امریکی اورمغربی میڈیاکے مطابق امریکی صدرٹرمپ نے اپنے جنگی بحری بیڑے کوشام کی طرف جانے کاحکم جاری کردیاہے کیونکہ امریکاپہلے ہی یہ دہمکی دے چکاہے کہ اگراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل شام کے معاملے پر پیش رفت میں ناکام رہی تووہ خودآگے بڑھے گا۔ یادرہے کہ صدرٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں شام میں مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں دہمکی دیتے ہوئے متنبہ کیاتھاکہ “روس تیاررہو،بہترین،نئے اورسمارٹ میزائل آرہے ہیں” مغربی ممالک نے بھی امریکاکاساتھ دینے پراتفاق کیا ہے۔وائٹ ہاس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے اس واقعے کا ذمہ دارروس اورشام کو ٹھہرایاہے تاہم روس اورشامی صدربشارالاسد کی حکومت کیمیائی حملے کی تردید کرتی ہے۔ سیکورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں پیش کی گئی قراردادکوروس پہلے ہی ویٹوکرچکاہے۔اقوامِ متحدہ میں روسی مندوب وسیلی نیبینزیا نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ شام میں کسی فوجی کارروائی سے بازرہے، وگرنہ وہ اس کاخود ذمہ دارہوگا تاہم وہ نہ صرف شام کی جانب آنے والے تمام میزائلوں کو مار گرائے گابلکہ اس کے خلاف جوابی کاروائی بھی کرے گا ۔
روس اورامریکاکے درمیان جنگ کے بڑھتے ہوئے خدشات کے بعدروسی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل سرگئی روڈزکوف نے بھی ماسکو سے جاری ایک بیان میں کہاہے کہ امریکانے شامی افواج کی تنصیبات پرکروزمیزائلوں سے حملے شروع کررکھے ہیں اوراب امریکانے شام میں ممکنہ بمباری کیلئے اپنے بحری جنگی جہازمشرقی بحیرہ ٔروم، بحیرہ اسوداورخلیج کی طرف روانہ کردیئے ہیں۔واشنگٹن بشارالاسدکی حکومت کوبزورطاقت ختم کرناچاہتاہے لیکن ہم امریکاکو خبردار کرتے ہیں کہ اگراس نے روس کو ہدف بنانے اورروسی اہلکاروں کونشانہ بنایا توہم بھی فوری طور پرامریکی تنصیبات کونشانہ بنائیں گے۔واضح رہے کہ روسی جنرل کے اس انتباہ سے قبل ہی پیوٹن انتظامیہ اپنے بحری جنگی جہازوں کوبحیرہ روم میں بھیجنے کا اعلان کرچکی ہے اوراب امریکا بھی بحیرہ روم کی طرف بڑھ رہاہے۔
رواں ہفتے میں شام میں خانہ جنگی کے سات سال مکمل ہورہے ہیں۔اس دوران لاکھوں مسلمان مارے جاچکے ہیں جبکہ ایک کروڑسے زائدافراد اندرون ملک سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔عالمی میڈیاکے مطابق شام میں داعش کی شکست کے بعدبشارالاسددھڑے اوراس کے مخالف غیرملکی اتحادی جارحانہ اندازمیں کاروائیاں کررہے ہیں ۔ الجزیرہ کے مطابق روسی جنرل کے اس انتباہ سے کہ روسی افواج یاتنصیبات کوہدف بنانے پرواشنگٹن کے خلاف کاروائی کی دہمکی میں یہ تاثردیا گیاہے گویاکہ روس بشار الاسدکی فوج کادفاع نہیں کرے گا۔غوطہ میں بشارالاسدفوج کے تازہ ترین بمباری کے نتیجے میں مزید۷۰/افراد شہیدہوگئے ہیں جبکہ کرداکثریتی علاقے عفرین میں ترک فوجی کاروائی میں بھی درجنوں افراد مارے جاچکے ہیں ۔غوطہ اورعفرین سے لاکھوں افرادنقل مکانی کرچکے ہیں جبکہ شامی علاقے بحرین پربشارالاسدفوج نے قبضہ کرلیا ہے۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے نتیجے میں آزادہونے والی بالٹک ریاستوں میں نیٹوفوج کی آمداوریوکرین میں روسی فوج کی مداخلت سے روس اورامریکاکے مابین پیداہونے والی کشیدگی اورگزشتہ دنوں میں لندن میں مقیم سابق روسی کرنل، برطانوی جاسوس اوراس کی بیٹی پراعصاب شکن گیس سے حملے اورایک منحرف روسی تاجرکی پراسرار موت نے روس اورمغرب کے درمیان درجہ حرارت مزید بڑھادیاہے،برطانیہ، یورپی یونین اورامریکا نے براہِ راست پیوٹن کواس کاذمہ دارقراردیتے ہوئے اس کے ۱۱۰سے زائد سفارتکاروں کوبے دخل کردیا جبکہ امریکانے توروس پراضافی پابندیاں بھی عائدکردی ہیں،جس کے جواب میں روس نے بھی ان تمام ملکوں کے سفارتکاروں کے ساتھ یہی سلوک کیاہے۔ یہ سارے واقعات نئی صف بندیوں کی نوید ہیں اور بظاہردونوں فریق اپنے علاقوں میں جنگ لڑنے کی بجائے شام اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنے جدید ہتھیاروں کے تجربات کو ترجیح دیں گے جہاں تمام فریقین کی جانب سے مسلمان ہی شکارہوں گے تاکہ ایک تیرسے کئی شکارکرسکیں۔
واضح رہے کہ روس اورمغرب میں عیسائیت کے حوالے سے بھی مذہبی اختلافات بہت گہرے ہیں۔ روسی آرتھوڈکس عیسائی ہیں جبکہ یورپ کی اکثریت کیتھولک ہے اگرچہ کیتھولک اورپروٹسٹنٹ فرقوں میں بھی اختلافات ہیں لیکن آرتھوڈکس عیسائیوں سے کیتھولک اورپروٹسٹنٹ مسلمانوں سے بھی زیادہ نفرت کرتے ہیں اور آرتھوڈکس اورکیتھولک چرچ کو باقاعدہ علیحدہ ہوئے دوصدیاں بیت چکی ہیں۔سوویت یونین اوردنیا بھرمیں روسی اڈے پھیلے ہوئے تھے لیکن آج اس کے برعکس مغربی ممالک بالٹک ریاستوں میں براجمان ہیں۔پھرسوویت دورمیں روس معاشی طور پرخودکفیل تھالیکن آج سرمایہ دارانہ نظام کااسیرہوچکاہے جس کی وجہ سے معاشی پابندیوں کی زدمیں بھی ہے۔اب دنیامیں سپرپاورکی حیثیت سے شام کے نہتے مسلمانوں پربمباری کرناتوروس کیلئے آسان ہے لیکن امریکااوریورپ کی مشترکہ طاقت سے مقابلہ آسان نہیں ہوگا۔اس کااندازہ روس کوبھی ہو گیاہے جبکہ روس کے سوسے زائدروسی نجی ملیشیا کے ارکان بشارالاسدانتظامیہ کے تحت کام کرتے ہوئے مارے گئے لیکن روسی حکومت اب یہ کہہ کرشرمندگی سے بچ رہی ہے کہ یہ نجی ملیشیا فوجی کنٹریکٹرپیوٹن حکومت کی اجازت اورسرپرستی کے بغیربشارالاسدکاساتھ دے رہے تھے ۔
امریکا،روس سے انتقام لینے کیلئے شمالی جنگجوتنظیموں کی مدد کرکے شام کوروس کیلئے نیا افغانستان بنانے کاموقع ضائع نہیں کرے گا۔اقوام متحدہ کاادارہ عملاًناکام ہوتا نظرآرہا ہے اس لئے کہ روس نے غوطہ میں سلامتی کونسل کی ایک ماہ کی جنگ بندی کی قراردادکی حمائت اورمنظوری کے فوری بعدغوطہ کوخاک وخون میں نہلا دیا چونکہ اب روس ،امریکاکے مقابلے میں معاشی اور دفاعی لحاظ سے کمزورہے اس لئے یہی بات ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں پرانحصاربڑھانے کا موجب بن سکتی ہے۔اس لئے امریکامیں انتہائی غیرذمہ دار ٹرمپ دوسری طرف پیوٹن جیسے غیرمتوازن اورانا پرستوں کی موجودگی کسی بڑے حادثے کوجنم دے سکتی ہے لیکن یہاں یہ وضاحت کرنابھی ازحدضروری ہے کہ اس موقع پرہمیں یہودی نژاد ہنری کسینجرکامرتب کردہ ”امریکی ورلڈآرڈر”کوازسرنوپڑھنے کی ضرورت ہے جس میں اس نے بڑی وضاحت کے ساتھ دنیاسے مسلمانوں کو نیست ونابودکرنے کیلئے روس اورامریکاکے اس ٹوپی ڈرامے کاتذکرہ کیاہے۔ سعودی عرب کے انتہائی ناموراہم سفارتکارشہزادہ بندر بن سلطان بن عبدالعزیز جوسعودی عرب کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری جنرل ،خفیہ ایجنسی کے سربراہ اورامریکامیں۲۲سال تک سفیررہے،افغان جنگ کے بارے میں ان کی کتاب ”دی پرنس” اکتوبر۲۰۰۶ء میں ان کے برطانوی کلاس فیلو ولیم سمپسن نے تحریر کی تھی،جس میں افغان جہاد اور پاکستان کے کردارکے بارے میں شکوک وشبہات پیداکرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کاحوالہ دیکراب ہمارے ہاں کے لکھاری بھی اپناقد بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ زرداری کے دور حکومت میں ہلیری کلنٹن نے پاکستانی میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے انکشاف کیاتھاکہ امریکااپنے مفادات کے حصول کیلئے پاکستانی میڈیا میں ایک خطیر رقم خرچ کر رہا ہے ۔اس میں اب کوئی شک نہیں کہ آج اس مددکے ثمرات بھی نظرآرہے ہیں۔