پھول اورکارڈ

:Share

گاڑی میرے گھرکے سامنے رکی،پہلے باوردی شوفراترا،پچھلے دروازے کی طرف بھاگااورسرعت سے ہینڈل کھینچ دیا۔اندر سے سرمئی سوٹ میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان نکلا،اس کے ہاتھوں میں گلدستہ تھا۔میں یہ سب کچھ اپنے گھ کے فرنٹ روم کی سامنے والی کھڑکی سے دیکھ رہاتھا۔اس نے عینک کے گہرے سیاہ شیشوں کے پیچھے سے ماحول کاجائزہ لیااورآگے بڑھ کرمیری دہلیزپرقدم رکھ دیا۔اس نے جونہی گھرکی بیل بجائی تومجھے قدرے حیرت بھی ہوئی اورپریشانی بھی کہ یہ اجنبی کون ہے اورمیرے ہی گھرکااس نے انتخاب کیوں کیاہے؟

اگلے دومنٹوں میں وہ میرے سامنے بیٹھاتھا،وہ ایک خوشحال،وجیہہ اورمہذب آدمی دکھائی دے رہاتھالیکن اسے اپنے سامنے پاکرمجھے کوئی مسرت نہیں ہورہی تھی۔میں دراصل پچھلے چنددنوں سے شدیدڈپریشن کاشکارتھا،خدادادپاکستان کی اوپر تلے کی ناکامیاں،سنگین معاشی بحرانوں،مہنگائی میں تڑپتے عوام اورحالات کے بے مہرتھپیڑوں نے میری جڑیں تک ہلادی تھیں۔میںچڑچڑا،سنکی اوربیزارہوچکاتھا۔بغیرمنہ دھوئے رات کے لباس میں بیٹھاایک کتاب پڑھنے میں منہمک تھا،میل ملاقات سے مجھے چڑسی ہوگئی تھی۔میں نے سوچاکہ یہ کتنے غلط وقت پربغیراطلاع دیئے میرے پاس آیاہے۔اس کے پھول میرے سامنے میزپردھرے تھے جودروازہ کھولتے ہی اس نے اپنی مسکراہٹ کے ساتھ میرے ہاتھوں میں تھمادیئے تھے۔

اس نے دھوپ کاانتہائی قیمتی چشمہ اتارا،اورزندگی سے بھرپورمسکراہٹ میری طرف پھینک کربولا،آپ نے مجھے پہچانا؟ میں نے غورسے اسے دیکھا ،چہرہ توشناساتھالیکن وقت اوردوری کی دھندمیں ملفوف تھا۔اس نے میری کشمکش بھانپ لی ، آپ پہچان بھی کیسے سکتے ہیں،دس سال تھوڑاعرصہ نہیں ہوتا؟میں اسے خاموشی سے دیکھتارہا۔آپ میرے محسن ہیں، میری خواہش تھی،میں جب کامیاب بزنس مین بن جاؤں،میرے پاس بے پناہ دولت آجائے،لوگ میرے اوپررشک کریں،تومیں ایک بارآپ کے قدموں میں حاضری دوں۔

میری وحشت حیرت میں تبدیل ہوگئی اورمیں سکتے کے مریض کی طرح اسے دیکھنے لگا۔وہ تھوڑاساجذباتی ہوگیا،سرمیں ایک ناکام شخص تھا،غریب تھا،جذباتی تھا،جس سونے کوہاتھ لگاتامٹّی ہوجاتا،جس نوکری کیلئے درخواست دیتاوہاں سے انکارہوجاتا۔میں نے سوچااس زندگی سے توموت اچھی ہے۔اس سے پہلے کہ میں مرجاتا،ایک دوست مجھے آپ کے پاس چھوڑ گیا۔آپ نے میری ساری کہانی سن کرمجھے خودکشی کاایک انوکھاطریقہ بتایا۔ آپ نے کہااس معاشرے میں زندہ رہنے سے بڑی کوئی خودکشی نہیں،تم اپنے اردگردموجودلوگوں جیسے ہوکران سب سے انتقام لے سکتے ہو۔آپ نے کہاکامیابی اور ناکامی،اچھائی اوربرائی فقط اسٹیٹ آف مائنڈ(اپنے دماغ کی سوچ)ہوتی ہے۔جیب تراشی ایک شخص کی ناکامی اوردوسرے کیلئے کامیابی ہوتی ہے،اسے ایک برائی کہتاہے اوردوسرے کے نزدیک وہ حصولِ رزق کاذریعہ ہوتی ہے۔

وہ سانس لینے کیلئے رکا،وہ مجھے اب ہلکاہلکایادآنے لگا۔دس سال پہلے وہ ایک کمزورسازردرولڑکاتھالیکن اب وہ سڈول جسم کاخوبصورت نوجوان تھا۔وہ گویاہوا،آپ نے کہاتھا کہ اصل قصوروارضمیرہوتاہے،یہ جوتم بہت خوشحال قسم کے لوگ دیکھتے ہوجن کی لوگ مثالیں دیتے ہیں کہ یہ برسوں میں ارب پتی بن گیایہ بھی کبھی تم جیسے لوگ تھے،بس انہوں نےخود کومارنے کی بجائے اپنے اپنے ضمیر کوقتل کردیااوربس ایک ہی رات میں خوشحالی کے سفرپرگامزن ہوگئے۔جیسادیس ویسا بھیس۔اس ملک میں ضمیرکی کوئی ضرورت نہیں،اس سوسائٹی میں ضمیراپینڈکس کی طرح ہے،اگرہے توکوئی فائدہ نہیں، موجودنہیں توکوئی نقصان نہیں۔آپ نے کہاتھاکہ اپنے اردگرددیکھو،کتنے سیاستدان ہیں،کتنے مذہبی رہنما،بزنس مین، دانشور، ادیب اورصحافی ہیں،یہ سب اخبار،ریڈیواورٹیلیویژن پرکتناجھوٹ بولتے ہیں کہ عرش تک ہل جاتاہے۔یہ جب کہتے ہیں تو جانتے ہیں ہم غلط کہہ رہے ہیں لیکن تم ان کااعتماددیکھو،ان کے لہجے کی کھنک،ان کی آنکھوں کی چمک اوران کے چہرے کی دمک ملاحظہ کروتمہیں کسی جگہ کشمکش،پریشانی اورشرمندگی نظرآتی ہے،نہیں دکھا ئی دیتی،کیوں؟کیونکہ ان لوگوں کے اندرضمیرجیسی چیزہی نہیں۔آپ نے کہاتھایہ ضمیرہی ہوتاہے جوانسان کوشرمندگی،پریشانی اورکشمکش سے دوچارکرتاہے،جوآپ کے اعتمادمیں دراڑڈالتاہے،اگرضمیرنہیں توسکھ ہی سکھ،اطمینان ہی اطمینان اورسکون و چین ہی چین!

وہ رکا،اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی اورلمباساسانس لیکربولا ، سر!اس کے بعد آپ نے یہ بھی کہاتھاکہ اگرضمیر کے ساتھ زندہ رہوگے تومیں تمہیں یہ یقین دلاتاہوں کہ کامیاب تو تم پھربھی ہو جاؤ گے لیکن یہاں نہیں بلکہ وہاں،جہاں ہم سب کا انتظارہورہاہے۔ سر! میں نے آپ کی پہلی نصیحت پرعمل کیا،میں نے اپنے ضمیرکاگلہ دبادیا، میں نے اسے مٹی میں دفن کر دیا۔آپ کی پشین گوئی یاتجربہ کی بات بالکل سچ ثابت ہوئی،میں واقعی کامیاب ہوگیا۔مجھے لگامیں آپ کے ساتھ ملاقات سے پہلے قطب شمالی پربرف کی دوکان کھول بیٹھاتھایا چولستان کے باسیوں کو ریت بیچ رہاتھا ۔میں نے جب بازار میں درست سودا بیچناشروع کیا تودن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔میں آپ کامشکورہوں سر! وہ خاموش ہوگیا۔میں اس کے چہرے کوغور سے دیکھنے لگا،وہاں واقعی کوئی ملال،کوئی شرمندگی اورکشمکش نہیں تھی بالکل ہمارے آج کے حکمرانوں کی طرح!آئی ایم ایف کی شرمناک شرائط کوپاکستانی عوام پرمسلط کرکے کس قدرخوشی کے ساتھ سینہ پھلاکرہمارے حکمران پاکستان کے مختلف چینلز کواپنی کارکردگی سے آگاہ کررہےہیں یاپھرمودی کے حالیہ اقدامات کے خلاف فتح مندی کے ڈھول پیٹ رہے ہیں وہ اس کواپناحق بھی سمجھتے ہیں کیونکہ وزیرخارجہ بڑے فخرکے ساتھ اس طوقِ غلامی کی کامیابی کاسہرااپنے کپتان کے سر باندھ رہے ہیں۔

اس نے آگے پیچھے دیکھااوربڑے اعتمادسے بولا،سر!آپ مجھے کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں، کوئی مسئلہ آن پڑا ہے “اینی پرابلم سر؟”میں نے ٹھنڈی سانس بھری اورتھکی مرجھائی آوازمیں کہا،ہاں میں پریشان ہوں،میں بھی اپنے ضمیر کے ہاتھوں تنگ آچکاہوں،اس نے قہقہہ لگایااور چمک کربولا،آپ بھی میری طرح کریں،مطمئن اورخوشحال ہوجائیں۔میں نے بھی زوردار قہقہہ لگایااوراس کی طرف دیکھ کرکہا،بڑی کوشش کرتاہوں لیکن اللہ نےمیرے اندرایک عجیب نسل کاضمیر فِٹ کر دیا ہے،میں جہاں چھوڑکرآتاہوں،یہ بلی کی طرح واپس آجاتاہے،میرے گھرپہنچنے سے پہلے دہلیزپرکھڑاہوتاہے اورپہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ مجھ پرحملہ آورہوتاہے اوربالآخرمجھے شکست سے دوچارکردیتاہے۔سر!پھرآپ کاشماران لوگوں میں ہوتاہے جواپنے مقدرمیں ناکامی لکھواکرآئے ہیں،جوکبھی کامیاب نہیں کہلواسکتے البتہ یہاں نہیں بلکہ وہاں بھی آپ کامیاب ٹھہریں گے،مجھے معلوم نہیں؟میرے لائق کوئی خدمت ہوتویہ میراکارڈرکھ لیں،کبھی یاد فرمائیں!اب میز پرپڑے پھولوں کے ساتھ یہ کارڈ بھی مجھے دیکھ کرطنزیہ ہنسی کو چھپانے کی کوشش کررہاتھا!
رہے نام میرے رب کاجس نے فلاح اور کامیابی کا راستہ بڑا کھول کھول کر بتایا ہے!!!
نئے خداؤں سے مشروط دوستی کرلی
فقیہہ شہرنے تجدیدِبندگی کرلی
وہ بدنصیب جسے سب ضمیرکہتے تھے
سناہے اس نے کہیں چھپ کے خودکشی کرلی
اسے خلوص کہوں یا اپنی نادانی
جوکوئی ہنس کےملااس سے دوستی کرلی
بہار صحنِ چمن تک نجانے کب پہنچے
خزاں سے ہم نے سرِ دست دوستی کرلی

اپنا تبصرہ بھیجیں