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ’’کیااِن لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا،یا دلوں پر اْن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘
انسان اپنے رب کی نافرمانی کرکے اپنے ساتھ خودزیادتی کرتاہے۔سوال یہ ہے کہ انسان خیانت کیوں کرتاہے؟اپنے پروردگارکی معصیت کیوں کرتاہے؟ وہ تکبرکیوں کرتاہے؟اپنے آپ کوبڑاکیوں سمجھتاہے؟کیاغوروفکرتجھے اللہ کے شایانِ شان قدردانی کی دعوت نہیں دیتا کہ تواللہ کی رحمت کی امید رکھے اوراس کے عذاب سے ڈرے؟قرآن نے اس ماہِ مبارک میں نازل ہوکرتجھے وہ کچھ بتادیاجوتونہیں جانتاتھااوریوں امید رکھے اوراس کے عذاب سے ڈرے؟قرآن نے اس ماہِ مبارک میں نازل ہوکرتجھے وہ کچھ بتادیاجوتونہیں جانتا تھااوریوں اللہ نے تجھ پرفضلِ عظیم کیا۔
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:’’سب سے عجیب بات یہ ہے کہ تم اللہ کوجانتے ہواورپھراس سے محبت نہیں کرتے۔اس کے منادی کی پکار سنتے ہواور پھرجواب دینے اورلبیک کہنے میں تاخیرسے کام لیتے ہو۔ تمہیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کرنے میں کتنانفع ہے مگرتم دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے پھرتے ہو۔تم اس کے غضب کی جانتے بوجھتے مخالفت کرتے ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ اس کی نافرمانی کی سزاکتنی بھیانک ہے مگرپھر بھی تم اس کی اطاعت کرکے اس کے طالب نہیں بنتے ہو‘‘۔
افسوس کہ تم اس ماہ مبارک کے قیمتی لمحات ضائع کردیتے ہواوران کے دوران اللہ کے قرب کوتلاش نہیں کرتے۔ابن قیمؒ نے کیاہی خوب فرمایاہے: روزے دار اپنے معبودکی خاطراپنی لذتوں کوترک کرتاہے۔وہ اللہ کی محبت اوراس کی رضاکواپنے نفس کی لذات پر ترجیح دیتاہے۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:’’جوکوئی بندہ، اللہ کے راستے میں ایک دن کاروزہ رکھتاہے،تواس دن کی وجہ سے اللہ جہنم کواس شخص کی ذات سے70خریف دْور کردیتاہے‘‘۔
امام حسن البنافرماتے ہیں:’’لوگ دوقسم کے ہیں۔ایک وہ جوکوئی بھلائی کرتاہے یانیکی کی بات کرتاہے توچاہتاہے کہ اس کافوری معاوضہ ملے ۔ اس کے بدلے میں مال ملے جسے وہ جمع کرے،یااسے شہرت ونیک نامی ملے،یااسے کوئی مرتبہ وعہدہ ملے،یااسے کوئی لقب ملے کہ اس لقب کے ساتھ اس کا شہرہ ہرطرف ہو۔دوسراوہ ہے جس کاہرقول وفعل محض اس لیے ہوتاہے کہ وہ خیرکوخیر ہونے کی وجہ سے چاہتاہے۔وہ حق کااحترام کرتاہے اورحق سے اس کے حق ہونے کی وجہ سے محبت کرتاہے۔اسے معلوم ہے کہ دنیا کے معاملے کاسدھارصرف اورصرف حق وخیرسے ہی ہے۔ انسان کی انسانیت دراصل یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کوحق وخیر کیلئے وقف کردے‘‘۔
میں پوچھناچاہتاہوں کہ آپ ان دو قسموں میں سے کون سی قسم کے مسلمان بنناچاہتے ہیں؟یقیناًآپ ایسے مسلمان بنناچاہیں گے جوحکم کوبجالاتا ہے،جس سے منع کیاگیاہے اسے ترک کردیتاہے،جوکچھ مل گیاہے اس پرصبرکرتاہے۔انعام ملے توشکرکرتاہے،آزمایش آئے توصبرکرتاہے،گناہ کرے تومغفرت طلب کرتاہے۔ایسے لوگوں میں شامل ہوں جن کادایاں ہاتھ صدقہ دے توبائیں کوخبرنہ ہو۔کمزورکی مدد اورصلہ رحمی کرنے والے ہوں ۔لوگوں کے بوجھ اٹھانے اورحصولِ حق میں مددگارہوں،ضرورت مندکاساتھ دینے اورمددکیلئے ہردم تیارہوں۔یتیم کے سرپردستِ شفقت رکھنے اور بیوہ کی سرپرستی کرنے والے ہوں۔
کشمیر،پاکستان،فلسطین،عراق،افغانستان،سوڈان،اریٹیریااورصومالیہ کے اپنے بھائیوں کی غم خواری کیجیے۔دنیامیں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی جان،مال،عزت وآبروخطرے میں ہے ان کیلئے دعائیں کیجیے۔آپ اْن مظلوم مسلمانوں کیلئے دعاکیجیے،جن کے گھروں کومنہدم کیاگیااورانہیں ان کے علاقوں سے بے دخل کردیاگیا۔آپ صلاح الدین ایوبی کایہ قول یادرکھیے:’’میں کیسے ہنسوں،جبکہ اقصیٰ اسیرہے؟‘‘
آپ رات میں ضرور نوافل اداکیجیے تاکہ آپ کاشماران لوگوں میں ہوجن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے(الذٰریٰت :17۔19)میں فرمایا ہے:’’راتوں کوکم ہی سوتے تھے،پھروہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے،اوراْن کے مالوں میں حق تھاسائل اورمحروم کیلئے‘‘۔
دعامومن کاایک بڑاہتھیارہے۔دعاکیجیے کہ اللہ ظالموں کے مقابلے میں اہلِ ایمان کی مددفرمائے۔دعامیں آہ وزاری ضرورکیجیے۔اللہ ظالم سامراجیوں، ان کے آلۂ کاروں کوبھی ہدائت دے اوران کے شرسے محفوظ رکھے۔شیطان کے پھندے سے بچنے کی کوشش کیجیے۔ یہ شیطان انسانوں میں سے ہوں یاجنوں میں سے۔ یہ شیطان،آپ کے روزے کوبگاڑنے کی بھرپورکوشش کریں گے۔ وہ آپ کوتراویح اورتہجد سے ہٹاکرفلمیں دیکھنے پرآمادہ کریں گے ۔وہ آپ کوموسیقی اورلغویات میں الجھائیں گے،اورآپ ان کے چکّرمیں آکرروزوں کے مقاصدفراموش کردیں گے اورپھرصیام وقیام کوہی نظرانداز کر دیں گے حالانکہ رات کے قیام کے بارے میں رب العزت فرماتا ہے: ’’اوررات کوتہجدپڑھو،یہ تمہارے لیے نفل ہے،بعیدنہیں کہ تمہارارب تمہیں مقامِ محمودپرفائزکردے‘‘۔
شیطان کواچھی طرح معلوم ہے کہ رمضان میں مومن ایک ایسی شخصیت بن جاتاہے جس پرایمان کاغلبہ ہوتاہے۔یہی شخصیت شرعاً مطلوب ہے۔اسی شخصیت کے ہاتھوں نصرت ملتی ہے۔اس لیے شیطان آپ کے اوراس شخصیت کی تشکیل کے مابین حائل ہوجائے گا، کیونکہ ایسی شخصیت کی تشکیل میں اس کی ہلاکت ہے۔اگربحمدللہ،رمضان کے اثرات سے اسلام کی مطلوب شخصیت وجود میں آئے تو یہ انسانیت کی فتح ہے۔رمضان کے اس پیغام اوروقت کی اس آوازکوتوجہ سے سنیے اوراس پرغورکیجیے۔اس طرح آپ کامران و کامیاب لوگوں میں شامل ہو جائیں گے اورناکام و نامراد نہ ہوں گے۔