یوں توسینیٹ کے انتخابات کااعلان سے پہلے ہی چاروں صوبوں میں سیاسی جماعتوں کے زعماء نے ہارس ٹریڈنگ میں زیادہ دلچسپی کااظہارشروع کر دیااورہماری صوبائی جماعتوں کے اراکین کی اہمیت بھی آسمان تک جاپہنچی ہے اورہمیشہ کی طرح بدقسمتی سے ہارس ٹریڈنگ کاآغاز انتہائی پسماندہ صوبہ بلوچستان اورفاٹاسے ایسی صدائیں بلندہوناشروع ہوجاتی ہیں جس کی اہم مثال بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے خلاف کامیاب عدم اعتمادکی قرارداد سے تبدیلی نے سیاسی طبل جنگ بجادیا۔ اس معاملے میں پاکستان کی سیاست میں پاکستان کی مذہبی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کواب جوڑتوڑاوراپنے مفادات کابے تاج بادشاہ سمجھاجاتاہے۔پچھلے دنوں کسی اور نے نہیں بلکہ جمعیت علماء اسلام کے کسی کارکن نے چاکنگ کرتے ہوئے کسی دیوارپریہ جملہ لکھا”مولانافضل الرحمان! تیری سیاست کوسلام” تو کچھ دیرکیلئے میں یادِ ماضی میں کھوگیاکہ مولانا بھاشانی جن کانام عبدالحمیدتھااوروہ مشرقی پاکستان کے نامورسیاستدان تھے اور سکرنڈبھی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہاری کانفرنس میں شرکت کیلئے آئے توانہوں نے ۱۹۷۰ء میں مغربی پاکستان کوسلام بھیجاتھااورپھریہ سلام آخری ثابت ہوا،اور مشرقی پاکستان کومغربی پاکستان سے توڑکربنگلہ دیش بنادیاگیا۔
اب مولانافضل الرحمان کی سیاست کوسلام کاکیامطلب لیاجائے ؟مگریہ ضرورہے کہ مولانافضل الرحمان سیاست کے پتوں کے ماہرکی طرح اپنے پتے بڑی خوبصورتی سے یوں کھیلتے ہیں کہ کوچۂ سیاست دنگ رہ جاتاہے۔فاٹاکودیکھیں مولانا نے اپنی سیاست میں گھاٹاجاناتوسب کوچت کرڈالااورحدتویہ ہے کہ پھرفوج کے سربراہ نے مولانا سے ملاقات کو ضروری جانااوریوں واحدسیاستدان مولانا دین ودنیادونوں کی مہارت کی بدولت دونوں ضرورتوں کاسامان بنے ہوئے ہیں۔ یوں دین ودنیاکووہ خوب استعمال میں لاتے ہیں کہ ان کی طنزیہ مسکراہٹ سے اگلاچکراجائے۔فاٹاکاعلاقہ ملک کی پچھڑی کاعلاقہ کہلاتاہے اورجوپچھڑی کے آبادگارکے ساتھ ہوتاہے وہ اس علاقے کے ساتھ ہوتاآرہاہے۔قبائلی رسم ورواج میں یہ جکڑایہ ٹکڑاترقی کی راہ کھوٹی کئے ہوئے یوں ہے کہ نہ تین میں نہ تیرہ میں ۔مرکزکی وہاں رسائی مشکل ہے توصوبہ خیبرپختونخواہ کایہ حصہ نہیں۔پالیسی سازاداروں،ماہرین اوراہل فکرکی متفقہ رائے یہ ہے کہ اس کوخیبر پختونخواہ کا حصہ بناکراس کوبھی تیزرفتاردنیاکی ترقی سے جوڑدیاجائے،قبائلی بھی تیارہیں تومولانافضل الرحمان تیارنہیں حالانکہ فاٹاکے خیبرپختونخواہ سے ملاپ سے صوبہ کی نشستوں بھی۲۳کے قریب بڑھ جائیں گی اوررقبہ بھی مزید۲۷۲۲۰مربع کلو میٹربڑھ جائے گااورفاٹا۱۹۰۵ء کے ایف سی آرکے کالے قانون سے بھی نجات پالے گا۔
ہرسوعلاقہ اورعوام کااس میں فائدہ ہے توپھرحضرت مولاناکوانکارکیوں ہے؟ کیایہ دینی مسئلہ ہے یاسیاسی تجارتی معاملہ ہے یاعلاقائی کہ وہ ڈٹے ہوئے ہیں کہ نہیں ہونے دیں گے۔ وفاداری بھی اس کی قیمت میں اداکریں گے۔ان کاخیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ فاٹاکے ان کی خیبرپختونخواہ میں سیاسی حیثیت ختم کردے گی۔ مولانا،نوازشریف کی سیاسی کمزوری اور دینی کمزوری جوان کے ناعاقب اندیش سے خاصی کمزورپڑگئی ہے کاخوب فائدہ اٹھائیں گے۔کچھ حلقوں کاخیال ہے کہ فاٹاکے علاقوں میں مولاناکی مدرسوں کی صورت میں خاصی سرمایہ کاری ہے جن کابھی تک آڈٹ نہیں ہواہے۔مدرسے کے طالب علم ان کی اسٹریٹ پاور ہیں۔ جب یہ علاقہ خیبرپختونخواہ کاحصہ قرارپائے گاتوپھریہ سربستہ رازآڈٹ شروع ہونے سے کھلیں گے اوریہ پتہ چل جائے گاکہ پیسہ کہاں سے آرہاہے اورکہاں جا رہاہے؟باقی ملک میں تووفاق کے تحت وفاق المدارس کاادارہ ہے جوان مدارس کے معاملات کو دیکھتا ہے کہ کیاپڑھایاجارہاہے،کہاں سے چندہ آرہاہے اورکن کاموں پریہ صرف ہورہاہے؟نصاب مدارس میں یہ دیکھا جاتا ہے لیکن اس کا اختیارفاٹامیں نہیں ہے،وہاں مولانا خود مختار ہیں۔ہاں،مولانافاٹاکوایک صوبہ بنانے کے حق میں ہیں تاکہ وہاں اپنے مدارس کے بل بوتے پرانتخابات جیت کر صوبے میں اپنی حکومت بناسکیں اوریوں فاٹا صوبہ کی صورت اپنی راجدھانی کامستقل بندوبست ہوجائے تومطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ سیاسی اورحکومتی ہے۔مسلم لیگ کی وفاقی حکومت میں حالات واقعات کی بدولت حضرت مولانانواز،شریف گلے کی ڈوری بنے نظرآتے ہیں،نہ نگلے جاتے ہیں اورنہ ہی اگلے جاتے ہیں۔
ایک مولوی نے کہاکہ مسجداورمدرسے کیلئے ہم جان دے دیتے اورلیتے ہیں،اوریہی توہمارے اثاثے ہیں۔مبصرین کاکہناہے کہ آئندہ تین چار ماہ میں حکومت پارلیمنٹ سے بل پاس کراکر صدر مملکت کے پاس بھیجے گی،ان کے دستخط کے بعد یہ آئین کاحصہ بن جائے گاجس سے یہ یقین دلایاجائے گاکہ فاٹامیں اصلاحات آرہی ہیں۔یوں سیاسی چال چل کرپشاورہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کادائرہ فاٹاتک بڑھادیا جائے گا۔قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعدبل سینیٹ میں جائے گاجہاں سے منظوری کے بعدبل کا مسودۂ اوراس بل میں مولانااورمحموداچکزئی کوبھی راضی رکھنے کیلئے درمیانی راہ بھی نکل آئے گی کیونکہ ۲۰۱۸ءکے انتخاب میں ان دوکی ضرورت مسلم لیگ ن کو درکار ہوگی۔اگرایک ماہ میں فاٹااصلاحات کرتے ہیں توپھر بھی اسے خیبرپختونخواہ میں ضم کرنے کیلئے ایک خاص وقت درکارہوگا۔
فاٹاسیکرٹریٹ اعلیٰ عدلیہ اوردوسری انتظامیہ مشینری کووہاں تک پہنچانے کیلئے ایک پوراطریقہ کاراختیارکرناپڑتاہے لہنداعام انتخابات تک یہ اصلاحات کر تولیں گے لیکن وہاں صوبائی انتخابات پھربھی نہ ہوسکیں گے جس کی وجہ سے فی الوقت خیبرپختونخواہ کوفاٹاکے انضمام کافائدہ نہ ہوگا،یہی مطلوب مولانااور اچکزئی کوہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں افراد فاٹاکے انضمام کے خلاف ہیں جبکہ ان دونوں کاتعلق فاٹاسے نہیں ۔مولانا کا فاٹامیں آٹاگیلاہونے کاخدشہ اپنی جگہ مگریہ کیاکہ اچکزئی نے فاٹاکوافغانستان کاحصہ قراردے دیا اورحکومتی ارکان کی کسی پاکستانیت نے جنبش تک نہیں کی۔سیاسی مفادات کی روئی نے کانوں کی سماعت اورقوت گویائی کوسلب کردیاجیسے کسی نے جادوکردیاہو۔چہ خوب!مولاناارشاد فرماتے ہیں کہ فاٹاکاانضمام امریکی غلامی کی دوسری قسط ہے۔
کوئی امریکاسے وزارتِ عظمیٰ کی بھیک مانگنے والے سےپوچھے کہ فاٹاکی خیبرپختونخواہ میں انضمام کاامریکی غلامی سے دوسری قسط والاکیاتعلق ہے اورپہلی غلامی کی قسط کون سی ہے۔چلیں وہ بھی بتادیتے ہیں۔فتوے لگانے سے پہلے اورکہنا کہ میں ایک گھنٹے کیلئے بھی پاکستان میں غلامی کی زندگی گزارنا پسندنہیں کروں گا،اس کامطلب کیاہے؟اقتدارکی غلامی میں عشرہ سال گزارنے والے مولاناکیافاٹاجوپاکستان کاہی حصہ ہے،اس کے خیبرپختونخواہ میں انضمام میں غلامی کی کون سی صورت نظرآنے لگی ہے یااقتدارکی غلامی سے گلوخلاصی کاڈران کے ذہن پرمسلط ہوگیا۔قبائلی اورپاکستانی حکومت دونوں فاٹا کے انضمام پرآمادہ ہیں،اعتراض صرف مولانااور اچکزئی کوہے جبکہ دونوں کا تعلق فاٹاسے نہیں ہے۔ یادرہے کہ مولاناچھ مرتبہ ایم این اے،تیسری مرتبہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین،جس کاسالانہ بجٹ۷۰/ارب ہے لیکن ایک مرتبہ بھی کشمیر کمیٹی کااجلاس نہیں بلایاگیا،مراعات وفاقی وزیرکےبرابر،ان کے ایک بھائی عطاء الرحمان سینیٹرہیں،مولانالطف الرحمان خیبرپختونخواہ کے اپوزیشن لیڈر جس کی مراعات وزیراعلیٰ کے برابر،تیسرابھائی مولاناضیاء الرحمان ۲۰۰۷ء میں وزیراعلیٰ اکرم درّانی کے ذریعے ڈیپوٹیشن پرمہاجرین افغان کاایڈیشنل سیکرٹری مقررہوا،نواز شریف نے ایک دن میں بیان دینے کی قیمت پرکمشنرافغان مہاجرین بنادیا،چوتھا بھائی عبیدالرحمان ضلع کونسل ڈیرہ اسماعیل خان میں اپوزیشن لیڈر۔
یادرہے کہ سینٹ کے سابقہ انتخابات کے موقع پرمولانابظاہرنوازشریف کے ساتھ اپنے تمام فوائدسے لطف اندوزہو رہے تھے لیکن سینٹ میں مولاناغفورحیدری کیلئے ڈپٹی چیئرمین اوردیگرمراعات کا زرداری کے ساتھ سودہ کرکے نواز شریف کے ساتھ وہ ہاتھ کیاکہ نوازشریف سینٹ میں برتری کے قریب ہوتے ہوئے بھی شکست سے دوچار ہو گئے اورایک مرتبہ پھربلوچستان میں وہی تاریخ دہرائی اوربلوچستان میں ن لیگ کے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتمادکی قرارداد میں زرداری کے ہمراہ کھل کرحصہ بھی لیا مگرمرکزمیں ن لیگ کی وفاقی حکومت میں بھی بدستورموجودہیں اوراب ایک مرتبہ پھرسینٹ میں اپنے فوائد کیلئے دونوں بڑی پارٹیوں کے ساتھ شیروشکرہیں اورعین موقع پرہی قوم کونئی حیرت میں مبتلا کریں گے۔ مولاناخسارے کی سیاست کبھی نہیں کرتے ۔واقعی مولانا! تیری سیاست کوسلام؟
میرے رب کافرمان ہے جودیناچاہتے ہیں ہم اس کودنیامیں دے دیتے ہیں،آخرت میں کچھ نہیں دیتے۔