آزادی کوئی ایسی شے نہیں ہے جسے ناپایاتولاجاسکے اس لئے اسے سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان غلامی کامفہوم سمجھ جائے آزادی کامطلب ازخوداس کی سمجھ میں آجائےگا۔قرآن میں حضرت موسیٰ ؑکاقصہ بڑی تفصیل سے بیان ہواہے۔اس جلیل القدرنبی کی بعثت اس وقت ہوئی جبکہ ان کی قوم بنی اسرائیل کوفرعون نے غلام بنارکھاتھا۔سورۂ شعراءمیں اس واقعہ کابیان کچھ یوں ہے:اور(وہ واقعہ یاد کیجئے)جب آپ کے رب نے موسٰی(علیہ السلام ) کو نِدادی کہ تم ظالموں کی قوم کے پاس جاؤ(یعنی) قومِ فرعون کے پاس،کیا وہ(اللہ سے ) نہیں ڈرتے‘‘۔
یہ حکم حضرت موسیٰ ؑکوایک ایسے وقت میں دیاگیاجب وہ ایک طویل جلاوطنی کی زندگی گزارکراپنے اہل خانہ کے ساتھ بے یارومدد گارمدین سے واپس لوٹ رہے تھے۔حضرت موسیٰ ؑ نے بارگاہِ خداوندی میں اپنی مجبوری وناسپاسی کااظہار اس طرح کیا کہ:
” اے رب !میں ڈرتاہوں کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے،اور(ایسے ناسازگارماحول میں)میراسینہ تنگ ہوجاتاہے اورمیری زبان (روانی سے) نہیں چلتی سوہارون (علیہ السلام) کی طرف(بھی جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ساتھ)بھیج دے(تاکہ وہ میرامعاون بن جائے)اوران کامیرے اوپر(قبطی کومارڈالنے کا) ایک الزام بھی ہے سومیں ڈرتاہوں کہ وہ مجھے قتل کرڈالیں گے۔
موسی ٰکلیم اللہؑ کی دلگدازعرضداشت کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے:’’ہرگزنہیں،پس تم دونوں ہماری نشانیاں لیکرجاؤبیشک ہم تمہارے ساتھ (ہربات) سننے والے ہیں،پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤاورکہو:ہم سارے جہانوں کے پروردگارکے(بھیجے ہوئے) رسول ہیں،(ہمارامدعایہ ہے) کہ توبنی اسرائیل کو (آزادی دے کر) ہمارے ساتھ بھیج دے‘‘۔بنی اسرائیل کواپنے ساتھ لیجانے کامطالبہ دراصل ان کی آزادی کاتازیانہ تھا۔اس کے جواب میں فرعون نے ایک تویہ کیاکہ پہلے اپنے احسان گنائے اورپھراحساسِ جرم کاشکارکرکے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی۔آج بھی عوام کواپناغلام بنانے کیلئے یہی دوحربے آزمائے جاتے ہیں۔
بھارتی انتخابات کے دوران کیاہوتاہے؟عوام کواحسانات یاددلائے جاتے ہیں۔ان سے کہاجاتاہے کہ ہم نے انگریزی سامراج سے جنگ کی۔ہم نے تمہیں آزادی دلائی۔ہم نے تمہیں تحفظ فراہم کیا۔ہمارے دم سے تم امن وسلامتی کی زندگی گزاررہے ہو۔تمہاری ساری خوشحالی کاسبب ہماری عنایات ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن محض ان غیرحقیقی احسانات کے اعادہ پراکتفانہیں کیاجاتابلکہ اسی کے ساتھ کبھی اپنے آپ سے توکبھی مخالفین سے بلواسطہ اوربلاواسطہ خوفزدہ بھی کیاجاتاہے۔پسِ پردہ سازش کرکے فرقہ وارانہ فسادات کروائے جاتے ہیں اور پھرمظلوموں کے آنسوپونچھے جانے کاناٹک کیاجاتاہے۔صدراقلیتوں کے زخموں پرمرہم رکھنے کی کوشش کرتا ہے،وزیراعظم وجوہات کاپتہ لگانے کی یقین دہانی کراتاہے۔اس قدرعظیم سانحہ جس میں77لوگ جان بحق ہوجائیں اور4لاکھ بے گھر کی وجوہات کاتک اگروزیراعظم کوایک ماہ بعدتک پتہ نہ ہوتواسے لال قلعہ پریوم آزادی کے پرچم کشائی اوربلندباگ دعووں کاکوئی حق نہیں ۔مودی حکومت کے ذریعہ ایک طرف کسانوں کوخودکشی پرمجبورکرنے والے سودی نظام کوفروغ دیاجاتاہے اورپھران کی باز آبادکاری کیلئے سرکاری خزانہ سے امدادکااعلان کیا جاتاہے۔اس منافقت کے علاوہ وعدوں کاایک لامتناہی سلسلہ بھی ہندتواانتخابی سیاست کی اہم ترین شناخت ہے جنہیں اب کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتااس لئے کہ وعدہ کرنے والے سیاسی رہنمااوررائے دہندگان دونوں جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ اورووٹ لینے کابہانہ ہے اوران کوشاذوناذرہی پوراکیا جائےگا۔
ہمارے ہاں بھی معاملہ کچھ اس سے مختلف نہیں بلکہ اقتدارحاصل کرنے کیلئے بعض معاملات میں ہم مودی سرکارسے بھی کئی ہاتھ آگے ہیں۔پچھلی حکومتوں کی بداعمالیوں اورملک لوٹنے کے جتنے الزامات لگاکرجواقتدارحاصل کیا،پہلے چندمہینوں میں بڑے دھڑلے سے یوٹرن لیتے ہوئے اسے سیاسی بالغ نظری قرار دیکربڑے تفاخرسے اپنی حکومت کی کامیابی کے جھنڈے لہرائے جارہے ہیں۔قوم جب اپنی بے بسی ولاچاری کے ہاتھوں چیخ وپکارکرتے ہیں توان کو”گھبرانا نہیں”کالالی پاپ دیکرخاموش کروانے کی کوشش ناتمام کی جارہی ہے۔حیرت تواس بات پرہے کہ اپنی اس ناکام کارکردگی کے بعدنئی قانون سازی کے بل پاس کرکے اپنے اگلے انتخابات جیتنے کیلئے راہیں ہموارکرنے کیلئے عالمی طورپرناکام ہونے والاانتخابی نظام نافذکرنے کیلئے اس غریب ومفلوک الحال قوم کا80/ ارب روپے کی کثیررقم اس پرخرچ کی جارہی ہے۔
فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کویوں مخاطب کرکے کہاتھا: قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ ’’کیاہم نے تمہیں اپنے یہاں بچپن کی حالت میں پالانہیں تھااورتم نے اپنی عمر کے کتنے ہی سال ہمارے اندربسرکئے تھے ،اور(پھر)تم نے اپناوہ کام کرڈالاجوتم نے کیاتھا(یعنی ایک قبطی کوقتل کردیا)اورتم ناشکر گزاروں میں سے ہو(ہماری پرورش اور احسانات کوبھول گئے ہو) ‘‘
اس طرح کی صورتحال میں ایک حریت پسندرہنماکوکیاموقف اختیارکرناچاہئے اورکس جرأتمندی کے ساتھ اس کااظہارکرناچاہئے اس کی مثال حضرتِ موسٰی علیہ السلام کے جواب میں ہے،انہوں نے فرمایا: ’’جب میں نے وہ کام کیامیں بے خبرتھا(کہ کیاایک گھونسے سے اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے)پھر میں(اس وقت) تمہارے(دائرہ اختیار)سے نکل گیاجب میں تمہارے(ارادوں) سے خوفزدہ ہواپھرمیرے رب نے مجھے حکمِ (نبوت)بخشااور(بالآخر) مجھے رسولوں میں شامل فرمادیا،اورکیاوہ(کوئی) بھلائی ہے جس کاتومجھ پراحسان جتارہاہے(اس کاسبب بھی یہ تھا)کہ تونے (میری پوری قوم)بنی اسرائیل کوغلام بنارکھاتھا‘‘۔
حضرت موسیٰ ؑنے بات کارخ پھرآزادی وغلامی کی جانب موڑدیااورببانگِ دہل فرعون کے سامنے اعلان کیاکہ تمہارے دربارمیں میری پرورش یہ کوئی پسندیدہ فیصلہ نہیں تھابلکہ مجبوری تھی۔اگربنی اسرائیل کوغلام نہ بنایاگیاہوتااوران کے لڑکوں کوقتل کرنے کا سلسلہ جاری نہ ہوتا توکیوں میری ماں مجھے ایک ٹوکری میں رکھ کردریائے نیل میں بہاتی؟گویااس پرورش کیلئے فرعون کاجبراور بنی اسرائیل کی غلامی سزاوارہے نیزقبطی قتل کیلئے موسی ؑکوذمہ دارٹھہراناایساہی ہے جیسے تقسیم ہندکیلئے مسلمانوں کوقصوروار کہنا۔کوئی ان وجوہات کوجاننے کی کوشش نہیں کرتاجن میں جناح جیسے رہنمانے الگ ہونے کافیصلہ کیااوراگرجسونت سنگھ اپنی کتاب میں سچ لکھتاہے توتمام متعصب ہندواوراپنے پرائے سب دشمن بن جاتے ہیں۔قبطی کاقتل اس لئےہوا وہ کہ وہ بنی اسرائیل کے ایک شخص پروہ ظلم وزیادتی کررہاتھاجن کوزمین میں فرعون کے حکم سے غلام بناکررکھاگیاتھا۔ان کومساوات وعدل جیسے بنیادی حقوق سے محروم کردیاگیاتھا۔ان کے اوپر مظالم کرنے والے قبطیوں کی کوئی سرزنش حکومت یاعدالت کی جانب سے نہیں ہوتی تھی۔ قرآنِ عظیم میں اس کی تصدیق اس اندازمیں کی گئی ہے کہ: ’’بیشک فرعون نے زمین میں غلبہ پایاتھااوراس کے لوگوں کواپناتابع بنایا ان میں ایک گروہ کوکمزوردیکھتا،ان کے بیٹوں کوذبح کرتااوران کی عورتوں کوزندہ رکھتا،بیشک وہ فسادی تھا ‘‘۔
اہل ایمان کے ساتھ دنیاکی مختلف نام نہادجمہوریتوں مثلاًامریکا،فرانس،اسرائیل،ہندوستان اوربرمامیں یہ سلسلہ اب بھی جاری وساری ہے۔غلامی کاکوئی لیبل نہیں ہوتاکہ غلام قوم پرچسپاں کردیاجائے بلکہ حکمرانوں کاکسی ایک طبقہ کے تئیں اختیارکیاجانے والاایک خاص رویہ مثلاً بنیادی حقوق سے محرومی یاامتیازی سلوک ہوتاہے۔جس سے تمام لوگوں کوپتہ چل جاتاہے کہ کون غلام ہے اورکون آقا؟انگریزاپنے سامراج کے اندررہنے بسنے والے آزاد لوگوں کوبرطانوی شہری اورغلام قوم کے باشندوں کوسبجیکٹ بائی برتھ یعنی پیدائشی ماتحت یاغلام لکھتے تھے جس سے اسے پتہ چل جاتاتھاکہ وہ کون ہیں اوران کی حیثیت کیاہے؟ وہ اپنے خاص باغوں بلکہ ریل گاڑی کے فرسٹ کلاس میں تختی لگادیتے تھے کہ ہندوستانیوں اورکتوں کاداخلہ ممنوع ہے۔
آج کل کسی کے پاسپورٹ پرلکھاتونہیں جاتالیکن غلامانہ سلوک بہرحال کیاجاتاہے اسی لئے جیل کی چہاردیواری کے قتیل صدیقی کو جودہشتگرد ہلاک کردیتے ہیں ان پرکوئی کاروائی نہیں ہوتی بلکہ اسی شہرپونے میں ہونے والے دھماکوں کیلئےقتیل کے قاتلوں کے بجائے قتیل کے رشتہ داروں پرشک کیاجاتاہے۔ دیانند پاٹل جس کے ہاتھوں میں بم پھٹ گیااس کے سیکڑوں ہندودوستوں کوچھوڑکردو مسلم دوستوں کی تلاش میں پولس سیکڑوں میل کاسفرکر کے اس کے آبائی وطن پہنچ جاتی ہے۔ممبئی میں مسلمانوں کے جلوس پر گولی چلانے کے بعدپولس مرنے والوں کے قتل کاالزام مظاہرین پرجڑ دیتی ہے۔تیسری دنیا کے ملک ہندوستان ہی میں سب ہوتاہے ،ایسا نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کوانسانی حقوق کاسرخیل کہنے والے امریکامیں ایک ایرانی خاتون شہرزادکومحض اس لئے گرفتار کرلیاجاتاہے کہ اس کے سابق شوہرمحمدسیف نے اندھیرے میں استعمال کئے جانے والی عینک آسٹریاسے ایران برآمدکئے تھے۔جڑواں بچوں کی یہ ماں 5 سال جیل میں گزارنے کے بعدابھی حال میں رہاہوئی ہے۔اسے کہتے ہیں غلامی کاسلوک جودنیاکی سب بڑی جمہوریت میں روارکھاجاتاہے مگرظلم کی یہ چکی ہمیشہ نہیں چلتی جب مشیت کافیصلہ نافذہوتاہے توبازی الٹ جاتی ہے اورجن لوگوں کوزمین میں کمزوربناکررکھاگیاتھا انہیں رہنمائی کے منصب پرفائزکردیاجاتاہے جیساکہ بنی اسرائیل کی بابت ارشادربانی ہے: ” اورہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پرجوزمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اورانہیں پیشوا بنا دیں اورانہی کو وارث بنائیں۔
حقیقی اسلامی آزادی کااگرمصنوعی جمہوری آزادی سے موازنہ کیاجائے توپتہ چلتاہے کہ مؤخرالذکرعوام کوبولنے کاحق تودیتی ہے لیکن حکمران کیلئے ان کی بات ان سنی کردینے کاحق بھی بحال رکھتی ہے اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ فصیح محمود کے اہل خانہ دربدر ٹھوکریں کھاتے تھک جاتے ہیں مگرنہ حکومت کی کان پرجوں رینگتی ہے اورنہ عدالت فریادرسی کرتی ہے۔اناٹیم چیختے چیختے تھک ہارکربیٹھ جاتی ہے لیکن کوئی اس کے مطالبے پرکان نہیں دھرتا۔بابارام دیوکوایک حد تک چیخنےچلاّنے کی اجازت دی جاتی ہے اورپھرانہیں گرفتارکرکے جیل بھیج دیاجاتاہے۔اس کے برعکس اسلام کی آزادی میں خلیفۂ وقت عمربن خطاب ؓ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ اگرمیں غلطی کروں توتم کیاکروگے۔ایک بدوبھرے مجمع میں جواب دیتاہے کہ ہم تمہیں اس تلوارسے درست کردیں گے اس پروہ اللہ رب العزت کا شکراداکرتے ہوئے کہتے ہیں جب تک اس جیسے لوگ ہمارے بیچ ہوں گے ہم راہِ راست پررہیں گے اوریہ صرف کہنے سننےکی بات نہیں ہوتی بلکہ جب ایک بڑھیامہرکی تحدید کے مسئلہ میں علی الاعلان یہ اعتراض کرتی ہے کہ اے عمرؓجس چیزکواللہ نے حرام نہیں کیااس پرپابندی لگانے والے تم کون ہوتےہو ؟تو سب کے سامنےحضرت عمرؓ اپنی رائے سے رجوع فرماتے ہوئے اپنی غلطی کااعتراف کرتے ہیں۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒکاخلافت کےمنصب کوسنبھالتے ہی اعلان فرماناکہ اگرتم مجھے کسی معاملے میں خلاف ِ شریعت پاؤتو میری اطاعت نہ کرنا،اسی حقیقی آزادی کامظہرہے جس میں صاحب ِ اقتدارعوام کواپنی اتباع کاپابندنہیں بناتابلکہ اس کے برخلاف اللہ اوراس کے رسولؐ کی اطاعت کرنے کی تلقین کرتا۔ اسلامی تصورآزادی میں معیارِحق حکمران کی مرضی نہیں بلکہ کتاب وسنت ہے اورعام آدمی کی طرح صاحبِ اقتداربھی اس کاپابندہوتاہے۔غیراسلامی نظامہائے سیاست میں حکمراں مختلف قسم کاجوازفراہم کرکے اپنی مرضی کومعیارِحق بناکرعوام پراسے چلانے لگتے ہیں۔کوئی کہتاہے ایساکرنے کامجھے موروثی حق ہے، کوئی اپنی نسلی برتری کوقائم رکھنے کیلئے اسے جائزقراردیتاہے،کسی کے نزدیک ایساکرناقومی وملکی مفادمیں ہوتاہے توکوئی اپنے آپ کوجمہورکانمائندہ بناکراس حق کوحاصل کرلیتاہے اوراپنی من مانی کرتاہے لیکن صرف اورصرف اسلامی نظام ایسے ہرجوازسے مبراّہے جس سے حکمرانوں کی مرضی معیارحق بن جائے اور یہی حقیقی آزادی کی سب سے بڑی ضمانت ہے ۔
یہی وہ جذبۂ حریت ہے جومحمد مرسی سے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعدیہ اعلان کرواتاہے کہ ویسے تو سبھی کے حقوق برابرہیں لیکن مجھ پرتوذمہ داریاں ہی ذمہ داریاں ہیں یعنی تم تومیری بات سے صرف ِنظرکرنے کاحق رکھتے ہولیکن میں سربراہ کی حیثیت سے ایسانہیں کرسکتاکیونکہ اسلام کی نظرمیں حکمران قوم کاخادم ہوتاہے،وہ نہ صرف اپنے بلکہ اپنی رعایا کیلئے جوابدہ ہوتاہے اور یہی حقیقی آزادی کاوہ سرچشمہ ہے جس سے مصنوعی آزادی کے سارے نظریات یکسر محروم ہیں۔بظاہرایسامحسوس ہوتاہے کہ دیگر نظامہائے سیاست میں حکمراں طاقتوراوررعایاکوکمزوربنادیاگیااس کے برعکس اسلام میں قائدکوکمزورکردیاگیاہے لیکن ایسانہیں ہے ۔ اسلام میں چونکہ الوہیت اورملوکیت اللہ رب العزت کیلئے ہے اس لئے اس کے آگے سب کے سب بے بس ہیں لیکن آپس میں وہ ایک دوسرے کے برابرہیں۔سب مل کراسی ایک خالق ومالک کی اطاعت کرتے ہیں اسی کی بندگی بجالاتے ہیں اسی کی خوشنودی چاہتے ہیں اورباہم ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔سوچنے کی بات تویہ ہے کہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ خالق اپنی تخلیق کے چلانے کیلئے کوئی نظام وضع نہ کرتا۔دنیاکوچلانے کیلئے خالق نے قرآن حکیم میں یہ سارانظام ہمارے سامنے رکھ دیاہے اوراب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم نے مغربی جمہوری نظام کے دھوکے میں آکرغلامی کاطوق قبول کرناہے جس نے بندوں کوبندوں کاغلام بناکررکھ دیاہے یاہم نے اللہ کی غلامی قبول کرکے دنیاوآخرت کی سرفرازی کی طرف لوٹناہے۔