شعلہ بیان لیکن تاثیرندار د

:Share

ہوتارہاہے،ہوتارہے گا،یہی ہے ریت۔ کوئی نئی بات نہیں،کوئی انوکھاواقعہ نہیں ہے۔خلق خداکے حق میں نغمہ سرائی جرم تھی،جرم ہے،جرم رہے گی۔خلقِ خداکی گردنوں پرسواراس وقت بھی حاکم یہی کرتے تھے اب بھی یہی کرتے ہیں اورآئندہ بھی یہی کرتے رہیں گے۔کوئی نئی بات نہیں،یہ ہوتارہاہے،ہوتارہے گا۔آپ زمینی خداؤں کوللکاریں گے تووہ آپ کوہارپھول پیش نہیں کریں گے۔یہی ہوگا۔آپ آئینہ دکھائیں گے اوروہ اپنی مکروہ صورتوں کودیکھ کرآپ کو پتھر ماریں گے۔گولیاں داغیں گے۔لاٹھیاں برسائیں گے۔آنسوگیس کے شیلوں کی برسات کریں گے لیکن اپنے قلم کوخلقِ خداکی امانت سمجھنے والے کبھی بازآئے ہیں نہ آئندہ آئیں گے۔اس لئے کہ وہ جانتے ہیں:
ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا
میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں

زمینی خداؤں کے زرخریدغلام خلقِ خداکی آوازکوخاموش کرنے کاسپنادیکھتے ہیں اوروہ کبھی شرمندہ تعبیرنہیں ہوپاتا،نہ ہوگاتوبس پھریہی منظرہوگاجوآپ دیکھ رہے ہیں۔قصرِسفیدکا لاڈلا اسرائیل غزہ میں اورسفاک مودی مقبوضہ کشمیرمیں انسانیت کے پرخچے اڑارہے ہیں لیکن اقوام عالم کوگویاسانپ سونگھ گیاہے۔ہمارے ہاں تومودی کے یارکوغدارکانام دیاگیا لیکن نئے پاکستان کی یہ کیسی تبدیلی کہ خوداپنے ہاتھوں ووٹ دیکراسے سلامتی کونسل کاممبرمنتخب کرادیااورقوم کوپتہ بھی نہیں لگنے دیاگیا۔ارضِ وطن پرحملہ آورپائلٹ کوبغیرکسی شرط کے رہاکردیاجس سے سفاک اورظالم درندہ مودی ہاری ہوئی انتخابی مہم جیت گیا۔سچ کوکیوں چھپایاجارہاہے؟ سچائی کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔ایسی طاقت جس کامقابلہ کوئی ظالم نہیں کرسکتاکبھی نہیں۔

ہرفرعون یہ سمجھ بیٹھاہے کہ بس وہی ہے عقل وفکرکاعلمبردار… بہت ضروری ہے وہ۔اس کی ہدایت ورہنمائی ہی نجات کا سبب ہے۔بس وہی”میں”کاچکر۔نحوست کاچکر۔اسی لیے وہ پکارتا رہتاہے۔وہی ہے اعلیٰ وارفع،وہی ہے رب اوررب اعلیٰ بھی۔ خودفریبی کی چادرمیں لپٹاہوا۔موت…موت تواسے چھو بھی نہیں سکتی ۔ سامان حرب سے لیس۔خد ّام اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔چڑیابھی پرنہیں مارسکی۔ دوردورتک کوئی سوچ بھی نہیں سکتاکہ اسے گزندپہنچاسکے۔جیسے وہ موت کوبھول بیٹھتاہے خودفریب توسمجھتاہے کہ موت بھی اسے بھول جائے گی لیکن ہوتا کچھ اورہے۔سب کچھ ہوتاہے……محافظ بھی، سامان حرب بھی،محلات بھی، سازوسامان بھی،آفرین بھی،واہ واہ بھی……سب کچھ ہوتاہےاورپھرنیل ہوتاہے،لہریں ہوتی ہیں، منہ زورلہریں ……رب حقیقی کے حکم کی پابنداورجب وہ گھِرجاتاہے پھردوردورتک کوئی نہیں ہوتامدد گار۔تب وہ آنکھ کھولتاہے اورپکارنے لگتاہے”نہیں نہیں،میں ایمان لاتاہوں،ہاں میں موسیٰ وہارون کے رب پرایمان لاتاہوں لیکن بندہوجاتاہے در۔کسی آہ وبکاسے نہیں کھلتااورپھروہ غرق ہوجاتاہے۔موت اس کی شہ رگ پردانت گاڑدیتی ہے۔ختم شدنشانِ عبرت داستان درداستان۔
فرعون مرتاہے،فرعونیت نہیں مرتی۔اس کے پیروکارآتے ہیں،آتے رہیں گے پھروہ پکارنے لگتے ہیں،ہمارامنصوبہ کامیاب رہا۔ہم ہیں اعلیٰ وارفع۔ ہمارے پاس ہیں وہ دانش وبینش جو بچا لے جائیں گے سب کو۔بس ہمارے پیچھے چلو۔ہماری پیروکاری کرو کہ نجات اسی میں ہے۔

مصاحبین کے نعرہ ہائے تحسین اسے اس زعم میں مبتلا رکھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔اس کی مرضی سے چلتاہے کاروبار حیات… لیکن پھرایک اوردریاہوتا ہے اورانجام وہی۔

ایک دن میں نے ان سے پوچھاتھا:انسان ہیں ہم… گناہ توکریں گے،ہوگابھی،پھرکیاکریں؟”توبولے:ہاں یہ تو ہے،لیکن جب گناہ تنہائی میں سرزدہوجائے توتنہائی میں اس کی معافی مانگواور جب سرعام ہوجائے،اجتماع میں ہو جائے تواجتماع میں کھڑے ہوکرمعافی کے طالب بن جاؤ۔

اورپھر ایک دن انہوں نے یہ بھی کہاتھا”سچائی کواختیارکرویہ روشنی ہے،نجات ہے،رہنمائی ہے،سکون ہے۔ اس کی تلخی میں بھی شیرینی ہے، مٹھاس ہےاور جھوٹ! جھوٹ توبس ہلاکت ہے،اندھیراہے،گمراہی ہے،بے سکونی ہے…اطمینان کاقاتل جھوٹ ہے اورانسانیت کابھی۔جھوٹ ایک فریب ہے۔سہانانظرآتاہے… ہے نہیں۔بس سچائی ہی نجات ہے ۔

پھرایک دن انہوں نے اس سے بھی آگے کی بات کی تھی:سچائی کیلئےزبانِ صادق کاہوناضروری ہے۔سچائی پاکیزگی ہے اور جھوٹ نجاست۔جھوٹ آلودہ زبان سچائی بیان ہی نہیں کرسکتی توپہلے اپنی زبان وذہن کوجھوٹ کی نجاست سے پاک کرو ۔نجس زبان سے اداکیے ہوئے الفاظ بے معنی وبے اثرہوتے ہیں،چاہے سننے میں کتنے ہی خوش کن اورسماعت میں کتنے ہی سرور بکھیریں ۔

عجیب بدنصیبی ہے کہ وہ تمام اسلامی ممالک کے سربراہان جوامریکاکے خوف سے آنکھیں بندکئے بکل مارے بیٹھے ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے اورناک کے نیچے دنیا کی سب سے سے بڑی انسانی جیل مقبوضہ کشمیر میں محصورمسلمان بھوک اور پیاس سے بلبلا رہے ہیں ،ظلم وتشددکے پہاڑتوڑے جارہے ہیں لیکن کسی کوہمت نہیں کہ اس زیادتی پرمل کرکوئی قدم اٹھا سکیں بلکہ سفاک مودی کواپنے ہاں بلاکراعزازسے نوازکرکشمیری شہداء اورارض پاکستان کے باسیوں کے دل کوچیرکررکھ دیاہے۔مقبوضہ کشمیرمیں کب تک مائیں اپنے جوان لاشوں پرماتم کریں؟میں کب تک ان کے نوحے لکھوں؟آخرصبرکی بھی کوئی حدہوتی ہے۔استعماری قوتیں بہری واندھی ہوچکی ہیں اورہم اب بھی ان سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ہم نے بھی کشمیریوں کوان ظالم درندوں سے چھڑوانے کیلئے ساری قوم کوآدھ گھنٹے کیلئے سڑک پرکھڑاکرنے کاکیاعجب قدم اٹھایا ہے ،آزادی اگر ایسے ملتی ہے توکیوں نہ پوراگھنٹہ سڑکوں پرنکل کریکجہتی کااظہارکریں تاکہ غزہ کے مسلمان بھی آزادی کا سانس لے سکیں،وہ بھی تواپنی مددکیلئے پاکستانی سپاہ کوآوازیں دے رہے ہیں۔

شبِ قدر کی مبارک ساعتوں27رمضان المبارک کو پاکستان کے معجزاتی قیام میں میرے رب کی کئی رمزیں پنہاں ہیں۔ کیا ہماری بداعمالیوں کی بناءپرایٹمی پاکستان کوعالم اسلام کے رہنماء منصب سے محروم تونہیں کیاجارہا؟یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ہم کہا ں جارہے ہیں؟اقبال نے کیا جاودانی بات کہی تھی!
سچ کہہ دوں ہے برہمن گرتوبرانہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہوگئے پرانے

عجیب لوگ تھے وہ… ہرمسئلے کی جڑجانتے تھے۔بہت سادہ بیان،لیکن روح میں اترجاتی تھی ان کی بات اوراب توبہت سے ہیں شعلہ بیان لیکن تاثیرندار……..!

اپنا تبصرہ بھیجیں