برطانوی حکومت کی جاری کردہ ایک لیک رپورٹ کاتجزیہ کیاگیاہے،جس میں انتہاپسندی کی بڑھتی ہوئی لہرکے اثرات نےمختلف سیاسی،سماجی اورثقافتی گروپوں کومتاثرکیاہے اورنسوانی دشمنی،ہندو قوم پرستی اور”مینوسفیئر”کوانتہاپسندی کے نئے ذرائع کے طورپرشناخت کیاگیاہے۔یہ رپورٹ گزشتہ موسم گرمامیں ہونے والے فسادات کے بعدتیارکی گئی تھی اوراس میں ان عوامل کاذکر کیاگیاہے جومعاشرتی عدم استحکام اورانتہا پسندی کی طرف لوگوں کومائل کرتے ہیں۔
گزشتہ موسم گرما کے فسادات کے بعد “یوویٹ کوپر”کی طرف سے افشاء رپورٹ میں ہندو قوم پرستی، بد عنوانی اور “مینوسفیر” کوانتہاپسندی کی افزائش کی بنیادوں کے طورپرشناخت کیاگیاہے۔ “یوویٹ کوپر”ایک برطانوی سیاست دان ہے۔لیبرپارٹی کے رکن، کوپر 1997 سے پونٹیفریکٹ، کیسل فورڈ اور ناٹنگلی، اس سے قبل نارمنٹن، پونٹیفریکٹ اور کیسل فورڈ کیلئےپارلیمنٹ (ایم پی) کے رکن رہے ہیں اورجولائی2024سے ہوم سیکرٹری کے طورپر بھی خدمات انجام دیں ہیں۔ ہوم سکریٹری کے”تیز تجزیاتی اسپرنٹ”نے”درجہ دوم کی پولیسنگ”کے دعوؤں کو بھی “دائیں بازوکے انتہاپسند بیانیہ”کے طورپر مستردکردیاہے۔ اس کے استدلال کے مطابق حکام کوبنیادی طورپر”تشویش کے نظریات”پروسائل کومرکوزکرنے کی بجائے انتہا پسندی پرقابوپانے کیلئے”رویے پرمبنی اورنظریاتی طورپر”حقیقی اپروچ”اپنانی چاہیے۔
دائیں طرف جھکاؤرکھنے والے تھنک ٹینک پالیسی ایکسچینج کی طرف سے یہ لیک رپورٹ انتہاپسندی کے بارے میں حکومت کے نقطہ نظرکی گہری جانچ پڑتال کے درمیان سامنے آئی ہے کہ انسداد دہشتگردی کے افسران کویقین نہیں تھاکہ ساؤتھ پورٹ کے قاتل ایکسل روڈاکوباناکے”بنیادپرستی کے خطرے”کاسامناہے۔کوپر نے اگست میں تیزی سے جائزہ لیتے ہوئے پہلی باراس نے 2022میں لیسٹر میں بدامنی کے بعدہندوقوم پرست انتہاپسندی، اورہندوتواکوتشویش کے نظریات کے طورپرشناخت کیاتھا۔انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھاہے کہ”ہندو قوم پرست انتہاپسندی ایک ایساانتہاپسند نظریہ ہے جوہندوبالادستی کی وکالت کرتاہے اورہندوستان کوایک نسلی مذہبی ہندوریاست میں تبدیل کرناچاہتاہے۔رپورٹ میں کہاگیاکہ ’’ہندوتوا ہندو ازم سے الگ ایک سیاسی تحریک ہے جو ہندوستانی ہندوؤں کی بالادستی اورہندوستان میں یک سنگی”ہندوراشٹر”یاریاست کے قیام کی وکالت کرتی ہے۔برطانیہ میں ہندواور مسلم کمیونٹیزکے درمیان کشیدگی اب بھی واضح ہے اورلیسٹرکے واقعات یہ ظاہرکرتے ہیں کہ کس طرح غلط معلومات آف لائن کارروائی میں کرداراداکرسکتی ہیں۔یادرہے کہ گارڈین نے پانچ ماہ قبل بھی ایسی ہی رپورٹ شائع کی تھی جس میں انتہاءپسندی کی وجوہات اوراس کے پیچھے ایسے ہی عوامل کی نشاندہی کی تھی۔
اس معاملے کی سنگینی کایہ عالم ہے کہ اب ایک مرتبہ پھررپورٹ میں انتہاپسندی کے روایتی تصورکوچیلنج کیاگیاہے۔حکومت کے مطابق،اب انتہاپسندی کو صرف نظریاتی سطح پرنہیں دیکھا جاناچاہیے بلکہ اس کے ساتھ لوگوں کے رویوں اورسرگرمیوں پرتوجہ دی جانی چاہیے۔حکومت کامؤقف ہے کہ انتہا پسندی کی روک تھام کیلئے”آئیڈیالوجی کی بجائے رویے اورسرگرمیوں” کو ہدف بنایا جائے۔اس سے مرادیہ ہے کہ انتہا پسندی کی تشخیص صرف کسی خاص نظریے یاآئیڈیالوجی پرمبنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان سرگرمیوں کوبھی زیرغورلایاجائے جوعوامی سطح پر نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔رپورٹ میں نسوانی دشمنی کوانتہاپسندی کے ایک اہم عنصرکے طورپرشناخت کیاگیاہے۔”مینوسفیئر”ایک آن لائن سب کلچرہے جس میں نسوانی دشمنی پرمبنی مواد کی بھرمارہے۔اس سب کلچرمیں مختلف کمیونٹیزشامل ہیں،جیسے کہ مردوں کے حقوق کے کارکن، پِک اپ آرٹسٹس”مردجواپنے راستے پرچلتے ہیں” اورانسیلز(غیراختیاری عزلت پسند) ۔یہ تمام گروہ نسوانیت کے خلاف انتہائی نظریات پیش کرتے ہیں اوربعض اوقات دائیں بازوکی انتہا پسند آئیڈیالوجی کوبھی شامل کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق،ان گروپوں میں نسلی تفاوت اورعالمی نوعیت کی نظریات کی مخالفت کی جاتی ہے۔”مینوسفیئر”میں ایسے بیانیے پائے جاتے ہیں جوافرادکوعزلت میں ڈالنے،معاشرتی تعلقات کے بارے میں منفی رویے اپنانے،اورخواتین کے حقوق کے خلاف متشددخیالات کوفروغ دیتے ہیں ۔خاص طورپر”انسیلز”کی جانب سے ایک قسم کی معاشرتی تنہائی اورخواتین سے متعلق منفی خیالات کاپرچارکیاجاتاہے۔
رپورٹ میں ہندوقوم پرستی اورہندوتواکوبھی انتہاپسندی کے خطرات کے طورپرذکرکیاگیاہے۔2022میں لیسٹرکے فسادات کے بعد ہندوقوم پرستی کوایک نیانظریہ قراردیاگیاجوبھارت میں ہندو ریاست کے قیام کی حمایت کرتاہے۔ہندوتواکی تحریک ایک ایسی سیاسی متشددتحریک ہے جوہندوؤں کے غلبے اوربھارت میں ایک یکساں ہندوریاست کے قیام کاپرچارکرتی ہے۔رپورٹ میں واضح طورپر کہاگیا ہے کہ ہندوقوم پرستی کی شدت پسندی برطانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ تناؤکوبڑھارہی ہے،اوریہ فرقہ وارانہ تشویش کاباعث بن سکتی ہے۔اس کے علاوہ، رپورٹ میں اس بات کابھی ذکرکیاگیاہے کہ”دائیں بازوکی انتہاپسندبیانیے” کے پیچھے عالمی نوعیت کی تحریکوں جیسے کہ عالمی کاری اورکثیرالثقافتیت کونشانہ بنایاجاتاہے۔
رپورٹ میں دائیں بازوکی انتہاپسندی کے بارے میں کہاگیاہے کہ یہ صرف چھوٹے گروپوں تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ اب”مین اسٹریم”مباحثوں کا حصہ بن چکی ہے۔خاص طورپر،مہاجرین کی آمداورپولیسنگ کے بارے میں دائیں بازوکے انتہاپسندنظریات کو عوامی سطح پرپزیرائی مل رہی ہے۔ان نظریات میں یہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ پولیسنگ میں”دوسطحی سلوک”ہو رہا ہے،جس میں ایک گروہ کودوسروں کے مقابلے میں مختلف سلوک کیا جاتاہے۔
رپورٹ میں حکومتی پالیسی میں تبدیلی کی تجویزدی گئی ہے تاکہ انتہاپسندی کی روک تھام کیلئےزیادہ جامع اورمؤثرحکمت عملی اپنائی جاسکے۔حکومت کا مؤقف ہے کہ انتہاپسندی کی نشاندہی “صرف مخصوص آئیڈیالوجیز”پرنہیں بلکہ”رویوں”اور”عملوں”کی بنیادپرکی جانی چاہیے۔اس سے مرادیہ ہے کہ معاشرتی سطح پرموجودتشویش کے ذرائع کونظراندازنہ کیاجائے۔رپورٹ میں ایک اور اہم تجویز پیش کی گئی ہے جس کے تحت”نیشنل سینٹرآف ایکسیلنس” قائم کرنے کی ضرورت پرزوردیاگیاہے،جس کامقصد احتجاج اورکم سطح کی انتہاپسندی کی سرگرمیوں کی نگرانی اوران کا تدارک کرناہوگا ۔ اس تجویزمیں حکام کو”احتجاج اورکم سطح کی انتہاپسندی کی تحقیقات کیلئےایک مرکزی تحقیقاتی مرکز”قائم کرنے کی ضرورت پرزوردیاگیاہے تاکہ مختلف نوعیت کی انتہا پسندی کی سرگرمیوں کوجلدازجلدروکاجاسکے۔
مجموعی طورپر،یہ رپورٹ برطانیہ میں انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے خطرات کی نشاندہی کرتی ہے اوران نئے ذرائع کی جانب توجہ دلاتی ہے جومعاشرتی استحکام کونقصان پہنچاسکتے ہیں۔نسوانی دشمنی،ہندوقوم پرستی اورمینوسفیئرجیسے عوامل برطانیہ کے معاشرتی تانے بانے کومتاثرکررہے ہیں اورانتہاپسندی کے نئے راستے کھول رہے ہیں۔حکومتی سطح پرپالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ان مسائل پرمؤثرطریقے سے قابوپایاجاسکے اورمعاشرتی ہم آہنگی کوفروغ دیاجاسکے۔
دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ کرنے والے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہونے والے حملے ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔بی جے پی کی ہندوقوم پرست حکومت کے تحت اقلیتوں کومسلسل دباؤاورتشددکاسامناہے۔مسلمانوں،سکھوں،عیسائیوں اور دیگراقلیتوں کونہ صرف سماجی اور اقتصادی سطح پرامتیازی سلوک کاسامناکرناپڑابلکہ ان پرمتعددمنظم حملے اب بھی جاری ہیں۔
اس تحقیقی تجزیے میں بھارت میں مذہبی جنونیت اورانتہا پسندی کی تاریخ ایک دردناک حقیقت ہے،جس میں اقلیتی گروپوں کو مسلسل تشدداورمظالم کاسامناکرناپڑرہاہے۔گجرات کے فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام،کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی،بابری مسجدکی منہدمی،کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں،اورسکھوں کے خلاف آپریشن بلیواسٹارمیں سکھوں کی نسل کشی جیسے واقعات بھارت کی مذہبی جنونیت کی تاریخ کوعیاں کرتے ہیں۔
ان تمام واقعات کے پیچھے مذہبی انتہاپسندی کی سوچ کارفرماہے،جونہ صرف بھارت میں اقلیتی برادریوں کونشانہ بناتی ہے بلکہ عالمی سطح پربھی بھارت کی تصویرکومتاثرکرتی ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے ان مسائل کونظراندازکرنااوران کے خلاف مؤثرکاروائی نہ کرنااس بات کاغمازہے کہ بھارت میں مذہبی جنونیت ایک سنگین مسئلہ بن چکاہے جس کے حل کیلئےعالمی برادری کوبھی مزیدفعال کرداراداکرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت میں مذہبی جنونیت اورانتہاپسندی نے کئی دہائیوں سے مختلف اقلیتی برادریوں کوشدیدمتاثرکیاہے۔خاص طورپرمسلمانوں، عیسائیوں اورسکھوں کومذہبی شدت پسندی کانشانہ بنایاگیا ہے،جس کااثربھارت کی داخلی سیاست اورعالمی شہرت پربھی پڑاہے۔ گجرات کے فسادات،کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی،اوردیگربڑے فسادات بھارت میں مذہبی جنونیت کی ایک افسوسناک تاریخ کوپیش کرتے ہیں۔
بھارت میں ہندوقوم پرستوں کی جانب سے بابری مسجدکو1992میں منہدم کیاگیا، جس کامقصدمسلمانوں کی مذہبی شناخت کومٹانااور ایک”ہندوراشٹر” کے خواب کوحقیقت بناناتھا۔اس عمل میں ہزاروں مسلمانوں کوقتل کیاگیااورمسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ کوتباہ کر دیاگیا۔اس کے بعدبھارتی حکومت کی جانب سے مزید ایک ہزارمساجدکوگرانے اوروہاں ہندومندربنانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے خلاف ہیں بلکہ بھارت کے مذہبی ہم آہنگی کے اصولوں کوبھی چیلنج کرتے ہیں ۔بھارتی حکومت کی طرف سے ان اقدامات کی حمایت نے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اورمسلم کمیونٹی کے خلاف شدیدنفرت کو ہوادی ہے۔
گجرات کے2002کے فسادات کوبھارت کے سب سے بدنام مسلم کش فسادات کے طورپرجاناجاتاہے۔ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کاایک منظم منصوبہ بندی کے تحت بے رحمی سے قتل عام کیاگیا،ان کی جائیدادوں کوآگ لگادی گئی،اوران کے مکانات اورکاروبارکوتباہ کردیاگیا۔یہ فسادات نہ صرف بھارت کے مسلمانوں کیلئےایک شدیدانسانی المیہ بنے بلکہ دنیابھرمیں بھارت کے مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے اقلیتی گروپوں پرظلم وستم کوبے نقاب کیا۔اوراس وقت کے وزیراعلیٰ نریندرمودی پرالزامات عائدکیے گئے کہ انہوں نے ہندو شدت پسندوں کوکھلی چھوٹ دی جس کی انہوں نے آج تک تردیدنہیں کی۔
فسادات میں مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف جسمانی تشددکیاگیا،بلکہ ان کی نسلی ومذہبی شناخت کوبھی نشانہ بنایاگیا۔عورتوں کی اجتماعی عصمت دری،بچوں کاقتل اورمسلمانوں کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ان فسادات میں بھارتی حکومت کی غفلت اورسیاسی قیادت کی جانب سے شدت پسندی کی پشت پناہی نے اس المیہ کومزیدبڑھادیا۔
18فروری2007کوسمجھوتہ ایکسپریس،جوبھارت اورپاکستان کے درمیان چلنے والی امن ٹرین تھی،کوایک منظم سازش کے تحت بم دھماکوں کے ذریعے جلادیاگیا۔اس واقعے میں68افراد ہلاک ہوئے،جن میں زیادہ ترپاکستانی شہری تھے۔بھارتی فوج کے کرنل پروہت اوردیگرہندوانتہاپسندوں پراس حملے کاالزام عائدکیاگیا۔کرنل پروہت کوگرفتارکیاگیااوراس نے اعتراف جرم بھی کیالیکن نہ صرف بھارتی حکومت نے قوم پرست تنظیموں کے دباؤمیں آ کر اسے بری کردیابلکہ کرنل پروہت اوراس کے ساتھیوں کوانتہائی مشکل حالات میں تحقیق کرنے کے بعدجس پولیس افسرنے ان کوگرفتارکیاتھا،اس کوبھی ایک سازش کے تحت ممبئی میں ہونے والے ایک حملے کے دوران اسے پیچھے سے گولی مارکرریاست کی پولیس کوواضح پیغام دیاگیاکہ آئندہ ان کی جماعت کے کسی بھی فردکوگرفتارکرنے کی کیاسزاہوسکتی ہے۔اس واقعے نے بھارت میں ہندوانتہاپسندی اورریاستی اداروں کے تعلقات کوبے نقاب کردیاہے۔
کشمیرمیں ہونے والی ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کبھی نہیں کی گئیں،اوربھارتی حکومت نے ان واقعات پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش کی۔یہاں تک کہ بھارتی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کے بنیادی حقوق اورآزادی کی آوازکودبایااور ان کی آوازکوعالمی سطح پربے اثرکردیا۔کشمیرمیں گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی فورسزکی جانب سے مسلمانوں کے خلاف شدید ظلم وستم جاری ہے اوربھارتی حکومت پرکشمیرمیں بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔1989سے لے کراب تک ایک لاکھ سے زائدکشمیری شہیدکیے جاچکے ہیں،ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی اورہزاروں نوجوانوں کو گرفتارکرکے غیرقانونی طریقے سے قتل کردیاگیا۔جس میں ماورائے عدالت قتل،لاپتہ افراد،اوراجتماعی قبروں کا انکشاف شامل ہے۔ ایک امریکی ہندواسکالرخاتون نے کشمیرمیں درجنوں اجتماعی قبروں کاانکشاف کرتے ہوئے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔
بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ذریعے کشمیر میں جابرانہ پالیسیاں اور مظالم روز بروز بڑھ رہے ہیں، درجنوں مرتبہ عالمی انسانی حقوق تنظیموں نے شواہدکے ساتھ ان تمام مظالم کورپورٹ کیاہے لیکن انسانی حقوق کی چیمپئن ہونے کادعویدارامریکااوراس کے اتحادی محض اس لئے خاموش ہیں کہ وہ انڈیاکو “کواڈ”اتحادکے ذریعے چین کے محاصرے کیلئے استعمال کرناچاہتے ہیں اور مودی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقلیتوں کی نسل کشی کرنے والی اپنی جماعت بی جے پی کے ان مظالم پرنہ صرف خاموش ہے بلکہ اس خاموشی کی آڑمیں حکومتی ادارے بھی ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی سے خوفزدہ ہیں۔
گجرات کے فسادات کے بعدخاص طورپرمودی حکومت کے دوران بھارت میں عیسائی برادری کوبھی حملوں کاسامناکرناپڑرہاہے، کئی چرچ نذرِآتش کیے گئے،ننزکوزیادتی کانشانہ بنایاگیا،اور پادریوں کوزندہ جلادیاگیا۔2008 میں اڑیسہ میں ہونے والے فسادات میں مزیدکئی عیسائیوں کوہلاک کردیاگیا اوران کے گھرتباہ کردئیے گئے۔مذہبی شدت پسندی کایہ پہلوظاہرکرتاہے کہ بھارت میں اقلیتی مذہبوں کے خلاف تشدد ایک وسیع پیمانے پرپھیل چکا ہے،جونہ صرف مسلمانوں تک محدودہے بلکہ عیسائی برادری بھی اس کاشکارہے۔یہ سلسلہ اب بھی گاہے بگاہے جاری ہے لیکن مودی پریس ان خبروں کوشائع نہیں ہونے دیتااورنہ ہی مودی حکومت کسی بھی بیرونی پریس کے نامہ نگاروں کووہاں جانے کی اجازت دیتاہے۔اگرکوئی کسی طرح بھیس بدل کروہاں پہنچ جائے تووہاں بی جے پی کے لوگ ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
مذہبی جنونیت کی ایک اورشکل بھارت میں جبراًمذہب تبدیلی کی کوششوں کی صورت میں ظاہرہوئی ہے۔عیسائیوں اورمسلمانوں کو جبراًہندو بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں،جس میں ان اقلیتی گروپوں کواپنے مذہب سے دستبردارہونے اورہندومذہب اختیارکرنے کیلئےدباؤڈالاجارہاہے۔یہ عمل نہ صرف بھارت کے آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ مذہبی آزادی اورانسانی حقوق کی بنیادی اقدار کے بھی منافی ہے۔بھارتی حکومتی اداروں کی جانب سے ان واقعات کی کوئی مؤثر تحقیقات اورانصاف فراہم کرنے کی بجائے،ان واقعات کودبایاگیااوران حملوں کے پس پردہ نظریات کی حوصلہ افزائی کی گئی،جس کے نتیجے میں مذہبی جنونیت میں اضافہ ہوا اوراقلیتی گروپوں میں خوف وہراس کی فضاقائم ہوئی۔
بھارت میں سکھوں کی تاریخ بھی مذہبی جنونیت سے متاثرہے،خاص طورپر1984میں بھارتی حکومت نے آپریشن بلیواسٹارکے تحت سکھوں کی مقدس عبادت گاہ دربارصاحب امرتسرپر حملہ کرکے نہ صرف اس مذہبی عبات گاہ کوبری طرح بمباری کرکے نقصان پہنچایاگیابلکہ ہزاروں سکھوں سمیت سکھوں کے روحانی لیڈربھنڈرانوالا”کوبھی قتل کردیاگیا۔اس کے بعد سکھوں کے خلاف ملک بھر میں فسادات بھڑکائے گئے جن میں دہلی اوردیگر شہروں میں ہزاروں سکھوں کوقتل کردیاگیا۔سکھوں کے خلاف کیے گئے قتل عام کے دوران یہ واقعہ اس بات کی غمازی کرتاہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کونشانہ بناناایک معمول بن چکاہے۔دو لاکھ سکھوں کوبے دردی سے قتل کیاگیااوران پرتشددکی انتہاکردی گئی،صرف اس لیے کہ انہوں نے اپنے حقوق کامطالبہ کیاتھا اور عالمی سطح پر علیحدہ ریاست کے حق کادفاع کیاتھا۔بھارتی حکومت نے اس قتل عام کے بعدبھی کوئی مؤثراقدامات نہیں کیے اوران مظالم کی تفتیش کودبا دیا گیا۔
موجودہ بی جے پی حکومت کے جبرکے خلاف بھارت میں کئی علیحدگی پسندتحریکیں سرگرم ہیں،جن میں خالصتان تحریک،ناگا لینڈ،آسام کی علیحدگی اور تمل ناڈو کی آزادی کی تحریکیں شامل ہیں۔ان کودبانے کیلئےبھارتی حکومت طاقت کابے دریغ استعمال کر رہی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں بھارت بیرون ملک اپنے سیاسی حریفوں کوقتل کرانے کی جرائم کاارتکاب بھی کررہاہے۔حالیہ مثال کینیڈا میں سکھ لیڈرہردیپ سنگھ نجرکے قتل کی ہے،جس پرکینیڈاکی حکومت نے بھارتی خفیہ ایجنسی”را”پرالزام عائدکرتے ہوئے ثبوتوں کے ساتھ بھارت سے جواب طلب کیا ہے۔اسی طرح امریکہ میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کی سازشیں بے نقاب ہو چکی ہیں، جس پرامریکی حکومت نے بھارت کوسخت وارننگ جاری کی ہے۔بھارت پرالزام ہے کہ وہ کرائے کے قاتلوں کوپاکستان میں بھی دہشتگردانہ کاروائیوں کیلئےاستعمال کرتاہے۔بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیوکی گرفتاری اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ بھارت،پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ جب قصرسفید کے فرعون کے احکام پر پاکستان کافاسق کمانڈومشرف امریکاکومکمل اعانت فراہم کررہاتھا،اسی وقت امریکا ایک خاص سازش کے تحت افغانستان میں انڈیاکوپاکستان میں دہشتگردی کیلئے ہرقسم کی اعانت فراہم کررہاتھاجوآج بھی جاری ہے۔
بھارت میں اقلیتوں پرہونے والے حملے اورانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں عالمی برادری کیلئےلمحہ فکریہ ہیں۔گجرات، سکھ نسل کشی،عیسائیوں پر حملے،کشمیرمیں بربریت،اوربیرون ملک کینیڈا،امریکااورپاکستان میں دہشتگردی جیسے معاملات سے یہ واضح ہوتاہے کہ جہاں بھارت میں اقلیتوں کیلئے حالات نہایت خطرناک ہوچکے ہیں اورانسانیت دم توڑرہی ہے وہاں بیرونِ ملک بھارتی دہشتگردی کے نتیجے میں دنیاکبھی بھی مکمل تاریک ہونے کے خطرے سے دوچارہوسکتی ہے۔اب یہ اقوامِ عالم کے باشعورافرادکی ذمہ داری ہے کہ اس خوبصورت دنیاکوبچانے اوراپنی آئندہ آنے والی نسلوں کوایک خوشحال اورمصائب سے پاک دنیادینے کیلئے اپنافرض ادا کریں۔
آخر میں اپنے آقا رسول اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
اپنے بھائی کی مددکروخواہ وہ ظالم ہویامظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا،یارسول اللہﷺ!ہم مظلوم کی تومدد کرسکتے ہیں لیکن ظالم کی مددکس طرح کریں؟ آپ ﷺنے فرمایاکہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑلو( یہی اس کی مددہے)۔بخاری:444